Topics
جب ہم زندگی کا تجز یہ کر تے ہیں تو ہمارے سامنے ایک ہی حقیقت آتی ہے کہ آدم کا ہر بیٹا اورحوا کی ہر بیٹی خوش رہ کر زندگی گزارنا چا ہتے ہیں لیکن زندگی کا ما دی نظر یہ ہر قدم پر انہیں ما یوس کر تا ہے اس لئے کہ ہماری زندگی کا ہر ہر لمحہ فانی اور متغیر ہے ۔مادی اعتبار سے ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ سچی خوشی کیا ہو تی ہے اور کس طرح حاصل کی جا تی ہے ۔حقیقی مسرت سے واقف ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی اصل بنیاد( BASE)کو تلاش کر یں ۔
جب ہم کچھ نہیں تھے تو کچھ نہ کچھ ضرور تھے ۔اس لئے کہ کچھ نہ ہو نا ہمارے وجود کی نفی کر تا ہے ۔ہماری ما دی زندگی ماں کے پیٹ سے شروع ہو تی ہے اور یہ مادہ جب ایک پرو سیس سے گزر کر اپنی انتہاء کو پہنچتا ہے تو ایک جیتی جا گتی تصویر عدم سے وجود میں آجا تی ہے ما حول سے اس تصویر کو ایسی تر بیت ملتی ہے کہ اسے اس بات کا علم نہیں ہو تا کہ سچی خوشی حاصل کر نے کا طر یقہ کیا ہے اور کس طر ح یہ سچی خوشی حاصل ہو تی ہے ۔
حقیقی مسرت سے ہم آغوش ہونے کے لئے انسان کو سب سے پہلے یہ جاننا چا ہئے کہ زندگی کا دارومدار صرف جسم پر ہی نہیں ہے بلکہ اس حقیقت پر بھی ہے جس حقیقت نے خود اپنے لئے لباس بنا لیا ہے۔پیدا ئش کے بعدزندگی کا دو سرا مر حلہ ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ ہمارا ہر ہر لمحہ مر تا رہتا ہے اور ہر لمحے کی موت دو سرے لمحے کی پیدا ئش کا ذریعہ بن رہی ہے۔یہی لمحہ کبھی بچپن ، کبھی لڑکپن ، کبھی جوانی اور کبھی بوڑھا پے میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔
ہم اس حقیقت تک رسائی اس طر ح حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم یہ جان لیں کہ جیتی جا گتی تصویر ایک جسم نہیں بلکہ ایک شعور ہے ۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم ا سے بالکل شعور بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ شعور ہماری پہچان کا ایک ذریعہ ہے جس کے اوپر ساری عمارت کھڑی ہو ئی ہے ۔ ہم یہ بھی جا نتے ہیں کہ جسم کے ختم ہو نے پر ما دی کثافت اور آلودگی ختم ہو جا تی ہے لیکن یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جسم کے ختم ہو نے کے بعد شعور فنا نہیں ہو تا بلکہ شعور کسی دو سرے عالم میں منتقل ہو جا تا ہے جتنی آسمانی کتا بیں ہیں ۔ان سب میں ایک ہی بات کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی صرف ما دی جسم نہیں بلکہ ایک شعور ہے ۔ہم جب پیدا ئش سے موت تک کی زندگی کا تذکر ہ کر تے ہیں تویہ جان لیتے ہیں کہ جس شعور کی بنیاد ماں کے پیٹ میں پڑی تھی وہ شعور ایک طر ف گھٹتا رہتا ہے اور دو سری طر ف بڑھتا رہتا ہے ۔ جیسے جیسے شعور گھٹتا ہے آدمی ماضی میں جاتا رہتا ہے اور جیسے جیسے شعور بڑھتا ہے آدمی مستقبل میں قدم رکھتا ہے ۔ شعور کا گھٹنا بڑھنا عمر کا تعین کر تا ہے۔ شعور کے ایک زمانے کو’’ بچپن‘‘ کہتے ہیں ،شعور کے دو سرے زمانے کو ’’جوانی ‘‘ او ر شعور کے تیسرے زمانے کو ’’بڑھا پا ‘‘ ۔ با لآخر جو شعور اس مادی زندگی کو قائم رکھے ہو ئے ہے اور جس شعور پر یہ جسم ارتقائی منازل طے کر رہا ہے وہ قائم رہتا ہے ۔
ہم جب اپنے آپ کا مطا لعہ کر تے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک محدود اور فنا ہو نے والا جسم ہے اور یہی ہماری زندگی کی پہچان ہے ۔ یہ جسم جو ہمیں نظر آتا ہے اس کے اجزائے تر کیبی کثافت ، گندگی ، تعفن اور سڑاند ہیں ۔ اس سڑا ند کی بنیاد اس نظر یہ پر قائم ہے کہ ہر آدمی سمجھتا ہے کہ میں ما دہ ہوں اور میں اس مادی دنیا کی پید ائش ہوں ۔یہ محدود نظر یہ ہر آدمی کوکسی مقام میں محدود کر دیتا ہے ۔اور ہر آدمی ایک محدودیت کے تا نے با نے میں خود کو گر فتار کر لیتا ہے اور اس طر ح محدود اور پا بند نظر یے کی بنیاد پڑ جا تی ہے زمین پر بسنے والا ہر آدمی جب اپنا تذکرہ کر تا ہے تو کہتا ہے میں مسلمان ہوں ، میں ہندو ہوں ، میں پا رسی ہوں ، میں عیسائی ہو ں حالانکہ رو ح کا کو ئی نام نہیں رکھا جا سکتا ۔ رو شنی ہر جگہ رو شنی ہے چا ہے وہ عرب میں ہو ، عجم میں ہو یا یو رپ میں ہو یا ایشیاء کے کسی حصے میں ۔
اللہ کا نظام کچھ اس طر ح قائم ہے کہ اس دنیا میں جو اللہ کا پیغام آیا وہ اپنے الفاظ کے ساتھ قائم ہے ۔ عیسائیوں کے لئے بائبل کے الفاظ مذہب کا درجہ رکھتے ہیں ۔اور مسلمانوں کے لئے قرآن مذہب کا پیش رو ہے ۔ ہندو بھگوت گیتا کے الفاظ کی عبادت کر تے ہیں۔
سب آسمانی کتا بیں دراصل خدا کے بر گز یدہ بندوں کی وہ آوازیں ہیں جو رو شنی بن کر تمام عالم میں پھیل گئی ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔