Topics

چھبیسواں باب ۔ امراض کی تشخیص


                امراض کی تشخیص میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہو کہ بیماری کی اصل وجوہات کیا ہیں اور ان وجوہات کا تدارک کیونکر کیا جا سکتا ہے۔

                جسم کا اپنا ایک نظام ہے جس کے تحت جسم بنتا ہے، خود کو قائم رکھتا ہے یعنی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے۔ ہر جسم میں اپنا ایک مدافعاتی نظام موجود ہوتا ہے اگر جسم کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو مدافعاتی نظام مزاحمت کرتا ہے اور خرابی کو پہنچنے نہیں دیتا۔ یہ مدافعاتی نظام دو طرح سے کام کرتا ہے۔

                ۱۔            براہ راست خود اپنے طور پر

                ۲۔           کسی بیرونی تعاون کے ساتھ

                بیماری کی تشخیص اور دوا تجویز کرنا درحقیقت جسم کے مدافعاتی نظام اور مطلوبہ تعاون فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت جب مریض کا مدافعاتی نظام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہو اس کو غلط دوا یا مشورہ دینا کسی قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ انہی کو ہو سکتا ہے جو غلط دوا کے رد عمل یا غلط علاج کا تختہ مشق بن چکے ہوں۔

                بیماری کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے اگر معالج مریض سے یہ سادہ سا سوال پوچھ لے کہ آپ کو یہ تکلیف کیسے شروع ہوئی اور اس کے جواب میں مریض جو کچھ کہے اس کو دھیان سے سن لیا جائے تو وجوہات پر بہت کچھ روشنی پڑ سکتی ہے۔

                کروموپیتھی میں تشخیص کا بنیادی طور پر مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ مریض میں درحقیقت کونسا رنگ ٹوٹ گیا ہے یا کس رنگ کی کمی ہو گئی ہے اور کس رنگ کی زیادتی۔

                اگر جسم انسانی کو پانی کے ایک پائپ سے تشبیہ دیتے ہوئے جسم انسانی میں دور کرنے والی روشنیوں اور رنگوں کے بہائو کو پانی قرار دے دیا جائے تو بیماری کی وجوہات کا تعین کرنے میں بہت سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔

                کسی پائپ میں پانی کے بہائو میں رکاوٹ کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔

                پانی جم جائے، پانی میں پائپ کے سوراخ کی نسبت سے بہنے کی صلاحیت کم ہو جائے، پانی گاڑھا اور غلیظ ہو جائے اس میں کثافت اور گندگی شامل ہو جائے۔

                ایسی صورت میں پائپ کی صفائی کا طریقہ یہ ہو گا کہ پائپ میں پریشر سے مزید پانی ڈالا جائے۔ جسم میں روشنیوں کے بہائو میں تیزی پیدا کرنے کیلئے مریض پر مطلوبہ رنگ کی روشنیاں ڈالی جائیں گی۔

                اگر پائپ میں پریشر ڈالنے سے (یہ پریشر ہوا کے ذریعے ہو، حرارت کے ذریعے ہو یا ضرب اور چوٹ لگا کر مہیا کیا جائے) پائپ کھل جائے اور پانی کا بہائو اپنی اصلی حالت میں آ جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ پائپ میں خرابی نہیں یعنی جسم میں خرابی نہیں لیکن اگر پائپ میں سوراخ ہو جانے کے سبب پانی (Leak) کر رہا ہو تو بہائو کو اصل حالت میں لانے کیلئے سوراخ کو بند کرنا لازم ہو جاتا ہے اس سوراخ کو بند کرنے کیلئے اس پر کوئی چیز لیپ دی جاتی ہے یا پائپ کو سی دیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پانی کا اپنا رنگ ہے، پائپ کا اپنا رنگ ہے۔ پائپ میں پانی کا بہائو صحیح نہ رہے تو پانی سڑ جاتا ہے، رنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور پانی میں زہریلے مادے پیدا ہو جاتے ہیں۔ پائپ میں اگر خرابی ہے تو پانی کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔ پانی کا بہائو رکے گا تب بھی پانی کا رنگ تبدیل ہو جائے گا۔ پانی میں لیس یا چیچپاہٹ پیدا ہو جائے اس وقت بھی رنگ تبدیل ہو جائے گا۔ پانی میں اگر جراثیم مرنے لگیں یا ان کی نشوونما زیادہ ہو جائے تب بھی اس کے رنگ میں تبدیلی واقع ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پانی کا رنگ صحیح ہے تو آدمی صحت مند ہے اور پانی کے رنگ میں تبدیلی بیماری ہے۔ چاہے پانی گاڑھا ہو، پتلا ہو، اس میں سڑاند ہو جائے یا کڑوا ہو جائے، گاڑھا یا سرخی مائل ہو جائے۔

                پانی جب اپنی اصل حالت سے پتلا ہو جائے تو انیمیا یا لو بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ پانی گاڑھا ہو جائے یا اس میں معمول سے زیادہ گرمی ہو جائے تو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ پانی کڑوا ہو جائے تو صفرا بن جائے گا۔ پانی میں اگر ایسی خلط پیدا ہو جائے جو جلی ہوئی ہو تو وہ بیماریاں پیدا ہو جائیں گی جو سود اویت سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً خون کی کمی، تلی کا خراب ہونا۔

                اگر پانی میں لیس پیدا ہو جائے تو بلغمی امراض پیدا ہو جائیں گے۔ پانی میں اگر ایسے ذرات شامل ہو جائیں جو پانی کے سرخ ذرات پر غلبہ حاصل کر لیں اور اس پانی میں خون کے سرخ خلئے (R.B.C) ان کی غذا بننے لگے تو کینسر ہو جائے گا۔

                صحت ہو یا بیماری اس میں بہرحال رنگوں کی کمی بیشی کا عمل دخل ہے۔ سبزیاں کھانے سے صحت اس لئے اچھی رہتی ہے کہ جسم میں سبز رنگ منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اعتدال سے زیادہ گوشت کھانے سے طبیعت میں تکدر، تساہل، بوجھ، غصہ اور درندہ پن اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ گوشت میں سرخ اور گلابی رنگ زیادہ ہے۔

                انسانی جسم خلاء کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ خلاء سے مراد سوراخ ہیں۔ انسان کے اندر سے سوراخ نکال دیئے جائیں تو جسم ختم ہو جائے گا۔

                ۱)            آنکھوں کے سوراخ

                ۲)           ناک کے سوراخ

                ۳)           حلق کے سوراخ

                ۴)           بول و براز کے سوراخ

                ۵)           انسان کے اندر آنتوں کے سوراخ

                ۶)            کھال میں سوراخ یعنی مسامات

                انسانی کھال میں سوراخ نہیں ہوں گے تو پسینہ نہیں آئے گا۔ ہوا اندر جائے گی نہ باہر آئے گی۔ جب ان سوراخوں میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ جگہ سوج جاتی ہے۔ جسم پھولنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم کے اندر رنگ و روشنی سے مرکب ایک برقی رو دوڑتی ہے جو جسمانی نظام کو بحال رکھتی ہے۔ جس کو ہم سمجھنے کے لئے کرنٹ کہہ سکتے ہیں۔

                جسمانی نظام میں اگر یہ کرنٹ رک جائے تو سوراخ غیر متوازن ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں جسم پر ورم آنے لگتے ہیں۔ جوڑوں اور اعضاء میں یہ برقی تحریکات (Electrical Impulses) گھوم کر دائروں کی شکل میں چلتی ہیں۔ دائروں میں گھومنے کی وجہ سے جوڑوں میں خلاء رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس عمل سے جوڑوں میں چکنائی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگر ان (Electrical Impulses) میں اعتدال نہ رہے تو جوڑوں پر ورم آ جاتا ہے اور جوڑ آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔

                انسان صرف مادی جسم کا نام نہیں ہے اس کے اوپر ایک اور لطیف جسم ہے۔ ہماری تخلیق لطیف اور کثیف دو جسموں سے ہوتی ہے۔ کثیف مادی جسم کی تمام حرکات اور افعال لطیف جسم کے تابع ہیں۔ ماہرین نے معالجین کی استعداد میں اضافہ کرنے کیلئے جسم کے مختلف مقامات متعین کئے ہیں۔ یہ مقامات ان حضرات کے مشاہدے میں آ جاتے ہیں جو اپنی باطنی آنکھ کو بروئے کار لا کر لطیف جسم کو دیکھ لیتے ہیں۔ اس لطیف جسم سے مختلف روشنیاں پھوٹتی رہتی ہیں جن کا رنگ قوس قزح کے رنگوں جیسا ہوتا ہے۔

                ایسا معالج جب مریض کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ مریض کے اندر کون سے رنگ کی کمی یا زیادتی ہو گئی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ مرض جذبات و احساسات میں عدم توازن کی وجہ سے ہے یا بیرونی اثرات (جراثیم وغیرہ) کی وجہ سے ہے۔

                پیچیدہ تصورات، منفی احساسات، غیر پاکیزہ خیالات اور تخریبی اعمال و حرکات سے روشنیوں کے جسم میں دھبے پڑ جاتے ہیں۔ بعد میں یہ دھبے مادی جسم میں زخم بن جاتے ہیں اور ان میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں جسم میں جراثیم یا (Foreign Body) داخل ہو جاتے ہیں۔

                امراض کی تشخیص اور علاج تجویز کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مریض کی جسمانی اور جذباتی سطح کو پوری طرح سمجھا جائے۔ مرض کی تشخیص کے لئے یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ جسم میں کسی رنگ کی کمی واقع ہو گئی ہے تا کہ ضروری رنگوں کے استعمال سے ان امراض کو رفع کیا جا سکے۔ مریض کی عادات، مزاج، عمل اور رد عمل کا علم ہونا ضروری ہے۔

                سرخ رنگ کی کمی واقع ہو جانے سے مریض سست، کاہل، کمزور اور سویا سویا سا رہتا ہے۔ قبض کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ برخلاف اس کے جس شخص کے جسم میں نیلے رنگ کی کمی واقع ہو جاتی ہے وہ اضطراری کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ بات بات پر غصہ کرتا ہے اور ہر کام میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

                بہتر نتائج کے حصول کیلئے مناسب ہوتا ہے کہ درکار رنگوں کو اس طرح مہیا کیا جائے کہ وہ رنگ اپنے اپنے مرکز تک پہنچ جائیں جن کی کمی سے مریض کی علامات پیدا ہو رہی ہوں مثلاً ذہن اور دماغ سے متعلق امراض کیلئے سر، چہرے، گردن کے پچھلے حصے پر نیلے آسمانی یا بنفشی رنگ کی شعاعیں ڈالنے سے ان رنگوں کے مراکز تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ ان رنگوں کو مریض کو وقفوں سے بار بار دکھانے سے بھی یہ رنگ اپنے اپنے مراکز میں جذب ہو کر امراض سے شفا بخشی میں اپنا کردار بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔

                دل سے متعلقہ امراض میں اگر دوران خون کو کم کرنا درکار ہو تو نیلا، آسمانی یا بنفشی رنگ مہیا کیا جانا چاہئے اور اگر دوران خون کو تحریک دے کر اس میں تیزی درکار ہو تو سینے پر نارنجی تیل ملنے یا نارنجی شعاعیں ڈالنے سے نتائج جلد حاصل ہو سکتے ہیں۔

                حرام مغز سے متعلقہ تکالیف کیلئے زرد رنگ ریڑھ کی ہڈی پر اور بنفشی رنگ سر کے دائیں طرف ڈالنے سے افاقہ بہت جلد ہو جاتا ہے۔

                دوران خون کے مسائل میں جب خون کی گردش اور دبائو کی کمی مطلوب ہو تو سبز اور فیروزی رنگ بہت مفید ثابت ہوتا ہے اور اگر بلڈ پریشر کم ہو تو سرخ شعاعوں کا تیل ہڈیوں پر ملنے پر اور سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی پلانے سے اس شکایت سے بہت جلد نجات مل جاتی ہے۔

                ٹانگوں اور بازوئوں میں دوران خون کی کمی سے ہونے والے دردوں کیلئے سرخ اور ایسے دردوں میں جہاں خون کی کمی کا سلسلہ نہ ہو وہاں سبز رنگ کی شعاعوں کا تیل لگانا مفید رہتا ہے۔

                غدودوں سے متعلق امراض، غدودوں کی بڑھی ہوئی کارکردگی سے ہونے والے عوارض مثلاً صفرا کی زیادتی وغیرہ میں سبز رنگ غدودوں کی کارکردگی میں اعتدال لے آتے ہیں اور اگر وہ پوری طرح کام نہ کر رہے ہوں اور ان کی کارکردگی میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو زرد اور بنفشی رنگ مفید ثابت ہوتے ہیں۔

                پیٹ کے جملہ عوارض کیلئے زرد رنگ دیا جاتا ہے۔ ساتھ میں اعضائے رئیسہ کو تحریک دینے کیلئے ایک آدھ خوراک سرخ رنگ کی دینے سے افاقہ جلد ہو سکتا ہے۔ بادی بواسیر میں نارنجی رنگ کا پانی پلانا اور مسوں پر آسمانی رنگ پانی کی گدی رکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔

            گردوں اور پیشاب کی بیماریاں:

                کمر کے نچلے حصوں پر بنفشی شعاعیں ڈالنا اور زرد، نارنجی یا نیلا رنگ حسب علامات استعمال کروانا چاہئے۔

                پھیپھڑوں اور نظام تنفس سے متعلقہ عوارض کیلئے نارنجی رنگ کے ساتھ ساتھ بنفشی رنگ کا استعمال حیران کن نتائج کا حامل مانا جاتا ہے۔

                اعصابی نظام کی کمزوریاں دور کرنے کے لئے نارنجی اور بنفشی رنگوں کا استعمال کرنا چاہئے اور اعصابی نظام کی ذکاوت اور حساسیت کو کم کرنے کیلئے سبز اور نیلے رنگ کا استعمال بہت سود مند رہتا ہے۔

                جنسی اعضاء مثلاً رحم، ہیضہ……دانی اور خصیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے زرد اور جامنی رنگ تجویز کیا جاتا ہے۔ ذکاوت حس اور سرعت وغیرہ کے مسائل میں سبز اور نیلا رنگ مفید نتائج کے حامل پائے گئے ہیں۔

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی