Topics

بزرگ کا حکم


                جنگل میں پرندوں کا شور مچا ہوا تھا کہ ایک درخت کے پیچھے کسی کی جھلک نظر آئی۔ میں ایک دم سنبھل گیا۔ پھر آہستہ آہستہ درخت کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا تو ایک بزرگ بیٹھے نظر آئے۔ انھوں نے زمین پر ایک موٹی دری بچھائی ہوئی تھی۔ میری آہٹ سنتے ہی اونچی آواز میں سلام کیااور بولے تم سامنے آسکتے ہو۔میں درخت کی اوٹ سے باہر آگیا اور بزرگ کو سلام کیا۔ انھوں نے جو ا ب دیا۔ میں ان کے اشارے پر دری پر بیٹھ گیا۔ کہنے لگے تم یہاں تک کیسے آئے۔ میں نے کہا بس یونہی فطرت کے نظارے دیکھنے کے شوق میں چلا آیا۔ کہنے لگے فطرت کے نظاروں کے پسِ پردہ خود فطرت کو بھی جاننے کا کچھ شوق ہے آپ کو۔میں ان کے سوال پر ایک دم چونک گیا۔ دل نے کہا ہو نہ ہو یہ ضرور کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ میں نے کہا قبلہ شوق تو بہت ہے مگر پردے میں جھانکنا نہیں آتا۔ کہنے لگے ۔ کتنے دن کے لئے یہاں ہو۔ میں نے کہا ایک ہفتے کے لئے ۔ بولے ہمارے ساتھ رہو۔ میں نے خوش ہو کر حامی بھر لی۔ مجھے تو یوں لگا جیسے اللہ میاں نے میری دعا سُن لی ہے۔ کہنے لگے۔ بس یہاں بیٹھ کر دو دو رکعت نفل کی نیت باندھ کر ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھو اور سلام پھیر کر اکتالیس مرتبہ یا رحمن کی تسبیح کرو۔ بس اسی ترکیب سے صبح تک نفل پڑھتے رہو۔اس وقت رات ہو چکی تھی۔ہم سب نے کچھ تھوڑا سا کھانا کھایا۔ بزرگ نے سوکھا حلوہ مجھے دیا۔ کھانا کھا کر ہم نے چند منٹ باتیں کیں اور پھر اپنی عبادت میں لگ گئے۔ بزرگ کا حکم تھا کہ عبادت کے دوران بات نہ کی جائے۔ نہ ایک دوسرے کو دیکھا جائے۔ میرا مصلّہ انھوں نے اپنی جگہ سے ہٹا کر ایک بڑے سے درخت کی اوٹ میں بچھانے کو کہا تا کہ ہم دونوں کے درمیان درخت کی آڑ رہے۔

                 میں نے نماز شروع کی میرے لئے زندگی میں یہ پہلا تجربہ تھا۔ جس میں کسی بزرگ کی رہنمائی میں عبادت کر رہا تھا۔ میں خوش بہت تھا کہ اس سلسلے میں کچھ شروعات تو ہوئی۔ ساری رات اسی ترکیب سے نماز پڑھتا رہا۔ مگر ذرا تکان محسوس نہ ہوئی۔ نہ نیند آئی۔ یہاں تک کہ پرندوں کی آوازیں آنے لگیں اور آہستہ آہستہ سیاہ آسمان پر سفید دھاری نمایاں ہو گئی۔ میں نے فجر کی نماز پڑھی اور مراقبہ کرنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے ایک پتلی سی سڑک ہے۔ میں اس سڑک پر چلا جا رہا ہوں۔ راستہ زیادہ روشن نہیں ہے۔جیسے صبح کا ملگجاا اندھیرا سا فضا میں چھایا ہوا ہے۔ دس پندرہ منٹ گزرے تھے کہ بزرگ کی آواز آئی۔ سلمان بیٹے۔ السلام علیکم میں نے سلام کا جواب دیا اور ان کے پاس چلا گیا۔ پوچھنے پر میں نے انھیں بتایا کہ رات بہت جلد گزر گئی۔ہم دونوں نے ناشتہ کیا اور سو گئے۔ آنکھ کھلی تو دھوپ نکلی ہوئی تھی کہنے لگے بس پانی پی کر شام تک یہ ورد کرتے رہو۔ ’’یا وہاب ، یا اللہ‘‘ میں پھر اپنی جگہ پر جا بیٹھا اور مغرب تک یہ ورد کرتا رہا۔

                 مغرب کی نماز پڑھ کر بزرگ نے مجھے بلا لیا۔ ہم نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور میں وہیں دری پر لیٹ گیا فوراً ہی نیند آگئی ابھی مشکل سے ایک گھنٹہ ہی سویا ہوں گا کہ بزرگ نے جگا دیا۔ کہنے لگے تمہارے نفل پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے۔ جائو اور عشاء کی نماز پڑھ کر صبح تک اسی طرح نفل پڑھتے رہو۔ میں پھر اپنی جگہ پر چلا گیا اور صبح تک اسی طرح عبادت کرتا رہا۔ پھر صبح کی نماز کے بعد مراقبہ کیا۔ پھر اپنے آپ کو ایک پتلے سے راستے پر پایا مگر راستہ زیادہ روشن نہ تھا۔ میں اس پر سنبھل سنبھل کر آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ سارا وقت مراقبہ میں یہی کیفیات رہیں۔ سات دن اسی معمول پر گزر گئے۔ ان سات دنوں میں مجھے یہ بزرگ اچھے تو لگے ۔ مگر ان کے لئے میں نے اپنے دل میں اتنی زیادہ محبت محسوس نہیں کی۔ ان سے بچھڑنے کا مجھے کوئی ملال نہ تھا۔میں نے ان سے ادب کے ساتھ معانقہ کیا۔ انھوں نے دعائوں کے ساتھ مجھے رخصت کیا۔

                وہاں سے رخصت ہو کر میں سیدھا پھوپھی کے گھر پہنچا۔ راستے میں نریما میرے ذہن پر چھائی رہی۔میں بار بار اس کے خیال کو جھٹکنے کی کوشش کرتا۔ خیال آتا۔ میں نے جو اتنی عبادت کی وہ ساری عبادت نریما کے خیال سے ضائع ہو جائے گی۔کیونکہ انسان کو صرف اللہ ہی سے محبت کرنی چاہیئے۔ پھر خیال آتا مگر اللہ ہی نے تو یہ رشتے بنائے ہیں اور ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کے حکم پر اس کی مخلوق سے دوستی رکھنا بھی اللہ کی رضا میں شامل ہے۔میرا دل اس تاویل پر مطمئن ہو گیا۔ گھر آیا تو سارے ہی میرے منتظر تھے۔

                رات گئے تک باتوں میں مشغول رہے۔ پھر پھوپھی اور پھوپھا تو سونے چلے گئے۔ وقاص ، نریما اور میں بیٹھے گپ شپ کرتے رہے۔ جانے کیوں میرا جی نہ چاہا کہ ان لوگوں کو بتائوں کہ پہاڑ پر میں کیا کرتا رہا۔بس میں تو فطرت کے نظاروں کی باتیں کرتا رہا۔ سب سمجھے کہ کراچی میں چونکہ قدرتی مناظر کی کمی ہے اس وجہ سے میری دلچسپی ان میں زیادہ ہے۔ تین چار دن میں اور وہاں رہا۔ میں نے محسوس کیا نریما بھی مجھ میں کافی دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ میرے قریب آنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ مگر میں شادی کو روحانی ترقی میں رکاوٹ سمجھتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ باوجود جی چاہنے کے میں اپنے آپ کو الگ رکھنے پر مجبورتھا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ نریما کو میرے کسی بھی رویے سے کوئی غلط فہمی نہ ہو جائے۔ ورنہ پھر میری شادی کا چکر چل جائے گا۔ جلد ہی میں کراچی لوٹ آیا۔ گھر میں اب بھی ہر روز سمیرا باجی کی شادی کے تذکرے تھے۔گھر کی پہلی پہلی شادی تھی۔ سب ہی بے حد خوش تھے۔ میرے ذمے بھی چند کام لگائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے جاب بھی ڈھونڈنا شروع کر دی۔ پاپا  کے بھی کئی جاننے والے تھے۔ ایک ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد مجھے ایک جگہ جاب مل گئی۔ اسی دوران میرا رزلٹ بھی آگیا تھا۔ اللہ پاک نے مجھے کامیاب کر دیا تھا۔ اب گھر میں بہت سی خوشیاں اکٹھی تھیں۔

                ایک تو پاس ہونے کی خوشی دوسرے جاب کی خوشی تیسرے سمیرا باجی کی شادی ، ممی تو ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتی ہی نظر آتیں۔ یہ کر دو ،وہ کر دو۔ انھیں تو بس یہی گھبراہٹ تھی کہ شادی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ میں اپنی جاب میں مصروف ہو گیا۔ ایک ماہ تک تو مجھے بہت لگ کر کام کرنا پڑا۔ کمپنی کے سارے سسٹم کو سمجھے بغیر کام بھی نہیں چل سکتا تھا۔لیکن جلد ہی سیٹ ہو گیا۔ اب شادی میں صرف دو ہفتے رہ گئے تھے۔ کام سے گھر آیا تو ثمینہ نے بتایا کہ کل نریما باجی اور سیماں پھوپھی آ رہی ہیں۔ پھوپھا اور وقاص بھائی شادی پر آئیں گے۔ نریما آ رہی ہے میرے دل میں خوشی کا ایک فوارہ سا پھوٹ پڑا۔ دوسرے دن نریما اور پھوپھی آ گئیں۔ اب ہر روز رات کو محلے کی لڑکیاں جمع ہو جاتیں اور خوب گانے بجانے ہوتے۔ میں اکثر سلیم کے گھر جا بیٹھتا  اور ہم دونوں روحانی موضوع پر کوئی نہ کوئی بات چھیڑ دیتے۔ اسے معلوم تھا کہ میں ان باتوں میں کتنی دلچسپی رکھتا ہوں۔ اسے میں نے پہاڑ والے بزرگ کے ملنے کا سارا قصہ سنایا۔ مگر میں نے یہ بھی بتایا کہ ان سے مل کر مجھے اتنی تسلی نہیں ہوئی۔ ابھی تک میرے اندر تلاش موجود ہے۔ سلیم کہنے لگا ۔ میرے ایک دوست ہیں۔ اُدھیڑ عمر کے ہیں ۔وہ بھی بہت اچھی باتیں کرتے ہیں۔ان کی بعض باتیں تو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ تم سے ملوائوں گا۔ میں نے کہا۔ ہاں شادی کے بعد اطمینان سے اس طرف لگوں گا۔ شادی ہو گئی۔ سمیرا باجی کے شوہر ندیم بھائی بہت اچھے اور با وقار انسان تھے۔ ان کا خاندان بھی کافی بڑا تھا۔ ان کے چاچے ، مامے وغیرہ بہت سارے تھے۔ مگر خاندان میں باہم اتفاق و محبت بہت تھی۔سمیرا باجی کے گھر سے جانے کے بعد گھر کچھ اور سونا ہو گیا اور اب راحیلہ اور ثمینہ زیادہ تر اکٹھی دکھائی دیتیں۔ نریما اور تمام مہمان جا چکے تھے۔ میرا بھی وہی معمول ہو گیا۔ میں آفس کے بعد زیادہ تر وقت قرآن با ترجمہ پڑھنے اور مختلف کتابوں کے پڑھنے میں گزارتا۔

                اسی دوران ایک دن سلیم کا فون آیا کہ میرے گھر آئو جن صاحب کا تم سے ملوانے کا وعدہ تھا وہ آ ئے بیٹھے ہیں۔ میں گیا تو ایک صاحب نہایت معقول شکل و صورت کے بیٹھے تھے۔ان سے باتیں ہوئیں۔ انہوں نے میرے بہت سے سوالوں کے جواب دئیے۔ مگر شاید جس روشنی کی تلاش مجھے ہے وہ ان سے نہیں مل سکتی۔

                ایک دن میں نے خواب میں دیکھا ، میں سات آٹھ سال کا بچہ ہوں۔ دادی اماں میرا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔ دادی اماں میرا ہاتھ پکڑ کر دریا میں کود جاتی ہیں۔ہم جلد ہی دریا کی تہہ میں پہنچ جاتے ہیں تہہ میں دریا بالکل سوکھا ہے ۔ یہ ایک شہر کی طرح ہے۔ ہم ایک راستے پر چلتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی نظر آتی ہے۔ ہم اس پر چڑھ جاتے ہیں۔ یہاں زمین پر ایک بزرگ بیٹھے ہیں۔ زیادہ بوڑھے نہیں ہیں۔ بلکہ پچاس ساٹھ سال کے درمیان ہوں گے۔ سفید کرتا شلوار پر سیاہ واسکٹ۔ہلکی سی داڑھی، دادی اماں کہنے لگیں۔ سلمان یہ صاحب تمہیں اس شہر کی سیر کرائیں گے۔ میں تمہیں ان کے سپرد کرتی ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے میرا  ہاتھ ان صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اور خود غائب ہو گئیں۔ ان صاحب نے مجھے گلے سے لگایا۔میرے اندر جیسے بجلی سی دوڑ گئی اور میری آنکھ کھل گئی۔

                سارا خواب فلم کے سین کی طرح آنکھوں میں آگیا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ دادی اماں کو میرا اب بھی بہت خیال ہے اور اب ضرور میں اپنی مراد پا جائوں گا۔ زندگی اپنے معمول پر تھی۔ ایک دن ہم سب سمیرا باجی کے یہاں گئے۔ وہاں ایک شخص بالکل اسی شکل و صورت کے بیٹھے تھے۔ جیسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ انھیں دیکھتے ہی میں ایک دم چونک گیا۔ سمیرا باجی نے تعارف کرایا۔سلمان یہ ندیم کے تایا ابو ہیں۔ شادی پر باہر تھے۔ جس کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے۔ میں نے سلام کر کے بیٹھنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے آگے بڑھ کر نہایت محبت کے ساتھ مجھے گلے لگا لیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا خواب دن کے حواس میں منتقل ہو گیا ہے۔ گلے ملتے ہی سارے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ وہ کئی منٹ تک گلے سے لگائے کھڑے رہے۔میں نے بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لیے۔ یہ سب غیر ارادی طور پر تھا۔ ایک کشش تھی جو مجھے ان کی جانب کھینچ رہی تھی۔ باتیں کوئی خاص نہ تھیں ۔ سب کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں تھیں۔ بس صرف ایک سوال انہوں نے کیا۔ سلمان میاں خواب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ میں نے کہا ، جناب کچھ خواب سچے بھی ہوتے ہیں۔ فوراً بولے دریا میں غوطہ لگانے کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا جناب یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ وہ مسکرا دیئے۔ندیم بھائی بولے۔ سلمان تایا ابوبہت چھپے رستم ہیں۔ یہ روحانی علوم میں بہت آگے ہیں۔ میں نے کہا۔ جناب بچپن ہی سے ان علوم کو جاننے کا شوق ہے۔ اب تو قسمت نے آپ سے ملوا ہی دیا ہے۔ کیا کبھی آپ مجھے بھی کچھ وقت دیں گے۔ وہ مسکرا دیئے۔ جس وقت چاہو غریب خانے پر آسکتے ہو۔ تم تو اپنے ہی بچے ہو۔ وہ وقت ختم ہوا۔ ہم اپنے گھر لوٹ آئے۔ مگر عجیب بات تھی جتنی دیر وہاں رہا ایک کشش تھی جو ان صاحب کے قریب رہنے پر مجبور کرتی تھی۔دل بار بار کہہ رہا تھا ۔ تمہارا خواب شرمندئہ تعبیر ہو چکا ہے۔ یہی وہ بزرگ ہیں۔ یہی وہ روشنی ہے جس کا تمہیں انتظار تھا۔

                گھر آنے کے بعد بھی وہ بزرگ میرے ذہن سے محو نہ ہوئے۔ دوسرے دن بھی مجھے ان سے ملنے کی تڑپ ستانے لگی۔ ایک جھجک مانع تھی ۔ تیسرے دن بھی دفتر سے آکر جی چاہا ابھی چلا جائوں۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سمجھایا کہ وہ بھی کیا سوچیں گے کہ اتنی جلدی چلا آ رہا ہے۔ مگر چوتھے دن تو کسی طرح صبر نہ ہو سکا۔ میں نے دروازے  پر دستک دی۔ اتفاق سے انھوں نے ہی دروازہ کھولا ۔سلام کرتے ہی گلے سے لگا لیا۔ آئو بھئی ۔ ہم تو کب سے تمہارے انتظار میں ہیں۔ اب میں پھر چونک اٹھا۔ ضرور انہیں میری حالت کا علم ہے۔میں نے جھجکتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنا خواب سنایا اور پہاڑ پر جانے کا حال بھی سنا دیا۔ کہنے لگے ۔ روحوں کی ملاقات تو عالم ِارواح میں ہوتی ہے۔ وہاں پر وہ جن سے مانوس ہو چکی ہیں۔ یہاں بھی ان سے مانوس ہو جاتی ہیں۔ ہنس کر بولے ۔ لگتا ہے ہماری روحیں بھی عالمِ ارواح میں ایک دوسرے سے مانوس ہو چکی ہیں۔ میں بھی ہنس پڑا۔ اب میرے اندر وہ جھجک دور ہو چکی تھی۔ گفتگو کے دوران میں نے انھیں بچپن میں دادی اماں کے ساتھ دریا میں نہانے کے مراقبہ کے متعلق بتا یا۔ وہ چپ چاپ سنتے رہے۔ ویسے بھی وہ کم ہی بولتے تھے۔ میں انھیں اب تایا جان بولنے لگا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہو گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے ان کا قیمتی وقت کافی لے لیا۔ اسی خیال  کے تحت میں نے جانے کی اجازت طلب کی۔ کہنے لگے پھر کب آئو گے۔ میں بے ساختہ بول اُٹھا کل آجائوں گا۔ مسکرا کے فرمایا کل آ جائو۔رخصت ہوتے وقت پھر گلے ملے۔ دوسرے دن ہم دونوں تقریباًدس پندرہ منٹ تک بالکل چپ چاپ بیٹھے رہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی قوت تھی جس نے میری قوتِ گویائی سلب کر لی تھی۔ مجھ پر ایک رعب چھایا ہوا تھا۔ بالآخر سکوت ٹوٹا۔ بولے سلمان میاں !کیا چاہتے ہو۔ میں نے انتہائی ادب کے ساتھ کہا۔ حضور میں چاہتا ہوں کہ آپ میری روھانی تربیت فرمائیں۔ کہنے لگے۔ کاغذ قلم لائو۔ میں دوڑ کے گاڑی سے نوٹ بک اور پین لے آیا۔ کہنے لگے۔ لکھو........    


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء