Topics

روشنی

دوستو، غیب شہو د کے مسا فرو، رُوحانیت کے پر ستارو۔۔۔!
جب پستی اور بلندی کا تذکرہ کیا جا تا ہے تو یہ بات زیر غور آتی ہے کہ پستی کیا ہے اور بلندی کیا ہے قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں یہ بتا تی ہیں کہ جن قوموں میں تفکر اور ذہنی کاوشیں بر وئے کار آتیں رہیں وہ قومیں بلند ہیں ۔ اور جن اقوام کے شعور میں سے تفکر نکل گیا وہ پست اور خوا رہیں۔ پستی اور بلندی کے یہی منا ظر دیکھنے کے لئے قدرت نے کچھ ایسے منا ظر پیدا کئے کہ میں اپنے پس ماندہ اور تر قی پذیر ملک سے خلا ئی وسعتوں میں سے گزر کر لندن پہنچا ۔ مجھے یقین ہے کہ قدرت یہ چا ہتی ہے کہ پستی اور بلندی کی راہوں میں میرا تجر بہ بلند ہو ۔
میں بنیادی طور پر ایک ایسے عالم و فا ضل گھرانے میں پیدا ہو ا ہوں جہاں پستی سے مراد صرف یہ ہے کہ آدمی نماز اور رو زے سے غافل رہے اور عروج یہی ہے کہ آدم زاد ثواب کی گٹھریاں با ند ھتا رہے ۔ جس دنیاکا اب میں تذکرہ کر رہا ہوں وہاں میں نے عذاب و ثواب کے نام کی کو ئی چیز نہیں دیکھی ۔ لیکن انہیں اپنی قوم سے زیادہ خوش حال ، زیادہ منظم زیادہ انسان دوست دیکھا ۔ عالم یہ ہے کہ وہاں اگر کو ئی آدمی بے کار ہے تو اسے اتنا گزارہ ا لا ؤ نس ملتا ہے کہ وہ با آسانی دنیا کی تمام آسائشوں کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا ہے ۔وہاں کے رہنے والے لوگوں کی رہا ئشی زندگی کا عالم یہ ہے کہ تر قی پذیر ملک کا کو ئی بڑے سے بڑا آدمی اس کا تصور نہیں کر سکتا ۔انہیں دنیا کی ہر وہ چیز دستیاب ہے جو انسانی زندگی میں کسی بھی طر ح کام آسکتی ہے علمی تر قی کا حال یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نئی نئی ایجادات سامنے آتی رہتی ہیں لیکن وہاں جس چیز کی کمی ہے وہ سکون قلب ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو بغیر دواؤں کے سوتے ہیں ۔
نقطہء فکر یہ ہے کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ قوم بھی سکون قلب سے نا آشنا ہے ۔ با وجود یہ کہ اربوں کھر بوں سنکھوں نیکیوں کے انبار ان کے پاس موجود ہیں ۔لیکن وہ رو شنی میسر نہیں جو رو شنی مسرت و شادمانی بن کر لہر کی طر ح خون میں دوڑتی ہے ۔جس بندے کے پاس نیکیوں کا جتنا بڑا ذخیرہ موجود ہو تا ہے ۔دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ سکون سے اتنا ہی دور ہے ایک خشکی ہے جو آکاس بیل کی طرح وجود کو چمٹ گئی ہے ۔قنوطیت ہے کہ جس نے ہشت پاکی طر ح ہمیں دبو چ رکھا ہے نیکی کے متوالوں کو یہاں بھی دیکھا اور وہاں بھی دیکھا ۔وہاں کی حالت یہاں سے زیادہ دگر گوں ہے ۔فر قہ پر ستی کی لعنت اتنی زیادہ ہے کہ شراب میں مد ہو ش پو لیس جوتوں سمیت کتو ں کو ساتھ لیکر مسجد میں داخل ہو تی ہے ۔اور مسجد کو سیل بند کر دیتی ہے ۔یہ حال پس ما ندہ قوم کا ہے ۔
ان قوموں کا حال جو ترقی کے بلند با نگ دعوؤں کے ساتھ خود کو سُپیریئر سمجھتی ہیں اس سے کچھ مختلف نہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس نے ذاتی اور ما لی منفعت کے لئے خوبصورت دنیا کو بد ہَیت بنا دیا  ہے۔جگمگ کرتےستاروں کی  سُہانی راتوں کو دھند لا دیا ہے ۔پر خمار سحر انگیز نسیم صبح میں ایٹمی ایندھن کا زہر گھول دیا ۔ یہ وہ عروج یا فتہ قوم  ہےجس نے پھولوں کی مسکراہٹ چھین لی۔ اب پرندوں کی رُوح پر ور چہچہا ہٹ ایک نغمہ دل سو ز بن کر رہ گئی ہے ۔سائنس اور ٹیکنا لوجی نے انسان کو عدم تحفظ کے عمیق غار میں دھکیل دیا ہے ۔ عدم تحفظ کی حالت میں سسکتی ہو ئی چاندنی کا حسن اور دھو پ کی خوبصورتی ما ند پڑگئی ہے ۔یہ کون نہیں جا نتا کہ ایٹمی تجر بات ، ڈیزل اور پٹرول کے بخارات جیٹ طیاروں کے آتشی فضلات نے فضا کو کچھ اس طر ح زہر آلو د کر دیا ہے کہ انسان کے اندر جانے والا ہر سانس زہر ناک بن گیا ۔اور اس زہر ناکی نے انسان کو زیر و زبر کر دیا اعصاب ٹوٹ گئے ہیں ذہن بکھر گیا ہے ۔دل ہے کہ ہر لمحہ ڈوب جا نے کو بضد ہے ۔تر قی کے پُر فر یب پر دوں میں سسکتی تڑپتی اور رو تی ہو ئی قوم نے عافیت اسی میں سمجھی کہ عدم تحفظ کے خوفناک عفر یت سے فرار اختیار کیا جا ئے۔ لیکن اس فرار میں بھی انہیں لا لچی اور خود غرض جینیئس ذہن نے شکار کی طر ح دبو چ لیا ۔ اور اس عہد کے تر قی یا فتہ انسان نے عدم تحفظ کے احساس سےفرار حاصل کر نے کے لئے ہیرو ئن، ایل ایس ڈی ، راکٹ ، چرس مینڈر کس جیسی چیزیں ایجاد کر لیں اور عام آدمی ایک الجھن سے نکلنے کے لئے دو سری ہزاروں الجھنوں میں مبتلا ہو گیا ۔
اس ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ جب تک نو ع انسانی کے افرادمیں کاروبار ی ذہن کام کر تا رہے گا اسے کبھی سکون میسر نہیں آئے گا۔ تر قی یا فتہ قوم اس لئے عذاب میں مبتلا ہے کہ تر قی کے پیچھے اس کا اپنا کو ئی ذاتی فا ئدہ ہے ہر ترقی سونے کا ڈھیر جمع کر نے کا ذریعہ ہے ۔غیر تر قی یا فتہ قومیں اس لئے پر یشان ہیں ان کا کو ئی بھی عمل کا روباری تقاضوں سے با ہر نہیں ہے وہ اللہ کو بھی اس لئے یاد کر تے ہیں کہ ان کے پیش نظر ان کی ذات کے لئے منفعت ہے جب کہ اللہ کے لئے یہ طر ز فکر نا پسندیدہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’جو لوگ میری آیتوں کا کاروبار کرتے ہیں ان کے پیٹ دوزخ کے انگا روں سے بھر دو ں گا ۔‘‘
ظاہر ہے پیٹ کے اندر دھکتے ہو ئے انگارے ایک کھلا عذاب ہے اور یہی عذاب روپ دھار کر کبھی اضطراب بن جا تا ہے کبھی بے چینی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور کبھی عدم تحفظ کا احساس بن کر لمحہ بہ لمحہ ہمیں خوف کی دنیا میں لیجا تا ہے اور ہمارے اوپر موت کی میٹھی نیند طا ری کر دیتا ہے ۔




Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی



ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔