Topics
سوال: میں سوتیلے پن کا بچپن سے شکا رہوں۔ یعنی ماں
کی مامتا سے محروم رہا۔ جیسے تیسے پل کر جوان ہو گیا۔ میٹرک تک تعلیم صرف اپنی
لیاقت کی بناء پر حاصل کی۔ گھریلو بدسلوکی کی وجہ سے باہر نکلا تو ایک پرائیویٹ
سروس مل گئی۔ جس سے میری زندگی کے کچھ سال پر سکون گزرے کیونکہ تنخواہ معقول ملتی
تھی لیکن 1971ء کے آخر میں دکھی اور مظلوم بھائیوں کا درد لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ جس
کا سبب میری سابقہ گھریلو زندگی ہی تھی۔ اس کام میں میرا ضمیر بہت مطمئن رہا لیکن
بے لوث کوئی بھی کام کیا جائے تو اس میں نباہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا چار سال بعد
سروس تک سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
پھر ادھار وغیرہ لے کر عرب چلا گیا۔
وہاں بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا اور ایک سال بعد تقریباً کورے کا کورا واپس لوٹ آیا۔
واپس آنے کے بعد ایک رکشہ قسطوں پر لے لیا۔ جس کا کبھی حادثہ کبھی فنی خرابی، کبھی
میں خود بیمار……دوڈھائی سال کے بعد اعصاب جواب دے گئے۔ تو اسے بھی اونے پونے بیچ
دیا۔ اور روپے قرض خواہوں کو ادا کر دیئے۔ پھر بھی کئی ہزار کا قرض سر پر رہا۔ ایک
سال مارا مارا پھرنے کے بعد تقریباً ایک ماہ سے پونے چار سو روپے ماہوار پر ایک
پرائیویٹ سروس ملی ہے جب کہ خدا نے دو بچوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ جب اپنے بیوی
بچوں کے مستقبل کا خیال آتا ہے تو خود کشی جیسے حرام فعل تک کے متعلق سوچنے پر
مجبور ہو جاتا ہوں۔ کبھی کبھار ذہن میں بہت برا خیال آتا ہے کہ جب سے شادی کی ہے
ان دنوں سے زیادہ ناکامیاں ہی دیکھ رہا ہوں۔ کہیں شادی ہی منحوس نہ ہو۔ خدا کے لئے
مجھے جینے کے قابل بنایئے۔ سب سے بڑا مسئلہ باعزت روزگار کا ہے۔ میں اپنے لئے نہ
سہی بیوی بچوں کے لئے تو کچھ کر سکوں۔
جواب: آپ فجر کی ادا نماز کے بعد سو مرتبہ یا وہاب پڑھ
کر دعا کیا کریں۔ اس وظیفے کو نوے دن تک جاری رکھیں۔ انشاء اللہ آپ کو ذہنی سکون
نصیب ہو جائے گا۔