Topics

رات کی عبادت


                شیخ احمد نے فرمایا۔ ’’ سلمان رات کو جاگ کر کم از کم آدھا گھنٹہ ضرور عبادت کیا کرو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کو صبح دفتر جانا ہوتا ہے۔ مگر رات کو گھنٹہ آدھا گھنٹہ جاگ سکتے ہو۔ کچھ اثر نہیں پڑے گا‘‘۔ میں نے کہا ، ’’ سرکار مجھ سے زیادہ آپ مجھے بہترجانتے ہیں۔ آپ مجھے تعمیل حکم میں غافل نہیں پائیں گے‘‘۔ اب میں نے راتوں کو اُٹھ کر نفل اور مراقبہ کرنا شروع کر دیا۔ آدھی رات کو کچھ اور ہی عالم تھا۔ میں گھنٹہ گھنٹہ مراقبہ میں بیٹھا رہتا اور پھر بھی طبیعت پر ذرا دبائو نہ پڑتا۔ یوں لگتا جیسے شیخ کی روشنیاں  اور انوار نہایت تیزی سے میرے اندر جذب ہوتے جا رہے ہیں۔ اب میں صرف رات کو تین چار گھنٹے سے زیادہ نہ سوتا۔ مگر کام پر بھی بالکل ٹھیک ٹھاک رہتابلکہ پہلے سے بھی زیادہ ذہن چلتا۔ کمپیوٹر پلے کرنے کی اسپیڈ بھی تیز ہو گئی تھی۔ منیجر مجھ سے بہت خوش تھے۔ مگر ممی کبھی کبھی پریشان ہو جاتی تھیں۔ کبھی بادام گھونٹ کے دودھ میں پلاتیں اور کبھی شہد کھلاتیں۔ بے چاری ہر وقت میری صحت کے پیچھے پڑی رہتی تھیں۔میں انھیں سمجھایا کرتا کہ ممی میں بالکل تندرست ہوں ۔ آپ میری فکر نہ کیا کریں۔ مگر ممتا کا معاملہ ہی الگ ہوتا ہے۔ میں چپ کر کے وہ سب کچھ کھا پی لیتا۔ ویسے بھی اچھا کھا نا پہننا کس کو بُرا لگتا ہے۔

                 شیخ احمد سے ایک دن میں نے پوچھا کہ ’’ دن کی نسبت رات کو عبادت اور مراقبہ کرنے سے کیوں زیادہ فائدہ ہوتا ہے‘‘۔   کہنے لگے ’’ ہر شئے میں اللہ کی ایک مخصوص فکر کام کر رہی ہے۔ یہ فکر اس شئے کی حکمت ہے۔ جس کی بنیاد پر اسے پیدا کیا گیا ہے۔ رات کے اندر اللہ تعالیٰ کا یہ تفکر کام کر رہا ہے کہ رات مخلوق کے لئے آرام کرنے کو بنائی گئی ہے۔مخلوق کے لئے رات کو آرام کرنے کا حکم فکر کا ایک رخ ہے۔ یہ رخ تمام مخلوق اور خصوصاً عوام الناس کی جانب ہے۔ یعنی عوام الناس کے لئے اللہ تعالیٰکا ایک جنرل حکم ہے کہ اس کے بندے رات کو آرام کریں۔ مگر چونکہ ہر شئے دو رخوں میں بنی ہے۔ اس وجہ سے ایک رخ جب عوام الناس کے لئے ہو گا تو فکر کا دوسرا رخ لازمی طور پر خواص الناس کے لئے ہو گا۔ دوسرے رخ میں خواص الناس کے لئے یہ حکم ہے کہ رات کو جاگ کر عبادت کرو چونکہ اس حکم میں خواص کے لئے ہدایت ہے۔ چنانچہ ان خاص بندوں پر ان کی سکت کے مطابق انعام بھی اتارا جاتا ہے۔ رات کے حواس نیند کے حواس ہیں۔یعنی رات نیند کی ظاہری شکل و صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

’’ نیند عارضی موت ہے۔ نیند کی حالت میں روح قبض کر لی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس بلاتے ہیں ۔ پھر ایک وقت معینہ پر اسے واپس جسم میں لوٹا دیتے ہیں۔ مگر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب روح کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس روک لیتے ہیں اور واپس جسم میں نہیں لوٹاتے‘‘۔

                اس آیت سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ رات کے حواس میں یعنی نیند کے عالم میں روحیں غیب میں سفر کرتی ہیں۔غیب اللہ ہے ۔ اب چونکہ ہمارا جسم ایک مشین ہے۔اس مشین میں کمپیوٹر فٹ ہے۔ جو ایک نظام کے ذریعے مشین کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اس نظام میں کمپیوٹر میں یہ فیڈ ہے کہ رات سونے کے لئے بنی ہے رات کو سویا جائے۔ کمپیوٹر کے پروگرام کے الٹ مشین کو حرکت دی جاتی ہے۔ یعنی روٹین کے پروگرام کی جگہ خصوصی پروگرام فیڈ کیا جاتا ہے۔ جو یہ ہے کہ رات جاگنے کے لئے بنی ہے۔ رات کو جاگا جائے۔ اب روٹین الٹ جائے گی چونکہ رات کو آپ سونے کی بجائے جاگ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ شعوری طور پر نیند کے حواس میں داخل ہو گئے۔ سونے کی حالت میں شعور نیند کے حواس میں داخل نہیں ہوتا۔ صرف لاشعور یعنی نیند کے حواس اپنی حرکت جاری رکھتے ہیں۔ نیند کے حواس غیب کے حواس ہیں۔جب شعوری حواس نیند کے حواس میں داخل ہو جاتے ہیں تو انھیں غیب کا انکشاف ہو جاتا ہے اور غیب ان کے مشاہدے میں آ جاتا ہے۔رات چونکہ نیند کے حواس کی ظاہری صورت ہے اس وجہ سے رات کو عبادت کرنے والا عملی طور غیب میں سفر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جلد کامیابی ہوتی ہے۔

                رات کو جاگنے اور روزے رکھنے سے میرے اندر یہ بہت بڑی تبدیلی آ گئی کہ میرا ذہن اب قرآن کے مفہوم کو بہت تیزی سے اور گہرائی میں اخذ کرنے لگا۔ جس کا مجھے ہمیشہ سے شوق تھا۔ حضرت شیخ احمد کے پانچ اور بھی مرید تھے۔ سارے کے سارے مجھ سے بڑے تھے۔ سب ہی ادھیڑ عمر کے تھے۔ بابا جی ہفتے میں ایک دن اجتماعی لیکچر اور مراقبہ کراتے۔ اس دن ہم لوگ ا پنی اپنی کیفیات و واردات بھی انھیں بتا یا کرتے تھے۔ میری واردات و کیفیات دوسروںسے مختلف ہوتیں۔ پھر میں قرآن کی آیات کو جس طرح سمجھتا  وہ بھی سنا دیا کرتا تھا۔ تا کہ اصلاح ہو سکے۔ ہمیشہ شیخ احمد کے منہ سے سبحان اللہ، ماشاء اللہ کے الفاظ نکلتے۔ میرے باقی ساتھی کبھی کبھار کہہ اُٹھتے۔ ’’حضور ! اس عمر میں انھیں اتنی عبادت کی ضرورت ہی کیا ہے‘‘۔ کبھی کہتے ’’ زیادہ اس طرف پڑ جائو گے تو شادی کے قابل نہ رہو گے ‘‘۔ کبھی کہتے ’’ ارے بھئی ذرا ہولے ہولے قدم رکھو‘‘۔میں ہنس کر بھول جاتا۔ چند دن بعد آفس کی چار دن کی چھٹی تھی۔ شیخ احمد نے مجھے تین دن رات کھجور کی سحری و افطاری کا مسلسل روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی بات کرنے کو بھی منع فرما دیا۔ کہنے لگے یہ حضرت ذکریا علیہ السلام کا روزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین دن مسلسل روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا  اوراس روزے میں بات کرنے سے بھی منع کر دیا تھا۔ اس روزے کے بعد انھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت دی گئی تھی۔ فرمانے لگے تم ہمارے پاس آئو اور تین دن اس کمرے میں ٹھہروــ۔ میں نے گھر میں روزے کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ ممی بہت گھبرا جائیں گی۔ ویسے بھی میں کسی کو اس کے بارے میں بتانا نہیں چاہتا تھا۔اپنی عبادت کا ذکر کرنے سے مجھے بڑی شرم آتی تھی۔

                 میں سوچتا تھا کہ عبادت تو اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ تو ہر کسی پر لازم ہے کہ وہ اپنے رب سے رابطہ قائم کرے۔ اپنی سکت کے مطابق جیسے جی چاہے کرے۔ اس میں کسی کو کیا بتانا۔ شیخ احمد بھی یہی کہتے تھے کہ عبادت و ریاضت چھپا کر کرنی چاہیئے۔ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے ۔ اس میں تیسرے کو کیا دخل ہے۔

                 البتہ ظاہری عبادت اس کے لئے روا ہے۔ شیخ احمد کے مخصوص کمرے میں تین دن کے لئے ٹھہر گیا۔ مجھے اور عبادت کے ساتھ ساتھ کثرت سے یا حیی یا قیوم کا ورد بتایا۔ کمرے کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ روزے سے پہلے شیخ احمد نے میرے اوپر دم کیا مجھے دعا دی اور کمرے میں بند کر دیا۔ ان تین دنوں میں میں نے کوشش کی کہ بالکل نہ سوئوں پہلی رات تو بالکل نیند نہ آئی۔مگر دوسری رات تھوڑی دیر کو نیند میں چلا گیا ۔ تیسری رات بھی بہت تھوڑی دیر کے لئے سو گیا تھا۔ باقی تمام وقت زیادہ تر مراقبہ میں گزرا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں بہت ہی لائیٹ ہو گیا ہوں۔ تیسری رات میرے اندر سے ایک اور سلمان نکلا۔ جو میری ہی طرح کا تھا۔ مگر روشنی کی طرح ہلکا پھلکا تھا۔ وہ نکل کر سیدھا شیخ احمد کی طرف گیا۔وہ سو رہے تھے۔ تھوڑی دیر وہ کھڑا  انھیں عقیدت سے دیکھتا رہا۔ پھر اپنے گھر گیا۔ گھر کے تمام افراد دکھائی دیئے۔ پھر وہ اوپر اُٹھنے لگا۔ اُٹھتے اُٹھتے وہ ایک نورانی عالم میں پہنچ گیا۔ وہاں پر خوبصورت فرش  پر بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔  ان میں میری دادی بھی تھیں۔جیسے ہی اس نے دادی اماں کو دیکھا۔ ایک دم سے لپٹ گیا۔ دونوں ہی بے انتہا خوش تھے۔ دادی اماں نے خوبصورت بلوریں گلاس میں کچھ مشروب پلایا۔اس کا مزہ صحیح طور پر جانے کیا تھا۔ مگر میرے منہ میں مٹھاس سی گھل گئی۔ میں حیران تھا کہ اس نے روزے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ وہ وہاں بیٹھا ہنس ہنس کر باتیں کرتا رہا۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا ۔ یہاں میرا یہ حال تھا کہ میں اسے دیکھ تو رہا تھا۔ مگر اس کی باتیں میری سمجھ میں نہ آئیں۔ میرے اوپر گھمبیر سنجیدگی طاری تھی۔ جسم پر بالکل سکوت تھا۔ بہت دیر تک وہ وہاں بیٹھا ضیافتیں اڑاتا رہا اور میں بت کی طرح ساکت بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ پھر وہ میری طرف آیا اور سر کے راستے سے پورے جسم میں لہروں کی طرح سما گیا۔ اس وقت میں نے گہرا سانس لیا۔

                تین دن کے بعد مغرب کے وقت شیخ احمد نے دروازہ کھولا۔ میں نے ان کے قدم چھولئے۔ انھوں نے مجھے گلے سے لگایا۔دوسرے کمرے میں لے گئے۔ وہاں پیر بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھانے کو بٹھایا۔ کھانے کی بہت سی چیزیں تھیں۔ میں نے تھوڑی سی مونگ کی دال کی کھچڑی آہستہ آہستہ کھائی۔ حلق اندر تک بالکل سوکھ رہا تھا۔ کچھ کھانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ شیخ احمد فرمانے لگے تھوڑی دیر بعد پھر کچھ کھا لینا۔ آہستہ آہستہ طبیعت بحال ہو جائے گی۔ وہ رات اجتماعی مراقبہ کی رات تھی۔تھوڑی دیر میں دوسرے ساتھی بھی جمع ہو گئے۔ میرے اوپر تھوڑی سی نقاہت طاری تھی۔ تین دن خاموش رہنے کے بعد بولنے کو جی بھی نہیں چاہ رہا تھا۔ میرے ساتھی یہ سمجھے کہ میں بیمار ہوں۔مگر شیخ احمد نے انھیں بتایا کہ اس نے تین دن کا روزہ رکھا تھا۔ پھر انھوں نے مجھے اپنی کیفیات بیان کرنے کو کہا۔ میں نے آہستہ آہستہ جسم سے ایک اور جسم نکلنے کی ساری روئداد سن دی۔ فرمانے لگے ’’ یہ لطیف جسم روشنیوں کا جسم ہے۔ جسے جسمِ مثالی کہتے ہیں۔ یہی جسم نیند کی حالت میں غیب میں داخل ہوتا ہے اور غیب میں رہتا بستا ہے۔ مرنے کے بعد ہماری زندگی اسی جسم کی زندگی ہو گی۔ مٹی کے جسم سے ہمیشہ کے لئے اس جسم کا تعلق ٹوٹ جائے گا۔ مرنے کے بعد کا عالم ’’اعراف‘‘ کہلاتا ہے۔ تم نے اعراف کی سیر کی اور اس عالم میں روح کس کس سے ملتی ہے۔ وہ بھی دیکھ لیا۔ یہ موت کا تجربہ ہے۔ روحانیت میں یہ منزل بہت اہمیت رکھتی ہے۔ موت حواس کی تبدیلی کا نام ہے۔روح جب ایک عالم سے دوسرے عالم میں پہنچتی ہے تو اس کے حواس تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسی کو موت کہتے ہیں۔ موت وہ لمحہ ہے۔ جس لمحے ناسوتی حواس غیب کے حواس میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ناسوتی حواس احساس کی لہریں ہیں۔ جب کہ غیب کے حواس احساس سے نا آشنا ہیں۔ موت وہ لمحہ ہے جس لمحے غیب کے حواس میں احساس کی لہریں داخل ہو جاتی ہیں۔ اس لمحے جسمِ مثالی یا روشنیوں کا جسم احساس سے روشناس ہو جاتا ہے‘‘۔ میرے دوسرے ساتھیوں کو بھی اس تجربے کا شوق ہوا۔ کہنے لگے ہم بھی تین دن کا روزہ رکھیں گے۔ مگر شیخ احمد نے یہ کہہ کر انھیں منع کر دیا ابھی نہیں۔ ایک بھائی ضد کرنے لگے کہ کیوں ہم کیوں نہیں رکھ سکتے۔ یہ کیوں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی حجت سے مجھے یہ سب بہت برا لگا۔ بڑا ہی افسوس ہوا۔ شیخ احمد نے نہایت ہی تحمل مزاجی سے انھیں سمجھایا کہ پریشان نہ ہوں۔ انسان کے اپنے اندر کے ایسے ہی سفلی جذبات روحانی راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ روحانی ر استے میں چلنے والے سب بھائی بہن ہوتے ہیں۔ بھائی بھائی کا آپس ؎میں حسد کرنا نہایت ہی بری بات ہے۔ اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔ نہ مرشد کو کہ اس کا تو ٹائم ضائع ہو گیا۔ محنت اکارت ہو گئی اور مرید تو اپنی ہی غلط طرزِ فکر کی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ آئندہ احتیاط رکھیں اور کوشش کریں کہ اس قسم کے واقعات پھر ظہور میں نہ آئیں۔شیخ احمد نے میرے روزے کم کر کے ہفتے میں صرف جمعرات  اور جمعہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ مراقبہ تصور شیخ جاری تھا۔  ڈیڑھ دو ماہ اس طرح گزر گئے۔ ایک دن دفتر سے گھر آتے ہی راحیلہ نے خبر سنائی۔ سلمان بھائی آپ کو پتہ ہے۔آج ہی سیماں پھوپھی کا فون آیا ہے۔ کل نریما کی منگنی ہو رہی ہے۔ میرے اندر جیسے کوئی شیشہ چھن سے ٹوٹ گیا۔ میں نے الفاظ دہرائے منگنی ہو رہی ہے۔ راحیلہ نے کہا۔ جی ہاں ۔ بڑی مشکل سے میں نے کہا ۔ کس سے؟ اس نے کہا کوئی انجینئر ہے۔ سمیع اللہ خان ۔اچھا ،کہہ کر میں اپنے کمرے میں چلا آیا اور بستر پر اوندھے منہ گر گیا۔ کچھ عرصہ پہلے دیکھا ہوا خواب مجھے یاد آگیا۔ میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا میرے اندر ایک شور برپا تھا۔ ایسا کیوں ہوا۔ دل یہ کہتا یہ سب تمہاری لاپروائی کا نتیجہ ہے ۔ میں کہتا مگر میں تو اللہ کی تلاش میں نکلا تھا ۔ اس نے میری خوشیوں کا خیال کیوں نہ رکھا۔ عقل نے سمجھایا بیوقوف تم نے اپنے دل کی بات کسی کو کہی کب ہے؟ کہ وہ تھوڑا عرصہ انتظار کر لیتے ۔ جوان لڑکی گھر میں ہو تو ماں باپ کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ دل نے عقل کی بات مان لی ٹھیک ہے قصور اپنا ہی ہے۔مگر اب میں کیا کروں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی اسی وقت پتہ چلا تھا کہ نریما کی محبت اندر ہی اندر میرے دل کی گہرائیوں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔

                اب میری وہ حالت تھی کہ جیسے کوئی قدم بڑھاتا اور سامنے سے زمین نکل جائے۔ مجھے ہر طرف اندھیرا نظر آتا ہے۔  تھوڑی دیر میں کھانے کے لئے پکارا گیا۔ میں نے بہانہ کر دیاکہ طبیعت خراب ہے۔ یہ سن کر ممی چلی آئیں۔ اس وقت مجھے کسی کا ملنا گوارا نہ تھا۔ میں نے مصنوعی مسکراہٹ سے انھیں ڈھارس دی کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔آج دوپہر آفس میں کچھ زیادہ کھا لیا تھا۔ اس وقت فاقہ کرنا ہی اچھا ہے۔ وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔ اب میرا دل بڑی بے چارگی کے ساتھ یہ دعا کرنے لگا کاش یہ منگنی رک جائے۔ بہرحال وہ  رات بڑی بے چینی میں کٹی۔ کوشش کے باوجود نہ نیند آئی نہ خیال سے نریما کا تصور ہٹا۔ دوسرے دن شام کو گھر والوں نے فون پر منگنی کی مبارک باد دی۔ پھوپھی نے معذرت کی کہ چونکہ اچانک ہی رشتہ طے ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے آپ کو بتا نہ سکے۔ اب شادی کی تاریخ پہلے سے مقرر کر کے سب کو اطلاع دیں گے۔ دن گزرتے رہے دو ہفتے گزر گئے ۔ میں بے خوابی کا مریض بن گیا۔ رات رات بھر منتیں کرتا مگر نیند تو جیسے نریما کے ساتھ ہی روٹھ گئی تھی۔ کیا کروںکیا نہ کروں۔ رات کو زیادہ سے زیادہ وقت مراقبہ کرتا۔ مگر تصور شیخ کی جگہ نریما کا چہرہ ابھر آتا۔

                 پندرہ بیس دن اسی حالت میں گزر گئے۔  میں اپنے دل کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا۔ اجتماعی مراقبہ کی محفل میں جاتا تو وہاں چپ چپ بیٹھا رہتا۔ آخر ایک دن شیخ احمد نے پوچھ ہی لیا۔ سلیمان کیا بات ہے۔ میں نے اداس نظروں کے ساتھ کہا کچھ نہیں وہ چپ ہو گئے۔مگر جب سب چلے گئے تو مجھے ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ بولے اب بتائو۔ میرے تو صبر کے سارے پیمانے توٹ چکے تھے۔ مزید اب گنجائش ہی نہ تھی۔ میں نے ان کی گود میں سر رکھ دیا اور بلک اُٹھا۔حضور مجھے سنبھال لیجئے۔ وہ میرے سر اور پیٹھ کو سہلاتے رہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا ان کے ہاتھوں سے توانائی کی لہریں نکل کر میرے اندر داخل ہو رہی ہیں۔آہستہ آہستہ مجھے سکون آتا چلا گیا ۔ وہ چار پانچ منٹ تک اسی طرح میری بیک (Back)  پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ جب سکون آ گیا تو میں اُٹھ بیٹھا  اور انھیں سارا قصہ سنایا۔ وہ مسکرا دیئے  بولے ’’ بیٹا جب مرید مرشد کا ہاتھ پکڑ کر روحانی راستے پر قدم رکھتا ہے تو مرید کی تعلیم کا ایک نصاب بن جاتا ہے۔ اسی نصاب کے ساتھ مرید روحانی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ روحانی تعلیمات دنیاوی تعلیمات سے مختلف ہیں۔ دنیاوی نصاب کتابوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ جسے پڑھ کر علوم حاصل کئے جاتے ہیں۔ مگر روحانی علوم روشنی ہیں۔ یہ روشنیاں منتقل ہوتی رہتی ہیں پھر آہستہ آہستہ حواس کے دائرے میں ان کو محسوس کیا جاتا ہے۔روحانی نصاب اسمائے الٰہیہ کے علوم کا ایک دائرہ ہے۔ ہر طالبِ علم اپنے اپنے دائرے میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔روحانی راستے پر چلنا یا مرشد کی رہنمائی میں روحانی علوم حاصل کرنے سے مراد یہ ہے کہ مرید مرشد کے ساتھ روحانی طور پر روشنیوں کے اس دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ قدم بڑھاتا ہے ویسے ویسے وہ اس دائرے کے اندر موجود روشنیوں کا ادراک کرتا ہے۔ یعنی اس دائرے کی روشنیاں مرید کے باطن میں جذب ہو جاتی ہیں اور مرید کی صلاحیت بن جاتی ہیں۔ جس بندے سے جہاں کام لینا ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اس کی تیاری ہوتی ہے۔ تم یہ ہر گز بھی نہ بھولو کہ تم روحانی علوم کی روشنیوں کے دائرے میں چل رہے ہو۔ تمہاری زندگی کا ہر لمحہ ان روشنیوں کا ادراک ہے۔روشنیوں کا یہی ادراک تمہاری صلاحیتیں ہیں۔ قدرت نے تمہارے لئے جاگنے کا پروگرام جاری کیا ہے ۔ سونے  اور غافل ہونے کا نہیں۔ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے۔حواس کے دائرے میں جب علم کی روشنی منتقل ہوتی ہے تو اسباب و سائل تخلیق ہوتے ہیں۔شعوراسباب و وسائل کے دائرے میں علوم کی روشنی کو جذب کرتا ہے۔ شعور کا علم کی روشنی کو جذب کرنا انسان کا احسان سے روشناس ہونا ہے یہی عملی زندگی ہے۔ احسان کے دائرے میں یہ روشنیاں اپنا عمل ختم کر کے واپس لاشعور میں لوٹ جاتی ہیں۔ لاشعور علم ہے۔ شعور حواس ہے۔ انسان علم اور حواس دونوں کا مجموعہ ہے۔ مگر علم جب تک حواس کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا آدمی کی صلاحیت نہیں بنتا۔ دوسرے لفظوں میں آدمی خود اپنے باطن کی صفات سے نا واقف رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی طالبِعلم کے اندر مرشد اپنے تصرف سے لاشعوری تحریکات تیز رفتار کر دیتا ہے۔ تا کہ اس کے شعور میں علم کی روشنی زیادہ سے زیادہ جذب ہو ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اسباب وسائل کے دائرے میں دنیاوی تکالیف اورخوشیوں کو بھی محسوس کرتا ہے اور چونکہ وہ روحانی علم کی روشنیوں کے دائرے میں ہے۔ اس وجہ سے اس کے احساس میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء