Topics

اپریل 2003؁۔صبر

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

              ترجمہ: اور صابر کو بشارت دے دو کہ جب اُنہیں مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا ہے۔  (سورۂ بقرہ:155تا 156)

              مومن مصائب و آلام کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور بُرے سے بُرے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، صبر و استقامت کا پیکر بن کر چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور جو کچھ پیش آ رہا ہے اس کو اللہ کی مشیت سمجھ کر اسی میں خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔ جو لوگ صابر و شاکر اور مستغنی نہیں ہیں وہ اللہ سے دور ہو جاتے ہیں اور اللہ سے دوری سکون و عافیت اور اطمینانِ قلب سے محرومی ہے۔ صبر و استغناء جب کسی قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو معاشرہ سدھر جاتا ہے اور ایسی قوم حقیقی فلاح و بہبود کے راستوں پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ بندہ راضی بہ رضا رہے۔ صبر و استغناء حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اور انسان کی طرز فکر اس طرز فکر سے ہم رشتہ ہو جو اللہ کی طرز فکر ہے۔

 

نورِ نبوت

              رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

              ’’تم لوگ اللہ پر یقین کے ساتھ توکل کرو، وہ تمہیں اِسی طرح روزی دیتا ہے جیسے پرندوں کو روزی دیتا ہے کہ وہ صبح جب روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کے پیٹ خالی ہوتے ہیں اور شام کو جب اپنے گھونسلے میں واپس آتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں‘‘۔

                توکل سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دے……لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات لفظی اور غیر یقینی نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مرتب ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل، ہماری ہمت اور ہماری فہم و فراست سے مرتب ہوا ہے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکثر لوگوں کا اللہ کے اوپر توکل اور بھروسہ محض مفروضہ ہے۔ جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ نہیں ہوتا اس کے اندر استغناء بھی نہیں ہوتا۔ توکل اور بھروسہ دراصل ایک خاص تعلق کا نام ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان قائم ہو جاتا ہے۔

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ