Topics
دو ستو ۔۔۔! میں کون ہو ں ؟
بھا ئیو ۔۔۔! آپ کون ہیں ؟
ساتھیو۔۔۔! یہ دنیا کیا ہے ؟
عزیزو۔۔۔! یہ کیسی بقا ہے کہ ہر لمحہ فناکے دوش پر رقصاں ہے ؟
ہوا یوں کہ رات کے وقت جب آسمان جگ مگ کر رہا تھا اور انوار کی لطیف فضا میں ستاروں کی محفل سجی ہو ئی تھی، ایک روشن ستا رہ اپنی نا معلوم منزل کی طر ف رواں دواں تھا ۔ہر گھنٹے کے بعد یہ ستا رہ اپنی جگہ سے آگے بڑھ جا تا۔ ساری رات کا سفر طے کرکے یہ ستارہ مشرق کو چھو ڑ کر مغرب میں اپنا مسکن بنا چکا تھا ۔
میں یہ نہیں جا ن سکا کہ زمین چل رہی تھی یا ستارہ متحرک تھا ۔ صحن میں تخت پر لیٹے لیٹے پو ری رات کی روائیداد اتنی ہے کہ ستا رہ مشرق سے مغرب میں جا چکا تھا ۔ اور اس کے اوپر دن کی رو شنی غلاف بن چکی تھی ۔ ظاہر ہے کہ دن بھرستا رہ سفر کر کے رات کو پھر اسی جگہ آجا ئے گا جہاں سے مشرق میں پہنچا تھا اور یہ عمل جا ری وساری ہے ۔
جس طر ح ستا ر ے اور زمین گر دش میں ہیں کا ئنات کا ایک ایک ذرہ اپنے اپنے انداز میں متحرک ہے ۔انسان جس کے لئے یہ ساری کا ئنات تخلیق کی گئی ہے وہ بھی ہر لمحہ اور ہر آن جذبا ت و احساسات کی دنیا میں ردوبدل ہو رہا ہے ۔ آنے والا ہر لمحہ ما ضی ہے اور ما ضی فنا ہے۔ اور فنا کا وجود ہی دراصل بقا ہے ۔ فنا نہ ہو تو بقا کا تذکرہ بے سود ہے ۔انگو ٹھا چو ستے بچہ کا بچپن جب فنا کے مرا حل سے گزر جا تا ہے، تو لڑکپن وجود میں آتا ہے یعنی بچپن کی فنا لڑکپن اور جوانی ہے اور جوانی کی فنا بڑھاپا ہے۔ بڑھا پا فنا ہو جا تا ہے تو ہم دو سرے عالم میں پیدا ہو جا تے ہیں۔ ایک پرو سیس (Process)ہے جو جا ری ہے ۔
جس طر ح بچپنا مرکر جوانی پیدا ہو تی ہے اور جوانی کے اوپر موت وارد ہو نے کے بعد بڑھا پا آتا ہے اسی طر ح دنیا کے شب و روز بھی مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں جس طر ح آدمی چا ہے تو اپنی زندگی کو مختصر اور چا ہے تو اس زندگی کو سو سالوں تک پھیلا لیتا ہے ۔یہی حال دنیا کی زندگی کا بھی ہے ۔
آج جب ہر طر ف تر قی کا فسوں محیط ہے یہ دیکھ کر شدت کر ب ہو تا ہے کہ ترقی کے خوشنما اور پر فر یب جال میں دنیا کی عمر گھٹ رہی ہے ۔ زمین بیمار اور عضو ضعیف کی مانند کراہ رہی ہے ،خدارا میرے اور اپنے اوپر رحم کرو۔مگر کو ئی کان ایسا نہیں ہے کہ اس کی سستکی ہو ئی اور غم میں ڈوبی ہو ئی آواز کو سنے ۔
اپنی بر تر ی حاصل کر نے کے لئے قوموں نے ایسے ایسے ہتھیار بنا لئے ہیں کہ جن کے اوپر موت منڈ لا رہی ہے اور ان ہتھیاروں کی مو ت چار ارب ا نسانوں کی موت کا پیش خیمہ ہے ۔ ایک مر تبہ جب کو ئی چیز وجود پا لیتی ہے تو اس کا استعمال ایک ضرور ت بن جا تی ہے ۔ آج کے دور میں ایٹم بم بنا نا اتنا آسان ہو گیا ہے کہ سو سے زائد افراد کی ایک ٹیم چھوٹی سی فیکٹر ی میں بیٹھ کر ایٹم بم بنا سکتی ہے ۔
جو ہری ہتھیا روں کی تیاری اور پھیلا ؤ کے سلسلے میں جوزبر دست خطرہ کھلی آنکھوں نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ جب بہت سارے ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہونگے اور آئندہ جب دو پڑوسیوں میں جنگ ہو گی تو ان کا استعمال نا گز یر ہوگا ۔
ساتھیو ! یہ کیسی تر قی ہے کہ دنیا اس وقت ایٹمی جنگ کے دہا نے پر کھڑی ہے اور ہم آتش فشاں کو اپنا مسکن بنا ئے ہو ئے ہیں ۔
با لآخر تر قی کا یہ فسوں ایک دن ٹوٹ جا ئے گا ۔ اس سے پہلے بھی ہو تا رہا ہے کہ وہ قومیں جو فنا اور بقا کے فا رمولوں سے نا آشنا ہو گئی تھیں زمین پر سے اٹھا لی گئیں ۔اورآج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ۔ خدارا سوچئے ہم کدھر جا رہے ہیں۔ موت ہمارے تعاقب میں ہے اور ہم اسے تر قی کا نام دے کر خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔ یہ نتیجہ ہے ان اعمال اور کر دار کا جو ہمارے اوپر دہشت پا بن کر مسلط ہو گئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔''فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃشرایرہ ''جو کو ئی ایک ذرہ بھلا ئی کر ے گا وہ اسے اپنے سامنے پا ئے گا اور جو کو ئی ایک ذرہ برائی کرے گا وہ بھی اسے اپنے سامنے پا ئے گا ۔) الزلزال : پارہ ۳۰(
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔