Topics

خیال کی رو


                شیخ احمد نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ہمارے دماغ میں خیال کی دو رو چلتی ہیں۔ ایک رو میں خیالات کا عکس واضح روشن اور صاف ہوتا ہے۔ یہ پازیٹیو خیال ہے۔ دوسری رو میں خیال کا عکس غیر واضح مدھم اور تاریک ہوتا ہے۔ یہ نیگیٹیو خیال ہے۔ پازیٹیو رو دماغ کی کلاک وائز گردش دیتی ہے۔ نیگیٹیو رو دماغ کو اینٹی کلاک وائز گردش میں متحرک کر دیتی ہے۔ دماغ جس رخ میں گردش میں گردش کرتا ہے ذہن کی اسکرین پر اسی رخ کے مناظر و تصاویر آتی جاتی ہیں۔ جب آدمی ایک ہی رخ میں بہت عرصے تک سوچتا رہتا ہے تو ذہن کی یہ گردش پکی ہو جاتی ہے اور یہی پکا طرز فکر کہلاتا ہے۔ میں سوچنے لگا جو لوگ مرشد کے حکم میں اپنا ذہن مخالف طور پر چلاتے ہیں وہ مرشد سے محبت کا دعویٰ کس طرح کر سکتے ہیں۔ محبت تو خود سپردگی کا نام ہے۔ قبض اور بسط کی کیفیات بھی ذہن کی انہی دونوں گردشوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ نیگیٹیو خیالات ہر اچھے خیال کو ذہن میں آنے سے روکتے ہیں۔ اچھا خیال روشنی ہے اور روشنی انرجی ہے۔ انرجی سے محروم دماغ اپنے آپ کو ہر طرف سے جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہی صورتحال قبض کی کیفیات ہیں۔ اس کے برخلاف پازیٹیو خیال دماغ کی انرجی ہے۔ انرجی ملنے پر فکر کی روشنی دور دور تک پھیل جاتی ہے اور ذہن و دل کی آنکھ اس روشنی میں صاف اور واضح تصاویر دیکھتی ہے۔ یہی بسط کی حالت ہے جو آزاد فکر ہے۔ میرا ذہن اب تمام چیزوں کو خوب اچھی طرح سمجھنے لگا۔ جیسے جیسے میری سمجھ اس راستے پر بڑھتی جاتی۔ مرشد کے اپنے اندر تصرفات اور روحانی کاموں کا اندازہ ہو تا جاتا اور پہلے سے زیادہ ادب و احترام اور محبت کا احساس ہوتا۔ میرا جی چاہتا میں مرشد کے کاموں میں ان کا معاون و مددگار بن جائوں۔ وہ مجھ سے آرام پائیں۔ محبت و احساس کا یہی جذبہ دن بدن مجھے مرشد کی ذات سے قریب کرتا گیا۔ مجھ یوں لگتا جیسے میرا دل مرشد کے خیال کی گزرگاہ ہے۔ جو خیال مرشد کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے وہ خیال میرے دل کی راہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مجھے اپنی سانسوں میں مرشد کی سانسوں کا احساس ہوتا، مجھے یوں لگتا جیسے یک جان دو قالب کی مانند میری اور مرشد دونوں کی روحیں ایک ہیں۔ اپنی ان کیفیات کا تذکرہ جب شیخ احمد سے کیا تو وہ فرمانے لگے۔ حقیقت محمدیﷺ کے دائرے میں ساری کائنات میں ایک ہی روح کام کر رہی ہے۔ یہ روح تجلی ذات کا شعور ہے۔ جو روح اعظم کہلاتی ہے۔ جب مرید کے اندر روح اعظم کا شعور متحرک ہو جاتا ہے تو وہ مرشد کے اندر متحرک روح اعظم کے شعور سے مل جاتا ہے۔ اس طرح ذات کی قربت کا احساس ہوتا ہے کیونکہ ذات تو باری تعالیٰ کی تجلی ہے اور یہ تجلی ہی کائنات کی Baseہے۔

                مئی کا مہینہ تھا میں آفس میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ پاپا بول رہے تھے۔ کہنے لگے تم جتنی جلد ہو سکے گھر آ جائو۔ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ راحیلہ کی خالہ کا زبردست ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ملتان روڈ پر یہ لوگ جا رہے تھے۔ گاڑی ان کی نند چلا رہی تھیں۔ نند کے بچے اور راحیلہ کی خالہ کے بچے سب گاڑی میں تھے۔ نند کی دس سالہ بچی کا موقع پر ہی انتقال ہو گیا ہے۔ یہ ایکسیڈنٹ دو گھنٹے پہلے ہوا تھا۔ فوری طبی امداد کے بعد اب انہیں کراچی لایا جا رہا ہے۔ خبر سن کر میں سخت پریشان ہو گیا۔ چچی کا خاص خیال آ رہا تھا کیونکہ دونوں بہنوں میں بہت محبت تھی۔ فرزانہ خالہ تھیں بھی بہت اچھی اور ابھی تو وہ بالکل نوجوان تھیں۔ چھوٹے چھوٹے دو بچے تھے۔ ایک لڑکا ڈیڑھ سال کا تھا۔ لڑکی ساڑھے چار سال کی تھی۔

                اس وقت ساڑھے تین بجے تھے۔ میں نے منیجر کو فون کیا کہ فوری طور پر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فوراً مجھے کمرے میں بلا لیا۔ انہیں صورتحال سے آگاہ کر کے ان سے اجازت لی اور گھر آیا تو سارے فرزانہ خالہ کے منتظر تھے۔ یہ تو پتہ تھا کہ بہت سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ہے مگر اور زیادہ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ آدھے گھنٹے بعد ایمبولینس آ کر رکی۔ انہیں ہوائی جہاز سے لایا گیا تھافوراً ہی دونوں بچوں کو گھر اتارا گیا اور ایمبولینس نہایت تیزی سے اسپتال کی جانب روانہ ہوئی۔ ایمبولینس میں ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی تھے۔ ہم سب اپنی اپنی گاڑیوں میں ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ ممی، راحیلہ اور ثمینہ گھر پر دونوں بچوں کے ساتھ رک گئیں۔ نریما بھی گھر پر تھی۔ فرزانہ خالہ کے دونوں بچوں کو معمولی خراشیں تھیں۔ ٹھیک ٹھاک تھے۔ مگر خود وہ بہت زیادہ زخمی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے ڈاکٹروں کے مشورے سے انہیں کراچی لایا گیا تھا۔

                ہسپتال جاتے ہی ان کا ایمرجنسی آپریشن ہوا۔ انہیں اسپیشل یونٹ میں رکھا گیا۔ ان کی پانچ پسلیوں میں کریک آ گیا تھا۔ لیور کا ایک حصہ کٹ گیا تھا اور بھی کئی چیزیں متاثر تھیں۔ بہت سیریس حالت تھی۔ ہمارے لئے سوائے دعا کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ ان کے شوہر نے بتایا کہ ان کی بہن گاڑی چلا رہی تھیں۔ یہ سب مل کر اپنی دوست کی شادی میں جا رہے تھے۔ وہاں پر تین دن ٹھہرنے کا پروگرام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرزانہ خالہ کے شوہر نہ گئے۔ ملتان روڈ پر گاڑی تیز رفتار تھی کہ سامنے سے دوسری بڑی وین آ گئی۔ اس کو بچانے کے لئے سڑک کے کنارے والی سائیڈ پر تیزی سے موڑی تو سڑک کا کنارہ بہت نیچا تھا۔ گاڑی دو قلابازیاں لگا کر رک گئی۔ اس قلابازی کی وجہ سے نند کی بیٹی کا سر دو تین بار بری طرح چھت سے ٹکرایا اور فرزانہ خالہ سخت زخمی ہو گئیں۔ خالہ کے دونوں بچے دروازہ خود بخود کھلنے کی وجہ سے باہر گر پڑے۔ نند ٹھیک تھیں۔ انہوں نے اتر کر لوگوں کی مدد سے سب کو ہسپتال پہنچایا۔ مگر اس کی اپنی بیٹی راستے میں ہی فوت ہو گئی۔ دو دن تک انہیں اسپیشل یونٹ میں رکھنے کے بعد کمرے میں لے آئے۔ ان کی حالت ابھی بھی کافی تشویشناک تھی۔ سب نے ان کے کمرے میں رہنے کے لئے ڈیوٹیاں بانٹی تھیں تا کہ کسی ایک کے ذہن پر زیادہ دبائو نہ پڑے۔ زیادہ تر ان کے پاس چچی اور فرزانہ خالہ کے شوہر رہتے۔ ہم لوگ اپنے اپنے وقت میں ایک دو گھنٹے رک کر آ جاتے۔ دس دن تک وہ ہسپتال میں رہیں۔ پسلیوں کے کریک ہونے کی وجہ سے وہ ہل بھی نہیں سکتی تھیں اور لیور کٹنے کی وجہ سے ان کے آگے پیچھے سے کافی بڑے بڑے آپریشن ہوئے تھے۔

                دس دن کمرے میں رکھنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا اب آپ انہیں گھر لے جائیں۔ اب انہیں صرف آرام کی ضرورت ہے چونکہ خالہ ملتان میں رہتی تھیں۔ ہم انہیں اپنے گھر لے آئے۔ ان کے لئے ایک کمرہ پہلے ہی تیار کر لیا تھا۔ شام کو اڑوس پڑوس کی کچھ عورتیں بھی انہیں دیکھنے آ گئیں۔ بیٹھ تو وہ سکتی نہیں تھیں۔ لیٹے لیٹے تھوڑی باتیں کرتی رہیں۔ رات کو ان کے کمرے میں چچی سوئیں۔

                رات کے تقریباً چار بجے تھے کہ راحیلہ نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا میں فوراً اٹھا تو اس نے گھبرا کر کہا کہ خالہ کے شدید تکلیف ہے انہیں ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ساری دوائیاں دے چکے ہیں جبکہ ڈبل ڈوز دے دیا ہے۔ آدھے گھنٹے سے وہ تکلیف میں ہیں۔ آرام نہیں آ رہا۔ پھر اب چچی نے سب کو جگایا۔ میں کمرے میں آیا تو وہ بری طرح کراہ رہی تھیں۔ میں نے فوراً سب سے کہا کہ آپ سب کمرے سے باہر چلے جائیں اور دروازہ بند کر دیں۔ سب فوراً چلے گئے۔ اب میں نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور گہری آواز میں آہستہ آہستہ کہا خالہ اپنی توجہ صرف میری طرف رکھیں۔ صرف چند منٹ میں آپ کا ورد ختم ہو جائے گا میری آنکھوں میں دیکھیں آپ عرش کے نیچے ہیں۔ میرے ہاتھ کے ذریعے سے عرش کا نور آپ کی پیشانی میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ نور آپ کے دماغ میں ذخیرہ ہو رہا ہے۔ اب یہ نور آپ کے دل اور سینے میں پھیل گیا ہے۔ آپ کا ورد بالکل ختم ہو گیا ہے آپ کو نیند آ گئی ہے۔ آپ گہری نیند سو رہی ہیں۔ اس سارے عمل میں صرف چار منٹ لگے خالہ گہری نیند سو چکی تھیں۔ ان کی گہری گہری سانسوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے ایک دو منٹ تک اپنا ہاتھ رکھا اور انہیں کہا کہ اب آپ چار گھنٹے تک سوتی رہیں گی۔ پھر آہستہ سے ان کے بیڈ سے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ سارا گھر سہما ہوا تھا ، سب نے ایک نظر کمرے میں جھانکا۔ میں نے اشارے سے سب کو کہا کہ کمرہ بند کر دیں اور پھر ہم دوسرے کمرے میں جو بالکل سامنے ہی تھا وہاں گئے۔ یہ ڈرائنگ روم تھا میز کے اطراف سارے بیٹھ گئے۔ تقریباً سب ہی رو رہے تھے۔ میں نے سب کو تسلی دی کہ بیڈ تبدیل ہونے کی وجہ سے اور لوگوں کی ملاقات کی وجہ سے ان کے آرام میں خلل پڑا تھا۔ اب وزیٹر بالکل بند کر دیں اب یہ سوتی رہیں گی۔ چند دن تک ہم انہیں سلا کر رکھیں گے تو ان کے زخم جلد بھر جائیں گے۔

                چچی بار بار میرا ہاتھ پکڑ کر رو رو کر کہہ رہی تھیں۔ ’’سلمان اس وقت تم نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔ اتنی رات میں ڈاکٹر بھی جلدی نہ آتا۔‘‘ میں نے چچی کو تسلی دی اور کہا کہ ’’آج میں آفس سے چھٹی کر لیتا ہوں آپ ذرا نہ گھبرائیں۔ بس صرف انہیں آرام کی ضرورت ہے گھر میں بالکل خاموشی رکھیں۔ زیادہ لوگوں کو ان کے کمرے میں نہ جانے دیں۔ اب میں خود آج ان کی پوری طرح دیکھ بھال کروں گا۔‘‘ وہ خوش ہو گئیں۔ ہم سب ڈرائنگ روم میں ہی کرسیوں پر بیٹھے رہے۔ نریما اور ثمینہ نے ناشتہ لگایا۔

                خالہ کے کمرے کا دروازہ بالکل سامنے تھا۔ دروازہ بند تھا انہیں سوئے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ ابھی میں پلیٹ سے نوالہ اٹھا کر منہ تک لایا ہی تھا کہ مجھے دکھائی دیا خالہ جاگ گئی ہیں۔ بس میں تیر کی طرح نوالہ پلیٹ میں رکھ کر دروازے کی جانب بھاگا۔ سب لوگ وہیں بھونچکے بیٹھے تھے۔ کمرے میں آیا تو خالہ نے آنکھیں کھولیں، کہا کہ مجھے ٹوائیلٹ جانا ہے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا فوراً چچی کمرے میں آئیں اور انہیں بیڈ پین دیا۔ میں نے باہر آ کر نریما سے کہا جلدی سے دودھ گرم کر کے ایک چمچہ شہد ملا کر لائو۔ پھر میں نے سب سے کہا کہ دراصل میں نے انہیں چار گھنٹے کی نیند کے لئے ہپناٹائز کیا تھا۔ یہ دو(۲)گھنٹے بعد جاگ گئیں اس وجہ سے مجھے تشویش تھی مگر اس کی وجہ معلوم ہو گئی تو اطمینان ہو گیا ہے۔ اب فوراً انہیں دودھ پلا کر اسی طرح سلا دیا۔ اب کے سے وہ پورے چار گھنٹے گہری نیند سوتی رہیں۔ پھر اٹھیں گرم دودھ شہد ملا کر پلایا۔ پھر سلا دیا سارا دن میں اسی طرح کرتا رہا۔ چار گھنٹے بعد اٹھا کر بیڈ پین دے کر دودھ پلا کر سلا دیتے ۔ وہ دن اور رات آرام سے گزر گئی بلکہ رات کو ساری رات ہی تقریباً سوئیں۔ صبح چھ بجے اٹھیں تو کافی فریش تھیں۔ کہنے لگیں۔ اب درد بھی معمولی ہے، پھر وہ جاگتی رہیں۔

                مجھے آفس جانا تھا، ساڑھے آٹھ بجے میں نے سوچا جبھی انہیں سلا کر چلا جائوں گا۔ چچی تو اب بھی گھبرا رہی تھیں۔ بولیں سلمان بیٹے آج بھی آفس نہ جائو مگر مجھے کافی کام تھا۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ میں دس منٹ میں تو گھر پہنچ جاتا ہوں۔ ویسے بھی اب انشاء اللہ یہ ٹھیک رہیں گی بس انہیں سونے دیں۔ ان سے باتیں کریں نہ انہیں بلائیں جلائیں۔ میں شام کو جلدی گھر آ جائوں گا۔ میں تین بجے گھر آیا تو وہ جاگ رہیں تھیں، تکلیف تو تھی مگر ویسی شدت نہ تھی۔ انہیں جاگے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ انہیں شہد اور دودھ پلا دیا گیا۔ اب پھر میں نے انہیں اسی طرح سلا دیا ۔ دو دن تک ہم انہیں ڈاکٹر کی گولی دیتے رہے اور میں ان پر اپنا تصرف کر رہا تھا۔ پھر تیسرے دن میں نے انہیں عملِ تنویم سکھا دیا کہ اس طرح خود ہی سو جایا کریں اور میں اپنے کام پر لگ گیا۔

                چوتھے دن سے انہوں نے ڈاکٹر کی گولیاں بھی بند کر دیں کہ یہ تو صرف درد کم کرنے والی ہیں میں تو ویسے ہی سو جاتی ہوں۔ اب کیا ضرورت ہے۔ اس طرح ایک ہفتہ بعد وہ اٹھ کر بیٹھنے کے قابل ہو گئیں اور نویں دن سے چچی کی مدد سے ٹوائلٹ میں بھی جانا شروع کردیا اور اب آہستہ آہستہ کھچڑی، سوپ وغیرہ زود ہضم غذا دینے لگے۔ دس دن بعد ڈاکٹر نے ہسپتال بلایا تھا وہ خود ہی آرام سے گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ ڈاکٹر ان کی تسلی بخش حالت دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ کونسی دوا لے رہی ہیں۔ کیا کر رہی ہیں۔ یہی پوچھتا رہا۔ ہم نے اسے نہیں بتایا کہ چار دن بعد سے دوا لینی بند کر دی ہے۔ میں نے منع کر دیا تھا کہ خواہ مخواہ ڈرا دے گا کہ بغیر دوا کے یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ خواہ مخواہ ذہن میں شک پڑ جائے گا۔ ہمیں تندرستی سے مطلب ہے چاہے جس طریق پر ہو۔

                پندرہ دن بعد محلے میں ایک شادی ہوئی۔ خالہ کہنے لگیں میں گھر میں سخت بور ہو گئی ہوں، میں بھی جائوں گی۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ساڑھی باندھ کر میک اپ وغیرہ کر کے خوب اچھی تیار ہوئیں۔ شام کو گھر آیا۔ خالہ کو دیکھ کر ایسی خوشی ہوئی شکل و صورت تو ویسے ہی ان کی بہت اچھی تھی۔ اب تو لگتا ہی نہ تھا کہ وہ کبھی بیمار بھی رہی ہیں۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب شیخ احمد مری گئے ہوئے تھے۔ کالہ کے ایکسیڈنٹ پر دوسرے دن انہیں میں نے فون پر دعا کے لئے کہہ دیا تھا۔ مجھے تسلی تھی کہ حضور کی توجہ سے وہ ضرور صحت یاب ہو جائیں گی۔ خالہ ایک ماہ ہمارے یہاں رہیں۔ ان کے جانے سے پہلے شیخ احمد بھی کراچی آ گئے۔ گھر آئے تو میرے کہنے سے پہلے چچی نے انہیں ساری داستان سنا ڈالی۔ میں نے کہا، حضور میرے آئینے میں آپ ہی کی تصویر ہے۔


 


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء