Topics

بزرگ


                 ایک مرتبہ لڑکا جب دریا سے نہا کر نکلا تو کنارے پر اسے ایک آدمی دکھائی دیا۔ یہ ایک بزرگ آدمی تھے انہوں نے لڑکے سے کہا۔ روزانہ تم اپنی دادی کے ساتھ نہاتے ہو آج ہم تم کو اس دریا کی سیر کراتے ہیں۔ تم نے دریا کی گہرائی میں تو دیکھا ہی نہیں۔ لڑکا یہ سن کر ڈر گیا۔ اس نے سوچا پہلے مجھے اپنی دادی سے اجازت لینی چاہیئے جو مجھے یہاں تک لائی ہیں۔ اس نے دادی سے پوچھا۔ دادی میں اس آدمی کے ساتھ دریا میں چلا جائوں۔ دادی نے کہا ۔ اب تم اس آدمی کے ساتھ ہی دریا کی سیر کیا کرو۔ یہ سنتے ہی لڑکا ان بزرگ کے ساتھ چل پڑا۔ دونوں تھوڑی دیر تک پانی پر چلتے رہے پھر پانی کے اندر ایک سیڑھی ظاہر ہوئی اور اس سیڑھی سے پانی کے اندر اتر گئے۔ پانی کے اندر کی تہہ میں ایک بہت بڑا محل تھا۔ وہ بزرگ اس محل کے اندر اس لڑکے کو لے گئے۔ کہنے لگے، یہ محل اللہ میاں کا محل ہے۔اس محل کے اندر سے بہت سے رنگوں کے دریا نکلتے ہیں۔ چونکہ تمہیں اللہ میاں کے رنگین دریا دیکھنے کا بہت شوق ہے اس لئے ہم تم کو یہاں لائے ہیں۔ یہاں صرف وہ لوگ آتے ہیں ۔ جن کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ لڑکے نے نہایت اشتیاق سے کہا۔ اے مہربان بزرگ مجھے اللہ میاں کے رنگوں کے دریا دیکھنے کا بے حد شوق ہے۔ کیا میں دیکھ سکتا ہوں۔ بزرگ اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کو لے گئے۔ دونوں محل کے اندر اندر چلتے رہے۔ یہ محل بہت ہی بڑا تھا۔ اس میں بے شمار کمرے تھے۔ تمام کمرے بند تھے۔ ہر کمرے میں بڑی بڑی شیشوں والی کھڑکیاں تھیں۔ مگر شیشے دھند لائے ہوئے تھے۔

                جیسے بہت دنوں سے یہاں کوئی نہیں آیا تھا۔ لڑکا چلتے چلتے ان شیشوں سے دیکھتا جاتا۔ اس کے اندر اسے بڑی عجیب و غریب چیزیں دکھائی دیتیں کئی چیزیں تو اسے اتنی اچھی لگتیں کہ اس کا جی چاہتا کہ وہ ٹھہر جائے مگر بزرگ اس کا ہاتھ تھامے بہت تیزی سے گزرتے رہے۔ اب وہ ایک صحن میں پہنچ چکے تھے۔ اس صحن کی لمبائی چوڑائی پورے آسمان جتنی تھی۔ بہت بڑی۔ اس صحن میں زمین سے ہر رنگ کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔ ان چشموں سے پانی کے ساتھ ساتھ روشنی بھی نکلتی محسوس ہوتی تھی۔ رنگین روشنیاں سارے صحن میں پھیل کر بہت خوبصورت رنگین ہیولے بنا رہی تھیں۔

                بزرگ نے لڑکے سے کہا ۔ کیا تم بھی ان ہیولوں کی طرح روشن بننا چاہتے ہو۔ لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ میں بھی ان جیسا بننا چاہتا ہوں۔ بزرگ نے اس لڑکے کو اوپر دریا میں غوطا دیا۔ جب وہ لڑکا پانی سے باہر آتا تو انہیں رنگین روشن ہیولوں کی طرح بن جاتا۔ جب دوسرے رنگ میں نہاتا تو پہلا رنگ نئے رنگ میں چھپ جاتا۔ جب لڑکا سارے رنگوں میں نہا گیا تو باہر نکلا۔ اب اس کا سارا جسم سارا لباس بالکل سفید چاندی کی طرح ہو گیا تھا۔ اس کے جسم سے سفید روشنیاں پھوٹ رہی تھیں۔ اس نے چاروں طرف دیکھا ۔ سارا صحن سارا آسمان اس کی روشنی سے سفید ہو رہا تھا۔ اس نے اپنے جسم کو ہاتھ لگایا۔ یہ جسم چاندی کی طرح خوب مضبوط لگتا تھا۔ مگر اس میں چاندی کی سی سختی نہ تھی بلکہ چاندی کی طرح نرمی اور لطافت تھی۔ بزرگ نے اس سے کہا۔ یہ جسم سب سے اچھا جسم ہے۔ اس جسم کے ساتھ تم کبھی بیمار نہیں ہوگے اس جسم کے ساتھ تم دریا کے اندر تہہ میں بھی جا سکتے ہو اور آسمان کی بلندیوں پر بھی اڑ سکتے ہو۔ جائو اور زمین اور آسمان کی سیر کرو۔ چونکہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو اس وجہ سے اللہ نے یہ جسم تمہاری محبت کے صلے میں تمہیں انعام میں دیا ہے۔اس جسم کے ساتھ تم زمین اور آسمان میں بسنے والی اللہ کی مخلوق سے محبت کرو گے اور ساری مخلوق بھی تم سے محبت کرے گی۔ اب تم اپنی دادی کے پاس جائو۔ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ ہو گا۔ جب تم بڑے ہو جائو گے۔ لڑکے نے آنکھیں کھولیں۔ اپنی دادی کو ساری کہانی سنائی کہ کس طرح وہ بزرگ اسے دریائوں میں لے کر گئے۔ اس کی دادی یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں بیٹے بڑوں کا ادب، ان کی فرمانبرداری اور بڑوں اور چھوٹوں سے محبت کرنے سے اللہ میاں سب سے زیادہ خوش ہوتے ہیں اور اچھے اچھے انعام دیتے ہیں۔جن سے بندہ ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے۔

                دادی اماں کی یہ کہانی جب بھی میں سنتا مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کہانی کا ہر کردار زندہ ہے۔ وہ لڑکا میں ہوں۔ وہ دادی میری دادی اماں ہیں۔ مگر وہ بزرگ کون ہیں، کہاں ہیں ، میرا ذہن اکثر کہانی کے اس کردار کی تلاش میں تصور میں کھو جاتا۔ میں سوچتا، دادی اماں کی کوئی بات جھوٹی کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ بزرگ بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوں گے۔ جب دادی اماں کی مرضی ہو گی یہ بزرگ بھی مجھے مل جائیں گے۔ان دنوں میں اسکول کی چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ برسات کے دن تھے۔ دادی اماں سخت بیمار ہو گئیں۔ جانے انہیں کیا ہو گیا تھا ۔ ان کا بخار ٹوٹتا ہی نہ تھا۔ سارا گھر ان کی بیماری سے پریشان ہوگیا۔ امی کا چہکنا بند ہو گیا۔ میری بہنیں دبے پائوں گھر میں اس طرح چلتیں جیسے ان کے چلنے سے فرش ٹوٹ جائے گا۔ دادی اماں بخار میں نیم بے ہوش پڑی رہتیں۔ روزانہ ڈاکٹر آ کر انجکشن اور دوائی دیتا۔ میں ہر وقت چوری چوری اور دور سے دادی اماں کو دیکھتا۔ ان کے پاس جانے کی مجھ میں ہمت نہ ہوتی۔ مجھے لگتا اگر میں ان کے پاس گیا تو میرا دل غم سے پھٹ جائے گا۔ کبھی میں نمازپڑھ کر اللہ سے دعا کرتا۔ کبھی آنکھیں بند کر کے اللہ میاں سے کہانی کے لڑکے کی طرح درخواست و التجا کرتا۔ مگر دل میں ایک اُمید تھی کہ دادی اماں جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ ساتویں دن مغرب کے وقت میری امی پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئیں۔ میرا ہاتھ پکڑا اور گھبرا کے بولیں، سلمان جلدی آئو دادی اماں تم کو بُلا رہی ہیں۔ میں تیر کی طرح دوڑ کر پہنچا۔ دادی اماں کے گال بالکل سرخ ہو رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بھی سرخی تھی۔ میں نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا ان کے پاس بیٹھ گیا اور آہستہ سے کہا۔ دادی اماں آپ نے مجھے بلایا ہے۔انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے قریب بلایا۔ میں ان کے چہرے کے بالکل قریب ہو گیا۔ وہ بولیں، سلمان بیٹے وہ کہانی یاد ہے تمہیں۔ دریا میں نہانے والی، میںنے کہا، ہاں۔ دادی اماں بولیں، میں اب دریا میں ڈوبنے جا رہی ہوں۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ دادی اماں آپ کے گال اور آنکھیں بھی سرخ ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ایک گہرا سانس لیا،  بولیں۔ بیٹے کہانی کے لڑکے کی طرح بننا۔ سب سے محبت کرنا تا کہ اللہ تمہیں اپنا انعام عطا کر دیں۔اتنا کہنے کے بعد انہوں نے مجھے چوما اور اسی وقت ان کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں۔ ان پر غشی طاری ہو گئی۔ میں گھبرا کر ایک طرف ہٹ گیا۔ ڈاکٹر کو فون کیا گیا مگر ان کے آنے سے پہلے ہی دادی اماں نے دریا میں غوطہ لگا دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے اللہ میاں نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔

                دادی اماں کے بغیر بہت دن تک مجھے اپنی ذات بھی ادھوری لگی۔ میں روز رات کو ان کی قبر پر لیٹ کر خوب روتا۔میری ہچکیاں سن کر کبھی پاپا کبھی چچی مجھے بہلاتے۔ کبھی کبھی تو وہ خود بھی میرے ساتھ ساتھ رونے لگ جاتے۔ دادی کے بغیر سارا گھر ویران ہو گیا تھا۔ ایک ڈیڑھ ماہ تک دل کی حالت آہستہ آہستہ سنبھل گئی۔ اب اکثر میرے دل میں خیال آتا کہ اگر کسی سے بہت محبت ہو تو محبت چونکہ اللہ کا دریا (صفت) ہے اس وجہ سے محبت تو اللہ کا نور ہے اور وہ شخص ایک خالی بالٹی کی طرح ہے۔ پس وہ شخص جو بالٹی کی طرح ایک صورت انسانی ہے اور اس کے اندر اللہ کی محبت ، اللہ کا نور ہے۔ اب میں سوچتا ہوں یہ نور مجھے کیسے ملے گا۔ اسی دوران ہمارے محلے میں ایک نئے پڑوسی آئے جو گلی کے دوسرے سرے پر رہتے تھے۔ ان کا ایک لڑکا سلیم میرا ہم عمر تھا۔ اس نے میری ہی کلاس میں داخلہ لیا۔ اس طرح اس سے دوستی ہو گئی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ ہمارا زیادہ تر وقت اکٹھا گزرنے لگا۔ ہم اکٹھا اسکول آتے جاتے اور شام کو بھی اکٹھا کھیلتے۔


 


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء