Topics

تینتیسواں باب ۔ کروموپیتھ کا طریقہ کار


                جب کوئی مریض کسی کروپیتھ کے پاس آتا ہے تو ایک ماہر کروموپیتھ کو چند ایک فیصلے فوری طور پر کرنا ہوتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلے فوری اور درست انداز میں کر لیتا ہے تو اس کے ہاتھوں شفا یابی کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔

                سب سے پہلا فیصلہ تو اس کو یہ کرنا ہوتا ہے کہ اس کے زیر علاج مریض میں کون کون سے رنگ کی زیادتی اور کس کس رنگ کی کمی واقع ہو گئی ہے۔

                اس مقصد کے لئے کروموپیتھ مریض سے چند ایک سوالات پوچھ کر اپنی تشخیص مکمل کر سکتا ہے۔ جب ایک مریض کسی کروموپیتھ سے علاج کروانے جاتا ہے تو اس کے جلد کی رنگت، آنکھوں اور ناخنوں کا رنگ کروموپیتھ کے لئے محل توجہ ہوتے ہیں۔ جلد، آنکھوں اور ناخنوں کی رنگت سے وہ سرخ رنگ کی کمی یا زیادتی کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ نیلے رنگ کی کمی بیشی کا حال بھی معلوم کر سکتا ہے یعنی سرخ رنگ کی زیادتی نیلے رنگ کی کمی کی دلیل بھی ہے۔

                اس کے بعد کروموپیتھ مریض سے پہلا سوال اس کے مرض کی بابت کرتا ہے۔ جس کے جواب میں مریض جو کچھ بھی کہتا ہے وہ براہ راست اس مرض سے متعلقہ رنگوں میں کمی یا زیادتی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مثلاً مریض نے کہا اس کے سر میں درد ہے تو یہ بات طے ہے کہ سر سے متعلق ہونے کے سبب طبیعت نیلے رنگ کی متقاضی ہے۔ اس کے بعد مریض نے کہا کہ مجھے بخار بھی ہے اس سے یہ بات مزید تصدیق ہو رہی ہے کہ مریض نیلا رنگ ہی طلب کر رہا ہے یا یہ کہ مریض اگر بتاتا ہے کہ اسے شوگر یعنی ذیابیطس ہے۔ اس کے ایک جملے سے ہی کروموپیتھ یہ بھانپ لیتا ہے کہ اس کے سامنے موجود مریض میں تین رنگ ٹوٹ چکے ہیں اور اس کی وجوہات میں مریض کے غلط طرز زندگی اور نا مناسب طرز فکر کو بہت دخل ہے۔

                معالج کو دوسرا بہت اہم فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ کون کون سا رنگ کس کس طرح سے دینا زیادہ مناسب رہے گا۔ یعنی محج کسی ایک مخصوص رنگ کا مراقبہ تجویز کر دینے سے کام ہو جائے گا یا ساتھ میں کسی رنگ کا دیکھنا بھی تجویز کرنا بہتر رہے گا اور اگر ان دونوں ہی طریقوں پر مریض عمل کرنے سے قاصر ہو تو رنگین شعاعیں ڈالنا بہتر رہیں گی یا اس کو رنگین شعاعوں سے تیار کردہ پانی، دودھ، شربت دینا ہو گا یا کروموٹائز کئے ہوئے تیل کی مالش تجویز کی جانی چاہئے۔

                اس بات کا فیصلہ کرنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ تشخیص کردہ رنگ کسی مخصوص عضو، مرکز یا نظام میں ٹوٹ رہا ہے یا پورے جسمانی وجود میں اس کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ اگر محض کسی ایک عضو یا جسم کے کسی ایک مقام پر کمی واقع ہوئی ہے تو اس صورت میں متعلقہ عضو یا حصہ جسم پر رنگین شعاعوں سے تیار کردہ تیل کی مالش یا رنگین روشنی کا ڈالنا مناسب رہتا ہے مثلاً جلنے کی صورت میں جو بھی حصہ جسم یا عضو متاثر ہوا ہو وہاں نیلی شعاعوں سے تیار کردہ پانی ڈالنا فوری اثرات کا ضامن ہے اور اگر فوری طور پر تیار شدہ پانی دستیاب نہ ہو تو نیلی شعاعوں کو براہ راست ڈالنا یا انہی شعاعوں سے تیار کردہ تیل مل دینا بھی مفید اثرات مرتب کرتا ہے اور اگر کوئی رنگ پورے جسمانی نظام میں ہی ٹوٹ رہا ہے تو اس صورت میں اس رنگ کا مراقبہ یا اس رنگ کی رنگین پلیٹیں دکھانا یا اس رنگ کی شعاعوں میں تیار کردہ پانی یا شربت پلانا زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔

                تیسرا ضروری اور اہم فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ مریض کو کتنی کتنی دیر بعد مجوزہ رنگوں کی خوراک دینا چاہئے اور کب تک دیتے رہنا مناسب ہو گا۔ اس بات کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ مرض کتنا پرانا اور اس کی شدت کا کیا عالم ہے۔ اگر مرض بہت پرانا ہے اور شدت کا حامل نہیں ہے تو مطلوبہ رنگ دن میں دو تین بار دینا کافی ہوتا ہے۔ لیکن اگر مریض بخار کی شدت سے نڈھال ہو رہا ہے یا اس کو درد ناقابل برداشت محسوس ہو رہا ہے تو اس صورت میں مطلوبہ رنگ مرض کی شدت کے حساب سے جلدی جلدی اور بار بار دینا چاہئے۔ کتنی جلدی؟ اس بات کا فیصلہ کروموپیتھ کی اپنی سمجھ اور ذہانت پر منحصر ہوتا ہے۔ ۵۱ منٹ سے لے کر آدھ گھنٹہ بہت ہی شدید صورت میں اور ایک سے دو گھنٹے کا وقفہ نسبتاً کم شدید صورتوں میں اور تین تا پانچ گھنٹے کا وقفہ عام حالتوں میں تجویز کیا جاتا ہے۔

                رہی یہ بات کہ ایک رنگ کی خوراکیں کب تک دیتے رہنا چاہئے تو اس کا عام اور سیدھا سا اصول تو یہی ہے کہ مریض کو آرام آ جائے، درد سے نجات مل جائے اور وہ صحت یابی کی اطلاع دے دے تو اس رنگ کا استعمال روک دینا چاہئے تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس رنگ کی کمی دور ہونے کے بعد اس رنگ کی زیادتی ہو جائے۔ مثلاً ایک مریض کو پیٹ میں تکلیف پر زرد رنگ تجویز کیا جاتا ہے۔ مریض دو ہی دن میں افاقے کی اطلاع دیتا ہے لیکن معالج اس کو احتیاطاً اس رنگ کے استعمال کو جاری رکھنا تجویز کر دیتا ہے۔ پانچویں یا چھٹے روز مریض معالج کو مکمل آرام اور صحت یابی کی اطلاع دیتا ہے۔ اب معالج نے اگر مریض کو مزید زرد رنگ استعمال کرتے رہنے کی اجازت دے دی تو ہو سکتا ہے کہ مریض زرد رنگ کی زیادتی سے متعلقہ کسی مرض میں مبتلا ہو جائے اور چند روز بعد آ کر کہے کہ میرا منہ خشک رہنے لگا یا مجھے اپنا جسم گرم محسوس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ زرد رنگ کی زیادتی کی علامتیں ہیں۔

                سرخ رنگ کے استعمال کے بارے میں تو یہ احتیاط اور بھی لازم ہو جاتی ہے کہ کیونکہ جونہی سرخ رنگ کی کمی پوری ہو جائے تو اس رنگ کا استعمال بند کر دینا چاہئے ورنہ ہو سکتاہے کہ مریض آ کر بخار یا پھوڑے پھنسیوں کی شکایت کرے۔ ایسی صورت میں سرخ رنگ بند کروا کے سبز رنگ کی ایک یا دو خوراکیں دے کر اس رنگ کی زیادتی کو اعتدال پر لایا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔

                بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ معالج نے ایک رنگ کی کمی کی تشخیص اور مریض کو اس رنگ کے استعمال کا مشورہ بھی دے دیا۔ مریض نے وہ رنگ باقاعدہ استعمال بھی کیا لیکن مریض کی حالت سدھرنے کی بجائے بگڑ گئی یا اس حالت مرض میں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اس صورت میں معالج کو اپنی تشخیص پر فوراً نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ جب تک مناسب رنگ تجویز نہیں کیا جائے گا مریض کو مطلوبہ توانائی کی حامل شعاعیں نہیں ملیں گی تو وہ صحت یاب نہیں ہو گا۔

                مثلاً ایک مریض نے پیٹ میں درد کی شکایت کی۔ معالج نے اس کو زرد رنگ تجویز کر دیا ۔مریضہ نے ایک دو خوراکیں لیں اور بتایا کہ اس کو السر کی شکایت ہے اور فلاں ڈاکٹر نے اس کو السر تشخیص کیا ہے۔ اس پر معالج نے سبز رنگ تجویز کر دیا کیونکہ سبز رنگ زخموں کیلئے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ مریضہ نے سبز رنگ کی چند ایک خوراکیں لیں اور اب اس نے لو بلڈ پریشر کی شکایت کرنا شروع کر دی اور پیٹ میں درد بھی برقرار رہا۔ اس پر معالج نے سرخ رنگ تجویز کر دیا۔ اب جب ایک دو ہی خوراکیں لیں تو مریضہ کی حالت سنبھل گئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس میں معالج نے تشخیص کرنے پر زیادہ دلچسپی نہیں کی تھی اور علامات کو سطحی طور پر دیکھا اور سرسری انداز میں تشخیص کر کے زرد رنگ تجویز کر دیا۔ حالانکہ اگر وہ کچھ چھان بین کر کے مریضہ سے اس کے مرض کی بابت کوائف مکمل طور پر معلوم کر لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ مریضہ شروع ہی سے سرخ رنگ کی کمی کا شکار تھیں۔ اس لئے معالج کے لئے لازم ہے کہ وہ محض سرسری اور سطحی تشخیص نہ کرے بلکہ مریض سے باتوں باتوں میں چند ایک معلومات ضرور لے لے۔ مثلاً آپ کا بلڈ پریشر تو نارمل رہتا ہے نا۔ آپ کو قبض یا شوگر تو نہیں، کبھی اختلاج قلب تو نہیں ہوتا، آپ کو کونسا رنگ زیادہ پسند ہے۔ آپ کا ناپسندیدہ رنگ کونسا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جسم میں جس رنگ کی کمی ہو مریض اسی رنگ کو اپنا پسندیدہ رنگ بتاتے ہیں۔ کیونکہ طبیعت وہی رنگ زیادہ طلب کرتی ہے اور اس کو پسند کا جامہ پہنا دیتی ہے۔ اگر کسی رنگ کی زیادتی ہو تو طبیعت اس سے اغماض برتتی ہے اور وہ رنگ پسند نہیں آتا۔ کروموپیتھ کیلئے یہ بات بہت ہی ضروری ہے کہ وہ مریض میں ان رنگوں کو واضح طور پر شناخت کرے جن کی کمی سے مرض رونما ہو رہا ہے کیونکہ اگر تشخیص میں کوتاہی رہ جائے تو غلط رنگ دینے سے اس رنگ کی زیادتی ہونا لازم ہے۔ اس کے لئے ایک کروموپیتھ کو ہر رنگ کے خواص، جسم میں رنگوں کے مراکز اور رنگوں کی کمی بیشی سے ہونے والے امراض کی بابت مکمل معلومات ہوں اور بوقت تشخیص وہ پوری توجہ سے علامات کو نوٹ کر کے رنگوں کی کمی یا زیادتی کو دریافت کرے۔ اور اگر کسی رنگ کی زیادتی محسوس کرے تو اس کا توڑ کرنے کے لئے معاون یا ضد رنگ کا استعمال کرے۔

                ایک اور اہم نکتہ جو معالج کروموپیتھ کو ذہن میں رکھنا بہت سود مند رہتا ہے وہ یہ کہ زیر علاج مرض کا تعلق کہیں کسی غدود کی کارکردگی کے متاثر ہونے سے تو نہیں۔ اگر جواب اثبات میں ہوا اور مرض کسی غدود کی کارکردگی میں فرق آنے کی وجہ سے ہو تو اس صورت میں یہ بات بہت احتیاط کی متقاضی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مرض اس غدود کی کارکردگی میں کمی کے باعث پیدا ہوا ہے یا مرض اس غدود کی بڑھی ہوئی کارکردگی کے سبب ہے۔ مثلاً تھائی رائڈ گلینڈ کی کارکردگی میں کمی آنے سے جو علامات پیدا ہونگی ان کیلئے جو رنگ درکار ہیں وہ اس غدود کے زیادہ متحرک ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی علامت کے لئے درکار رنگوں سے قطعی مختلف بلکہ متضاد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر جنسی بیماری میں جامنی رنگ تجویز کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ بعض جنسی بیماریاں جنسی غدودوں کی بڑھی ہوئی کارکردگی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

                یہاں پر جامنی رنگ کی بابت ایک غلط فہمی کا ازالہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ عموماً اس رنگ کو صرف جنسی بیماریوں ہی کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ رنگ مختلف غدودوں کی کارکردگی کی اصلاح کرتا ہے اور جسم میں قوت مدافعت کو قائم رکھنے اور اس میں اصلاح کرنے کا ضامن ہے۔ اس رنگ کی روشنی میں بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے ذہنی یکسوئی بہت جلد حاصل ہو جاتی ہے۔

                ایک کروموپیتھ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر کوئی مریض بہت ہی بیماریوں کا ایک ہی وقت میں شکار ہو اور اس کو تمام رنگ دینا ضروری خیال کرے تو اسے بلا تکلف اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام رنگ تجویز کر دینا چاہئیں۔ ایسی صورت میں یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی ایک رنگ کا مراقبہ تجویز کر دیا جائے۔ ایک آدھ رنگ شیشے پر پینٹ کر کے دیکھنے کا مشورہ دے دیا اور کسی ایک آدھ رنگ کی شعاعیں ڈالنا تجویز کر دی جائیں اور دو ایک رنگوں کے تیل کی مالش بتا دی جائے اور باقی ایک دو رنگوں سے تیار کئے ہوئے پانی یا شربت وغیرہ بتا دیئے جائیں۔ مثلاً ایک مریض آ کر بتاتا ہے کہ اس کو شوگر، بلڈ پریشر، السر اور پیروں میں زخم ہونے کے ساتھ ساتھ نیند نہ آنے کا مرض لاحق ہے۔ تو اس صورت میں محض ایک دو رنگ تجویز کر کے یہ سمجھنا کہ مریض کو افاقہ ہو جائے گا، معالج کی غلطی ہی ہو گا۔ اس لئے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ مریض کو کروموپیتھی کی معجز نما شفایابی سے بہرہ مند کر دیں تو اس کو سرخ، سبز، نیلا، پیلا، جامنی اور نارنجی تمام ہی رنگ باری باری استعمال کرنے کا کہنا ہی پڑے گا۔

                ایک کروموپیتھ کو زیر علاج مریض کی یہ مدد عملی طور پر کرنا ہوتی ہے کہ کون کون سے رنگ کس ترتیب اور کس کس وقت کس کس طرح استعمال کرے۔ ایک کروموپیتھ معالج کا اپنے مریض کو یہ چاروں باتیں بتانا فرائض اور ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

                پہلی بات یہ کہ معالج یہ تشخیص کرے کہ مریض میں کون کون سے رنگ ٹوٹ چکے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تشخیص کردہ رنگوں کو کس ترتیب اور کس مقدار میں دینا چاہئے۔ تیسری بات یہ کہ رنگوں کے استعمال کا نظام الاوقات کیا ہونا چاہئے اور چوتھی یہ کہ کس رنگ کو کیسے استعمال کیا جانا چاہئے یعنی کس رنگ کا مراقبہ بہتر رہے گا، کونسا رنگ مریض کو دیکھنا مناسب رہے گا، کس رنگ کے تیل کی مالش ہونا چاہئے اور کس رنگ کے تیار شدہ پانی یا شربت کو استعمال کرنا بہتر رہے گا۔

                اگر کبھی معالج کو کوئی ایسی صورت حال درپیش ہو کہ وہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ کس بیماری میں دراصل کونسا رنگ دینا ضروری ہے یعنی کسی پیچیدہ مرض سے واسطہ پڑ جائے تو بہتر طرز عمل یہ ہے کہ وہاں سرخ رنگ کی چند خوراکیں دے کر دیکھا جائے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ دوران خون کی کمی یا خرابی سے ہونے والے امراض ہی پیچیدہ اور نہ سمجھ میں آنے والے ہوتے ہیں۔ اس لئے سرخ رنگ کی چند خوراکوں سے ہی طبیعت عموماً سنبھل جاتی ہے اور اگر سرخ رنگ کی خوراکیں دینے سے مریض تکلیف میں اضافہ کی شکایت کرے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ نیلے رنگ کی کمی کا کیس ہے۔ اس کو نیلے رنگ کی چند خوراکیں دے کر دیکھ لیں۔ 90فیصد کیسز میں ان دونوں رنگوں کی کمی سے پیچیدگی پیدا ہوتی ہے ورنہ دیگر رنگوں کے مراکز اور خواص اتنے واضح ہوتے ہیں کہ شاید ہی کبھی کوئی معالج کسی مغالطے میں پڑتا ہو۔

                کسی کروموپیتھ کا کام یہاں پر مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ اس کو اپنی تشخیص اور تجویز کردہ علاج کے نتائج سے خود کو آگاہ رکھنے کی کوشش بھی کرنا ضروری ہے تا کہ صورتحال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا جائزہ بھی لیتا رہے کہ کس اسٹیج پر کونسا رنگ استعمال کرنا بند کر دینا چاہئے یا اگر ضرورت محسوس ہو تو کسی متبادل رنگ کا استعمال شروع کروایا جا سکے یا رنگوں کے استعمال کے وقفے کو کم یا زیادہ کرنے کی بابت کوئی فیصلہ کیا جا سکے یا رنگوں کے استعمال کی تریب میں یا کسی ایک رنگ کے استعمال کے طریقہ میں تبدیلی کرنا ہو تو وہ ایسا کرنا تجویز کر سکے۔

                ایک ماہر کروموپیتھ کا فریضہ ہے کہ وہ زیر علاج مریضوں میں اس بات کا شعور پیدا کرے کہ وہ رنگوں کے استعمال سے شفا پا لینے کے بعد انہیں چاہئے کہ وہ اپنے طرز فکر، طرز زندگی اور طرز رہائش میں ایسی تبدیلیاں پیدا کریں کہ ان کے اندر رنگوں کی ٹوٹ پھوٹ کنٹرول میں رہے۔ خرچ ہونے والے رنگوں کی مسلسل دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے وہ انہیں اپنے گھروں اور لباس میں مناسب رنگوں کے استعمال کی ترغیب دے کر ایک صحت مند معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

                ایک کروموپیتھ جب کسی مریض کو کسی مخصوص رنگ کی روشنیوں کا مراقبہ تجویز کرتا ہے یا اس کو کسی مخصوص رنگ کا شیشہ پینٹ کروا کر دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے تو دراصل وہ اس مریض کو منفی اور غیر فطری خیالات سے بچائو کا راستہ سجھانے کے ساتھ ساتھ اس کو ضائع شدہ توانائیوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

                کروموپیتھی میں اپنی مہارت اور شفایابی کو یقینی بنانے کیلئے ایک کروموپیتھ کا ہر رنگ کے خواص سے پوری طرح واقف اور آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کو یہ بات پوری طرح معلوم ہونی چاہئے کہ کونسے رنگ کی کمی سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کون سے رنگ کی زیادتی سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اپنے علم اور مہارت میں اضافے کیلئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ ایک کروموپیتھ ہر رنگ کی باری باری خود پر آزمائش کرے۔ جب تک رنگوں کے خواص کسی کروموپیتھ کے ذاتی تجربے میں نہیں آ جاتے وہ ایک اچھا کروموپیتھ نہیں بن سکتا۔

                آر۔بی۔امبر نے کلکتہ سے شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘‘کلر تھراپی’’ میں رنگ و روشنی سے علاج کے لئے جن دس بنیادی اصول و ضوابط کا تذکرہ کیا ہے وہ کچھ یوں ہیں۔

۱۔            کرہ ارض پر موجود ہر جاندار اور غیر جاندار چیز ایک نہ ایک خاص معین تموج یا ارتعاش پر قائم ہے۔

۲۔           جسم انسانی، اس کے اعضاء و جوارح، خلئے اور ریشے صحت مندی میں ایک مخصوص تموج اور ارتعاش کے حامل ہوتے ہیں۔

۳۔           بیماری درحقیقت تنائو کی کیفیت کا ایک فطری جسمانی رد عمل ہے اور یہ رد عمل تموج یا فریکوئنسی میں تبدیلی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس رد عمل میں جسمانی ارتعاشات کا تموج یا تو بڑھ جاتا ہے اور یا پھر کم ہو جاتا ہے۔ جسمانی نظام اس ردعمل کا اظہار اس وقت کرتا ہے جب وہ کسی کیمیائی، میکانکی، حرارتی، جسمانی، ذہنی یا جذباتی دبائو کے زیر اثر کام کرنے پر مجبور ہو۔

۴۔           ہر بیماری کا بھی ایک مخصوص اور معین تموج یا اپنی ایک خاص فریکوئنسی ہوتی ہے۔

۵۔           ایک درست فریکوئنسی خواہ وہ خوراک اور غذا کی صورت میں ہو، جسمانی یا ذہنی ورزش کی، انجکشن یا دوائی کی صورت اس کو متعلقہ رنگوں کے ذریعے مہیا کیا جائے تو جسمانی نظام صحت کی طرف پلٹ جاتا ہے۔

۶۔           جسمانی خلیات اپنی ضروریات کے مطابق ارد گرد کے ماحول سے مطلوبہ شعاعیں اور ارتعاش لیتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر ماحول میں خلیات کی سکت سے زیادہ ارتعاشات موجود ہوں تو وہ خلیات میں ان کی ضرورت سے زیادہ جذب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

۷۔           جب خلیوں میں رنگوں کے ارتعاشات کم ہو جاتے ہیں تو اس بے اعتدالی کے سبب خلیوں کے بڑھنے کی رفتار متاثر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ماحول میں رنگوں کی بہت زیادہ فراوانی ہو جائے تو ایسی صورت میں خلیوں میں خطرناک قسم کی تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

۸۔           غلط رنگوں کی فراہمی سے خلیوں کے بر مقناطیسی میدان اور تموج ارتعاش میں تبدیلی کے نتیجے میں عمل اور ردعمل کا ایک ایسا چکر شروع ہو جاتا ہے جو خلیوں سے آغاز ہو کر ریشوں اور اعضا و جوارح سے ہوتا ہوا جسمانی نظام اور فرد کی شخصیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض تھکن اور پژمردگی کی شکار رہتا ہے اور یہ تھکن اور پژمردگی طرح طرح کی بیماریوں کو جنم دیتی چلی جاتی ہے۔

۹۔            رنگ جو کہ ارتعاش یا تموج کی خالص ترین صورت ہیں، صحت اور تندرستی کے حصول کیلئے بیماریوں کا واحد منطقی علاج ہیں کیونکہ جسم کی ضرورت کو درست صورت میں، درست وقت پر، درست طریقے سے پورا کرنے کی صلاحیت اسی نظام میں دستیاب ہے۔

۰۱۔         کوئی بھی معالج اپنے مطب میں مریضوں کو رنگوں کا استعمال آسانی اور سہولت سے کروا سکتا ہے اور یہ بات اس طرز علاج کو ہر معالج کی دسترس میں لے آتی ہے۔


 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی