Topics

غیب


                غیب میں دیکھنے کے لئے یقین ہی تو نگاہ بنتا ہے اگر بچپن سے یقین کا پیٹرن بن جائے تو قلب کی نگاہ بھی کھل جاتی ہے۔ یہ تجربہ تو دادی اماں نے مجھے بچپن سے ہی کرایا تھا۔ وہ جب بھی غیب کی باتیں کرتیں اس طرح کرتیں جیسے سب کچھ سامنے موجود ہے اور اکثر میں ان سب چیزوں کو دیکھ لیا کرتا تھا کبھی اگر نظر نہ آتا تو دادی اماں پر اتنا یقین تھا کہ فوراً ہی مان لیتا کہ یہ سب درست ہے۔ میں اپنے بچے کی پرورش بھی انہیں خطوط پر کرنا چاہتا تھا۔ اس سے بچے کے اندر ادب بھی پیدا ہو رہا تھا۔ وہ گھر کے تمام افراد کے ساتھ نہایت ہی ادب سے بات کرتا اور بات بات پر اللہ میاں کا نام اس طرح لیتا جیسے اسے اس بات کا احساس ہے کہ اللہ میاں آس پاس موجود ہیں۔ ہم نے اسے کلمہ اور چند چھوٹے چھوٹے عربی کے الفاظ و اسم سکھائے ہم زیادہ زور اللہ پاک کی ذات پر یقین رکھنے کی جانب دیتے تا کہ وحدانیت کا شعور بچے کے اندر پہلے پختہ ہو جائے پھر آہستہ آہستہ اسے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے درجات مبارک کے بارے میں بھی بتایا۔ ابھی تو ہم نے اس کے سامنے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا نام اللہ میاں کے دوست کی حیثیت سے لیا تھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میاں کے دوست ہیں اور سب سے اچھے دوست ہیں۔

                چار سال کی عمر میں نعمان اسکول جانے لگا۔ اسے اسکول جاتے ہوئے تقریباً سات آٹھ ماہ ہو گئے تھے اور اب وہ زیادہ اچھی طرح سمجھنے لگا تھا کیونکہ اسکول میں بھی کلمہ شریف وغیرہ پڑھایا جاتا تھا اور اسکول میں اس کے دوست بھی بن گئے تھے۔ اس طرح وہ دوست کا مفہوم جان گیا تھا۔ اب اکثر پوچھتا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے دوست ہیں تو اللہ سے کس طرح ملتے ہیں۔ کیا اللہ میاں کے ساتھ آسمان پر سیر کو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب اسے بالکل صحیح صحیح حقیقت کی باتیں بتاتے کہ اللہ پاک نور ہے۔ یعنی روشنی ہے۔ وہ روشنی کی دنیا میں اپنے دوست کو لے کر جاتے ہیں۔

                میرا نظریہ یہ ہے کہ بچے کو ہمیشہ حقیقت ہی بتانی چاہئے کسی بھی بات کو توڑ مروڑ کر اس طرح پیش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ صرف مفروضہ یا کہانی بن کر رہ جائے اور جب بچہ بڑا ہو اس میں فکشن اور حقیقت کو پرکھنے کی سمجھ آ جائے تب اس کو یہ کہانی یاد آئے تو وہ یہی سوچے گا کہ بڑوں نے کیا فضول باتیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے میرے دماغ میں بھر دیں۔ کیونکہ دماغ تو ایک کمپیوٹر ہے۔ بچے کے کمپیوٹر میں بڑے ہی پروگرامنگ کرتے ہیں بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس کی اسکرین پر اپنے پروگرام کو دیکھ لیتا ہے۔ تو کیوں نہ ہم بچے کے ذہن میں ایسی پروگرامنگ کریں جس سے بچہ بڑا ہو کر خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔ طلسماتی اور فکشن کہانیاں بڑے ہو کر جب بچے کو یاد آتی ہیں تو اس کے ذہن میں بے یقینی کا پیٹرن بنتا ہے۔ وہ اس جھوٹی کہانی کو دہرا کر اسے بھولنے کی کوشش کرتا ہے یعنی اپنے دماغ کے کمپیوٹر سے بزرگوں کے فیڈ کئے ہوئے پروگرام کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ بچپن میں چونکہ ذہن صاف ہوتا ہے اس لئے نقش بھی گہرا ہوتا ہے۔ اسے مٹانے کی کوشش میں بار بار یہ نقش آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور آپ اسے دہرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیوں نہ ایسی بات لوگوں میں دہرائی جائے جو حقیقت ہو۔ جسے بچہ فخر سے ہر ایک کے سامنے بیان کرے کہ جب میں چھوٹا تھا تو میری دادی نے یوں کہا تھا ، میری ماں نے یوں کہا تھا اور آج مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ کتنا سچ کہا کرتی تھیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر فطرت کے اصولوں پر بچے کی نشوونما کریں اور اسے ہر شئے کے اندر کام کرنے والی فطرت سے متعارف کرائیں تو بچے کی صحیح طرز فکر بن جائے گی۔

                عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے نہیں سمجھے گا۔ یہ سوچ کر اسے غلط سا فرضی باتیں سنا کر چپ کر دیتے ہیں۔ ہم حقیقت کو فرضی لباس کی بجائے سادے لباس میں بھی تو پیش کر سکتے ہیں۔ خواہ بچہ اس وقت پوری طرح نہ سمجھے مگر عقل کے ساتھ ساتھ اس پر اس کے صحیح مفہوم تو کھلتے جائیں گے۔ اگر ہم بچے سے یہ بات کہتے ہیں کہ دیکھو اللہ تمہارے سامنے ہے تو اللہ بھی تو یہی کہہ رہا ہے کہ میں تم سے تمہاری رگِ گلو سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے بچپن سے ہی بچے کو اللہ پاک کی حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ اب کیسے ہو سکتا ہے کہ بچے کے ذہن میں یقین کا پیٹرن نہ بنے اور اس کے اندر مشاہداتی آنکھ نہ کھلے۔ اپنے بچے کی ان خطوط پر پرورش کرتے وقت ہر لمحے میرا ذہن دادی اماں کی جانب رہتا گویا میں دادی اماں کے فیڈ کردہ پروگرام پر عمل کر رہا ہوں۔

                ان ہی دنوں ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں اخبار ہے جس کے سر ورق پر دادی اماں کی بہت بڑی سی رنگین تصویر ہے۔ تصویر میں وہ جوان اور بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔ ان کے سر پر ٹوپی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا سا کالم ان کی خبر سے متعلق لکھا تھا۔ پورے سر ورق پر بس یہی ایک خبر ہے۔ میں بے حد خوشی خوشی اخبار لے کر دوڑتا ہوا گھر کے اندر آتا ہوں اور زور زور سے گھر کے ہر ہر فرد کو بتاتا ہوں کہ دیکھو! یہ کتنی بڑی خبر دادی اماں کی چھپی ہے۔ یہ خبر ہے ہی اتنی اہم جبھی تو سر ورق پر دادی اماں کی تصویر کے ساتھ چھپی ہے۔ اگر انہوں نے یہ خبر سرورق پر نہ چھاپی ہوتی تو مجھے ان سے سخت شکایت ہوتی۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اسی وقت آنکھ کھل گئی۔ فوراً ہی دماغ میں آواز آئی ’’اللہ کے سلام کے ساتھ اور حدود کامل کے ساتھ تمہاری دادی اماں کو ولیوں کے درجے میں رکھا گیا ہے۔‘‘ یہ بات تین مرتبہ دہرائی گئی۔ صبح اٹھ کر میں نے یہ خواب گھر کے تمام افراد کو سنایا۔ پاپا تو سن کر رونے لگے امی نے اسی وقت کچھ کھانا وغیرہ پکایا اور یتیم خانے میں بھجوا دیا۔ میں نے نفل نماز پڑھ کر ان کے لئے دعا کی کہ اللہ پاک ان کے درجات کو اور زیادہ بلند فرمائے۔

                ایک مرتبہ محفل مراقبہ کے بعد شیخ احمد نے سلسلے کے تمام افراد کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ آج سے آپ لوگ روزانہ اپنے ہاتھ سے پانچ روپے کسی غریب کو خیرات دیا کریں گے۔ اس وقت تو کوئی کچھ نہ بولا مگر ان کے اٹھنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اتنی مہنگائی میں سب لوگوں کا پانچ روپیہ روز خیرات دینا کیسے ممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا یہ سب تو بعد کی باتیں ہیں۔ ہمارے لئے تو صرف حکم کی اہمیت ہونی چاہئے خواہ کسی طرح بھی تعمیل کرنی پڑے۔ حکم کی تعمیل میں چون و چرا کہاں ہے بہرحال کئی لوگوں کے اوپر اس حکم سے ناگواری اور بے یقینی کے تاثرات قائم ہو گئے۔ تقریباً تین چار ہفتے گزر گئے۔

                ایک دن جب سب لوگ جمع تھے۔ شیخ احمد نے پوچھا میں نے آپ لوگوں سے کہا تھا کہ روزانہ اپنے ہاتھ سے پانچ روپے خیرات کرنا ہے۔ مجھے بتائیں کہ کون کون اس پر عمل کر رہا ہے۔ سات لوگ ایسے تھے جو دو تین بار دے کر چپ بیٹھ گئے تھے حالانکہ ان سے زیادہ غریب لوگ مستقل دے رہے تھے۔ شیخ احمد نے وجہ دریافت کی تو مالی پریشانی کا ذکرکیا۔ اب شیخ احمد نے غریب سے دریافت کیا۔ وہ کہنے لگا میرے لئے تو صرف آپ کے حکم کی اہمیت ہے۔ میں نے بہرحال اس پر عمل کیا تو میرے وسائل میں وسعت آ گئی اور خود بخود آمدنی میں اضافہ ہو گیا۔ ایسی جگہوں سے وسائل پیدا ہوئے جہاں میرا خیال بھی نہ جا سکتا تھا۔ اب تو میں ایسا ہی کروں گا اور اس عمل کو مستقل کرنے کا ارادہ ہے۔ شیخ احمد نے دوسروں سے فرمایا۔ تمہارے حالات تو ان سے بہتر تھے اگر تم کچھ عرصے تعمیل حکم میں لگے رہتے اور اپنے دل میں شکوک و شبہات نہ لاتے تو کیا اللہ پاک تمہارے وسائل بھی وسیع نہ کر دیتا۔

                شیخ احمد کو اس بات سے سخت غصہ تھا کہ بعض لوگ مرشد تو کہتے ہیں مگر اطاعت نہیں کرتے۔ صرف زبان سے کہہ دینا کیا حکم پر عمل کرنے کے برابر ہے۔ یہ تو سراسر نا انصافی ہے۔ میں نے ایک بات کہی آپ نے نہیں مانی۔ اس کاکیا مطلب ہوا۔ شیخ احمد نے فرمایا۔ اگر مرشد کے حکم پر مرید کے ذہن میں نتائج کا خیال آ گیا تو یہ خیال نافرمانی کے دائرے میں شما رہو گا۔

                اس واقعہ سے میں یہ غور کرنے لگا کہ روحانیت کے راستے پر اچھے بھلے چلتے چلتے لوگوں کے ذہن میں شک کیوں آ جاتا ہے۔ غور کرنے پر یہ بات سمجھ میں آئی کہ لوگوں کی طرز فکر بدلنا بے حد مشکل کام ہے۔ بچپن کے نقوش طرز فکر بناتے ہیں۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا شعور ایک نقطہ سے شروع ہوتا ہے۔ اب یہ نقطہ آہستہ آہستہ نشوونما پاتا ہے تقریباً بارہ برس کی عمر تک شعور اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بچہ اپنے ذہن سے کام لیتا ہے۔ بچپن سے بارہ برس کی عمر تک بچے کا ذہن ایک کورا کاغذ ہوتا ہے۔ کورے کاغذ پر جو نقش بنتا ہے وہ ذہن کا اولین نقش ہے۔ ذہن کے اولین نقوش آدمی کی طرز فکر بن جاتے ہیں۔ یہ نقوش فکر و خیال Baseبن جاتی ہے جس پر ذہن کے تمام خیال اپنی عمارت بناتے ہیں۔ ذہن کے ان نقوش کو مٹانے سے مراد یہ ہے کہ تفکر کی بنیاد بدل دینا اور بنیاد بھی اس طرح بدلنا کہ ان پر بنائی ہوئی عمارت تباہ و برباد ہونے کی بجائے ان کی دیواروں اور چھتوں و دروازوں پر نیا روغن کر دیا جائے تا کہ عمارت بدلی ہوئی لگے تا کہ نئے اور پرانے نظریات کا فرق معلوم ہو جائے کیونکہ بڑے ہو کر شعور کے نقوش مدھم ہو جاتے ہیں مگر مٹتے نہیں ہیں۔ ان مدھم نقوش پر نئے نقوش جب تک گہرے نہ ہوں ذہن کی نظر دونوں نقوش پر پڑتی رہتی ہے اور یہی شک وسوسے کی بنیاد ہے۔ مرشد اپنی وقت تصرف سے مرید کے ذہن کے باطل نظریات مٹاتا جاتا ہے اور ہر باطل نقش کے اوپر صحیح نقش بناتا جاتا ہے مگر مرید اپنے شک کی وجہ سے ان تمام کوششوں کو رائیگاں بنا دیتا ہے۔ شک اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ مرید شیخ کے کاموں میں اپنے ذہن سے سوچتا ہے۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ مرشد کے سامنے مرید کو اس طرح ہونا چاہئے جیسے غسال کے ہاتھوں میں مردہ۔


 


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء