Topics

ستائیسواں باب ۔ بیماری کی وجوہات


                جب خلیوں میں برقی رو کا تصرف ہوتا ہے اور یہ رو کی شکل اختیار کر کے ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے تو اس ٹکرائو سے بے شمار رنگ بنتے ہیں۔ ان رنگوں کا نام ہم وہم یا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور حقیقتاً یہ تمام کیفیات جو ہمارے دماغ میں وارد ہوتی ہیں انہی رنگوں کا تنوع ہے۔ یہ تنوع کبھی اپنی حدود سے باہر نکلنا چاہتا ہے لیکن باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ اگر اسے ملے جب ہی تو یہ ممکن ہے کہ باہر نکل سکے۔ ہوتا یہ ہے کہ اتفاق سے ام الدماغ کے اندر بہت سی رویں جمع ہو جاتی ہیں اور جمع ہو کے ایک دوسرے کا راستہ روک دیتی ہیں۔ وہ دروازے جو ان کو باہر لے جانے یا اندر لانے کا کام کرتے ہیں ان سب میں اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ اس رو کے باہر آنے یا اندر جانے میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ اگر ایسی حالت میں پانی سامنے آ جائے تو اس بند رو کی شعاعیں ضرب کھا کر کئی گنا ہو جاتی ہیں جس سے مرگی کا دورہ پڑ جاتا ہے اور اس وقت تک جب تک آنے جانے والے دروازوں پر رو کا ہجوم معمول سے زیادہ رہتا ہے مرگی کا دورہ آدمی کو بے ہوش رکھتا ہے۔ اگر ایسے مریض کے سر کو زمین سے صرف ایک انچ اوپر تک اپنے ہاتھ پر اٹھا لیا جائے اور دو تین مرتبہ سر کو ہلکی سی جنبش سے ہلایا جائے تو دورہ ختم ہو جاتا ہے۔ تاہم آنکھ کی پتلیوں کی نگرانی کچھ دیر تک کریں تا کہ وہ خلیے جو حافظہ سے متعلق ہیں، دیکھنے والے کی نگاہوں سے ٹکرائیں۔ اس سے دروازوں میں ہجوم کی رو تیزی سے کم ہو جاتی ہے اور مریض ہوش میں آ جاتا ہے۔ مرگی کے مرض کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ پتلیاں اپنی جگہ سے کچھ نہ کچھ اوپر کی طرف ہٹ جاتی ہیں۔

                جب ام الدماغ کے اندر رو کا ہجوم ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا لہٰذا دبائو کی بنا پر خلیوں کے اندر کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں اور راستہ کہیں کہیں سے زیادہ کھل جاتا ہے۔

                یہ ضروری نہیں ہے کہ کہیں خلاء قطعی نہ ہو۔ اکثر خلیوں میں رو صفر کے برابر ہو جاتی ہے تو آدمی بیٹھے بیٹھے بالکل بے خیال ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی مرض نہیں ہے لیکن ام الدماغ میں جب ایسا خلا واقع ہوتا ہے تو خلیوں میں ایک سمت رو کا تصرف بہت بڑھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خلیے کسی بھی قسم کی یادداشت سے خالی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ آدمی پرانے واقعات یاد کرنا چاہتا ہے بار بار یاد کرنا چاہتا ہے لیکن یاد نہیں آتے۔ایک طرف تو یہ ہوتا ہے اور دوسری طرف رو کا اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے خلیوں کی رو میں جو ترتیب ہونی چاہئے وہ نہیں رہتی بلکہ اس میں ایسی بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے کہ مریض ایک بات زمین کی کہتا ہے تو ایک آسمان کی۔ ایسے شخص کو ہم اپنی اصطلاح میں پاگل کہتے ہیں۔ پاگل پن کم ہو یا زیادہ اس کی کوئی شرط نہیں۔

                بعض اوقات صرف چند ہزار خلیے رو کے تصرف سے بالکل خالی ہو جاتے ہیں یا ان میں رو کا تصرف قطعی نہیں رہتا۔ رو کا تصرف نہ ہونے سے یہ منشا نہیں ہے کہ رو ہی نہیں ہے بلکہ رو میں ترتیب نہیں رہتی۔ یہاں تک کہ وہ بالکل بے قاعدہ ہو جاتی ہے۔ اب چند ہزار خلیوں کے بے ترتیب ہونے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک بات کا تعلق دوسری بات سے قائم نہیں رکھ سکتا۔ کبھی کبھی اس پر بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ ایسا ناممکن ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش نہ آتے ہوں یہ کوئی بیماری نہیں ہے مگر بار بار ایسا ہونے سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کو حافظہ کی زیادہ کمزوری کا نام دیا جاتا ہے۔

                جب ام الدماغ میں اس طرح کی کئی خلاء بن جاتے ہیں اور کئی جگہ روکا ہجوم ہو جاتا ہے تو کئی قسم کے بخار شروع ہو جاتے ہیں۔ ان بخاروں کی وجہ رو کے ہجوم کا اچانک رنگ بدلنا ہے۔ رنگ کے اچانک تبدیلی کے عمل کو یرقان کہتے ہیں۔ یہ مرض مہلک ہے اس کا علاج آسان ہو جاتا ہے اگر مریض لیٹا رہے اور کھانے میں ممنوع اشیاء استعمال نہ کرے۔ دوسرے نمبر پر ٹائیفائیڈ ہے اس کا وقت متعین ہے پھر بھی اگر صحیح علاج کیا جائے تو بہت جلد افاقہ ہو جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر لال بخار ہے یہ ایک سو چار سے کم نہیں ہوتا۔ چہرہ پر سرخی آ جاتی ہے۔ ہاتھ پیروں میں اینٹھن رہتی ہے، بے چینی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کمر سے نیچے کا حصہ بالکل بیکار ہو جاتا ہے۔ مریض حرکت نہیں کر سکتا۔ چوتھے نمبر پر گردن توڑ بخار آتا ہے اس میں جہاں خلیوں کی جگہ خالی ہوتی ہے وہاں مخلوط رنگ کی رو پانی بن جاتی ہے۔ اس پانی کو نکال دیا جائے اور صحیح علاج کیا جائے۔ پانچویں نمبر میں کالا بخار آتا ہے اس میں مریض کا رنگ بالکل سیاہ ہو جاتا ہے۔ لیکن زیادہ مہلک نہیں ہے اس کا صحیح علاج کیا جائے تو جلد افاقہ ہو جاتا ہے۔

                اگر ام الدماغ کے اندر خلاء بہت واقع ہو جائے اور ہجوم بہت کم ہو تو حرام مغز (Spinal Cord) سے جو تار حرارت لے کر جاتے ہیں وہ حرارت مقدار میں اتنی کم ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں جوڑوں میں گلٹی بن جاتی ہے۔ اس گلٹی میں سیکنڈوں میں چھوٹے چھوٹے باریک کپڑے پیدا ہو جاتے ہیں اس کی وجہ حرارت کا ایک سمت میں زور ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات حرارت کا یہ زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ مریض کا ٹمپریچر 108یا 110تک پہنچ جاتا ہے اور بعض اوقات 110سے بھی اوپر چلا جاتا ہے اور نتیجہ میں موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس بخار کو گلٹی کا بخار کہا جاتا ہے۔ اگر ابتداء میں اس کو صحیح سمجھ لیا جائے اور صحیح معالجہ ہو تو مریض شفایاب ہو سکتا ہے۔

                اگر ام الدماغ میں چھوٹے چھوٹے خلاء بن جائیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے تو پھیپھڑوں میں ایک خاص قد و قامت کے کیڑے گلے کے ذریعے اترتے رہتے ہیں۔ یہ کیڑے کہیں بھی جمع ہوتے رہتے ہیں اور یہی مرض دق یا سل کہلاتا ہے۔ اسی وجہ سے ان امراض میں کھانسی کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے علاج میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ سپائنل کارڈ کے وہ ریشے جو صحت مند ہوتے ہیں کسی نہ کسی طرح کمزور ریشوں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ ان کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ وہی برقی رو ہے جو دماغ کے خلیوں میں تصرف کرتی ہے۔ اگر ان طاقتور ریشوں کی تقسیم یکساں ہے تو آدمی کا سینہ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر تقسیم میں یکسانیت نہیں ہے تو سینہ کی پسلیاں جو اس رو کی زد میں آتی ہیں، کمزور اور نرم رہ جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے کبھی کبھی کوئی صاحب کبڑے بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اگر یہ مرض ہو تو تقریباً لا علاج ہے۔ پیدائشی نہ ہو تو نہایت محتاط معالجہ سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔

                جب کبھی اس رو کا تصرف چہرہ کی کسی سمت میں ہوتا ہے تو لقوہ ہو جاتا ہے۔ لقوہ کا تعلق اعصاب سے ہے۔ یہ تنہا ام الدماغ کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ دماغ کے خلیوں کی درمیانی رو جب ایک طرف زور ڈالتی ہے تو اعصاب کو ٹیڑھا کر دیتی ہے۔ اس کا اثر کانوں، آنکھوں، ناک اور جبڑے پر پڑتا ہے۔ بعض اوقات بینائی بھی اس سے متاثر ہو جاتی ہے۔ ناک کی ہڈیاں بھی ٹیڑھی ہو جاتی ہیں اور جبڑہ کا جو حصہ دانتوں کو سنبھالے ہوئے ہے وہ حصہ بھی متاثر ہوتا جاتا ہے۔ اس رو کا اثر زیادہ تر پیشانی پر ہوتا ہے۔ اگر اس کا علاج بروقت کر لیا جائے تو اس حد تک شفا حاصل ہو جاتی ہے کہ بغیر غور کئے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس شخص کو کبھی لقوہ ہوا تھا۔

                جس ہڈی کو ہنسلی کہتے ہیں، گردن کے ارد گرد اس رو کی گذرگاہ ہے جو ام الدماغ سے چلتی ہے اس ہڈی کے ٹوٹنے سے بھی ام الدماغ کے ریشوں میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔ اس نقص کو سوائے بندش کے دور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بندش سے ہی وہ رو اپنی جگہ پھر قائم ہو جاتی ہے۔

                جہاں سے وہ ہٹ چکی تھی۔ اس مرض میں نیلی شعاعوں میں تیار کردہ تیل نہایت مفید علاج ہے۔ لیکن پھر بھی اس میں گرہ پڑنے کا امکان ہے۔ یہ گرہ ہاتھوں پیروں سے کام کرنے والوں کے لئے تو کوئی مضرت نہیں رکھتی لیکن دماغی کام کرنے والوں کو نقصان پہنچاتی ہے، یہ گرہ جس قدر تحلیل ہو جائے دماغی کام کرنے والوں کیلئے بہتر ہے۔

                برقی رو جب ام الدماغ سے گزرتی ہے اور کوئی وجہ ایسی ہو جاتی ہے کہ اس رو کے درمیان (Cosmic Rays) آ جائیں اور یہ رو کم سے کم اپنی جگہ سے 4،5انچ بائیں طرف ہٹ جائے تو اس کا حملہ یک لخت دل پر ہوتا ہے اس کو ہارٹ فیلئر(Heart Failure) کہتے ہیں۔ اس میں مریض کے بچنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہی کوسمک ریز رو کو داہنی طرف چار پانچ انچ ہٹا دیں تو برقی نظام سب کا سب تباہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ سیدھے کندھے سے پیر تک اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس کو فالج کا نام دیا جاتا ہے اور پولیو بھی کہا جاتا ہے۔ بروقت صحیح علاج سے صحت مندی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ تاخیر ہو جانے یا علاج غلط ہونے سے بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔

                دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دل کی جنبش اور اس کا پمپنگ سسٹم پیدائش سے موت تک کوسمک ریز کے ذریعے قائم رہتا ہے۔ لیکن یہ کوسمک ریز متوازن ہوتی ہیں اور ان کا داخلہ جسم کے مسامات کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ ہمہ وقت دل کو ہلاتی ہیں لیکن زیادہ موثر کوسمک ریز ہیں جو دماغ کے مسامات کے راستے سے داخل ہوتی ہیں۔ ان شعاعوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ یہ دماغ میں داخل ہوتے ہی ارب ہا ارب خلیوں میں عمل کرتی ہیں۔

                یہ تمام برقی رو جو خلیوں میں بنتی ہے زیادہ تر ام الدماغ کے ذریعے جسم کو ملتی ہے اگر اس رو کی صحیح تقسیم ہوتی ہے تو آدمی تندرست رہتا ہے اور دل خون کو صحیح طریقہ پر پمپ کرتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دل کی لاکھوں رگیں اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ اگر اتفاق سے ان رگوں میں سے کچھ رگیں اپنا کام صحیح نہ کریں تو اس کا اثر تمام اعصاب پر پڑتا ہے۔ اس کیلئے بروقت صحیح علاج کر لیا جائے تو مریض بہت جلد تندرست ہو جاتا ہے۔

                جگر قدرت کا بنا ہوا ایک عجوبہ ہے جس میں لاکھوں قسم کی برقی رویں ہر وقت دوڑتی رہتی ہیں۔ یہ اپنی ساخت میں اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اگر اس کی خرابیاں شروع ہو جائیں تو کم سے کم 15سال میں اسے بیکار کرتی ہے۔ اس میں اور ذخیروں کے علاوہ فولاد، گلائیکو جن (مٹھاس) کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ دراصل گلائیکو جن ہی جسم میں توانائی کا بڑا ذریعہ ہے۔ جگر کے اندر سے جو برقی رو گزرتی ہے وہ زائد اور بیکار خلیوں کو الگ کر کے خون میں صحت مند خلئے شامل کر دیتی ہے۔ جگر کے اندر کبھی کبھی السر بھی ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غیر صحت مند خلیوں کی تعداد لاکھوں گنا زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کا انحصار غذا پر ہے۔ اگر غذا بار بار اور زیادہ مقدار میں کھائی جائے تو معدہ میں اس کا قوام صحیح نہیں بنتا جس سے جگر آہستہ آہستہ متاثر ہوتا رہتا ہے اور وہ خراب ہو جاتا ہے۔ جگر کا تعلق براہ راست معدہ اور آنتوں سے ہے۔ ان آنتوں میں قدرت کا ایک خاص پرزہ لگا ہوا ہے جس کو لبلبہ کہتے ہیں اور اسی کے اوپر تمام جسم کو صحت مند رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ یہ حسب ضرورت انسولین بناتا ہے اور جگر کو دیتا ہے اور انسولین کی کمی سے ذیابیطس ہو جاتی ہے جس کا تمام اعصاب پر اثر پڑتا ہے۔

                تلی کا ایک خاص کام ہے وہ یہ ہے کہ خون میں جتنے زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں ان سب کو جذب کرتی ہے اور یہاں تک ان کی نوعیت بدل دیتی ہے کہ انہیں خشک کر دیتی ہے۔ تلی کی خرابیاں برقی رو کی کمی سے ہوتی ہیں۔

                برقی رو کی کمی جسم میں دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک قسم کی کمی سے تلی متاثر ہوتی ہے اور خراب ہو جاتی ہے اور دوسری قسم کی کمی سے پتہ متاثر ہوتا ہے۔ پتہ حالانکہ بہت مختصر ہوتا ہے لیکن خون کے دوران میں جو ایک خاص قسم کا زہر اس کے اندر سے ہو کر گزرتا ہے یہ اس کو جذب کر کے خشک کر دیتا ہے۔ اس زہر کے جذب اور خشک ہونے کا ایک خاص طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خاص برقی رو پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس کو جلاتی رہتی ہے۔

                تمام خون جو جسم کے کسی بھی حصہ سے گزرتا ہے گردوں میں جاتا ہے۔ گردے اس کا توازن برقرار رکھتے ہیں مثلاً گردے شکر تولتے ہیں۔ اگر شکر زیادہ ہے تو اسے مثانہ میں پھینک دیتے ہیں۔ اور بہت سی رطوبتیں ایسی ہیں کہ جو گردوں میں تولی جاتی ہیں۔ ان کی ضرورت سے زیادہ مقدار مثانہ میں چلی جاتی ہے اور جو صحیح مقدار ہے وہ خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ بالآخر ان فاسد مادوں سے مثانہ بھر جاتا ہے اور یہ فاسد مادے پیشاب کے ذریعہ خارج ہو جاتے ہیں۔

                خون کے اندر جب تک برقی رو متوازن رہتی ہے آدمی صحت مند رہتا ہے۔ کسی وجہ سے اگر یہ رو غیر متوازن ہو جائے تو وہ پٹھے جو جوڑوں کو سنبھالتے ہیں ان کے اندر کوئی نہ کوئی مقدار گھٹ جاتی ہے یا بڑھ جاتی ہے۔ یہ مقدار چکنائیوں کی ہوتی ہے۔ اگر چکنائی بڑھ جائے تو جوڑوں پر ورم آ جاتا ہے اور اگر چکنائی کم ہو جائے تو حرکت کرنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے اور پٹھے خشک ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ آدمی چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا۔

                جلد کے تین پرت ہوتے ہیں یعنی ہماری جلد کے نیچے دو پرت مزید ہوتے ہیں۔ ایک نہایت نازک اور ایک دبیز۔ نازک پرت کے متاثر ہو جانے سے موتی جھر وغیرہ کے امراض ہوتے ہیں اور دبیز پرت کے متاثر ہونے سے پھوڑے پھنسیاں، داد، چنبل وغیرہ ہوتے ہیں۔ جلد سے گزرنے والی برقی رو تین طرح کی ہوتی ہے۔ ان میں ایک رو جلد کے پہلے اور دوسرے حصے کو قطعی متاثر نہیں کرتی۔ تیسری قسم کی رو صرف پہلے پرت پر اثر ڈالتی ہے۔ اسی مناسبت سے مرض میں شدت یا کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ برقی رو کے تاثر سے پیدا ہونے والے یہ امراض اڑ کر لگنے والے امراض کہلاتے ہیں۔

                جب سورج کی روشنی کے ذریعے برقی رو جتنی کہ جسم پر پڑنی چاہئے اتنی نہیں پڑتی بلکہ اس میں زیادتی ہو جاتی ہے تو جلد کے تیسرے پرت سے جلدی امراض شروع ہوتے ہیں مثلاً چیچک وغیرہ۔ اگر کمی اعتدال کے ساتھ ہوتی ہے تو امراض جلد کے دوسرے پرت سے شروع ہوتے ہیں جیسے خسرہ وغیرہ۔ اگر دھوپ جسم تک کم مقدار میں پہنچی ہے تو جسم کے پہلے پرت سے امراض شروع ہوتے ہیں جیسے موتی جھرہ وغیرہ۔

                خون میں برقی رو جن جن حصوں سے بچ کر نکل جاتی ہے ان حصوں میں جان نہیں رہتی اور ساتھ ہی ساتھ ان ہی حصوں میں بہت باریک گول کیڑے بن جاتے ہیں۔ یہ کیڑا دراصل ایک سوراخ ہوتا ہے۔ اس سوراخ کی خوراک برقی رو ہوتی ہے وہ برقی رو جو زندگی کے مصرف سے آنی چاہئے تھی وہ ان سوراخوں کی خوراک بن جاتی ہے نتیجہ میں خوراک کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بجائے فائدے کے خون کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا علاج یہ کہ گیندے کے چھوٹے پھول کی چار پتیاں صبح نہار منہ کھائی جائیں اور اس کے آدھے گھنٹہ بعد تک کوئی چیز استعمال نہ کی جائے۔ گیندے کے چھوٹے پھول میں وہ برقی رو موجود ہے جو سوراخوں کی خوراک بنتی ہے اور کچھ عرصہ بعد گیندے کے پھول میں کام کرنے والی رو اس کی قائم مقام بن جاتی ہے۔

                کینسر ایک ایسا مرض ہے جو بااختیار ہے، سنتا ہے، حواس رکھتا ہے۔ اگر اس سے دوستی کر لی جائے تو کبھی کبھی تنہائی میں بشرطیکہ مریض سوتا ہو اس کی خوش آمد کر لی جائے کہ ‘‘بھائی تم بہت اچھے ہو، بہت مہربان ہو، یہ آدمی بہت پریشان ہے اس کو معاف کر دو۔’’ تو مریض کو چھوڑ دیتا ہے اور دوست داری کا ثبوت دیتا ہے۔

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی