Topics

میں کیا ہوں؟


                اس طرح تین سال گزر گئے۔ میری عمر اس وقت چودہ سال کی تھی۔ میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا۔ اللہ نے مجھے کیوں پیدا کیا ہے۔ میں اس دنیا میں آنے سے پہلے کہاں تھا، میں کیا ہوں؟ اللہ کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے۔ جب بھی اس قسم کے خیالات آتے میرا ذہن ان خیالات سے جیسے چپک کر رہ جاتا۔ میں گھنٹوں سوچتا کہ اللہ کہاں ہے۔ اسے کہاں ڈھونڈنا چاہیئے۔ انہیں خیالات نے میرے اندر قرآن مجید کو با ترجمہ پڑھنے کا شوق پیدا کر دیا۔ میں روزانہ قرآن کو ترجمہ سے پڑھنے لگا۔ مگر یہ مجھے صرف ایک نصیحت کی کتا ب لگی۔ میرا دل کہتا، ان الفاظ کی گہرائی میں تمہیں تمہارے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ قرآن کے الفاظ کی گہرائی میں کس طرح دیکھا جاتا ہے۔

                انہی دنوں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جب اسکول جانے کے لئے صبح میں اپنے دوست کو لینے اس کے گھر گیا تو یہ دیکھ کہ ہم دونوں حیران رہ گئے کہ جس رنگ کے کپڑے میں نے پہن رکھے تھے اسی رنگ کے کپڑے اس نے بھی پہنے تھے۔ ان دنوں اسکول میں یونیفارم نہیں تھا۔ سب اپنی مرضی کے کپڑے پہن کر آتے تھے۔ ہم نے اسے اتفاق سمجھ کر جلد ہی اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی ہوا کہ جس رنگ کی میری پینٹ تھی اسی رنگ کی پینٹ اس نے بھی پہن رکھی تھی۔

                اسی کے دو دن بعد پھر ایسا ہی ہوا اس دن تو کلاس کا ہر فرد یہی سمجھ رہا تھا کہ ہم آپس میں صلاح کر کے کپڑے پہنتے ہیں۔ جب ہم دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے ہم کپڑوں کا ذکر بھی نہیں کرتے تو کسی کو یقین نہیں آیا۔ سب یہی کہتے رہے کہ کیا تم نے ہمیں اتنا بیوقوف سمجھ رکھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سلیم کا اس واقعے سے متعلق کیا خیال تھا۔ کیونکہ اس کے اندر میں نے تجسس نہیں پایا۔ اس نے دوبارہ اس کا ذکر بھی نہیں کیا مگر میرے ذہن میں یہ خیال اٹک کر رہ گیا کہ تین مرتبہ مسلسل ایک ہی بات کی تکرار اتفاق نہیں ہو سکتی۔ اسی خیال میں شام ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ چلو سلیم سے کہہ دوں کہ آج میں کھیلنے نہیں آئوں گا۔ ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا کہ سلیم آتا دکھائی دیا۔ میں نے دور سے ہی چلا کر کہا۔ یار آج میں کھیلنے نہیں آئوں گا۔ وہ فوراً بول پڑا، میں بھی تم سے یہی کہنے آ رہا تھا کہ آج میں نہیں کھیلوں گا۔ پھر بولا ’’ یار تُوتو میرے خیال کو پڑھنے لگا ہے شاید‘‘۔ میرے اندر ایک سنسنی سی دوڑ گئی، مگر میں ہنس کر واپس دوڑ آیا تو دادی اماں کی تصویر پر نظر پڑی۔مجھے بچپن کی وہ آواز سنائی دی۔ اللہ میاں کے دریا میں جو بچے نہاتے ہیں تو ان کا رنگ بھی دریا کے رنگ جیسا ہو جاتا ہے۔ خیال آیا کیا سلیم اور میں دونوں ایک ہی دریا میں نہا چکے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا مجھے سلیم سے بے انتہا محبت ہے۔ جیسی دادی اماں سے تھی۔ سلیم کو ایک دن نہ دیکھوں تو طبیعت میں چڑچڑاہٹ آنے لگتی ہے۔ اس کے بغیر زندگی خالی خالی لگتی ہے۔ جی چاہتا ہے اپنی ہر اچھی چیز سلیم کو دے دوں۔ جذبۂ محبت ایک ہی ہے مگر عمر کے ساتھ ساتھ اس کے اظہار میں فرق آگیا ہے۔

                دای اماں سے محبت کا اظہار اس کی آغوش میں چھپ کر ہوتا تھا اور دوست سے محبت کا اظہار اس کے ساتھ کھیل کر ہوتا ہے۔ وہاں محبت بھری معصوم باتیں تھیں اور یہاں اسکول کی باتیں ، پڑھائی کی باتیں ، یار دوستوں کی باتیں ہیں۔ مگر انہی باتوں کے ساتھ ساتھ محبت ہمیں اپنے رنگ میں رنگتی رہی۔ یہاں تک کہ ہمارے کپڑے ایک ہی رنگ کے ہو گئے۔ میرے دل میں ایک انجانی سی خوشی پھوٹنے لگی، ذہن کا تجسس دور ہو گیا تھا۔ اسی طرح ایک سال اور گزر گیا اس دوران کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ جو بات میں منہ سے نکالتا سلیم ایک دم چونک کر کہتا ارے میں ابھی تم سے یہی کہنے والا تھا۔ جب بھی یہ واقعہ رونما ہوتا میرے کانوں میں دادی اماں کی آواز گونج جاتی۔ ’’ بیٹا جب بندہ اللہ تعالیٰ کے دریا میں نہاتا ہے تو اس کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔‘‘ میں سوچتا میرے اندر کی ہر صلاحیت اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے اور میرا جی چاہتا،یہ صلاحیتیں اور بڑھ جائیں۔ مجھے معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی کون کون سی صفات میرے اندر کام کر رہی ہے۔روز افزوں اللہ تعالیٰ کو جاننے کا شوق میرے اندرزور پکڑتا گیا۔ مجھے اللہ میاں اب دادی اماں اور سلیم دونوں سے بھی زیادہ اچھے لگنے لگے۔

                میرا اور سلیم کا اسکول میں آخری سال تھا۔ ہم دونوں بڑی توجہ کے ساتھ امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گئے اس دوران ذہن زیادہ تر پڑھائی کی طرف متوجہ رہتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ممی اور پاپا کی جانب سے بڑی کڑی نگرانی تھی۔ وقت پر پڑھو، وقت پر سوئو، کھیلنے کے اوقات چوبیس گھنٹے میں صرف آدھ گھنٹے رہ گئے تھے۔ ویسے بھی امتحان سر پر سوار ہو تو کھیل سے دلچسپی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ اللہ کر کے یہ دن بھی ختم ہوئے۔ امتحان بخیر و خوبی کے ساتھ انجام پائے۔ اب رزلٹ کی فکر تھی اور مجھ سے زیادہ ممی پاپا کو میرے پاس ہونے کی فکر تھی۔ ممی بڑی لاڈ سے کہتیں میرا بیٹا انشاء اللہ فرسٹ ڈویژن لائے گا۔ پھر میں اسے کمپیوٹر میں داخلہ دلوائوں گی۔ میں سوچتا ماں باپ کو اولاد کی کتنی فکر ہوتی ہے۔ کیا اللہ کو بھی میری اتنی ہی فکر ہے پھر دادی کی بات یاد آجاتی۔  ’’بیٹا اللہ تو ہے ہی محبت‘‘۔ اس خیال کے ساتھ ہی دل میں ٹھنڈک سی محسوس ہوتی۔ اللہ پاک میرے ممی پاپا سے بھی تو محبت کرتے ہیں پھر ان کی توقعات کو کیسے ضائع کر دیں گے۔

                 امتحان ختم ہونے کے دوسرے دن ہی راولپنڈی سے سیماں پھپھو کا فون آیا۔ پھپھو کا پُر جوش اصرار تھا کہ تمام بچوں کو فوراً راولپنڈی بھیج دیا جائے۔ ہم سب کے لئے تو یہ بڑی خو شخبری تھی۔ایک دن میں تیاری مکمل کی۔ پاپا ایک دن ہم چاروں کی ایئر ٹکٹ لے آئے اور سمیرا باجی، ثمینہ ، راحیلہ اور میں راولپنڈی کے لئے روانہ ہو گئے۔ ایئر پورٹ پر سارا گھر ہی ہمیں لینے آیا ہوا تھا۔ وقاص بھائی اور نریما سے مل کر سب بہت خوش ہوئے کیونکہ سارے ہی ہم عمر تھے۔ وقاص بھائی مجھ سے ڈیڑھ سال بڑے تھے اور نریما مجھ سے تقریباً آٹھ ماہ چھوٹی تھی۔ مگر راولپنڈی کی صحتمندانہ آب و ہوا نے دونوں پر خوشگوار اثرات چھوڑے تھے۔ نریما قد میں سمیرا باجی سے بھی کچھ لمبی تھی۔ وہ دن زندگی کے بڑے ہی حسین دن تھے۔ تقریباً روز ہی عتیق پھوپھا ہمارے لئے کہیں نہ کہیں کا پروگرام بنا دیتے۔ کبھی تو ہم سب بہن بھائی مل کر اکیلے چلے جاتے اور کبھی وہ خود شامل ہو جاتے۔ پھر انہوں نے آزاد کشمیر جانے کے لئے ایک ہفتے کی دفتر سے چھٹی لے لی۔

                آزاد کشمیر میں ان کے دوست رہتے تھے۔ پروگرام یہ بنا کہ ان کے گھر ٹھہرا جائے پھر وہاں سے پہاڑیوں کی سیر کی جائے۔ ہم سب بڑی سی وین میں کشمیر کے لئے روانہ ہوئے۔ جوں جوں آگے بڑھتے جاتے راستہ اور زیادہ خوبصورت ہوتا جاتا۔ ہرے بھرے بلند پہاڑ جن پر خود بخود دل کے جذبات نغموں میں ڈھل گئے۔ خوبصورت نغموں اور قہقہوں سے بھر پور سفر آج بھی حافظے پر نقش ہے۔ ہم نے آزاد کشمیر کی پہاڑیوں میں دور دور تک سیر کی۔ جانے کیا بات تھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر مجھے یوں لگتا جیسے اللہ میاں یہیں آس پاس ہیں۔نگاہیں خلائوں میں کھو جاتیں اور میں لڑکیوں کے مذاق کا ہدف بن جاتا۔ میرا جی چایتا کوئی مجھے یہاں اکیلا چھوڑ دے اور میں پہاڑوں کے درمیاں وادی میں اُڑتا پھروں ، اُ ڑ کر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جائوںمیرا دل چاہتا کہ میں اللہ میاں کے اس دریا میں غوطہ لگا دوں جو ان پہاڑوں پر بہہ رہا ہے۔ مگر نہ ہی اپنا دل میں کسی اور کو دکھا سکتا تھا اور خود مجھے اس کشش کی وجہ سمجھ میں نہ آتی تھی۔بس ایک بے اختیار جذبہ تھا۔ایک مقناطیسیت تھی جو پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہرنے پر اکساتی تھی۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے دل میں ارادہ کر لیا کہ آئندہ زندگی میں کبھی نہ کبھی جب بھی موقع ملا کچھ دن پہاڑ پر ضرور گزاروں گا مگر تنہا، تا کہ ان بلند و بالا پہاڑوں کی کشش کو پوری طرح اپنے اندر سمو لوں۔

                دور تصور کے آسمان پر دادی اماں کا چہرہ چمکا اور مجھے یوں لگا جیسے یہ کشش ہی وہ دریا ہے جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر بہہ رہا ہے۔ میرا دل اندر ہی اندر مخاطب ہوا ۔ اے دریا مجھے بھولنا مت۔ میں پھر آئوں گا، تمہارے پانیوں سے کھیلوں گا۔ تمہارے رنگ میں اپنا دامن رنگ لوں گا۔ اس عہد و پیمان نے میرے اندر کی تڑپ کم کر دی اور میں اطمینان سے باقی افراد کے ساتھ سیر و تفریح میں مگن ہو گیا۔

                چند روز بعد ہم کراچی لوٹ آئے۔ رزلٹ نکلنے والا تھا۔ مجھے اپنے پاس ہونے کی پوری اُمید تھی اور میرا جی چاہتا تھا کہ میں اپنی خوشیاں ممی پاپا کے ساتھ شیئر کروں۔ تیسرے دن رزلٹ تھا۔ رات گیارہ ، بارہ بجے تک ہم سب بیٹھے اسی کے متعلق باتیں کرتے رہے کہ فلاں کالج میں ایڈمشن لینا ہے۔ فلاں کالج سب سے اچھا ہے۔ بستر پر لیٹا تو خیالات کی ایک فلم چلتی رہی۔دادی اماںبھی بہت یاد آئیں۔بالآخر آنکھ لگ گئی مگر اذان کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا اور نماز کے بعد اللہ کے حضور سچے دل سے اپنے پاس ہونے کی درخواست دی۔ انتظار بے چینی کا نام ہے۔ نماز کے بعدمجھ سے کمرے میں بیٹھا نہ گیا۔ باہر نکلا تو صحن میں ممی کو ٹہلتا پایا۔ مجھے دیکھ کر گلے سے لگا لیا اور ہنس کر بولیں۔ آج تمہارا رزلٹ ہے نا۔ میرا دل نماز میں بھی نہیں لگ رہا۔ جلدی پڑھ کے باہر نکل آئی ہوں۔ عجیب بے چینی ہو رہی ہے۔ جلدی سے اخبار آئے تو سکون ملے۔ ہم دونوں صحن میں تخت پر بیٹھ گئے۔ میں نے ممی کے زانوں پر سر رکھ دیا۔ آج میں خود کو بڑا کمزور محسوس کر رہا تھا مگر ممتا میرے جذبات سے واقف تھی۔ ممی میرے بالوں کو پیار سے سہلانے لگیں اور آہستہ آہستہ میری بے چینی کچھ کم ہونے لگی۔ تھوڑی دیر میں پاپا بھی آگئے اور اسی وقت اخبار والے نے اخبار پھینکا۔ میں تیر کی طرح لپک کر اٹھانے دوڑا۔میرا نام فرسٹ ڈویژن کی لسٹ میں تھا۔ سارے گھر میں شور مچ گیا۔ پاپا اور ممی نے خوب پیار کیا۔سلیم بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو گیا تھا۔ میں بھاگا بھاگا اس کے گھر پہنچا۔ ہم دونوں خوب گلے ملے۔ یوں لگتا تھا جیسے زندگی صرف خوشی کا نام ہے۔

                چند روز بعد میں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ سلیم نے ایک دوسرے کالج میں داخلہ لیا۔ کمپیوٹر میری پسندیدہ چیز تھی ایک بار پھر ہم دونوں پڑھائی میں لگ گئے۔ مگر جانے کیا بات تھی کہ پہاڑوں سے آکر اب بھی کبھی کبھی طبیعت میں ایک عجیب سی بے چینی و اضطراب سا محسوس ہوتا جیسے پہاڑوں کی مقناطیسیت مجھے کھینچ رہی ہے۔ میں اپنے آپ کو کسی خوبصورت پہاڑ کی چو ٹی پر بیٹھا دیکھتا۔ یوں لگتا جیسے کوئی میرے انتظار میں ہے۔ ایسے میں میرا دل اللہ کی طرف مائل ہو جاتا اور قرآن کا ترجمہ پڑھ کر اس میں غور و فکر کیا کرتا۔ میرا زیادہ وقت کمپیوٹر کے ساتھ اور قرآن میں غور و فکر کے ساتھ گزرنے لگا۔

                اب سلیم سے بھی ملاقات کم ہی ہوتی تھی۔ وہ بھی مصروف ہو گیا تھا۔ پھر بھی زندگی مزے میں گزر رہی تھی۔ تین سال اسی طرح گزر گئے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ قرآن کے ترجمہ پر غوروفکر کرنا میری عادت بن گئی۔ کمپیوٹر کی مشین سے اکثر میں دماغ کا موازنہ کرتا اور اللہ تعالیٰ کے کمپیو ٹریعنی دماغ کے کمالات کھلتے چلے جاتے۔میں سوچتا جس خالق نے دماغ جیسی مشین بنائی ہے خود اس کا دماغ کیسا ہو گا۔ اس وقت میرا یہ خیال گہرائی میں ڈوبتا محسوس ہوتا۔ یہاں تک کہ ایک تحیر مجھ پر طاری ہو جاتا۔ میرا دل کہتا تم اس کمپیوٹر سے اصل کمپیوٹر کی جانب بڑھو۔اس کا علم حاصل کرو۔ یہ دیکھو کہ اس کی پروگرامنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔ اسکرین پر تو وہی ڈسپلے ہوتا ہے جس کی پروگرامنگ کی جاتی ہے۔ خیالات پر وگرامنگ ہیں اور اعمال اس پروگرامنگ کا ڈسپلے ہیں۔ڈسپلے کے لئے اسکرین کا ہونا ضروری ہے۔ پس اسکرین شعور اور جسم ہے۔ اسکرین غلطیوں کا ذمہ دار کیسے ہوا۔ کیا کمپیوٹر خود اپنی پروگرامنگ کر رہا ہے۔ اللہ کا انسانی شعور سے کیا رشتہ ہے۔ ایسے ہی خیالات رات دن میرے دماغ کو گھیرے رہتے اور میں قرآن لے کر بیٹھ جاتا اور اس کے اندر اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈا کرتا۔


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء