Topics

عشق کی قندیل


آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم

یک شعلہ برق خرمنِ صد کوہِ طور تھا

                اس طرح مہینوں گزر گئے۔ دنیا کے سب کام اپنی سطح پر ہوتے رہے۔ مگر دل اپنی دنیا میں مشغول رہتا۔ دل کی مشغولیت تو عشق ہے اور عشق کا محور و مرکز محبوب ہے۔ اس مرکز عشق کی تین گہرائیاں دکھائی دیتیں۔ ایک گہرائی مرشد کی ذات تھی۔ دوسری گہرائی حضور پاکؐ کی ذات تھی اور تیسری گہرائی اللہ پاک کی ذات تھی۔ مجھے یہ تینوں گہرائیاں ایک ہی نقطے میں نظر آتیں یہ نقطہ میرا دل تھا۔ جس میں تینوں ہستیوں کا عشق موجود تھا۔ مجھے یوں لگتا جیسے میرا دل ایک قندیل ہے۔ جس میں ایک شیشہ ہے۔ شیشے میں بتی ہے بتی میں تیل ہے۔ تیل جب بتی کو جلائے گا تو بتی بھی ساتھ ساتھ جلے گی اور جب بتی جلے گی تو اس کی روشنی اور تپش سے شیشہ بھی گرم ہو گا اور جب شیشہ گرم ہوگا تو جس طاق میں قندیل رکھا جائے گا اُس طاق میں بھی روشنی اور حرارت پہنچے گی۔ یہ طاق میرا جسم ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عشق کی قندیل روشن کر دی ہے۔ کبھی نگاہ روشنی کی جانب جاتی تو دل کی ٹھنڈک محسوس ہوتی کبھی تپش کی طرف ذہن لائل ہوتا تو عشق کی آگ میں تن من جلنے لگتا۔ اس دم میرا جی چاہتا، میرا وجود جل کر فنا ہو جائے۔ نہ یہ شیشہ رہے نہ یہ بتی رہے ۔سب کچھ اس تیل میں مل جائے۔ جس کے اندر روشنی بھی ہے اور حرارت بھی ہے۔ میرا جی چاہتا اس تیل میں چھپی ہوئی روشنی کو ڈھونڈ نکالوں۔ وہی تو اصل حقیقت ہے ۔ ایک دن میرے ذہن میں آیا مجذوب کا بہت درجہ ہوتا ہو گا۔ مجھے مجذوبیت میں ایک کشش محسوس ہونے لگی۔ وہ مرشد ہی کہاں جو مرید کے دل کا حال نہ پہچانے۔ دوسرے دن شیخ احمد کی محفل میں شرکت ہوئی۔ آپ نے فرمایا ’’مجذوب وہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں اس طرح گم ہو جاتا ہے کہ شعوری طور پر اس کی نفی ہو جاتی ہے‘‘۔

                ان دنوں ثمینہ اور راحیلہ کی شادی کا تذکرہ گھر میں موضوع گفتگو بنا ہوا تھا۔ دونوں تھیں بھی ہم عمر۔ دونوں میں خوب دوستی تھی۔ دونوں نے ایک ہی کالج سے بی ایس سی کیا تھا۔ اب پاپا اور چچا کا ارادہ آگے پڑھانے کا نہیں تھا کیونکہ اس سے زیادہ پڑھانے کا مطلب لڑکیوں کا پروفیشنل لائن میں جانا تھا۔ جبکہ گھر کے بڑوں کا یہ خیال تھا کہ عورت کی اعلیٰ تعلیم ہونی ضروری ہے مگر ازدواجی زندگی میں گھریلو نظام کو بہتر بنانے کے لئے آئندہ آنے والی نسلوں کو صحیح طریقے سے تعلیم و تربیت کرنے  کے لئے عورت کا گھر میں رہنا ضروری ہے تا کہ وہ اپنی پوری توجہ گھر کے کاموں  اور بچوں کی نگہداشت پر دے سکے۔ میں نے تو پاپا اور چچا سے کہا تھا کہ دونوں لڑکیاں تعلیم میں اچھی خاصی جا رہی ہیں انہیں ڈاکٹری پڑھا دیں مگر پاپا  اور چچا دونوں نے بڑے پُر جوش اصرار کے ساتھ یہی کہا کہ آخر کو تو انہیں بچے ہی پالنے ہیں۔ پروفیشنل لائف میں تھک ہار کے جب گھر آئیں گی تو بال بچوں پر کتنا وقت دے سکیں گی۔ پھر میں نے بھی زیادہ زور نہیں دیا۔ میرے نزدیک تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے فضل کے ساتھ ساتھ بندے کا ارادہ اگر اس کے کاموں میں شامل ہو تو دنیا کا کوئی کام رکنے نہیں پاتا ہے۔ آدمی زندگی میں بیک وقت بہت سے کام بھی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ کام کا بوجھ سر پر نہ لادے کیونکہ جب بوجھ سمجھا جاتا ہے تو مشکل کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اگر صرف ارادہ کر لیا جائے کہ یہ کام کرنا ہے اور بس تو پھر خود بخود اسباب و وسائل بنتے چلے جاتے ہیں اور سب کام روٹین میں ہونے لگتے ہیں۔  ویسے بھی ان دنوں دونوں لڑکیوں  کے رشتے بھی کئی آرہے تھے ۔ نریما کا بھی یہی خیال تھا کہ اچھے رشتوں کو لوٹا دینا ٹھیک نہیں ہے۔ ٓآج کل روز شام کو چائے پر کسی نہ کسی کا انٹرویو ہوتا۔ تقریباً دو ماہ کی چھان بین کے بعد دو رشتے پسند آئے مگر فائنل منظوری تو شیخ کی ہونی تھی۔ ایک لڑکا کسی ڈرگ لیبارٹری کا منیجر تھا ۔ اس کا نام محمد یامین تھا۔ دوسرا لڑکا لیدرگارمنٹس اور لیدر امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا تھا۔ دونوں کی تعلیم ایم ایس سی تھی۔ دوسرے کا نام ارسل جمال تھا۔ شیخ احمد نے دونوں کو دیکھا ان کے والدین سے ملے۔ دونوں رشتے پسند آئے۔ محمد یامین ثمینہ کے لئے اور ارسل جمال کو راحیلہ کے لیے پسند کر دیا گیا۔ چند ہی دنوں میں دونوں کی منگنی کر دی گئی مگر غم اور خوشی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا کی رونق دونوں سے ہے۔ تین ماہ دونوں کی شادی کی تیاری میں گزر گئے۔ دونوں کی براتیں دو دن کے وقفے سے تھیں۔ میں نے بھی دو ہفتے کی چھٹی لی۔ قریبی تمام رشتے دار ایک ہفتہ پہلے آگئے تھے۔ نعمان اب تقریباً چھ سال کا ہو رہا تھا۔ اسے شادیوں میں بہت مزہ آیا۔ ویسے بھی اس عمر میں بچے کا تجسس ہر شے کے اندر جھانکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر چیز میں دلچسپی  لیتا ہے۔ میری پندرہ دن کی چھٹیاں شادی کے ہنگاموں کی نذر ہو گئیں مگر یہ بھی ایک بڑا کام تھا ثمینہ اور راحیلہ کی شادی کر کے مجھے یہ احساس ہوا کہ واقعی جوان لڑکیوں کی شادی کا بوجھ بہت ہوتا ہے۔ یہ بھی ماں باپ کے کندھوں پر بڑ ی بھاری ذمہ داری  ہے اگر ذمہ داری کا احساس نہ ہو تو قدرت کے بنائے ہوئے قانون پر عمل بھی نہ ہو سکے۔ قدرت نے جہاں قوانین بنائے وہاں انسان کے اندر ان قوانین پر عمل کرنے کی خواہش بھی پیدا کر دی تا کہ آدمی اپنے ارادے کے ساتھ ان پر عمل کر سکے اور کارخانۂ کائنات اپنے قدرتی نظام کے ساتھ جانے والے کی رضا کے مطابق جاری و ساری رہے۔ میرا ذہن دن بدن اب کائناتی نظام میں کام کرنے والے اصولوں کی جانب متوجہ رہتا۔ ہر شئے میں کوئی نہ کوئی حکمت کار فرما دکھائی دیتی۔ جوں جوں اللہ پاک کے اسرار ذہن پرکھلتے جاتے توں توں اللہ کی محبت اور اس کا عشق سمندر کی لہروں کی طرح میرے اندر کروٹیں لیتا محسوس ہوتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے میں بھی نعمان کی طرح ایک بچہ ہوں جو اللہ تعالیٰ کی ہستی میں جھانک جھانک کے بار بار دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میرے دل و دماغ پر ہر وقت یہی خیال حاوی رہتا کہ اللہ پاک کے کُن کہنے سے کائنات کس طرح ظہور میں آئی۔ میرا جی چاہتا میں کُن کے بعد کے تمام مظاہرات کا مشاہدہ کر لوں۔ کمپیوٹر کے علوم جاننے کی وجہ سے میرے ذہن میں ہر وقت کمپیوٹر کی پروگرامنگ کی طرح کُن کے نقشے بنتے رہتے حالانکہ اس موضوع پر شیخ احمد سے کافی علوم اور معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔قرآن تو میں تقریباً ہر روز ہی باترجمہ ضرور پڑھتا رہتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کے علوم تو لامتناہی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی علم پر اگر ذہن رک جائے تو اس علم کے حاصل کرنے کی جستجو بھی ختم ہو جائے گی۔ تجسس ہی راستہ نکالتا ہے۔ اللہ پاک کے راستے میں کوئی منزل نہیںہے کیونکہ اللہ کے راستے کی منزل خود اللہ کی ذات ہے۔ اللہ کی ذات لا محدود و لامتناہیت ہے۔ لامحدودیت کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا بس جہاں بندہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے ،  وہی اس کی منزل قرار پا جاتی ہے۔ میرے دل کی گہرائیوں سے روح کی صدا بلند ہوتی ۔ اے میرے رب ! میری ناتوانی کے پائوں میں ایسی ہمت عطا فرماکہ یہ تیری لامحدودیت میںتیری توانائی کے ساتھ چلتے رہیں۔ ان کیفیات میں میرے سامنے ملاء اعلیٰ آ جاتے۔ ملائکہ کا شعور آدمی کے اندر ملکوتی صفات پیدا کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے کائناتی نظام میں کام کرنے والی حکمتوں کو وہ سمجھنے لگتا ہے اور مشاہدہ بھی کرنے لگتا ہے۔ ایک دن مراقبہ میں یوں دیکھا کہ ملاء اعلیٰ کے سینے کے اندر نظر دیکھ ر ہی ہے۔ یہ سینہ نور کا ایک پردہ ہے۔ آسمان کی طرح وسیع ۔ اس پردے پر کائناتی اشیاء کے فارمولے لکھے ہیں جیسے سائنسی فارمولے لکھے ہوتے ہیں۔ میں انہیں بہت غور سے دیکھ کر یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

                 شیخ احمد سے ان کیفیات و مشاہدات کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا ملاء اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے تفکر کی تجلی ہے۔ راہِ طریقت میں چلتے چلتے سالک کاذہن جب اللہ تعالیٰ کے تفکر میں جذب ہو جاتا ہے۔ تو ملاء اعلیٰ سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ یہ علوم براہِ راست تربیت و تعلیم کا ایک حصہ ہے۔ براہِ راست تربیت  و تعلیم میں انسان کے ارادے اورعمل کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ براہِ راست تعلیم و تربیت کا مطلب یہ ہے کہ سالک کے ذہن کی توانائی جب اللہ تعالیٰ کی تجلی بن جاتی ہے دوسرے لفظوں میں جب سالک کا ذہن تجلی کے انوار جذب کر کے اس تونائی سے حرکت کرتا ہے تو اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی تجلی کو سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت فطری طور پر کام کرنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں سالک کا ذہن تجلی کے انوار کو جذب کرنے کی وجہ سے تجلی کی طرح روشن اور شفاف ہو جاتا ہے اور اس شفاف آئینے میں اللہ تعالیٰ کے علوم کا عکس پڑتا ہے۔ یہ عکس اللہ تعالیٰ کے وہ علوم ہیں جو کُن کے بعد لوحِ محفوظ کے پردہ پر ظاہر ہوئے۔ جب روح کی نظر اپنے باطن میں اس عکس کو دیکھتی ہے تو اس وقت اس لمحہ کُن پر اللہ تعالیٰ کا یہ تفکر غالب ہوتا ہے۔ کہ ہم نے آدم کے اندر اپنے روح پھونکی۔ روح چونکہ اللہ کی ہستی کا ایک جزو ہے اس وجہ سے آدم کی ذات کو عطا کئے جانے والے علوم اللہ تعالیٰ کی صفات کے علوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات اور آدم کی ذات کے درمیان کوئی تیسری ہستی نہیں ہے۔ اللہ کے ساتھ براہِ راست جس روح کا رابطہ ہے وہ روح ذاتِ باری تعالیٰ کی تجلی ہے۔ یہ روح، روحِ اعظم کہلاتی ہے ۔ جب راہِ طریقت پر چلتے ہوئے سالک کا تفکر روحِ اعظم کا شعور بن جاتا ہے تو اس کا رابطہ باری تعالیٰ سے ہو جاتا ہے۔ یہ رابطہ روحِ اعظم کے ذریعے ہوتا ہے یعنی ذات کی تجلی اللہ اور بندے کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور اللہ اپنے بندے کو جو کچھ بھی دکھانا چاہتا ہے وہ اپنی تجلی کے حجاب میں دکھا دیتا ہے۔ یہ حقیقت کا وہ عالم ہے جس میں بندے کے کسی عمل اور ارادے کو دخل نہیں ہے۔ اس کی معرفت صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ اس معرفت کا حصول قرب فرائض میں شمار ہوتا ہے۔ قربِ نوافل وہ راستہ ہے جس میں سالک اللہ کے راستے پر اپنے ارادے اور اپنی کوششوں کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے اور جدوجہد کے نتیجے میں اللہ پاک اسے اس کی کوششوں کا صلہ عنایت کرتے ہیں پھر مجھے شیخ احمد نے بہت سی دعائیں دیں کہ اللہ پاک تمہیں اپنے قرب کی بہترین نعمتوں سے نوازے۔

                کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے خوشیاں میرا نصیب بن گئی ہیں۔ سچ تو ہے خوشیاں تو ہر انسان کا نصیب ہیں۔ اللہ پاک نے آدم اور حوا کو پیدا کر کے سب سے پہلے جنت میں رکھا۔ جنت جو خوشی کا مقام ہے۔ اللہ نے آدم و حوا کے لئے یہی تو چاہا تھا کہ آدم و حوا جنت میں خوش خوش رہیں، عیش کریں، اللہ کا چاہنا ہی تو میرا مقدر ہے۔ میں اللہ کے چاہنے سے ہٹ کر اور کسی کے تفکر کو اپنا مقدر ہر گز نہیں بنائوں گا۔ اگر دنیا میں مجھے غم اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے اندر غم اور تکلیف کے معنی میں نے پہنائے ہیں کیونکہ میں نے اپنے آپ کو جنت سے الگ کر لیا ہے۔ اگر میں پھر سے اپنا ذہن جنت کے ساتھ جوڑ دوں اور اللہ پاک کے اس تفکر کے ساتھ جوڑ دوں کہ ہم بندے کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو غم کے لمحات پر بھی تفکر کا سایہ رہے گا اور غم مقدر پر حاوی نہیں ہونے پائے گا۔ میری خوشی اللہ سے ہے۔ میرا مقدر اللہ کا تفکر ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کا تفکر سدا باقی رہنے والا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے میں ہوائوں میں اُڑ جائوں۔ فضائوں میں لہریں بن کر بکھر جائوں۔ خوشیوں بھری اس جنت میں ناچوں گائوں۔

                جب بندہ اللہ کے تفکر سے ناتا جوڑ لیتا ہے تو اس کے مقدر کو اس کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں۔ میرے مقدر کی جھولی کو بھی اللہ پاک نے اپنی بہترین نعمت سے بھر دیا۔ آدم کے تفکر کا جمال افشاں کے روپ میں نریما کی گود میں جگمگانے لگا۔ جنت کا ایک اور باسی ملکِ عدم کی سیاحت میں عازمِ سفر تھا۔ افشاں ہو بہو نریما کی صورت تھی۔ ممی  اور چچی کے اس سونے پن کو جو راحیلہ اور ثمینہ کے جانے سے تھا، افشاں کی آمد نے بہت حد تک دور کر دیا۔ نعمان بھی ننھی بہن کو بہت پیار کرتا مجھے اپنے دامن کی ہر خوشی مرشد کی دعائوں کا ثمر دکھائی دیتی۔ مجھے یوں لگتا جیسے میں اللہ کے سائبان تلے موسم کے سرد و گر م سے محفوظ بیٹھا ہوں۔

                ایک رات میں چھت پر بنے کمرے میں بیٹھا مراقبہ کر رہا تھا ۔ اب میں عام طور سے یہیں پر مراقبہ کرتا تھا تا کہ ننھی افشاں کے وقت بے وقت رونے کی آواز مخل نہ ہو۔ مراقبہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ کانچ کا ایک پتلا ہے۔ اس پتلے میں اللہ میاں اپنی روح پھونک رہے ہیں ۔ کانچ کا پتلا ایک خول ہے جیسے خالی مرتبان۔ میری نظر اس سارے عمل کو دیکھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح ایک رنگ کی روشنی کا دائرہ ہے۔ پھونک پتلے کے اندر جیسے جیسے جاتی جا رہی ہے رنگین روشنی کے دائرے بنتے چلے جا رہے ہیں۔ میری نظر اور میرا انہماک ان رنگین دائروں پر ہے۔ پتلے کے اندر یہ دائرے آپس میں مل کر رنگین خوشنما ڈیزائن بنا رہے ہیں ۔ پتلا دیکھتے دیکھتے اتنا بڑا لگا جیسے ساری کائنات اور اس پتلے کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح سے رنگین روشنی کے دائروں سے جگہ جگہ کائنات کی اشیاء تصویریں بن گئیں۔ جب پتلا ان تصویروں سے بھر گیا مجھے یوں لگا جیسے روح پھونکی جا چکی ہے۔ اب اس کانچ کے پتلے کے اندر روشنیاں اور ان کے اندر کے نقش و نگار پر میری نظر اسی طرح انہماک سے دیکھتی رہی۔ بہت دیر تک یہ انہماک قائم رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسا محسوس ہوا جیسے کانچ کے پتلے کے اندر کے نقش و نگار روشن ترین ہوتے جا رہے ہیں اور جس طرح طلوعِ آفتاب کے بعد آفتاب کی تمازت درجہ بدرجہ بڑھتی جاتی ہے۔ نقش و نگار کی روشنی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ نقش و نگار کی روشنیاں کانچ کے پتلے کے باہر نکل آئیں اور کانچ کے پتلے کا ہو بہو ایک عکس اس کے مقابل میں آگیا۔ میرے ذہن میں آیا یہ عکس آدم کے اندر پھونکی جانے والی روح کا مظاہرہ ہے۔ آدم کے اندر پھونکی جانے والی روح اللہ کے علوم ہیں اور اللہ کے علوم کا مظاہرہ آدم کائنات میں کر رہا ہے۔ مجھے یوں لگا کہ ساری کائنات کی صورتیں آدم کے اندر پھونکی جانے والی روح کے ادراک کی شکلیں ہیں۔ اللہ کے نور کی کوئی صورت نہیں ہے مگر یہ نور جب آدم کے پتلے میں داخل ہوا تو آدم کا پتلا اس نور کی ظاہری صورت بن گیا اور کُن کا وہ لمحہ جس لمحے روح پھونکی گئی اس لمحے کا ہر یونٹ آدم کی روح کا ادراک ہے۔ پتلے کے بغیر آدم کا تصور نہ تھا اور جب آدم کا تذکرہ نہیں تھا تو آدم کے ادراک کا بھی تذکرہ بھی نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روح کا ادراک آدم کے پتلے کے حواس ہیں۔ روح کے حواس کی درجہ بندی کا نام کائنات ہے اور کائنات کی ہر صورت روحِ اعظم کے حواس کی ایک صورت ہے۔ جیسے ازل کے لمحے میں جب آدم کے پتلے میں اللہ تعالیٰ نے روح پھونکی تو آدم کے پتلے کے اندرخوشی کا تفکر یا شعور پیدا ہوا۔ا س شعور یا تفکر نے روحِ اعظم کے تصور میں جنت کا نقشہ تعمیر کر دیا۔ روحِ اعظم کے دماغ نے اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح کو صورت بخش دی۔ یہ صورت کائنات ہے اور یہ روحِ اعظم حقیقت محمدیؐ ہے۔ جو نورِاول ہے جو باعث ِ کائنات ہے جس کے لئے اللہ پاک فرماتے ہیں۔ اے محبوب اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات بھی نہ ہوتی۔ حقیقتِ محمدی ؐ یا روحِ اعظم ذاتِ خالق کی تجلی ہے۔ اس تجلی کے اندر اللہ تعالیٰ نے خود اس کی اپنی ذات کا شعور پیدا کر دیا یہی شعور اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح ہے۔ حقیقت ِ محمدی ؐ کے درجے میں اس روح کا تعلق براہِ راست ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ روح ِ اعظم کا شعور معرفتِ ذات کے علم ہیں۔ کائنات کی روح ِ اعظم یا حقیقت ِ محمدیؐ کا شعور اول اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ اس امر کی حرکت سے کائنات کے نقش و نگار کی صورتوں میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ آدم یا انسان روحِ اعظم یا شعور ِ اول کا ایک مکمل یونٹ ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے جب کوئی مرد یا عورت اپنے اندر روحِ اعظم کے شعور اول کو بیدار اور متحرک کر دیتا ہے تو عملی طور پر اور شعوری طور پر وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کائنات کی تسخیر کر لیتا ہے۔ ذہن کی اس ساری تشریح کے بعد میں نے آنکھیں کھو لیں۔ ذہن بالکل خالی تھا۔نظریں سامنے جم گئیں مجھے یوں لگا جیسے کوئی چیز میری جانب بڑھ رہی ہے۔ بس یہ ایک شدید احساس تھا کہ کوئی میری جانب بڑھ رہا ہے مگر ذہن بالکل خالی تھا کیا ہے پتہ نہ تھا۔ بے اختیار میرے بازو اس طرح بڑھ گئے جیسے کسی کو گلے لگاتے ہیں اور یوں لگا کہ روحِ اعظم میرے اندر داخل ہو گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد اندر کا سارا جسم مرکری روشنی کا تھا اور جب باہر نظر پڑی تو یوں لگا جیسے میرا جسم جلد کے رنگ کے کپڑے کا ہے ۔ بہت نرم و ملائم پتلا ریشم جیسا کپڑا باہر سے جسم جلد کے رنگ کا ہے اور اندر سے روپہلی نہایت چمکدار ہے یعنی اس کپڑے کی باہر کی سطح جلد کی ہے۔ اندر کی سطح روپہلی ہے، چمکدار ہے۔

                میں نے اللہ پاک سے دعا مانگی کہ اللہ پاک میرے ذریعے سے لوگوں کو شفاء اور سکون بخشے۔ افشاں ابھی دو ماہ کی تھی کہ وقاص بھائی کی شادی طے پا گئی۔ لڑکی کا نام سدرہ تھا۔ یہ لوگ بہت عرصے سے پڑوس میں بس رہے تھے۔ اچھے لوگ تھے۔ شادی پر نریما دونوں بچوں کے ساتھ دو ہفتے پہلے چلی گئی ۔ میں شادی سے ایک دن پہلے ممی پاپا ، چچی چچا کے ساتھ پہنچا۔ ثمینہ اور راحیلہ بمع اپنے شوہروں کے آ گئی تھیں۔ سارا خاندان اکٹھا ہو تومزہ بہت آتا ہے۔ شادی کے دوسرے دن ولیمہ تھا۔ تیسرے دن میں تو چلاآیا۔ آفس سے چھٹی اتنی ہی تھی۔ باقی گھر والے ایک ہفتے بعد نریما کے ساتھ واپس آئے۔ ابھی وقاص بھائی کی شادی کو مشکل سے چار ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ اطلاع آئی کہ نریما کے ابو کو ہلکا سا دل کا دورہ پڑا تھا مگر جلد ہی ٹھیک ہو گئے۔ ہم سب اس خبر سے سخت پریشان ہوئے۔ خصوصاً نریما تو بہت ہی پریشان ہوئی۔ چند دن تک روزانہ اپنے ابو سے فون پر باتیں کرنے کے بعد پھر اس کی فکر دور ہوئی۔ ہم سب جلد ہی اس واقعہ کو بھول گئے۔ تقریباً دو ہفتے بعد سدرہ بھابھی کا فون آیا۔ ابو کو دوبارہ دورہ پڑا ہے فوراً ہسپتال لے گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی نریما کو لے کر فوراً ہی ہوائی جہاز میں روانہ ہو گئے۔ دونوں بچوں کو ممی نے رکھ لیا کہ اپنی پریشانی میں بچوں کی جانب توجہ نہ دی جا سکے گی۔ شیخ احمد سے بھی دعا کی درخواست کی گئی۔ہم سب اللہ کے حضور ان کی زندگی کی دعائیں کرتے رہے۔ اس رات میں چھت پر مراقبہ روم میں جا بیٹھا ۔ دل بڑا بے چین تھا۔ عتیق پھوپھا تھے بھی بہت محبت کرنے والے۔ صحت بھی ان کی ہمیشہ سے اچھی خاصی رہی۔ یہ اچانک کیسے ہو گیا۔ میں نے اس اضطراب میں جاء نماز بچھائی وضو کر کے اس پر بیٹھ گیا اور یا حیی یا قیوم کا ورد آنکھیں بند کر کے کرنے لگا۔ کمرے میں بہت ہی ہلکا زیرو پاور کا نیلی روشنی کا بلب جل رہا تھا۔ میں نے پوری توجہ پھوپھا کی جانب لگا دی۔ دل میں یہی ارادہ تھا کہ اللہ پاک انہیں شفائے کُلی اور لمبی عمر دے۔ چند لمحوں بعد ہی میں الہامی کیفیات میں پہنچ گیا۔

                میں نے دیکھا کہ پھوپھا کے جسم پر غشی طاری ہے۔ جیسے گہری نیند میں ہوں، وہ بستر پر لیٹے ہیں۔ یہ بستر ایک فضا میں ہے۔ بس یہ ایک اسپیس تھی۔ اس اسپیس میں سامنے سے ایک بیم لائٹ آئی بہت موٹی اور روشن شعاع تھی۔ اس لائٹ نے یا شعاع نے پھوپھا کو مقناطیس کی طرح اپنی جانب کھینچنا شروع کر دیا۔ اب صورتِ حال یوں تھی کہ پھوپھا کے سینے سے شعاع جیسے چپکی ہوئی تھی اور سینے کے بالکل سیدھ میں تھی ۔ مجھے محسوس ہوا شعاع بہت دورسے آ رہی ہے۔ کہاں سے آ رہی ہے یہ جاننے کے لئے میں شعاع کی سیدھ میں دور تک دیکھتا رہا۔ شعاع حدِ نگاہ پر ایک روزن سے آ رہی تھی۔ بہت ہی دور سے اب پھر توجہ پھوپھا کی جانب گئی۔  شعاع مقناطیس کی طرح انہیں کھینچ رہی تھی مگر رفتار بہت ہی آہستہ تھی۔ پھوپھا غش یا نیند میں تھے وہ بس کھنچے جا رہے تھے۔ ان کا جسم نیند والے جسم کی طرح بے بس تھا میں دوڑ کر جلدی سے پھوپھا کے پاس آ گیا۔ ان کے بازو پکڑ کر انہیں سہارا دیا۔ مجھے محسوس ہوا وہ ایک دم سے بے ہوش نہیں ہیں بلکہ صرف بات نہیں کر سکتے مگر انہیں اپنے کھنچے جانے کا علم ہے اور ان کے چہرے پر خوف کے آثار ہیں۔ میں انہیں بازئوں سے سنبھالے رہا اور مسلسل انہیں تسلی دیتا رہا کہ آ پ موت کا سفر طے کر رہے ہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، یہ سفر بہت جلد طے ہو جائے گا۔ آپ بہت جلد اپنے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ یہ بے بسی و ناتوانی کی حالت جلد ختم ہو جائے گی۔ میں پھوپھا کو سہارا دے کر سب کچھ کہا جا رہا تھا مگرحقیقت یہ تھی کہ میں الہامی کیفیات میں تھا اور اس کیفیت میں روحانی  اور جسمانی دونوں حواس کے ساتھ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں بھی پھوپھا کے ساتھ ساتھ یہ موت کا سفر طے کر رہا ہوں۔ جو جو کیفیات اور حالت پھوپھا کی ہیں وہ ساری کیفیات میری روح اور میرے جسم پر طاری ہیں۔ بس صرف مجھے خوف نہ تھابلکہ میرا ذہن خالی تھا جیسے بس کیفیات گزر رہی ہیں مگر ان کے اچھے بُرے خوشی غم کا کوئی تصور نہ تھا۔ نہ جانے کتنی دیر اس سفر میں گزر گئی۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے سے بھی زیادہ۔ میں انہیں سہارا دے کر آگے بڑھائے جاتا وہ لڑ کھڑا کر گرنے لگتے میں پھر پوری قوت سے انہیں سہارا دیتا بس پھوپھا کے ساتھ اس وقت ایک شدید محبت کا احساس تھا اور یہی احساس میری قوت بنا ہوا تھا۔ میری کوشش تھی کہ پھوپھا کے سینے سے شعاع ہٹنے نہ پائے ورنہ پھوپھا وہیں رہ جائیں گے۔ شعاع ٹوٹ جائے گی۔ پھوپھا نے آگے جانا ہے میری خواہش ہے کہ پھوپھا آگے جائیں۔ یوں لگا جیسے ہم اسپیس میں عالمین سے گزر رہے ہیں۔ میں تھوڑی دور اور تھوڑی دور اور کہہ کر ان کی ہمت بڑھائے جاتا۔ ان پر موت کی ناتوانی غالب تھی۔ ان کا جسم بالکل مفلوج تھا اور ان پر شدید تھکن طاری تھی غالباً دو گھنٹے بعد ہمارے سامنے آسمان آ گیا۔یہ ایک بلندی تھی۔ اس بلندی پر جو فضا میں تھی اور اس کا احساس آسمان کا تھا کہ یہ آسمان ہے۔ اسی لمحے میری الہامی کیفیت ٹوٹی میرا جسم ناتوانی سے کانپ رہا تھا۔ آنسو بہہ رہے تھے میں سجدے میں گر کر رونے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ذراطبیعت سنبھلی تو نیچے اترا۔ طبیعت پر اس قدر اضمحلال تھا کہ مجھے خود حوصلے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں سیدھا ممی کے کمرے میں گیا۔ ممی پلنگ پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں میں جاتے ہی ان کی آغوش میں گر گیا اور گود میں منہ چھپا کر رو پڑا ۔ وہ آہستہ آہستہ میری پشت پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ میں نے روتے روتے کہا ممی پھوپھا ہمیں چھوڑ گئے۔ ممی نے پوچھا کیا فون آیا تھا۔ میں نے کہا نہیں میں نے دیکھ لیا ہے۔ ہم دونوں ہی رونے لگے۔ چند منٹ بعد ہی فون کی گھنٹی بجی۔ سدرہ بھابھی کے والد کی آواز تھی۔ہم پہلے ہی اس اطلاع سے باخبر تھے۔ صبح ہم سب پنڈی پہنچے اور تیسرے دن سوئم کے بعد لوٹ آئے۔ نریما بچوں کے ساتھ وہاں کچھ دن کے لئے ٹھہر گئی۔ میں نے آتے ہی شیخ احمد کو اس رات کی کیفیات سے آگاہ کیا۔ کہتے کہتے میں ہچکیوں سے رو پڑا۔ وہ بہت تحمل سے مسکرا دئیے۔ کہنے لگے ۔ آپ کو پتہ نہیں ہے کہ آپ کتنے بڑے مرحلے سے گزر ے ہیں۔

                پھوپھا کے چالیسویں کے بعد نریما واپس آ گئی۔ چالیسویں پر ہم سب ہی وہاں گئے تھے۔ ساتھ ہی واپس آئے۔ ایک عجیب اداسی تھی۔ نریما کا سوگوار چہرہ دیکھ کر میرے دل پر چھریاں چلنے لگتی تھیں۔ اکثر راتوں کو اس کا چہرہ آنسوئوں سے بھیگا ہوتا۔ مجھے دادی اماں کا اس دنیا سے جانا یاد آ جاتا۔ میں سوچتا ہم انسان بھی ایک زنجیر کی طرح ہیں کہ ہر آدمی دوسرے آدمی سے کڑی کی طرح منسلک ہے۔ جب یہ کڑی ٹوٹتی ہے تو زنجیر کے سامنے حلقہ آ جاتا ہے۔ دل اس کڑی کو ڈھونڈنے لگتا ہے تا کہ پھر سے ایک ہو جائے۔ آدمی اس حلقے میں پھرکوئی کڑی جوڑ دیتا ہے تا کہ زندگی کی زنجیرمیں تسلسل قائم ہو جائے اور زندگی رواں دواں رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دلوں کے زخم مندمل ہو ہی جاتے ہیں۔ چند مہینوں میں گھر کی رونقیں پھر سے لوٹ آئیں۔ اب پھوپھا عتیق کے ذکر پر سب یہی کہتے نیک آدمی تھے۔ ان کی زندگی بھی نہایت پُر سکون گزری۔ بچوں کی ذمہ داریوں سے بھی اپنی زندگی میں سبکدوش ہو گئے۔ موت بھی تکلیف دہ نہ تھی۔ اللہ سب کا ایسا ہی معاملہ کرے۔ میں پھوپھا عتیق کی زندگی پر غور کرتا تو اس میں دو باتیں نمایاں دکھائی دیتیں۔ ایک اطاعت دوسری محبت۔ اطاعت گزاری میں پورے خاندان میںکوئی بھی ان کا ہم سر نہ تھا۔ بڑی آسانی سے سب کی بات مان لیتے تھے۔ مگر اس کے ساتھ ہی محبت بھی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس محبت کی بناء پر وہ کچھ اس انداز سے اپنے آپ کو دوسرے کے حوالے کر دیتے کہ دوسرا خودبخود ان کے ذہن کی پسند کی بات کرتا اور ساتھ ہی میں ان کا شکر گزار بھی ہوتا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہماری زندگی سے وابستہ ہر فرد ہماری کتابِ زندگی کا ایک سبق ہے۔ قدرت نے اپنا علم کائنات کے ذرے ذرے پر لکھ دیا ہے۔ پڑھنے والی نظر اور سمجھنے والا ذہن ہونا چاہیئے۔


 


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء