Topics

مقصد تخلیق


                ایک مجلس میں شیخ احمد نے فرمایا۔ ذات باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تخلیق اس وجہ سے کی ہے تا کہ اس کے بندے ذاتِ خالق کو اس کی تمام تر صفات اور کمالات کے ساتھ پہچان لیں اور یہی کمالات و صفات اور شعائر اللہ تعالیٰ کے وہ اسماء ہیں جن کے علوم آدم کو عطا کئے گئے ہیں۔ یہ اللہ پاک کے وہ خزانے ہیں جن کے ساتھ وہ آپ کی محبت و تلاش میں اس طرح گم ہو جاتا ہے کہ خود ذات اس کا ادراک بن جاتی ہے۔ مگر اس طرح آدم کو خلیفۃ اللہ کہنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک نے آدم کو اسمائے الٰہیہ کے علوم اس وجہ سے دئیے تا کہ آدم کائنات کی دوسری مخلوق کے سامنے اس کے عطا کردہ علوم و صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے اور زمین پر اللہ پاک کی پاکی اور عظمت بیان کرے تا کہ مخلوق اپنے رب کو پہچان جائے۔ جیسا اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن  اور تمام آسمانی کتابوں میں جتنے بھی پیغمبران علیہ السلام کے تذکرے آ چکے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی پیغمبر مجذوب نہ تھا۔ بلکہ تمام پیغمبروں کی یہی تعلیم رہی ہے کہ اپنی روح کا عرفان حاصل کرو۔ روح ہی تمہارا اصل نفس ہے ۔ جس کا رابطہ براہِ راست اللہ پاک سے ہے۔ اگر تمہاری روح تمہارے سامنے آ گئی تو تم اس رابطے کو بھی دیکھ لو گے جس کے ذریعے روح اپنے رب سے منسلک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی اس لائق ہے کہ اس کی تعریف بیان کی جائے۔ اس نے اپنی مخلوق میں سے آدم کو چن لیا ہے کہ آدم اس کی صفات کو دیکھ کر اس کی ذات میں اس کی تعریف بیان کرے اور وہ ذاتِ حق اپنی عطا و کرم کے ساتھ آدم کو نوازتا رہے۔مرشد بھی نہیں چاہتا کہ اس کا مرید مجذوب ہو جائے کیونکہ اس طرح وہ عطا کردہ علوم سے عام لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

                 شیخ احمد کی تقریر سن کر میں اندر ہی اندر اپنے خیال کی کمزوری پر پشیمان تھا اور شیخ احمد کا شکر گزار تھا کہ انہوں  نے بروقت میری اصلاح فرمائی۔ دل کہنے لگا میرے لئے تو سب کچھ وہی ہیں۔ انہیں کے ساغر کی چھلکتی شراب نے میرے ہاتھوں کو بڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہیں کی شراب کے خمار نے مجھے میخانے میں مد مست کر دیا ہے کبھی نظر سا غرکی رنگینی کو دیکھتی ہے اور کبھی نگاہ شراب کی مستی میں ڈوب جاتی ہے۔ وہ شرابِ معرفت کا میخانہ ہیں اور میں بادہ رنگین کا میخوار ہوں۔ نہ میخانہ کبھی خالی ہو گا نہ میخوار کبھی سیر ہو گا۔ دونوں کی نگاہ ایک دوسرے پر ہے۔

لاپلا دے ساقیا پیمانہ پیمانے کے بعد

عقل کی باتیں کروں گا ہوش آ جانے کے بعد

                عجیب بات ہے معرفت کی اس رنگین شراب میں آج سارا عالم ڈوبا دکھائی دیتا ہے۔ میرے اندر کا رند پکار پکار کے کہتا ہے یہ کیسی بات ہے کہ شراب تو میں نے پی ہے اور سارا میخانہ مستی میں بہکا ہوا ہے۔ میرے گھر کا ہر فرد کیف و بے خودی کی باتیں کرتا ہے۔ نریما آسمان سے اتری اپسرا کا روپ ہے اور ننھا نعمان وہ تو بھولی بھالی فطرت کی ہو بہو تصویر ہے۔ کس کس سے نظر ملائوں۔ کس کس پر جان دوں۔ اے جانِ عالم !یہ کائنات تیری جان ہے۔ اے نرگسِ مستانہ ! تو عاشق کی نظر ہے۔ تیری ہر نگاہ کائنات کے ذرے ذرے میں اپنے محبوب کا نظارہ کرتی ہے۔ یہ راز میں نے خود عاشق بن کے پا لیا ہے۔ آج میں فطرت کا عاشق ہوں۔ وہ فطرت جو ذرے ذرے کے اندر جان بن کر سمائی ہوئی دکھائی دے۔ ان کے ہاتھ میں رنگ کا ڈبہ تھا اور وہ دریا کی تہہ میں یہ رنگ انڈیل رہی تھیں۔ دریا کے پانی میں ان کے انڈیلے ہوئے رنگ جذب ہوتے جارہے تھے۔ میرے وجود کا پیرہن ان کے رنگوں میں رنگ گیا۔ میرا انگ انگ کھِل اٹھا۔

                 ان دنوں میرا عجیب حال تھا۔  مجھے یوں لگتا جیسے میں نے ایسا چشمہ پہن رکھا ہے جس سے دیکھنے پر نظر ہر شئے کے باطن میں پہنچ جاتی ہے۔ جس شئے کی طرف نظر جاتی یوں لگتا جیسے وہ شئے مٹی کی نہیں بلکہ نور کی بنی ہے۔ میں گھبرا کے اپنی نگاہ نیچی کر لیتا۔ میرا منا میرا ننھا نعمان جیسے نور کا حسین شاہکار ، میری خوشی، میری تمنا نریما جیسے عالم ِ نور کی ڈھلی ہوئی مورتی اور ایک دن جب میں کمرے میں تنہا تھا۔ اس دن تو حد ہو گئی۔ کام کرتے کرتے اچانک زمین کی طرف نظر گئی۔ ساری زمین نور اللہ ہے۔ اب میں کبھی گھبرا کے اپنا پائوں زمین سے اوپر اٹھاتا ہوں تو دوسرا پائوں نور پر دکھائی دیتا ہے۔ اب اس کو اٹھاتا ہوں تو پہلا پائوں زمین پر رکھنا پڑتا ہے۔ مجھے بے ادبی کا شدید احساس تھا۔ اب گھبرا کے میں نے پاس ہی کرسی پر اپنے آپ کو پھینک دیا کیونکہ میری تمام حرکات شدید طور پر اضطراری تھیں۔ دل سے آواز آئی کرسی جس پر تم بیٹھے ہو وہ بھی تو اللہ کے نور پر ہے۔ میں اس آواز پر اچھل کر ایک دم میز پر چڑھ گیا۔ اب پھر آ واز آئی کیا میز اللہ کے نور پر نہیں ہے؟ بس یہ سننا تھا کہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے رو کر کہا تو پھر میں کہاں جائوں اور اس کے ساتھ ہی میرے لبوں پر مرشد کا نام آ گیا۔ دل کی آواز آئی۔ اپنی ہمت سے باہر قدم نکالو۔میں اب آہستہ آہستہ نیچے اترا ۔ میرے اندر اضطراری کیفیات میں ٹھہرائو آگیا۔ میں آرام سے فرش پر اس طرح کھڑا ہوا جیسے فرش شیشے کا ہے ٹوٹ نہ جائے اور نہایت ہی ادب سے میں نے ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض گزاشت کی:یا رب العالمین بلاشبہ تیرا نور کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے اور تیرا نور ہی ہر شئے کی اصل ہے۔کائنات کی کوئی شئے تیرے نور سے باہر نہیں نکل سکتی۔ پس مجھے ہمت و استقامت عطا فرما کہ میں تیرے نور کی تعظیم اس طرح کر سکوں جیسا تیرے نور کی تعظیم و تعریف کا حق ہے۔ پھر میں فرش پر سجدے میں گرگیا ۔ پھر میری یہ مستقل عادت بن گئی۔ اکثر و بیشتر جب بھی ذہن میں نور کا خیال آتا، نظر نور میں پہنچ جاتی۔ خاص طور سے یہ تو اکثر ہی ہوتا کہ جب بھی نہانے کے لئے شاور کھولتا نور کی بوندیں گرتیں نظر آتیں اور اس میں نہانے کا کچھ اور ہی لطف ہوتا۔ اس عادت کی وجہ سے ہر لمحے نحن اقرب الیہ من حیل الورید کا احساس رہتا۔

                مجھ پر جو بھی احساسات و کیفیات گزرتیں۔ میں ان کے متعلق نریما سے ضرور گفتگو کر لیتا۔ اس سے نریما کا ذہن بھی روحانی طرزِ فکر پر آہستہ آہستہ نشوونما پا رہا تھا۔ دوسرے راہِ سلوک میں جب غیر معمولی مکاشفات کا مشاہدہ و احساس ہوتا تو ایسے میں نریما میرے لئے ایک ایسا سائبان بن جاتی جس کے نیچے مجھے دھوپ سے تحفظ کا احساس ہوتا۔ وہ ہر قدم پر حوصلہ اور ہمت سے گزر جانے میں میری پوری پوری مدد کرتی۔ کبھی میرے بالوں میں اپنی نرم و نازک انگلیاں پھیر کر روشنیوں کے دبائو کو کم کرتی۔ کبھی میرا جسم دبا کر مجھے حوصلہ دلاتی۔ ایسے ہی وقت میں ایک مرتبہ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میاں بیوی کے اندر ذہنی ہم آہنگی راہِ سلوک پر چلنے میں کتنی آسانی پیدا کر دیتی ہے اور شعور میں انوار کے جذب ہونے سے شعور کے بیلنس کو برقرار رکھنے میں کتنی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

                نماز فجر کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ ہاتھ میرے نہیں ہیں۔ یہ ہاتھ نور کے بنے ہوئے ہیں۔ نظر ہاتھوں پر جمی تھی۔ مگر دل ان کے اندر نور کو دیکھ رہا تھا۔ نور جو اللہ ہے، نور کے ہاتھ نے نور کی زمین سے مٹھی بھری اور مٹھی دبا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر وہ نور رکھ دیا۔ نور کا ایک پتلا ہتھیلی پر کھڑا تھا۔ اس ہاتھ پر پتلے کو اپنے لبوں سے لگایا اسے چوما اور وہ پتلا چلنے لگا۔ اس کے لبوں کا لمس میرے لبوں پر محسوس ہوا۔ ادراک گہرا ہو کر احساس میں منتقل ہو گیا۔ احساس کی سطح پر بھونچال آ گیا۔ میں انتہائی ضبط کے باوجود بھی چیخ پڑا۔ چلا کر رونے لگا۔ اسی وقت نریما دوڑی آئی۔ میں بے اختیاری میں زور زور سے بولنے لگا اور اپنی کیفیات کو رو رو کر دہرانے لگا۔ اس نے مجھے اپنے سے قریب کیا۔ میری پشت پر آہستہ آہستہ سہلا سہلا کر نہایت ہی تسلی بخش الفاظ کہتی رہی۔ کہنے لگی یہ تو آپ پر اللہ کا بہت ہی بڑا کرم ہے، فضل ہے، بھلا اس کے فضل کا کوئی عام آدمی برداشت کرنے کی سکت رکھ سکتا ہے۔ آپ میں سکت ہے جبھی تو اللہ آپ کو یہ خصوصی علوم عطا فرما رہا ہے۔ آپ سے اللہ پاک انتہائی محبت رکھتے ہیں۔ محبت کرنے والے کو قربت ہی عطا ہوتی ہے۔ اس کی قربت کی سکت ہر کوئی نہیں رکھ سکتا اس کے الفاظ اور اس کا لمس اس لمحے میرے لئے قدرت کا سب سے بڑا انعام تھا۔ کیونکہ اس وقت میری یہ حالت تھی کہ میں بالکل دیوانہ سا ہو رہا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ میری روح ابھی میرا جسم چھوڑ جائے گی۔ میرا دماغ ابھی پھٹ جائے گا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں غبارہ ہوں، جس میں ہوا بھری جا رہی ہے اور اتنی زیادہ بھری جا رہی ہے کہ بس اب غبارہ پھٹ پڑے گا۔ اس لمحے نریما کا تسلی دینا میرے لئے احسان کا درجہ رکھتا تھا۔ میں نے صدق دل سے اس کے لئے دعا مانگی۔

                شیخ احمدمجھ سے بہت خوش تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ان کا چہرہ پھول کی طرح کھل اٹھتا تھا۔ میں سوچتا جس طرح سعادت مند اولاد ماں باپ کی عزت و توقیر کا باعث بنتی ہے ہونہار شاگرد بھی استاد کے لئے باعث فخر ہے۔ میرا جی چاہتا میں ایسا بن جائوں کہ میری ذات سے سارے خوش رہیں۔ یہ بھی اس ذات کریمہ کا بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے میری ذات سے میرے گھر والوں کو ہر طرح سے اطمینان بخشا تھا۔ اکثر و بیشتر شیخ احمد کی اجازت سے روحانی محفلوں میں میرے لیکچر ہوتے۔ ممی پاپا ان میں ضرور شرکت کرتے۔ میری باتیں سن کر ان کی آنکھوں میں چمک آ جاتی اور وہ سب خوشی خوشی خود ہی تعارف کراتے یہ ہمارا بیٹا ہے۔ کبھی خوشی میں آ کر ممی وہیں سب کے سامنے میری پیشانی چوم لیتیں۔ مجھے دادی اماں یاد آ جاتیں۔ میں ایک گہرا سانس اندر لیتا اور دادی اماں کی خوشبو میرے باطن میں پھیل جاتی۔ میں سوچتا روح کی خوشبو سب سے پہلے دادی اماں نے ہی مجھے سنگھائی ہے۔ میں اس خوشبو کو کیسے بھول جائوں۔ وہی تو میرے گلستان ارم کی باد بہاری ہے۔

                آج میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ روحانی علوم صرف علم نہیں ہے بلکہ یہ روح کی صلاحیتیں اور صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی صفات پھونک دیں جو آدم کی روح ہے۔ یہی روح آدم کی قوت ہے۔ آج اگر میں روح سے بیگانہ ہوتا تو باطن میں خوشبو کا احساس کیسے ہوتا۔ لوگ تو صرف ناک سے سونگھی ہوئی خوشبو کو ہی پہچانتے ہیں۔ وہ اس بات سے واقف نہیں کہ اصل خوشبو روح کی روشنی ہے۔ روح کی روشنی اسمائے الٰہیہ کی صفات ہیں۔ اسمائے الٰہیہ کی ہر صفت ایک رنگ ہے اور ہر رنگ کا جمال خوشبو ہے۔ یہی جمال اور خوشبو روح کی لطافت ہے۔

                روحانی علوم حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ روح کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خوشبو کا خیال آتا ہے تو احساس لطیف ہو جاتا ہے اور یہ لطافت سارے باطن میں محسوس کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ شیخ احمد نے ایسے ہی موقع پر حواس کی تعریف بیان کی تھی۔ فرمانے لگے، روحانی کیفیات و واردات میں آدمی غیب میں دیکھتا بھی ہے اور غیب کی آوازیں بھی سنتا ہے۔ اگرچہ یہ آوازیں دل و دماغ میں سنتا ہے اور اپنے اندر ہی دیکھتا ہے۔ مگر اسے اس کا اس قدر یقین ہوتا ہے جیسے ظاہری حواس سے دیکھنے اور سننے کا یقین ہوتا ہے۔ اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ہمارے حواس ظاہر میں کام کر رہے ہیں اسی طرح باطنی رخ میں بھی کام کرتے ہیں۔ جب ہم حواس کے باطنی رخ سے متعارف ہوتے ہیں تو پھر ہمیں اس کا احساس ہو جاتا ہے۔ باطنی رخ غیب ہے اور غیب لامحدود ہے۔ جس کی وجہ سے باطن سے متعلق ہر ادراک زمان و مکان سے آزاد اور وسیع دکھائی دیتا ہے اور جب تک ہمارے اوپر سے ٹائم اینڈ اسپیس کی گرفت نہیں ٹوٹے گی اس وقت تک غیب سامنے نہیں آ سکتا۔

                ننھا نعمان اب ساڑھے تین سال کا ہو گیا تھا۔ خوب پٹر پٹر باتیں کرتا۔ میں نے نریما سے کہہ دیا تھا کہ اس سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر اس طرح کرے جیسے اللہ میاں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کیونکہ بچہ لاشعوری حواس سے شعوری حواس کی طرف آتا ہے۔ بچے کے لئے غیب سے آگاہی مشکل نہیں ہے۔ بشرطیکہ اس کی توجہ اس طرف دلائی جائے۔ ایک رات نعمان سو نہیں رہا تھا اس کے سونے کا ٹائم بھی گزر گیا۔ نریما دن بھر گھر کے کاموں میں تھک گئی تھی۔ اس نے دو تین دفعہ اسے سونے کو کہا مگر وہ کھیل میں لگا رہا۔ رات کافی ہو گئی تھی میں نے نعمان کو اپنے پاس بلا لیا۔ اسے اپنی گود میں بٹھایا اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ نعمان بیٹے آپ کو پتہ ہے نا اللہ میاں ہر وقت ہم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کہنے لگا ہاں پتہ ہے پاپا۔ مگر ابھی تو اللہ میاں یہاں نہیں ہیں نا۔ میں نے فوراً کہا۔ اللہ میاں یہاں موجود ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بہت رات ہو گئی ہے اب سو جائو۔ اس نے جلدی سے ایک کونے کی جانب دیکھا تھوڑی دیر تک گھورتا رہا پھر میرے سینے میں منہ چھپا کر کہنے لگا پاپا اللہ میاں کی بات ماننی چاہئے نا۔ میں نے کہا۔ ہاں بیٹے اللہ میاں تو سب سے بڑے ہیں۔ کہنے لگا تو میں سو جاتا ہوں اور اسی وقت آرام سے سو گیا۔ اب ہم وقتاً فوقتاً اسے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے۔ مثلاً جب وہ اسکول جانے کے لئے گھر میں سب کو سلام کرتا تو ہم ا سے کہتے کہ اللہ میاں کو بھی سلام کرو۔ وہ ادب سے جھک کر سلام کرتا پھر چلا جاتا۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء