Topics

گوشت کھانا بند کیا


                کچھ دن بعد شیخ احمد نے فرمایا۔ سلمان آج سے آپ گوشت کھانا بند کر دیں۔ چالیس دن تک گوشت، انڈا، مچھلی بالکل بند کر دیں اور دودھ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ اپنی خوراک میں زیادہ تر دودھ چاول رکھیں۔ میں نے پوچھا سرکار دودھ میں کیا خاص بات ہے۔ اس سے مجھے کیا روحانی فائدہ ہو گا۔ فرمایا۔ تم نے معراج کا واقعہ پڑھا ہو گا۔ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ معراج پر تشریف لے گئے تو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم پر آپ ﷺ کو تین پیالے پیش کئے۔ ایک پیالہ میں دودھ تھا، دوسرے میں شراب اور تیسرے میں پانی تھا۔ آپ ﷺ سے فرمایا گیا کہ اس میں سے ایک کو پینے کے لئے منتخب کرلیں۔ آپﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا اور اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا۔ آپﷺ نے فطرت کو اختیار کیا۔ شیخ احمد نے فرمایا، سلمان بیٹے آپ نے قرآن پڑھا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ قرآن میں فطرت کا کیا مفہوم ہے۔ سورہ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

ترجمہ:

’’پس آپ کر لیں اپنا رخ دین حنیف کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کی فطرت کو جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا۔ کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا اللہ کی تخلیق میں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘

                                                (سورہ روم آیت ۳۰)

                اس آیت میں واضح طور پر یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ فطرت اسمائے الٰہیہ کی صفات ہیں۔ انسان اور کائنات کی ہر تخلیق اسمائے الٰہیہ کے انوار و روشنیوں سے ہوتی ہے۔ ہر شئے کے اندر اسمائے الٰہیہ کی روشنیوں کی معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ ان میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں ہے۔ دین قیم(سیدھا دین) اسمائے الٰہیہ کے علوم کا جاننا ہے۔ اسمائے الٰہیہ کے علوم کائناتی تخلیقی اور تکوینی امور میں معراج میں حضور پاک ﷺ کو تین پیالے پیش کئے گئے ۔ ایک دودھ کا، دوسرا شراب کا ، تیسرا پانی اک دودھ فطرت کی تمثیل ہے۔ شراب گمراہی کی تمثیل ہے اور پانی مادہ کی تمثیل ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہم نے ہر شئے کو مادہ سے بنایا۔ فطرت اسمائے الٰہیہ کی روشنیاں ہیں۔ جن کے علوم آدم یعنی انسان کو عطا فرمائے۔ معراج میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے دودھ کا پیالہ پسند کیا۔ یعنی آپ ﷺ نے اسمائے الٰہیہ کے علوم اپنے لئے اختیار و پسند فرمائے۔ سلمان بیٹے! حضور پاکﷺ کا ہر عمل سنت کے قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ تم نے دودھ کا مفہوم و معنی جان لیا ہے۔ اب اپنے دل و دماغ میں اس مفہوم و معنی کو رکھ کر اس سنت نبوی پر عمل کرو اور اپنی خوراک دودھ بنا لو۔ جیسا کہ بچہ اللہ تعالیٰ کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور فطرت نے بچے کے لئے پہلی غذا دودھ ماں کے سینے میں اتار دی ہے۔ اس غذا سے تمہارے اندر موجود تمام حواس اپنی فطرت کے مطابق کام کریں گے اور تمہارے اندر روحانی صلاحیتیں مزید پیدا ہوں گی ، انشاء اللہ۔

                شیخ احمد نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں۔ میں نے دوسرے دن سے ان کی ہدایت پر عمل شروع کر دیا۔ شروع کے چند دن تو میرا دل چاہتا نمک مرچ کھانے کو گوشت کھانے کو، کبھی پھیکا دودھ پیتا، کبھی تھوڑا سا شہد ملاتا تھا۔ چار پانچ دن کے بعد میرا ذہن دودھ پر سیٹ ہو گیا اور نمک مرچ اور گوشت کی جانب سے ہٹ گیا۔ اس مخصوص خوراک کے ساتھ ساتھ آدھی رات کو اٹھ کر مراقبہ کرنے کا بھی حکم مرشد کریم کی جانب سے تھا۔ کیونکہ کافی دنوں سے میں بس فجر کے وقت ہی اٹھتا تھا اور رات کی عبادت چھوٹی ہوئی تھی۔

                اب میں رات کو دس گیارہ بجے تک سو جاتا اور تقریباً دو بجے اٹھ کر چھت پر اس مخصوص کمرے میں جا بیٹھتا۔ اس کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک پر اسراریت سی ماحول میں محسوس ہوتی اور دل و دماغ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کے ساتھ وابستہ ہو جاتا۔ شروع کے چار پانچ دن تو معمول کے مطابق رہے۔ پھر ساتویں دن جب نماز تہجد کی نفلیں پڑھ رہا تھا تو ایک دم مجھے نور کے سمندر کا شعور سنائی دیا۔ جیسے ساحل سمندر سے موجیں زور زور سے ٹکر ا رہی ہیں۔ اس کے اگلے لمحے ہی نظر کے سامنے ایک دم سے پردہ ہٹ گیا۔ نماز میں میری آنکھیں بند تھیں مگر بند آنکھوں کے سامنے نہایت واضح اور روشن سین آ گئے میرے سامنے پورا گھر آ گیا۔ میری نظریں گھر کے اندر ہر کمرے کا بیک وقت منظر دیکھ رہی تھیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح حقیقت میں تھا۔ کہاں کون سو رہا ہے۔ کیا شئے کس طرح رکھی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس پورے گھر میں دودھ کا دریا اس کی موجوں میں اس قدر روانی اور قوت تھی جیسے سمندر ہو۔ جہاں میں تھا اس جگہ بھی دودھ ہی دودھ بہہ رہا تھا۔ سفید شفاف تازہ دودھ۔ اس کی شیریں خوشبو سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ میں اپنے ظاہری حواس میں اس خوشبو کو سونگھ رہا تھا بہت دیر تک نماز میں ، میں دودھ کا دریا اسی طرح دیکھتا رہا۔ پھر نماز کے بعد جب مراقبہ میں بیٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر کے نیچے کی منزل سے یہ دریا سمٹا جا رہا ہے اور اس کا سارا دودھ ایک بہت بڑی سی موج یا لہر بن گیا ہے۔ یہ لہر میری جانب آ رہی ہے۔ یہ نیچے کی منزل سے پہلی منزل پر آئی اب پہلی منزل کا سارا دودھ اس لہر میں داخل ہو گیا۔ پھر یہ لہر تیسری منزل پر آئی۔ تیسری منزل کا سارا دودھ فرش سے اٹھ کر اس موج یا لہر میں داخل ہو گیا۔ اب یہ لہر چھت پر آ گئی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ سارا گھر اب دودھ کے دریا سے خالی ہو گیا۔ یہ سارا اب ایک موج بن گئی جو بہت بڑھ دھارے کی صورت ہے۔ اب یہ دھارا میری پشت کی جانب آیا۔ چھت کا سارا دریا بھی اسی دھارے میں شامل ہو گیا۔ یہ دھارا میری پشت سے میرے اندر سما گیا۔ جیسے میری پشت نے اس دریا کو نگل لیا۔ پشت میں یہ دریا گدی کے مقام سے اندر داخل ہو گیا۔ اب میں اپنے جسم کے اندر دودھ کے دریا کو پوری روانی کے ساتھ بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ میرا پورا جسم دودھ کی میٹھی میٹھی خوشبو سے مہکنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی میرے لعاب دہن میں دودھ کا شیریں مزا حلاوت کر گیا۔

                میری آنکھیں خود بخود مراقبہ میں کھل گئیں۔ نگاہ سامنے دروازے پر جم گئی۔ کھلی آنکھوں نے دیکھا کہ دروازے پر دادی اماں کھڑی مسکرا رہی ہیں۔ دودھیا رنگ کا لباس پہنے یوں لگ رہی تھیں جیسے ابھی ابھی دودھ کے دریا سے نکل کر آ رہی ہیں۔ میرا جسم و نظر بالکل ساکت تھے۔ مگر روح اندر ہی اندر ان سے مخاطب تھی۔ السلام علیکم دادی اماں۔ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔ سلمان تم میرے بیٹے ہو مجھے تم پر ناز ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے دودھیا چادر ایک قدم آگے بڑھ کر مجھ پر ڈال دی جیسا وہ اکثر بچپن میں مجھے اپنے چادر سے ڈھانپ دیا کرتی تھیں۔ میرے تمام حواس نے چادر کی ملائمت کو محسوس کیا، پھر اگلے لمحے یوں لگا جیسے میں جسم کے ساتھ دودھ کے دریا میں ڈوب گیا ہوں۔ اب دادی اماں غائب تھیں۔ میری آنکھیں خود بخود مراقبہ کے لئے بند ہو گئیں۔ میں اپنے آپ کو دودھ کے دریا میں اندر ہی اندر تیرتا دیکھتا رہا۔

                اب ہر روز رات کو نور کا ایک مختلف دریا میرے اندر سماتا دکھائی دیتا۔ اس نور کو میرے تمام حواس کے ذریعے متعارف کرایا جاتا۔ اس کے نور کا رنگ اس کی بو۔ اس کا ذائقہ اس کا لمس اس کی خاصیت یا کمال، اس طرح ایک ایک کر کے چالیس نور کا تعارف مجھے ظاہری حواس میں کرایا گیا اور انیس سو انوار میرے حواس میں داخل ہوتے ہوئے دکھائے گئے کہ میں ظاہری عقل و شعور سے انہیں پہچان نہ سکا ۔پھر ایک رات بتایا گیا کہ ستر ہزار انوار آپ کے اندر ڈالے گئے ہیں۔ یہ بھی صرف ایک اطلاع تھی۔ میرے عقل و شعور نے انہیں اندر ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں پہچان گیا کہ یہ تمام انوار اسمائے الٰہیہ کے انوار ہیں۔ جن سے میری روح کی تخلیق ہوئی ہے۔ ان انوار کے رنگ روح کی صلاحیتیں ہیں اور ان رنگوں سے پیدا ہونے والی قوت روح کا ادراک اور کمالات ہیں۔ روح کے ادراک کا ایک اور کمال کا ظہور ازل سے ابد تک کے دائرے میں ہے۔ انہی کمالات کا تنزل کائنات ہے۔ اس مخصوص خوراک کے ساتھ مجھے ایک ماہ ہو گیا۔ میرا جسم اس قدر ہلکا اور حواس اس قدر لطیف محسوس ہوئے کہ جو کچھ خیال میں آتا سب جلد واقعتا رونما ہو جاتا۔

                ایک رات مراقبہ میں بیٹھا تو جسم کا ایک ایک رواں میری نگاہ میں آ گیا۔ ہر رواں بال کی جگہ روشنی کی ایک شعاع بن گیا۔ جسم کے اندر نظر گئی۔ جسم ایک باریک کھال کا اور جالی دار تھا۔ ہر سوراخ سے روشنی نکل رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں ایک تراشہ ہوا ہیراہوں۔ میرے جسم کا ہر مسام ہیرے کا تراشہ ہوا ایک کونہ یا زاویہ ہے اور اس زاویہ سے شعاعیں نکل رہی ہیں۔ ہر زاویہ سے ایک رنگ کی روشنی نکل رہی ہے۔ یہ سارے رنگ خود ہیرے کے اندر ہی موجود ہیں۔ میرے ذہن میں حدیث قدسی کی آواز گونجنے لگی۔

                ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ جب میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں تو میں نے کائنات کی تخلیق کی۔‘‘ مجھے یوں لگا کہ میرا عشق دل بن کر میرے سینے میں سما گیا ہے۔ دل بے اختیار کہہ اٹھا۔

                ’’اے میرے محبوب! میں اپنے وجود کی ہزاروں آنکھوں سے تجھے دیکھوں گا۔ تو اسی لائق ہے کہ جسم کا ہر رواں آنکھ بن کر تجھے دیکھے۔ پھر بھی تیرے جمال کی تعریف کا حق ادا نہ ہو سکے گا۔ میرے جسم اور روح کے ہر ذرے کو نظر بنا دے تا کہ میں تیرا دیدار کرتا رہوں۔‘‘

                مجھے گوشت چھوڑے ہوئے اب پورے چالیس دن ہو گئے تھے۔ میرا یہ چلہ آج ختم ہو گیا تھا۔ مجھے اپنا جسم بہت لطیف سا محسوس ہوتا اور آنکھوں میں بھی مقناطیسیت محسوس ہوتی۔ اس مقناطیسی قوت کو نریما اور گھر کے تمام افراد نے محسوس کیا۔ ایک ہفتے سے میں یہ بات نوٹ کر رہا تھا کہ آفس میں چند لوگ اکثر میرے کاموں پر بلاوجہ اعتراض کر دیتے تھے۔ اب یہ سب لوگ مجھ سے اچھی طرح ملا کرتے۔ میرے پاس آ کر خوشی محسوس کرتے۔ ان کے اعتراضات تو قطعی ختم ہو چکے تھے۔ مجھ پر یہ اسرار کھلا کہ اللہ پاک کی بینائی کا نور جو کہ اسم بصیر کی تجلی ہے۔ اس نور کے اندر مقناطیسی کشش اللہ کی کائنات کے ذرے ذرے میں کام کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر پہاڑ کی تہہ میں چھپا ہوا رائی کا چھوٹا سا دانہ بھی دیکھ سکتی ہے۔ یعنی اللہ پاک کی نظر یا بینائی کا نور کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے۔ اس نور نے اپنی قوت کشش کے ساتھ کائنات کے ذرے ذرے کو جوڑ رکھا ہے۔ اس کی مقناطیسی کشش قوت ثقل بن کر زمین میں کام کر رہی ہے۔ اسی نور نے تمام اجزائے فلکی کو اپنے اپنے مقام پر سنبھالا ہوا ہے۔

                رات کو میں مرشد کریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہیں چلہ ختم ہونے کی اطلاع دی اور اپنی واردات و کیفیات بتائیں۔ شیخ احمد بہت خوش ہوئے۔ فرمایا۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء