Topics
کائنات کی بناوٹ کے بارے
میں مادی علوم ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ روحانی سائنسدانوں کے
مطابق کائنات کی تخلیق میں استعمال ہونے والا بنیادی عنصر دُخان ہے۔ دخان یوں تو
دھویں کو کہتے ہیں لیکن دخان درحقیقت ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔ آج کی سائنسی
زبان میں ہم اسے کاربن کہہ سکتے ہیں۔ خالق کائنات نے کاربن ہی کو کائنات کی بنیاد
کیوں بنایا۔ یہ بات اس کی مرضی اور حکمت سے متعلق ہے۔
قدرت نے کاربن کے ایٹموں
سے ایک جال سا بُن دیا ہے۔ اس جال کے اندر حلقوں میں مختلف اقسام کے عناصر اور ان
کی لہروں سے مخلوقات کا ایک جہاں آباد کر دیا ہے۔ ستاروں اور سیاروں سے لے کر
خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والی چھوٹی مخلوقات سب اسی دُخان سے وجود پا کر اپنی
اپنی ہستی کا اظہار کر رہی ہیں۔ یہ دخان اپنی اصلی حالت میں میں ایک لہر کے سوا
اور کچھ نہیں۔
اس دخان کی تین حالتیں
خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مثبت، منفی اور نیوٹرل۔ دخان کی مثبت کیفیت کو ہم مٹھاس
کہتے ہیں۔ انسان اور انسان کی دنیا دخان کی اسی مثبت کیفیت سے وجود میں لائی گئی
ہے۔ مٹھاس کو علم کیمیا کے حوالے سے دیکھیں تو کاربن اس میں جزو اعظم کے طور پر
موجود ملتی ہے مثلاً کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستہ جو ہر غذا کا بنیادی جزو ہے۔ اسی
طرح ہائیڈروکاربن تمام چکنائیوں، تیل اور دیگر اشیاء میں بنیادی کردار کے حامل
ہیں۔ اسی دخان کی منفی کیفیت کو ہم نمک سے تعبیر کرتے ہیں۔ جن اور جنات کی دنیا
دخان کی اسی منفی کیفیت سے وجود پاتی ہیں۔
جب نمک اور مٹھاس کی
مقداریں ایک خاص حد تک کم ہو کر نیوٹرل کیفیت کی حامل ہو جائیں تو فرشتہ اور
فرشتوں کی دنیا یا عالم ملکوت سامنے آ جاتا ہے۔
یہ بات دلچسپی سے خالی
نہیں ہو گی کہ جن لوگوں پر آسیب کا اثر ہوتا ہے یا ان پر جنات کا سایہ آتا ہے تو
اگر ان لوگوں کا علاج کرنے کو ان کا نمک بند کروا دیا جائے تو جناتی اثرات یا آسیب
اور سائے وغیرہ سے نجات مل جاتی ہے۔
روزہ کی اصل حکمت یہی ہے
کہ انسان میں نمک اور مٹھاس کی مقداریں کم ہو کر نیوٹرل لیول پر آ جائیں اور اس
میں ملکوتی صفات اجاگر ہو سکیں لیکن ہم افطار اور سحر کے وقت جتنا نمک اور مٹھاس
اپنے اندر سٹور کر لیتے ہیں اس سے روزہ کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور ہم عالم
ملکوت سے روشناس ہونے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
جسم میں توانائی کے مراکز
ہر جگہ موجود نہیں ہیں لیکن توانائی سر سے پیر تک دور کرتی رہتی ہے اور جسم سے
خارج ہوتی رہتی ہے۔ جس طرح کسی کہکشانی نظام میں ستارے روشنی خارج کرتے ہیں اسی
طرح جسم سے بھی روشنی خارج ہوتی رہتی ہے۔
ظاہری جسم کی طرح انسان
کے اوپر روشنیوں کا بنا ہوا ایک جسم اور ہے۔ اس جسم کو جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ جسم
مثالی ان بنیادی لہروں یا شعاعوں کا نام ہے جو وجود کی ابتداء کرتی ہیں۔ جسم مثالی
(روشنیوں کا بنا ہوا جسم) مادی وجود کے ساتھ تقریباً چپکا ہوا ہے لیکن جسم مثالی
کی روشنیوں کا انعکاس گوشت پوست کے جسم پر نو انچ تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کی مثال ٹارچ Torchہے۔ ٹارچ کے اندر بلب جسم
مثالی ہے لیکن بلب کی روشنی Beamکا
پھیلائو اندر باہر دونوں سمتوں میں ہوتا ہے۔ اس طرح جسم مثالی کے انعکاس کا معین
فاصلہ 9انچ ہے۔ غالباً اسی معین فاصلہ پر روشنی کے انعکاس کو سائنسدان اورا Auraکہہ رہے ہیں۔
جسم مثالی کو کسی بھی
مادی وسیلے سے نہیں دیکھا جا سکتا البتہ جسم مثالی کی روشنیوں کے انعکاس کو دیکھا
جا سکتا ہے۔ انعکاس چونکہ مادیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اس لئے نظر آ جاتا ہے۔ صحت،
رنج و خوشی اور انسانی زندگی کا دارومدار جسم مثالی پر قائم ہے۔ جسم مثالی کے اندر
صحت موجود ہے تو گوشت پوست کا وجود بھی صحت مند ہے۔ انسان کے مادی جسم کے اندر
تمام تقاضے جسم مثالی سے منتقل ہوتے ہیں۔
جب دو افراد بغلگیر ہوتے
ہیں یا معانقہ کرتے ہیں تو دونوں میں دوڑنے والی برقی رو ایک دوسرے میں جذب ہو جاتی
ہے اور اس عمل سے اسپارکنگ kingہوتی
ہے جس کو ہر فرد بجلی کے ہلکے سے کرنٹ کی طرح محسوس کرتا ہے۔
چونکہ تخلیقی عوامل فضا
میں جاری و ساری ہیں اس لئے جب دو آدمی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو فضا
میں موجود لہریں ہزاروں افراد کے اندر اسپارکنگ کرنے لگتی ہیں۔ نتیجتاً ایک آدمی
سے ایک آدمی یا ایک آدمی سے ہزاروں آدمی متاثر ہو جاتے ہیں۔ جسم کو ہر وقت آکسیجن
کی ایک معین مقدار کی ضرورت ہے۔ جب کوئی آدمی جمائی لیتا ہے یعنی جسم میں آکسیجن
کی کمی کو دور کرتا ہے تو سامنے بیٹھا ہوا یا کھڑا ہوا شخص بھی جمائی لینے لگتا ہے۔
دراصل یہ جسم مثالی میں آکسیجن کی طلب کا مظاہرہ ہے۔
مثالی جسم کی شکل و صورت
کا انحصار ہمارے چاروں طرف موجود توانائی کی قوت اور حجم پر ہے۔ یہ توانائی پیروں
کے ذریعہ ہمارے چاروں طرف گردش کرتے ہوئے زمین میں ارتھ ہو جاتی ہے۔ اس طرح خارج
ہونے والی توانائی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہر وقت پیروں میں موجود رہتا ہے۔ چنانچہ
یہ ذخیرہ اور پیروں کے نیچے زمین میں موجود توانائی کا ذخیرہ خاص اہمیت کا حامل
ہے۔ اگر کسی وجہ سے پیروں کے ذریعہ جمع شدہ زائد توانائی خارج نہ ہو تو آدمی کے
اوپر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بہت غور طلب ہے کہ مرگی کے دورہ
سے پیشتر پیروں کے ذریعہ توانائی کے اخراج کے نظام میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔
جسم مثالی میں ہمیشہ تغیر
واقع ہوتا رہتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسم مثالی کی روشنیوں میں ٹھہرائو آ
جاتا ہے۔ جسم مثالی کی روشنیاں جب ایک نقطہ پر چند ثانیوں کیلئے ٹھہر جاتی ہیں اور
آدمی ماحول میں موجود نادیدہ اشیاء دیکھنے لگتا ہے تو آدمی کی اپنی روح سے ہم
آہنگی ہو جاتی ہے۔ یکسوئی اور ارتکاز توجہ کی مشقوں کا بنیادی مقصد جسم مثالی کی
ایسی حالت کو حاصل کرنا ہوتا ہے جب اس کی روشنیوں میں چند ثانیوں کے لئے ٹھہرائو
پیدا ہو جائے اور ذہن اور روح میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔
روح اور جسم کی ہم آہنگی
سے انسان میں محبت اور خدمت کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ جسم اور روح سے ہم آہنگ
انسان جب کسی کمرے میں داخل ہوتا ہے تو اس کمرے کا ماحول روشن ہو جاتا ہے اور فضا
لطیف ہو جاتی ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن
کا جسم مثالی پورے کمرے پر چھا جاتا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا جسم
مثالی سکڑ جاتا ہے یا بد رنگ ہو جاتا ہے۔
بدرنگ جسم مثالی سے فضا
خراب اور ماحول مکدر ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے جسم مثالی میں کوئی تبدیلی واقع
نہیں ہوتی لیکن وہ دوسروں کے مثالی جسم کو متاثر کر دیتے ہیں۔ یہ مثبت اور منفی
دونوں طرزوں میں ہوتا ہے۔ جب دو شخص ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو طاقتور کمزور کو
متاثر کر دیتا ہے۔ باالفاظ دیگر ایک کا رنگ دوسرے پر غالب آ جاتا ہے۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی