Topics
قیامت کے روز کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اپنی
قبروں سے باہر آئیں گے اور ان کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے۔ وہ موتیوں کے منبر
پر بٹھائے جائیں گے تو لوگ ان کی شان پر رشک کریں گے۔ یہ لوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید……
ایک
بدو نے سوال کیا۔
یا
رسول اللہﷺ!
یہ
کون لوگ ہیں؟ ہمیں ان کی پہچان بتا دیجئے۔
فرمایا
صلی اللہ علیہ و سلم نے:
’’یہ
وہ لوگ ہیں جو آپس میں محض خدا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
حضرت
محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’خداوند
قدوس کا ارشاد ہے:
مجھ
پر واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کروں جو لوگ میری خاطر آپس میں محبت اور دوستی
کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور میری محبت کے
سبب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری خوشنودی پانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ
نیک سلوک کرتے ہیں۔
اللہ
کے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک رات اپنے حبیب اللہ رب العالمین کا دیدار کیا۔
اللہ نے جب اپنے محبوب سے کہا:
’’میرے
محبوب مانگئے۔‘‘
اللہ
کے محبوب نے یہ دعا مانگی:
’’اے
اللہ!
میں
تجھ سے نیک کاموں کی توفیق مانگتا ہوں اور برائیوں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں۔
اے
اللہ!
میں
تجھ سے مسکینوں کی محبت مانگتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم
فرما دے۔ اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس سے محفوظ و مامون
فرما دے اور
اے
اللہ!
میں
تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے
محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ بن جائے۔‘‘
حضرت
محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’لوگوں
کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کو پیش ہوتے ہیں اور لوگوں کو بخش دیا جاتا ہے سوائے اس
کے جس کے دل میں اپنے مومن بھائی کی طرف سے کوئی عداوت ہو……کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑ
دو تا کہ یہ آپس میں صلح کر لیں۔‘‘
حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے رب ذوالجلال سے پوچھا:
’’اے
میرے رب!
آپ
کے نزدیک آپ کے بندوں میں کون سب سے پیارا ہے؟‘‘
رب
العالمین نے جواب دیا:
’’وہ
جو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔‘‘
حضرت
عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ
کی نظر میں بدترین آدمی قیامت کے روز وہ ہو گا جس کی بدزبانی اور فحش کلامی سے لوگ
اس سے ملنا چھوڑ دیں۔‘‘
دوستو!
آیئے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو محسوس کریں۔ اپنی غلطیوں کا جرأت کے ساتھ اعتراف
کریں۔
نمائشی
عاجزی، زبانی جمع خرچ کر کے خود کو حقیر کہنا کہ صاحب میں کس قابل ہوں، میں تو بہت
گنہگار ہوں۔ ارے میاں میں تو آپ کا ادنیٰ خادم ہوں۔ جھوٹی انکساری کرنا آسان بات
ہے۔ لیکن اپنے اوپر اور اپنے نفس پر تنقید برداشت کرنا، اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا
انتہائی مشکل کام ہے۔ بہادری یہ ہے کہ کبر و نخوت اور خود پسندی سے خود کو بچاتے رہیں
اور بلاتخصیص اللہ کی مخلوق سے محبت کریں۔ ہر آدم زاد کا احترام کریں۔ اور جو اپنے
لئے چاہیں وہ اپنے بھائی بہنوں کے لئے چاہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ