Topics
جب ہم آدم کی عظمت اور فضیلت کا تذکرہ کرتے
ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت آ جاتی ہے کہ آدم کو فرشتوں پر عظمت اور فضیلت اس لئے
حاصل ہے کہ آدم وہ علوم جانتا ہے جو دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔
ترجمہ:’’اور
آدم کو تمام صفات کے علوم سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا
اگر م سچے ہو تو یہ علوم بیان کرو جو ہم نے آدم کو سکھا دیئے۔‘‘
فرشتوں
نے عاجزی کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم آپ
نے ہمیں سکھا دیا ہے۔
قرآن
کہتا ہے۔ ’’عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘
ترجمہ:’’کہہ
دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو پڑھے لکھے ہیں اور وہ جو اَن پڑھ ہیں، برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
حضور
پاکﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’علم
حاصل کرو چاہے تم کو چین جانا پڑے۔‘‘
قرآن
پاک میں علوم طبعی کی مدد سے خدا کی امانت حاصل کرنے کے لئے سات سو پچاس 750آیتیں
موجود ہیں۔ ان آیات کو اللہ رب الرحیم نے اپنی نشانی قرار دیا ہے اور بندوں کو ان
پر غور و فکر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
قرآن
کہتا ہے:
ترجمہ:’’پس
انسان کو دیکھو وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
’’اللہ
نے تمام چلنے پھرنے والی مخلوق کو پانی سے پیدا کیا ہے۔‘‘
’’ہم
نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے تا کہ اس کو آزمائیں اور ہم نے اس کو سمیع
و بصیر بنایا۔‘‘
ترجمہ:’’اے
پیغمبرﷺ! کہہ دیجئے ذرا روئے زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ اللہ رب العالمین نے کس طرح
تخلیق کا آغاز کیا۔‘‘
ترجمہ:’’کیا
ان لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ رب العالمین پہلی دفعہ مخلوقات کو کس طرح
وجود عطا کرتا ہے پھر دوبارہ وجود عطا کر دیتا ہے۔‘‘
زمین
پر بسنے والی مخلوقات اور انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس
ہے کہ یہاں ہر شئے تبدیل ہو کر نئے نئے وجود کے ساتھ مظہر بن رہی ہے۔ اس ہی ہر لمحے
تبدیلی پر اللہ رب العالمین ریسرچ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
ترجمہ:’’کیا
تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے ہی آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین پر
نہریں جاری کیں۔ پھر اس سے رنگ رنگ پیڑ، پودے اگائے اور پھر خزاں آتی ہے تو وہ زرد
ہو جاتے ہیں اور اللہ رب العالمین ان کو بھوسا کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ان
لوگوں کے لئے جو عقل و خرد رکھتے ہیں، عبرت و نصیحت ہے۔‘‘
ترجمہ:’’اللہ
ہی تو ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے وہ بادلوں کو اڑائے اڑائے پھرتی ہیں۔ پھر وہ بادل
کو جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو
پانی کی بوندیں بادلوں کے درمیان سے نکل پڑتی ہیں۔‘‘
ترجمہ:’’سورج
کی قسم اور اس کی تابانیوں کی اور چاندی کی قسم جب وہ سورج کی پشت سے برآمد ہو اور
دن کی جب وہ اسے چمک عطا کر دے، شب کی جب وہ عالم کو ظلمت کی چادرمیں ڈھانپ لے اور
آسمان کی اور اس کی جس کو اس نے بنایا اور زمین کی اور جس نے اس کا فرش بچھایا۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ