Topics

اٹھائیسواں باب ۔ رنگوں کا ٹوٹنا


                جسم انسانی میں درکار رنگوں کی مقدار میں ایک توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جب یہ توازن بگڑ جائے اور رنگوں کی مقدار اعتدال پر نہ رہیں تو جسم انسانی میں رنگین لہروں کا نظام اور اس کے نتیجے میں بننے والی برقی رو کمی بیشی کا شکار ہو جاتی ہے۔ رنگوں کی مقدار میں بے اعتدالی اور عدم توازن کو عرف عام میں رنگوں کا ٹوٹنا کہتے ہیں۔

                درحقیقت کسی مخصوص طول موج اور تموج والی لہر کو رنگ کہا جاتا ہے۔ یہ لہر جسم انسانی میں داخل ہو کر عضلات اور اعصاب کے خلیوں کے مرکزوں میں موجود کروموسومز کو توانائی کی متعین مقداریں مہیا کرتی ہیں۔ کروموسوم یعنی رنگین جسمیسے اس وقت تک اپنے افعال اور کارکردگی دست انداز میں سر انجام دیتے ہیں جب تک انہیں درکار توانائی کی معین مقداریں دستیاب رہتی ہیں۔ جب ان رنگین جسمیوں (کروموسوم) کو درکار توانائی کی معین مقداریں ملنا بند ہو جاتی ہیں تو ان کی کارکردگی اور افعال متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی کارکردگی میں بگاڑ کا اظہار مختلف امراض کی صورت میں ہوتا ہے۔

                توانائی کی معین مقداریں کیسے کم ہو جاتی ہیں یا رنگوں کے ٹوٹنے کا عمل کیوں ہوتا ہے تو اس کی بنیادی طور پر دو تین وجوہات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

                پہلی وجہ تو رنگوں کی لہروں کی عدم دستیابی ہے یعنی جب انسان لگاتار روشنی اور دھوپ سے دور رہتا ہے تو اس کو درکار رنگین لہریں دستیاب نہیں رہتیں تو اس کے اندر موجود ذخیرہ شدہ توانائی کے ذخائر استعمال ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب یہ ذخائر بھی ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جسم ہنگامی حالت کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس ہنگامی صورت حال کا اظہار جسم کے مختلف اعضاء و جوارح میں درد ہونے، کسی مرض کی علامت کی صورت میں، یا پھر طبیعت میں بیزاری، اضمحلال، جھنجھلاہٹ وغیرہ کے طور پر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

                قدرتی روشنی اور دھوپ سے دور رہنا اور مصنوعی روشنیوں میں زندگی گزارنا آج کے انسان کا طرز زندگی بن چکا ہے۔ اس نے ایسا طرز رہائش اپنا لیا ہے کہ گھروں اور رہائش گاہوں میں دھوپ کا گزر کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

                دوسری وجہ خلیوں میں مرکزے کے گرد موجود شفاف مائع سائٹو پلازم کا دھندلا جانا ہوتا ہے۔ جسم انسانی کے خلیات کے اندر موجود مائعات کی رنگت میں تبدیلی سے خلیوں ک ے مراکز میں موجود رنگین جسمیوں (کروموسومز) کو ملنے والی لہروں کی توانائی اور تموج میں فرق آنا شروع ہو جاتا ہے اور اس فرق کا اظہار بھی مختلف امراض کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔

                خلیوں کے شفاف مائعات کے دھندلانے اور شفاف نہ رہنے کی اصل وجہ انسانی خیالات و افکار میں بے یقینی اور شک در آنا ہوتا ہے جب انسان تواہمات کا شکار ہو جاتا ہے، بے یقینی اور وسوسے اس کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، جذباتی، عدم توازن اس کا رویہ بن جاتا ہے، پراگندہ ذہنی، اعصابی تنائو اور دماغی کشمکش اس کا چلن قرار پا جاتے ہیں اور وہ انتشار خیال اور عدم تحفظ کی چادر اوڑھ کر زندگی کی شاہراہ پر گامزن رہتا ہے تو نت نئے امراض اس کے ہمرکاب ہو جاتے ہیں۔ جب خیالات میں پاکیزگی نہیں رہتی، الجھائو اور پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے تو جسم انسانی میں گردش کرنے والی برقی رو اور رنگوں کے بہائو میں توازن برقرار نہیں رہتا اور اس کا براہ راست اثر جسم میں موجود شفاف مائعات پر پڑتا ہے اور وہ دھندلا جاتے ہیں۔ ان مائعات کے دھندلانے اور غیر شفاف ہو جانے سے کروموسومز کو درکار رنگوں میں فطری توازن برقرار نہیں رہتا اور مہیا ہونے والی توانائی کی معین مقداریں بھی برقرار نہیں رہتیں۔ اس سے پورا جسمانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس ٹوٹ پھوٹ کا اظہار مختلف امراض کی صورت میں ہوتا ہے۔

                افکار و خیالات کا جسم انسانی کارکردگی پہ پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ ہم افکار و خیالات کے میکانزم سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہوں۔ جب ہم کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کا عکس روشنی یا آواز کی لہروں کے ذریعے ہمارے دماغ میں تحریک پیدا کرتا ہے تو اس سارے عمل میں توانائی خرچ ہوتی ہے۔ اس خرچ ہونے والی توانائی کی اکائی کو کیلوریز کہا جاتا ہے۔

                یعنی جب ہم کسی ایک چیز کو دیکھتے یا کسی آواز کو سننے کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہمارا ذہن اس چیز کے عکس یا آہنگ کی لہروں کو ایک خاص عمل سے گزار کر اس کا مفہوم اخذ کرتا ہے۔ اس عمل میں فرض کریں کہ ایک اکائی کے برابر توانائی خرچ ہو گئی اب اگر ہم کسی ایسے کمرے میں رہائش پذیر ہیں جہاں بے شمار اشیاء موجود ہیں تو ہر شئے سے خارج ہونے والی لہروں اور ان کے عکس دماغ میں وارد ہونے سے توانائی کے خرچ ہونے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اسی طرح جب ہم کسی پرشور جگہ پر قیام کرتے ہیں تو ہمارے اندر توانائی کا خرچ شور کے تناسب سے بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شور اور پر ہجوم جگہ میں رہنے سے زیادہ تھک جاتے ہیں اور سکون کیلئے کسی ایسی جگہ کے متلاشی ہوتے ہیں جہاں عکس اور آہنگ کی زیادتی نہ ہو۔

                اس ضمن میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنا ضروری ہے کہ بے ترتیب رکھی گئی اشیاء اور بے ہنگم آوازوں کا شور طبیعت پر ترتیب اور سلیقے سے رکھی گئی اشیاء اور ایک خاص سرتال اور آہنگ والی آوازوں کی نسبت زیادہ بوجھ کا سبب بنتا ہے۔ اس لئے جن گھروں میں اشیاء کو ترتیب اور سلیقے سے سجایا گیا ہو وہ ذوق جمال پر اتنی گراں نہیں گزرتیں۔ اس بات پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے ترتیب اور بے ہنگم اشیاء اور آوازیں ذہن کی زیادہ توانائی خرچ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس ہی بات کو رنگوں کا ٹوٹنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس خرچ شدہ توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں زائد توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یعنی آرام کرنے سے جسم انسانی میں خرچ شدہ توانائی کا ذخیرہ پورا ہو جاتا ہے۔ درحقیقت آرام کرنے سے توانائی کے خرچ میں رکاوٹ آ جاتی ہے اور لاشعور کی مشین انسانی ذہن کو توانائی کی رسد اور ترسیل جاری رکھتی ہے۔ اس سے ذہن کو از سر نو چارج ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر اس دوران مناسب رنگوں کی شعاعیں بھی دستیاب رہیں تو چار جنگ کا مرحلہ تیز اور بہتر طور پر مکمل ہو جاتا ہے۔ جب ذہن کو روشنی کی رنگین شعاعیں اپنی توانائی منتقل کر دیتی ہیں تو یہ توانائی اس رنگ کو دیکھنے میں درکار توانائی سے زیادہ ہونے کے باعث کسی قدر خرچ ہو جانے کے باوجود بچ رہتی ہے اور ہمارے ذہن میں ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ بعد میں یہی توانائی ہمارے کسی اور کام آ جاتی ہے۔

                یہ امر نہایت غور سے سمجھنے کا متقاضی ہے جہاں ایک طرف خیالات کی ایک قسم کی لہریں انسانی ذہن کو توانائی بخشتی ہیں وہاں دوسری قسم کے خیالات کی لہریں ذہن انسانی کی توانائی کے زیاں کا سبب بنتی ہیں۔ اس چیز کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ مثبت خیالات، نیک جذبات، سچائی اور ایثار کے تصورات، دوسروں کے کام آنے اور خدمت خلق کی خواہشات رکھنے والے لوگوں میں توانائی اور قوت کار ان لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے جن کے خیالات منفی سوچوں، غیر تعمیری تصورات اور ہیجان انگیز جذبات سے دوچار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھتے ان کی بابت یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ جنس اور جذبات کے غیر صحتمندانہ رجحانات کے باعث اپنا بیشتر وقت غیر صحت مندانہ خیالات اور رجحانات کی زد میں گزارنے کے باعث اپنے ذہن کی توانائیوں کو اس قدر ضائع کر لیتے ہیں کہ ان کے ذہن میں دیکھے گئے خوابوں کو یاد رکھنے کی طاقت تک باقی نہیں رہتی۔

                روشنی کی رنگین لہریں دراصل ہمیں وہ توانائیاں مہیا کرتی ہیں جن کو انسان اپنی ناقاعبت اندیشی سے ضائع کرتا رہتا ہے۔ رنگوں کی لہریں اپنے اندر قوت اور توانائی کے وہ ذخائر رکھتی ہیں جن کو انسانی دماغ اپنے اندر جذب کر کے ان سے استفادہ کرتے ہوئے مختلف افعال کو باحسن و خوبی سر انجام دیتا ہے۔

                جب ذہن انسانی خود کو ایسے خیالات کا اسیر بنا لیتا ہے جو فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہوتے تو روشنی اور رنگوں کے بہائو میں رکاوٹ پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ لالچ، جھوٹ، خوف، بے یقینی، وسوسوں، عدم تحفظ کا احساس، جذباتیت، غصہ، ذہنی کشمکش اور انتشار خیال وغیرہ نہ صرف ہمیں فطرت سے دور کرتے ہیں بلکہ فطرت کے مقرر کردہ بہائو کے مخالف سمت لے جاتے ہیں اس لئے ان میں گھرے ہوئے لوگوں کی توانائیاں ضائع ہوتی رہتی ہیں جبکہ وہ لوگ جو تعمیری اور مثبت طرز فکر رکھتے ہیں وہ فطرت کے مقرر کردہ بہائو کے ساتھ ساتھ بہنے کے باعث اپنی توانائیوں کے زیاں سے محفوظ رہتے ہیں اور نہ صرف ان کی صحت اور تندرستی برقرار رہتی ہے بلکہ ان کی قوت ایسے کاموں میں صرف ہوتی ہے جن سے خود ان کو اور ان کے قریب رہنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔

 


 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی