Topics
دوستو !
چودہ صدیاں بھی بالآخر دم توڑ گئیں ۔ جس طر ح مر نے کے بعد کو ئی واپس نہیں آیا چو دہ صدیوں کے پانچ لا کھ گیارہ ہزار دن اور راتیں بھی واپس نہیں آئیں گی ۔ ایک ہزار چار سو سال میں ہم نے کیا کھو یا، کیا پا یا اس کا محاسبہ ہمارے اوپر فرض ہے ۔ روز افزوں سائنسی تر قی نے علمِ حصولی کو معراج بخشی ہے۔ یہ بات اب قرین قیاس نظر آتی ہے کہ انسان تسخیر کا ئنات کے اس دا ئرے میں داخل ہونا چاہتا ہےجہاں مادہ (Matter) کی حیثیت نفی بن جا تی ہے ۔ یہ بات مشاہدہ بن گئی ہے کہ آدمی روشنیو ں کے بے شمار لباسوں سے مزین ایک پیکر ہے اور رو شنیوں کے اس لباس پر ہی رنگ و بو کی یہ دنیا قائم ہے ۔ ظاہر بیں نظر وں سے دیکھا جا ئے تو آج کا انسان چو دہ سو سال پہلے کے انسان سے بہت تر قی یا فتہ ہے، اتنا تر قی یا فتہ کہ اس نے نہ صرف یہ کہ آواز کے قطر (Wave Length) معلوم کر لئے ہیں، ان کو بڑھا نے گھٹانے کا بھی ملکہ حاصل کر لیا ہے۔ ایک ہزار چھ سو قطر سے اوپر کی آوازوں پر اس کی دسترس ہے۔ روشنیوں کے اس ہالے کو جو اصل انسان ہے لہروں میں منتشر کر کے ہزاروں میل کے فاصلے پر پو رے خدوخال کے ساتھ پر دہ اسکر ین پر منتقل کر دیتا ہے ۔اسپیس اتنی سمٹ گئی ہے کہ ایک انچ اسپیس (ما ئیکرو فلم)میں سینکڑوں صفات کی کتاب محفوظ کر لی جا تی ہے ۔ ٹائم کا حال یہ ہے کہ ہزاروں میل کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جا تا ہے ۔
لیکن جب ہم ان سب حیرت زدہ کر نے والی تحقیقات اور تر قی کے نتا ئج پر غور کر تے ہیں تو دل میں ایک ہو ک اٹھتی ہے !
یا رو ، یہ کیسی تر قی ہے ! آج کا ہر چہرہ غم و یاس کا عکس ہے ۔ آرام وآسائش کے اتنے وسائل کے با وجو د آدمی پر یشان ہے ۔ اس تر قی نے نو ع انسانی کا سکون چھین لیا ہے۔ سکون کی تلاش سر گر داں نو ع نئے نئے ا مراض کا شکار ہے ۔ہر طرف یہ شورو غوغا ہے کہ آدمی ، آدمی کی زندگی میں زہر گھول رہا ہے۔ اسلاف کے غیر تر قی یا فتہ ماضی کا جب ہم حال سے مقابلہ کر تے ہیں تو یہ جان کر شدید احساس کمتری ہو تا ہے کہ تحمل اور بردباری ان کا شیوہ تھا ۔ افراط و تفریط کا بازارآج کی طر ح گرم نہیں بلکہ بالکل سرد تھا ۔ بلا شبہ ان کے پاس ٹی وی ، وی سی آر، فریج اور تر قی یا فتہ دور کی دوسری چیزیں نہیں تھیں ۔ اتنا بہتر لباس انہیں میسر نہیں تھا جو ہم پہنتے ہیں ،ایسے عالیشان گھر نہیں تھے جس قسم کے محل نما مکانوں میں ہم رہتے ہیں لیکن ان کی دنیا سکون آشناتھی ،وہ صحت مند تھے، خوش رہتے تھے ، میٹھی نیند سوتے تھے۔ ہر آدمی خود اپنا آئینہ ہے۔ اس آئینے میں دو سرا رخ یہ نظر آتا ہے چند جینیس (Genius) آدمیو ں نے ایک چھوٹے سے ایٹم کو اتنی زیادہ اہمیت دے دی کہ اس کی حیثیت لاکھوں انسانی جانوں سے زیادہ ہو گئی۔ ایسے ایسے سلنڈر انسانوں کے ہا تھ وجود میں آئے کہ بٹن دبا دینے سے پو رے بھر ے شہر آکسیجن کی تلاش میں راہی عدم ہو جا تے ہیں ۔ سکون کی تلاش میں نیندیں غائب تو خواب آور دواؤں کی ایجاد نے خود فر یبی میں مبتلا کر کے نیند کی آغوش میں پہنچانے کے بعد انسان کو حواس با ختہ کر دیا۔ ایٹمی پر و سیس نے ایسی بیماریوں کو جنم دیا جو لا علاج ہیں جن کا نام سن کر ہی آدمی دہشت سے مر جا تا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فر ما یا تھا :
’’اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے دل چا ہے خوش ہو کر کھا ؤ ۔‘‘
جہاں سے دل چا ہے اشا رہ ہے اس بات کی طر ف کہ جنت میں ٹا ئم اسپیس(Time and Space) کی جکڑ بندیاں نہیں ہو تیں۔ جنت میں آدم کے ا ندر ٹائم اسپیس سے آزاد ہو نے کی وہی صلا حیت ہے جس سے سائنس نے اسپیس کو توڑ دیا ہے ۔ یہ وہی صلا حیت ہے جس نے فاصلے ختم کر دیے ہیں۔
اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کا مقصد چونکہ دوسرے انسانوں پر اپنی برتری ثابت کرنا تھا اس لیے ساری دنیا کے اوپر صعوبتیں، زحمتیں اور پریشانیاں مسلط ہو گئی ہیں۔ اس ترقی میں اگر صرف اتنی تبدیلی آ جائے کہ یہ سب خا لصتاً اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق یہ بات پو ری ہوجائے گی ۔
’’جہاں سے چا ہو خوش ہو کر کھا ؤ ۔‘‘
چو دہ صدیوں میں ہم جنت کی اس صلا حیت سے قریب ہو ئے ہیں جو ہمیں ٹائم اسپیس سے آزاد کر تی ہے اور اس صلا حیت سے دور ہو گئے ہیں جو ہمیں اطمینان و سکون کی زندگی عطا کر تی ہے ۔ خدا کر ے پندرہویں صدی اس صلا حیت کے لئے پیش رفت ثابت ہو جو ہمیں ہر آن اور ہر لمحہ مسرت و شادمانی سے ہم کنار کر تی ہے اور ہم اس آیت مقدسہ کی زندہ تفسیر بن جا ئیں ۔
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا(سورۂ بقرہ )
اے عزیزو ۔۔۔!
جو کچھ دنیا میں موجود ہے تمہارے لئے ہے ۔یہ سب رنگ و نور میں ڈھلی ہو ئی مورتیاں ہمارے لئے بنا ئی گئی ہیں۔ خدا کی ذات کھا نے ،پینے پہننے اوڑھنے، مکان اور دکان سے بے نیاز ہے۔ ان سب چیزوں کو ہمارے تا بع فر ما ں کر دیا گیا ہے تاکہ ہم اس سازو سامان سے لطف اندوزو بہرہ ور ہوں ۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دولت اوراس کے ثمر کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ، یہی وہ طر ز فکر ہے جو چو دہ سو سال میں ہمنے اپنے اوپر مسلط کر لی ہے ۔
آئیے عہد کریں ۔۔۔!
کہ پندرہویں صدی میں ہم دولت کے پجاری نہیں بنیں گے ۔دولت کو اپنے زیر دست غلام اور کنیز بنا کر رکھیں گے۔ ایسی کنیز جس کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ اس نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی اور جس کے اندر ذہنی مر کز یت انسان کے اوپر آلام و مصائب کا دردناک عذاب ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔