Topics

با ادب با نصیب ۔ بے ادب بے نصیب


                ’’ یہی روحانیت کا پہلا سبق ہے اور یہی روحانیت کا آخری سبق ہے۔ اس پہلے اور آخر کے درمیان تمام علوم مقامِ ادب کے درجات ہیں۔ یہ سبق ہمیشہ یاد رکھنا۔ روحانی علوم ادب کے دائرے میں منتقل ہوتے ہیں۔ ادب کے دائرے سے باہر روحانی علوم حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ آدم نے غلطی کا مرتکب ہو کر بھی ادب کا دامن نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ معافی کا خواستگار ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول کر لی اور اسے اپنی بارگاہ سے معتوب نہیں کیا۔ مگر ابلیس نے نافرمانی کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے حجت کی کہ تو نے مجھے میرے راستے سے ورغلا دیا اور جس طرح تو نے مجھے راستے سے ورغلایا میں بھی تیرے بندوں کو تیرے راستے سے ورغلائوں گا۔ ذات باری تعالیٰ کو چیلنج دینے اور حجت کرنے سے ابلیس راندئہ درگاہ ہوا۔اس نے ادب کے دائرے سے باہر اپنے پائوں نکال لئے تھے۔ یاد رکھو ۔ ادب کے دائرے سے باہر پائوں نکالنے والا راندئہ درگاہ ہے۔ راندئہ درگاہ کو اللہ تعالیٰ کے علوم کی روشنی حاصل نہیں ہو سکتی۔ادب کے دائرے میں علم ہے۔روشنی ہے اور ادب کے دائرے سے باہر جہالت ہے۔ تاریکی ہے ۔ ادب کے دائرے میں روشنی کے مدارج روحانی علوم ہیں۔‘‘

                جیسے جیسے میں یہ تحریر لکھتا جاتا ویسے ویسے اس کی لہریں میرے اندر منتقل ہوتی محسوس ہوئیں۔ یوں لگا جیسے میں خود ایک تختی ہوں اور اس تختی پر آپ کا کلام نقش ہوتا جا رہا ہے۔ کلام ختم کر کے کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ میں اپنی ہمت یکجا کر کے اپنی جگہ سے اُٹھااور آپ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ سر جھکا کر مؤدبانہ انداز میں عرض کی۔ حضور اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں۔ فرمایا کہو۔ میں نے کہا مجھے بیعت کر لیجئے۔ مجھے روحانی علوم سیکھنے کا بے پناہ شوق ہے۔مسکرائے۔ پھر سر پر ہاتھ رکھا۔ کہا آنکھیں بند کرو۔ میں نے بند کر لیں تو کافی دیر تک دم کرتے رہے۔ پھر میرے سر پر چوم لیا۔ کہا آج سے تم ہماری روحانی اولاد ہو۔ میرے اندر خوشیاں لہریں بن کر دوڑی تھیں۔ فرمایا۔ آج سے تم روزانہ رات کو سوتے وقت اور صبح فجر کے وقت مراقبہ کرو گے۔ پہلے وضو کر کے مصلے پر بیٹھ کر سو بار درود خضری پھر سو بار یا حیی یا قیوم پڑھ کر آنکھیں بند کر کے شیخ کا تصور کرو کہ شیخ تمہارے سامنے بیٹھا ہے اور شیخ کے قلب سے روشنیاں نکل کر تمہارے قلب میں داخل ہو رہی ہیں۔ پہلے پندرہ منٹ تک یہ مراقبہ کرنا پھر بتدریج اس کی مدت بڑھاتے رہنا۔ کچھ دن تم یہی سبق کرو۔ پھر ہمارے پاس آنا۔ میں نے ادب سے ہاتھ چومے۔ سلام کیا اور گھر چلا گیا۔ پہلے دن جب میں نے تصور شیخ کا مراقبہ کیا تو ذہن بہت یکسو ہو گیا۔دل کو سکون ملا۔ ایک تحفظ کا احساس تھا۔ ایک ہفتے بعد ذہن اس قدر یکسو ہو گیا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلتا کہ میں کہاں ہوں۔ بالکل بے خیالی کی حالت ہو جاتی ۔ جب ہوش آتا تو پتہ چلتا۔ایک دن مراقبہ کر رہا تھا کہ آواز آئی شیخ احمد کے بیٹے مبارک ہو۔ آج مراقبہ کا نواں دن تھا میں نے سوچا یہ کیفیت بتانی چاہیئے۔ تا کہ معلوم ہو کہ مراقبہ کیسے چل رہا ہے یہ سوچ کر میں نے منہ ہاتھ دھو کر کپڑے پہنے اور شیخ احمد کے پاس چل دیا۔ انھیں جا کر اپنی کیفیت بتائی کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی بے خیالی کی کیفیت ہو جاتی ہے۔مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ فرمایا یہ انخلائے ذہنی کی حالت ہے۔ آدمی کے اندر دو دماغ کام کر رہے ہیں۔ایک دماغ لاشعور ہے ۔ دوسرا دما غ شعور ہے۔ لاشعوری دماغ اور حواس غیب میں دیکھتے ہیں۔ جب کہ شعوری حواس مادی دنیا کے حواس ہیں۔ جاگنے کی حالت میں شعوری حواس غالب رہتے ہیں اور سونے کی حالت میں لاشعوری حواس غالب آ جاتے ہیں۔ مراقبہ کرنے سے شعوری دماغ آہستہ آہستہ مغلوب ہو جاتا ہے اور لا شعوری دماغ کی تحریکات غالب آنے لگتی ہیں۔ مگر لاشعوری حواس کا غلبہ نیند کی حالت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے خیالی کی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ میں نے پوچھا۔ بے خیالی کی کیفیت سے مراقبہ کرنے والے کو کیا حاصل ہوتا ہے۔فرمایا چونکہ مراقبہ ارادی حرکت ہے۔ اس لئے اس کے اندر بے خیالی بھی ارادی حرکت ہے۔ بے خیالی کی کیفیات اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب شعوری دماغ کے منتشر خیالات تصور کے ایک نقطہ میں جذب ہو جائیں۔ اب شعور کے لئے تصور کا یہ نقطہ لاعلمی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعور اس نقطے کی گہرائی میں جا کر گم ہو جاتا ہے۔یعنی نقطے کی گہرائی میں جو روشنیاں اور علوم ہیں۔ شعور ان سے مانوس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے معنی پہنانا نہیں جانتا۔ مراقبہ کی مشقوں سے شعور آہستہ آہستہ لا شعور کی روشنیوں سے مانوس ہو جاتا ہے اور پھر وہ ان روشنیوں میں معنی پہنانا سیکھ لیتا ہے۔ میں نے پوچھا۔ اس سٹیج پر شیخ کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے ۔ کہنے لگے۔ وہی جو ایک دھوبی کی۔ میں  نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگے۔ مرید دنیاوی طرزِ فکر چھوڑ کر روحانی طرزِ فکر اپناتا ہے۔ دنیاوی طرزِ فکر ذہن میں میل کچیل اور کثافتیں جمع کر دیتی ہے۔ شیخ مرید کی ذہنی حالت سے واقف ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں وہ مرید کی ذہنی کثافتوں کو دھو کر اس کی طرزِ فکر کو صاف کرتا رہتا ہے تا کہ جب اس کا ذہن لاشعور کے راستے پر چلے تو اس راستے کی ہر شے کو پہچان لے اور صحیح معنی پہنا سکے۔ کیونکہ کسی بھی شے کی اچھائی ہا برائی کا انحصار اس کے معنی پہنانے میں ہے۔

                میں بڑی باقاعدگی سے مراقبہ کے اسباق کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن با ترجمہ بھی روزانہ پڑھتا اور اب قرآنی آیات کا مفہوم زیادہ واضح طور پر میرے اندر اتر جاتا۔ شیخ سے میری انسیت دن بدن بڑھتی جاتی تھی۔ وہ بھی میرے ساتھ نہایت محبت سے پیش آتے تھے۔ اب انھوں نے مجھے صبح کے وقت سانس کی مشقیں کرنے کا حکم دیا۔فرمانے لگے۔ صبح فجر کے وقت آہستہ آہستہ ناک سے اندر سانس لو۔ خوب گہرا۔ پھر اس سانس کو اپنے اندر کچھ دیر روکے رکھو جتنی دیر روک سکو۔ پھر منہ سیٹی کی طرح گول کر کے آہستہ آہستہ سانس باہر نکال دو۔ اس طرح روزانہ گیارہ سانس لیا کرو۔پھر مراقبہ کرنا۔ میں نے پوچھا۔ جناب سانس لینے سے مراقبہ کا کیا تعلق ہے۔ کہنے لگے۔ جب اندر سانس لی جاتی ہے۔ تو ذہن کا رابطہ ہمارے اندر (Inner)  سے قائم ہو جاتا ہے۔اور جب باہر سانس لی جاتی ہے۔ تو ذہن کا رابطہ باہر کی دنیا سے قائم ہو جاتا ہے۔ سانس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ آکسیجن کی آمد و رفت ظاہری حواس اور باطنی حواس دونوں کے رابطہ کو بحال رکھتی ہے۔ اس طرح ظاہری اور باطنی حواس میں بیلنس قائم  ہو جاتا ہے اور اس کا اثر طرزِ فکر پر مثبت انداز میں پڑتا ہے۔

                اس دوران جب میں یہ مشقیں کر رہا تھا۔ ایک دن رات کے کھانے پر چچی کہنے لگیں۔ سلمان کل سیماں باجی کا فون آیا تھا۔ تمہیں پوچھ رہی تھیں۔ اتنے میں راحیلہ بول پڑی۔ نریما باجی آپ کو یاد کر رہی ہیں اور شرارت سے ہنس پڑی۔ میں چونک گیا۔ کیا بات ہے چچی۔ چچی کہنے لگیں پہلے منہ میٹھا کرائو پھر بتائوں گی۔ میں ذرا پریشان ہو گیا۔ چچی کیا بات ہے جلدی سے بتائیں نا ۔وہ بولیں۔ سیماں باجی نے نریما کے لئے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔ میں بے ساختہ بول پڑا۔ابھی کیا جلدی ہے انھیں۔ ممی بولیں۔ اے لو بائیس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے اور ابھی کیا جلدی ہے۔ میں انھیںجلدی جواب دینا چاہتی ہوں۔ میں گھبرا گیا جس لائن پر لگ گیا تھا۔ اس میں پوری دل جمعی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ میں نے ممی سے کہا ابھی مجھے کچھ عرصہ شادی نہیں کرنی ہے۔ ممی کہنے لگیں۔ پہلے یہ بتائو کہ نریما تمہیں پسند ہے۔ میں نے کہا ۔ ہاں اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ممی نے کہا ۔ تمہیں اس شادی میں کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔ میں نے کہا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مگر ابھی میں کم از کم دو سال شادی کرنا نہیں چاہتا۔ پاپا بولے۔ مگر اس کی وجہ بھی تو کوئی ہو گی۔میں نے کہا ہاں ہے۔ میں ابھی کچھ روحانیت کے اسباق کر رہا ہوں۔ پہلے انھیں پورا کرنا چاہتا ہوں۔ ورنہ میرا ذہن بٹ جائے گا۔ ممی کہنے لگیں۔ اب انھیں ہم کیا جواب دیں۔میں نے کہا آپ کہہ دیں کہ وہ ابھی سیٹ ہونا چاہتا ہے۔ دوسرے دن چچی نے بتایا کہ سیماں پھوپھی یہ سن کر بالکل خاموش ہو گئیں۔ میرے دل کو ایک تسلی تھی کہ نریما میرا انتظار کرے گی۔

                 میں نے لاپروائی سے بات کو بھلا دیا۔ اس دوران شیخ احمد نے مجھے ایک دن چھوڑ کر روزے رکھنے کا حکم دیا۔ فرمایا کہ یہ حضرت دائود علیہ السلام کا عمل ہے۔ وہ بھی ایک دن کی آڑ میں روزے رکھتے تھے۔پیغمبر ؐ کے کسی بھی عمل میں ان کی مخصوص طرزِ فکر کام کرتی ہے۔ جب آدمی ان کی اتباع کی نیت سے وہ عمل کرتا ہے ۔ تو اس عمل کے ساتھ پیغمبر علیہ السلام کی وہ مخصوص فکر بھی اس کے اندر منتقل ہوتی ہے۔ اس طرح عمل کے نتائج میں آدمی پیغمبر علیہ السلام کی طرزِفکر کے مطابق مفہوم و معنی پہناتا ہے اور چونکہ پیغمبر علیہ السلام کی طرزِ فکر عین ارادئہ الٰہی کے مطابق ہے۔ اس وجہ سے ان کی پیروی کرنے والوں کی طرزِ فکر بھی اللہ تعالیٰ کی رضا و ارادے کے مطابق ہو جاتی ہے۔ میں نے پہلے روزے کی سحری کرتے وقت بڑے سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی یا اللہ میں یہ روزے حضرت دائود علیہ السلام کی اتباع میں رکھ رہا ہوں۔ جس طرح آپ نے انھیں اس عمل کا صلہ عطا فرمایا مجھے بھی عطا فرمایئے۔ اس دعا کے وقت میرے ذہن میں یہ بھی خیال تھا کہ تمام پیغمبران علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ بندے ہیں۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوعِ انسانی سے ممتاز فرما کر بنی آدم کے لئے نمونہ بنایا ہے۔ان کے مخصوص اعمال اور مخصوص عبادات سے جو روحانی صلاحیتیں ایک پیغمبر کے اندر متحرک ہوئیں۔ دراصل وہی اعمال ہمارے لئے بھی ایک ایسا وظیفہ ہے جس کے کرنے سے ہمارے اندر بھی روحانی صلاحیتیں ہماری سکت کے مطابق بیدار ہو سکتی ہیں۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ اللہ پاک مجھے زیادہ سے زیادہ حوصلہ اور سکت عطا فرما کہ میں روحانی علوم کو سیکھ سکوں اور تیری رضا کے مطابق ان علوم کو تیرے بندوں تک پہنچا سکوں۔


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء