Topics
یہ کون نہیں جا نتا کہ زندگی ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ دانشور و اور مفکرین زمانہ کو تین حصوں میں تقسیم کر تے ہیں ۔ ما ضی ، حال اورمستقبل ۔ ما ضی گزرا ہوا زمانہ ، حال موجود زمانہ اور مستقبل آنے والا زمانہ ۔۔۔لیکن جب ایک با شعور آدمی زندگی کا تجز یہ کر تا ہے تو اسے ما ضی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا یہ تجز یہ طبعی تقاضو ں کا ہو ، نفسیاتی پہلو سے ہو یا رو حانی نقطہ نظر سے ہو ۔ ہم جب بچے کی پیدا ئش کا تذکرہ کر تے ہیں تو دراصل یہ کہتے ہیں بچہ کہیں موجود تھا ، وہاں سے اس دنیا میں منتقل ہوا ۔ خوبصورت ، تنو منداور رعنا ئیوں سے بھرپور ۔کسی نو جوان کا تذکرہ کیا جا تا ہے تو اس کا مفہوم بھی یہی ہو تا ہے کہ کل کا بچہ آج جوانی کے رو پ میں موجود ہے ۔ہم جب عقل و شعور اور تجر بہ کی بات کر تے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس بزرگ کا تجر بہ ساٹھ سال کے ماہ وسال پر پھیلا ہوا ہے تب بھی ہمارا منشاہ یہی ہوتا ہے کہ اس بوڑھے کے ساٹھ سال ما ضی میں دفن ہیں نوع انسانی جب اپنے اسلاف کے ورثے کا تذکرہ کر تی ہے تو بھی یہی کہا جا تا ہے کہ انسانی شعور نے بتدریج تر قی کی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ پتھر کی تہذیب میں خود ساختہ قیدو بند کی زندگی گزار رہا تھا ۔پھر وہ وقت آیا کہ آدم زاد نے کسی طرح آگ کا استعمال سیکھ لیا ۔ ایک جست اور لگا ئی تو لو ہے کے زمانے میں داخل ہو گیا ۔ لوہے کی اور مختلف دھا توں کی تہذیب نوع انسانی کا ورثہ قرار پا ئی ۔عالم شعور کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد انسان کے اندر تفکر کا پیٹرن (pattern)بنا ۔ اس کا نام جدید تہذیب یا سائنسی تر قی رکھا گیا ۔ ایک کھر ب سال کی پرانی تا ریخ ہو یا آج کے سائنسی علوم ان سب کی بنیاد دستا ویز(RECORD) پر ہے اور یہ سارا ریکارڈ ما ضی ہے . ما ضی کیا ہے, زمانہ ہے ۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے زمانے کو نظر انداز نہ کرو. زمانہ اللہ ہے ۔ انسان جس کو حال اور مستقبل کہتا ہے وہ دراصل زندگی گزارنے کا ایک مسلسل اور متواتر عمل ہے۔ زندگی کے اس عمل میں دو طر زیں متعین کی گئی ہیں ۔انسان زندگی کی ایک طر ز کا نام سکون رکھتا ہے اور زندگی کی دو سری طرز کو بے سکونی، درماندگی ، پر یشاں حالی، اضطراب، خوف اور بے چینی کا نام دیتا ہے ۔لیکن جب ہم نفسیاتی طور پران دونوں طرزوں کا تفکر انہ انداز میں مطا لعہ کر تے ہیں تو صرف اور صرف ایک ہی بات مشاہدے میں آتی ہے کہ ان دو نوں طر زوں کا تعلق بھی براہ راست ماضی سے ہے ۔آج کی پر یشانی اگر ما ضی نہ بن جا ئے تو انسان اس پریشانی کے ہا تھوں مخبوط الحواس ہو جا ئے گا ، اس کے اوپر پا گل پن کے دورے پڑنے لگیں گے ۔ آدم اورحوا کی نسل میں اگر ایک ہی کیفیت مستقل ہو جائےتو زندگی منجمد ہو جائے گی، اس لئے کہ کائنات کی تخلیق اس فارمولے پر عمل میں آئی ہے کہ زندگی ایک حرکت ِ دوام ہے۔با الفاظ دیگر حر کت ہی زندگی کا نام ہے حرکت رک جا ئے گی تو کا ئنات تھم جا ئے گی ۔رات دن کے مشاہدات زندگی کی ان طرزوں کو ہمارے اوپر آشکارا کرتے ہیں ۔گر می کے ساتھ سرد ی ، سر دی کے ساتھ گر می صحت کے ساتھ بیماری ، بیماری کے بعد صحت ، پیدا ئش اور موت کا سلسلہ بھی اسی فا رمولے (equation)پر قائم ہے ۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی مر گیا تو دراصل کہنا یہ چا ہتے ہیں کہ فلاح آدمی کا کردار فلاں آدمی کی زندگی یافلاں آدمی کی آواز ایک دستا ویز ریکارڈ بن گئی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مر گیا وہ ماضی میں چلا گیا ۔جب ہم اپنے اسلاف کا تذکرہ کر تے ہیں (اسلاف میں آدم سے لیکر اپنے آبا ؤ اجداد سب شامل ہیں )تو دراصل ما ضی کا تذکرہ کر تے ہیں ۔جس طر ح آج ہم اپنے آبا ؤ اجداد کو ما ضی کہہ رہے ہیں کل اسی طر ح ہماری نسل ہمارا تذکرہ ما ضی کے نام سے کر ے گی ۔
ماضی ہماری ابتداء ہے ما ضی ہی ہماری زندگی کا پو را ریکارڈ ہے ۔
کسی سو سولہ بزرگ کے دماغ سے اگر بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے ماضی کو حذف کر دیا جا ئے تو یہ بوڑھا بزرگ کیا رہے گا ۔اے عقل والوں ذرا غور کرو۔۔۔
جس طرح سو سالہ زندگی ریکارڈ اور ماضی ہے اسی طر ح جب اس خاکی پنجرے پر موت واقع ہو تی ہے تو خاکی جسم کی ساری زندگی ماضی بن جا تی ہے ۔ فلسیفانہ طر ز وں سے ہٹ کر جب ہم حقیقت یعنی روحانی علوم میں تفکر کر تے ہیں تو ہمارے انر میں ایک دروازہ کھلتا ہے ۔اس دروازے میں سے قرآن پاک کے انوار لہروں کی شکل میں ہمارےدماغ پر نازل ہو تے ہیں اور یہ لہریں قرآن پاک کے الفاظ ہمیں یہ پیغام سنا تی ہیں ۔
’’اور آپ کیا سمجھے اعلیٰ زندگی کیا ہے اور آپ کیا سمجھے اسفل زندگی کیا ہے ۔یہ ایک ریکارڈ ہے ۔‘‘
علم حقیقت ہماری راہنمائی کر تا ہے کہ اگر ہم خود سے اور اپنے خالق سے متعارف ہو نا چا ہتے ہیں تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنے ما ضی میں جھا نکیں ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے بچہ عالم برزخ میں تھا عالم برزخ لوح محفوظ کا ایک عکس ہے۔ لوح محفوظ کتاب المبین کا ایک ورق ہے ۔ کتاب المبین عالم ارواح ہے اور عالم ارواح وہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ’’کن ‘‘ کہا تھا تو اس کا ظہور ہو گیاتھا ۔مرنے کے بعد کی زندگی دراصل اسی عالم ارواح کی طر ف پیش قدمی ہے ۔نوع انسانی کے جو افراد اس زندگی کودیکھنے ، سمجھنے اور تلاش کر نے کی کوشش کر تے ہیں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ان کو ایسی نظر اور بصیرت مل جا تی ہے جو اس عالم کو دیکھ لیتی ہے ، سمجھ لیتی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔