Topics
انیسویں صدی عیسوی میں
فرانسیسی ڈاکٹر لوئی پاسچر نے امراض پہ تحقیق کے دوران یہ انکشاف کیا کہ بیماریوں
کی اصل وجہ جراثیم ہوتے ہیں۔ جراثیم وہ خوردبینی جاندار ہوتے ہیں جو جسم انسانی کے
اندر فساد اور بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں۔
طب جدید کے مطابق جسم انسانی
میں مختلف نظام ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کر رہے ہیں۔ انسانی جسم کی
تندرستی کا انحصار انہی نظاموں کی درست کارکردگی پر ہے۔ یہ نظام انہضام، تنفس،
اخراج، تخلیق و پیدائش (جنس) دماغ، اعصاب، حرکت اعضاء اور گردش خون کے نظام ہیں۔
خوردبین کی ایجاد اور
ٹیکنالوجی(Technology) کی
ترقی سے طب جدید نے خود کو خوب آراستہ کیا ہے۔ اور علم الابدان(Anatomy) کے شعبے میں مہارت کو
بڑھا کر جراحت یعنی سرجری کو بہت ترقی دی ہے۔ سرجری میں نت نئے اوزاروں اور آلات
کی بدولت وہ نہ صرف زندہ اجسام کے اندر اتر کر دیکھنے پر قادر ہو چکے ہیں بلکہ
جسمانی اعضاء کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت اور اعضا کی منتقلی میں حیران کن کارناموں کی
انجام دہی میں مصروف ہیں۔
طب جدید میں چونکہ بیماری
کی بنیادی وجہ جراثیم کو گردانا جاتا ہے اور ہر بیماری کے جراثیم کی شکل و صورت
اور ماہیت الگ ہوتی ہے۔ اس لئے مختلف اقسام کے جراثیم کو مارنے کیلئے مختلف
ادوایات تجویز کی جاتی ہیں چونکہ مقصد جراثیم کو ختم کرنا ہوتا ہے اس لئے جو
ادویات تجویز کی جاتی ہیں وہ عموماً کوئی نہ کوئی زہر ہوتا ہے جس کو اینٹی بائیوٹک(Antibiotics) کہا جاتا ہے۔
طب جدید میں استعمال ہونے
والی ادویات کو چار اقسام کے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ ضدِ حیات ادویات (Anti-biotics)
مختلف جراثیموں کو ختم
کرنے کیلئے پنسلین، مائی سین اور دیگر طاقتور سمیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دافع
عفونت ادویہ(Anti-septics) ویکسین
اور بخار کی ادویہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں ان میں سے ہر دوائی زہریلے مادوں پر
مشتمل ہونے کے سبب مضرت رساں ذیلی اثرات کی حامل ہوتی ہے اور ذرا سی بے احتیاطی سے
فائدے کی بجائے نقصان ہو جاتا ہے۔
۲۔ درد ختم کرنے والی ادویات(Pain
Killers)
یہ ادوایات ایسی خصوصیات
کی حامل ہوتی ہیں جن کے باعث درد کا خاتمہ مکمل طور پر تو نہیں ہوتا لیکن یہ
متعلقہ اعصاب میں ایسی حالت پیدا کر دیتی ہیں جن سے درد کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔
ان ادویہ میں ایسے مادے شامل ہوتے ہیں جو درد کے مقام سے اٹھنے والی لہروں کو
متعلقہ اعصابی ریشوں اور دماغ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ جتنی دیر تک یہ مادے اعصابی
ریشوں میں موجود رہ کر درد کی اطلاع لے جانے والی لہروں کا راستہ روکے رہتے ہیں
درد کا احساس کم ہوتا ہے۔ جب جسم کا مدافعتی نظام ان مادوں کو خون کی صفائی کے
دوران جسم سے نکال باہر پھینکتا ہے تو درد کا احساس فزوں تر ہو جاتا ہے۔
۳۔ مسکن ادویہ(Tranquillizers)
یہ ادویہ اعصاب اور ذہنی
خلیوں میں ایسی کیمیاوی تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہیں جن سے نیند طاری ہو جائے اور
مریض کا لاشعور جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کر سکے۔ بنیادی طور پر ان
ادویات میں کوئی نہ کوئی نشہ آور مرکب مثلاً افیون وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مریض کو سلانے کے علاوہ اعصابی اور ذہنی امراض کے علاج کے لئے بھی انہیں ادویہ کا
استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ادویہ نشہ آور مرکبات پر مشتمل ہوتی ہیں اس لئے
مریض ان کو لگا تار استعمال کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور جب وہ ان کو چھوڑنا چاہتا
ہے تو اس کو دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
۴۔ طاقت بخش ادویہ (Vitamins)
جسم میں زہریلی ادویات کے
فاسد اثرات کو کنٹرول کرنے اور جسم کو توانائی مہیا کرنے کیلئے وٹامنز اور معدنی
اجزاء پر مشتمل ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ اس قبیل کی ادویہ میں ہارمون اور
سٹیرائڈ (Steroids) بھی
شامل ہیں۔
جدید طب میں امراض اور
ادویات کے ناموں کی فہرست بہت طویل اور پیچیدہ بنا دی گئی ہے اور کچھ اس علم کو
الفاظ کے گورکھ دھندے میں پراسرار بنا کر پیش کرنے کی خواہش نے ایسا کر دیا ہے
تاکہ یہ عام فہم نہ رہے۔ بڑی سرمایہ دار کمپنیوں نے اس طب کو بیمار انسانوں سے
دولت اکٹھی کرنے کا فن بنا دیا ہے۔ ادویات کی روزافزوں گرانی نے عام آدمی کے لئے
علاج معالجے کی سہولت کو اس کی دسترس سے باہر کر دیا ہے۔
یہ بات بہت ہی غور طلب ہے
کہ جب ایک طرف کینسر اور ایڈز جیسے امراض کا نام لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ امراض
لاعلاج ہیں تو پھر آخر انہی امراض کا علاج اتنا مہینگا اور قیمتی کیوں ہے اور انہی
امراض کے علاج کیلئے اتنے مہنگے ہسپتالوں کا قیام کیا معنی رکھتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ
علم الجراثیم نے ہمیں پاک اور صاف پانی پینے، عمدہ اور صاف ستھری غذا کے استعمال
کا پابند کیا اور بہت سی متعدی بیماریوں سے نجات دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
لیکن اس نظام علاج کے تحت تیار کی جانے والی ادویات کے مضر اثرات اور ادویاتی رد
عمل Medicinal Reactionsنے
انسانی صحت اور تندرستی کو جن خطرات سے دوچار کیا ہوا ہے ان سے مفر کی کوئی صورت
نظر نہیں آتی۔ سائنسدان دن رات ان کوششوں میں جتے ہوئے ہیں کہ کسی طور ان ادویات
کو مضر اثرات سے پاک کر لیں۔ تحقیق گاہوں میں زہروں کا زہر اور سمیت دھونے کے
مقابلے ہو رہے ہیں، ان کو انسانوں کے لئے قابل ہضم بنانے کی سرتوڑ کوششیں ہو رہی
ہیں لیکن کامیابی ایک سراب بن کر سب کو ایک دام میں الجھائے ہوئے ہے۔ سب اسی آس پر
اس تگ و دو میں مصروف ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ زہر کو تریاق بنانے میں ضرور کامیاب
ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی