Topics
رنگ ہوں یا آوازیں ان سب
کی بنیاد لہر ہے۔ آواز کی لہریں بھی طول موج اور تموج کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کے
ارتعاشات سے انسان پر مختلف اثرات کا مرتب ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی ذی
شعور انسان انکار نہیں کر سکتا۔
آواز کی لہریں کان کے
پردے پر ارتعاش مرتسم کرتی ہیں۔ وہاں سے یہ ارتعاش الیکٹریکل امپلس کے ذریعے ذہن
کے ان خانوں تک پہنچتا ہے جن کا تعلق سماعت یعنی سننے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہمارا
ذہن ان آوازوں کو معافی اور مفہوم کا جامہ پہناتا ہے۔ ایک عام آدمی ایسی آوازیں
باآسانی سن سکتا ہے جن کا تموج آٹھ ارتعاشات فی سیکنڈ سے لے کر ۰۰۲۳ ارتعاشات فی سیکنڈ ہوتا
ہے۔ اس سے کم یا زیادہ تموج والی لہروں کو انسانی کان سن نہیں پاتے۔
موسیقی بنیادی طور پر
آوازوں کے مناسب اور موزوں آہنگ کو مانا جاتا ہے۔ موسیقی میں مخصوص تموج اور آہنگ
کی حامل آوازوں کو سر کہا جاتا ہے۔ ان سروں کو ملانے سے راگ اور راگنیاں بنائی
جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر سات سُر مانے جاتے ہیں جن سے مختلف راگ اور راگنیاں بنتے
ہیں۔ دھنک میں بھی سات رنگ ہوتے ہیں اور یہ سات رنگ ہی تخلیقات کی بنیاد اور اصل
ہیں۔ فیثا غورث وہ پہلا فلسفی تھا جس نے موسیقی کے سات سُروں کا ان سات رنگوں سے
باہمی ربط اور تعلق واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ مویسقی سنتے ہوئے اس نے یہ نتیجہ
اخذ کیا تھا کہ موسیقی کے سُروں میں ایسی سادہ عددی نسبت پائی جاتی ہے جو کائنات
میں ہر شئے میں مشترک ہے۔ اس کی بابت افلاطون نے یہ کہا تھا کہ فیثا غورث نے
موسیقی اور علم ہیئت کو ایک دوسرے کے قریب لا کر انہیں ایک ہی علم کی دو شاخیں بنا
دیا تھا۔ فیثا غورث نے پہلا سُر، نیلا، دوسرا جامنی، تیسرا سرخ، چوتھا نارنجی،
پانچواں زرد، چھٹا سبز اور ساتواں آسمانی رنگ سے وابستہ قرار دیا تھا۔ آج کل کی
جدید تحقیق کے نتیجے میں موسیقی کے سات سُروں سے وابستہ ارتعاشات اور رنگوں کی
تفصیل کچھ یوں ہے۔
سُر ارتعاش
فی سیکنڈ متعلقہ
رنگ
Aپہلا 213 سرخ، نارنجی
Bدوسرا 240 زرد
Cتیسرا 256 زرد، سبز
Dچوتھا 288 سبز، نیلا
Eپانچواں 320 نیلا، بنفشی
Fچھٹا 341 جامنی
Gساتواں 384 گہرا سرخ
Aپہلا
سُر 427 سرخ،
نارنجی
آواز اور آہنگ پہ تجربات
سے ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب سورج مکھی کے ایک پودے کے سامنے جب
‘‘روک اینڈ رول’’ کا پُرشور ساز چھیڑا گیا تو سورج مکھی نے اپنا رخ سورج کی طرف سے
ہٹا لیا لیکن کلاسیکی اور دھیمے سروں والی موسیقی سنتے ہی سورج مکھی نے اپنا چہرہ
واپس سورج کی طرف موڑ لیا۔
جس طرح رنگوں کی زیادتی
سے امراض لاحق ہو جاتے ہیں اسی طرح پرُشور آوازیں سنتے رہنے سے انسان میں نہ صرف
بہرا پن پیدا ہو جاتا ہے بلکہ اور بھی کئی طرح کی ذہنی اور دماغی پیچیدگیاں جنم لے
لیتی ہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جب مریضوں کو ان میں ٹوٹتے ہوئے رنگوں سے
مناسبت رکھنے والے سروں کا میوزک سنوایا گیا تو انہوں نے اپنی بیماری اور تکلیف
میں افاقہ محسوس کیا۔
موسیقی کا ایک استعمال
رزمیہ گیتوں کو ایک خاص آہنگ سے سجا کر فوج اور عوام میں جوش اور اشتعال کو
ابھارنے کی صورت میں بھی کیا جاتا ہے۔ فوج میں ہر یونٹ کا اپنا ایک الگ بینڈ ہوتا
ہے جو مارچ کرنے کے دوران سپاہیوں کے قدموں میں تال میل قائم رکھنے کے علاوہ انہیں
ایک طرح کی توانائی مہیا کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
یہ بات بھی ہر صاحب ذوق
شخص کے تجربے میں ہے کہ المیہ گیتوں کو سننے سے طبیعت میں اداسی اور خوشی کے گیتوں
کو جسم و جاں میں مسرت کی لہریں کروٹیں لینا شروع کر دیتی ہیں اس لئے موسیقی کو
روح کی غذا بھی قرار دیا جاتا ہے۔
برصغیر میں موسیقی کے
مختلف سروں سے بننے والے راگوں اور راگنیوں کے اثرات کی بہت سی داستانیں تاریخ میں
مذکور ملتی ہیں اور مختلف راگوں کے مختلف معین اثرات معین مانے جاتے ہیں۔ دیپک راگ
کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے آگ تک لگ سکتی ہے اور ملیہار ایک ایسا راگ مانا
جاتا ہے جس سے بارش تک ہو سکتی ہے۔ اسی طرح مختلف راگوں کو مختلف اوقات سے بھی
منسوب کیا جاتا ہے۔ یعنی صبح کے وقت کے راگ اور ہوتے ہیں اور شام کے وقت کے کچھ
اور جبکہ رات کے وقت کے راگ تو بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی