Topics

اکتیسواں باب ۔ رنگ و روشنی کا مراقبہ


                ذہنی سکون حاصل کرنے کیلئے لوگ ایسے ذرائع اختیار کرتے ہیں جن سے شعور وقتی طور پر معطل ہو جاتا ہے۔ مثلاً شراب نوشی، نشہ کی دوسری چیزیں اور نیند آور ادویات کے ذریعے دماغی سکون تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات ذہنی ساخت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتیں بلکہ ایک خاص وقفے تک خود فراموشی طاری کر دیتی ہیں، ان ذرائع سے نہ صرف جسمانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اعصابی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور آدمی جلد بڑھاپے تک پہنچ جاتا ہے۔

                میڈیکل سائنس کے مطابق مسکن ادویات ‘‘ٹرانکولائزرز’’ Tranquilizersکو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروہ کو Major Tranquilizerاور دوسرے کو Minor Tranquilizerکہا جاتا ہے۔

                نفسیاتی امراض مثلاً سائیکوسس Psychosisجس میں زندگی پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ ہر کام میں منفی پہلو زیادہ ہوتا ہے، بند کمرے میں مریض آرام محسوس کرتا ہے۔ گھر والوں اور عزیز رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ کسی کے سامنے آنے سے مریض کتراتا ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے، سخت گرمی اور حبس میں بھی دروازے کھڑکی بند رکھتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ شدید گرمی اور رطوبت کے زمانے میں بھی مریض لحاف اوڑھ کر سویا رہتا ہے۔ کھانا کھانے سے برائے نام دلچسپی رہ جاتی ہے۔ غذا کی کمی کی وجہ سے جسم لاغر اور بعض اوقات ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔

                اس کیفیت میں مریض کے شعور پر لاشعور کا اتنا دبائو ہو جاتا ہے کہ مریض کو ماورائی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔وہ کبھی سایہ دیکھتا ہے اور کبھی خود کو گوشت پوست کے جسم سے آزاد۔ سایہ کی صورت میں خود کو اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اڑنے کی صورت میں لذت کو حاصل کرنے کیلئے فلک بوس عمارتوں سے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ جب اس کی سماعت پر ماورائی حواس کا غلبہ ہوتا ہے تو اسے دور پرے کی آوازین سنائی دیتی ہیں۔ وہ خود کو خیالی دنیا میں قید کر لیتا ہے۔ اس کو بڑے بڑے خوبصورت باغ نظر آتے ہیں۔ اس خیالی باغ میں خود کو وہ چبوترے پر دیکھتا ہے۔ وہاں بے شمار لوگوں کے ہجوم کو اپنا منتظر پاتا ہے کبھی منفی جذبات کا اتنا تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ بھیانک مناظر دیکھ کر رونے لگتا ہے۔ غرض یہ کہ حواس میں ایک عجیبانتشار پیدا ہو جاتا ہے۔ کبھی بہت ہوشیار، مستعد، ذہین آدمی کے روپ میں ہوتا ہے اور کبھی Senseless باتیں کرتا ہے۔

            مینیا:

                جب آدمی پر دیوانگی کا دورہ پڑتا ہے، ابتداء کسی طرح ہو۔ خواہ تھوڑا تھوڑا یا اچانک۔ اس میں ام الدماغ کے اندر رو کا ہجوم ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا لہٰذا دبائو کی بنا پر خلیوں کے اندر کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں اور راستہ کہیں کہیں سے زیادہ کھل جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ خلاء قطعی نہ ہو۔ اکثر خلیوں میں رو صفر کے برابر ہو جاتی ہے تو آدمی بیٹھے بیٹھے بالکل بے خیال ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی مرض نہیں ہے لیکن ام الدماغ میں جب ایسا خلاء واقع ہو جاتا ہے تو خلیوں میں ایک سمت رو کا تصرف بہت بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خلئے کسی قسم کی یادداشت سے خالی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ آدمی پرانے واقعات یاد کرنا چاہتا ہے بار بار یاد کرنا چاہتا ہے لیکن یاد نہیں آتے۔ ایک طرف تو یہ ہوتا ہے اور دوسری طرف رو کا اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح خلیوں کی رو میں جو ترتیب ہونی چاہئے وہ نہیں رہتی بلکہ اس میں ایسی بے قاعدگی ہو جاتی ہے کہ مریض ایک بات زمین کی کہتا ہے اور ایک آسمان کی۔ کبھی وہ پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی بادشاہ بن جاتا ہے۔ زیادہ اثر ہونے سے کپڑوں سے بھی آزاد ہو سکتا ہے۔ کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔

                جب چلنے پر آتا ہے تو میلوں میل چلتا رہتا ہے۔ دوڑ دوڑ کر چلتا ہے۔ جسم پر کسی قسم کی تھکان کے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ماحول اور دنیا و مافیہا سے آزاد، سوچوں میں گم خلاء میں گھورتا رہتا ہے۔ دنیاوی زندگی کی ترتیب قائم نہیں رہتی۔ آرام و آسائش کا احساس تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ جسم میں اتنی زیادہ انرجی ذخیرہ ہو جاتی ہے کہ لوہے کی زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے۔ پاگل پن کا مریض جب بولنا شروع کرتا ہے، بولتا رہتا ہے لیکن باتوں میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک اور ماورائیت آ جاتی ہے۔ پلک جھپکنے کا عمل بہت زیادہ محدود ہو جاتا ہے۔

                سائیکو سس، شیزوفرینیا اور مینیا میں میجر ٹرانکولائزر اور مائنرٹرانکولائزر دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں جن سے مندرجہ ذیل Side Effectsرونما ہوتی ہیں۔

                منہ خشک ہو جاتا ہے، نظر دھندلا جاتی ہے، بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، وزن بڑھ جاتا ہے، خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یرقان کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ مریض کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے، رعشہ کا مرض لاحق ہو جاتا ہے، گھبراہٹ، خوف، بے چینی اور کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے اور بھوک کم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات مریض دوائوں کے منفی اثرات سے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے کئی دیگر سائیڈ ایفیکٹس ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں مریض ‘‘کوما’’ میں بھی جا سکتا ہے۔ مائنر ٹرانکولائزر اور دوائیں ذہن کو پر سکون رکھنے کیلئے استعمال کرائی جاتی ہیں۔

                ان ادویات کا ایک بہت مضر اثر یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ آدمی ان کا عادی ہو جاتا ہے اور زیادہ عرصہ استعمال سے خوراک کی مقررہ مقدار اپنا اثڑ کھو دیتی ہیں اور خوراک کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ مسکن ادویات کو فوری طور پر چھڑانا نہیں چاہئے کیونکہ فوری طور پر دوائیں بند کرنے سے مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور بے خوابی، رعشہ، متلی کا احساس پورے جسم میں درد، ارتکاز توجہ کی کمی جیسے امراض ہو جاتے ہیں۔

                اس کے برعکس معالج کی نگرانی میں مراقبہ کے ذریعے علاج سے سکون ملتا ہے اور فاسد خیالات کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور خیالات کے بہائو میں تسلسل پیدا ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ذہن اور روح کا قدرتی تعلق بڑھ جاتا ہے، اور انسان روح سے توانائی کی نئی لہریں حاصل کرتا ہے۔ اس وقت دماغی کیفیات بیداری اور خواب کے عام وقتوں سے الگ ہوتی ہیں۔ چنانچہ اعصابی نظام میں واقع ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو نارمل ہونے کا بہترین موقع ملتا ہے۔

                جسمانی لحاظ سے ہمارے اندر دو نظام کام کرتے ہیں۔ ایک سیپتھیٹک سسٹم (Sympathetic System) اور دوسرا پیرا سیمپتھیٹک (Parashympathetic System) اول الذکر نظام دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ دوسرے نظام کے تحت دل کی دھڑکن کا آہستہ ہونا، خون کی رفتار کا کم ہونا، پتیلوں کا سکڑنا اور جسم کے مختلف مادوں کی حرکات وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ Systemہمارے ارادے اور اختیار کے بغیر کام کرتا ہے۔ مثلاً ہم سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اگر سانس روک بھی لیں تو کچھ وقفے کے بعد دوبارہ سانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دل کی رفتار پر بھی ہمیں اختیار نہیں ہے۔ چنانچہ فی زمانہ طبی ماہرین اور ماہرین علم النفس اس بنیاد پر کام کر رہے ہیں کہ مختلف طریقوں اور مشقوں سے اگر ہم Parasympathetic Systemکی حرکات پر اثرات مرتب کر سکیں تو ہم بیماریاں کو کامیابی سے دفاع کر سکیں گے اور بہت سے امراض کا خاتمہ آسانی سے ہو جائے گا۔ اسی بنیاد پر سائنس دانوں نے ‘‘بائیوفیڈبیک’’ Bio Feed Backنامی طریقہ ایجاد کیا ہے جس پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

                مراقبہ کے ذریعے Parasympatheic Systemپر حسب منشاء اثرات مرتب کئے جا سکتے ہیں۔ مراقبہ اس نظام میں خوشگوار تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے۔ مراقبہ کی کیفیت گہرے سکون اور ٹھہرائو میں لے جاتی ہے۔ یہ کیفیت ہمارے اوپر عام طور پر طاری نہیں ہوتی لیکن ذہن زیادہ دیر تک ایک جگہ نہیں ٹھہرتا۔ مراقبہ سے نہ صرف قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ تجربات اور مشاہدات نے ثابت کر دیا ہے کہ مراقبہ سے مندرجہ ذیل جسمانی اور نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

                ۱۔            خون کے دبائو پر کنٹرول

                ۲۔           قوت حیات میں اضافہ

                ۳۔           بصارت میں تیزی

                ۴۔           خون کی چکنائی میں کمی

                ۵۔           تخلیقی قوتوں میں اضافہ

                ۶۔           چڑچڑے پن میں کمی

                ۷۔           دل کی کارکردگی میں بہتری

                ۸۔           قوت سماعت میں اضافہ

                ۹۔            بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت

                ۱۰۔         ڈیپریشن اور جذباتی ہیجان کا خاتمہ

                ۱۱۔          پریشانی اور مشکلات میں آنے والے دبائو میں کمی

                ۱۲۔         خون کے سرخ ذرات میں اضافہ

                ۱۳۔         قوت یادداشت میں تیزی

                ۱۴۔         بہتر قوت فیصلہ

                ۱۵۔         بے خوابی سے نجات اور گہری نیند

                ۱۶۔          ڈر اور خوف کے خلاف ہمت اور بہادری پیدا ہو جاتی ہے۔

                ۱۷۔         عدم تحفظ کے احساس اور مستقبل کے اندیشوں سے نجات مل جاتی ہے۔

                ۱۸۔         مراقبہ کرنے والے مرد اور خواتین کو وسوسے نہیں آتے۔

                ۱۹۔          حسد ختم ہو جاتا ہے۔

                ۲۰۔        مراقبہ میں کامیابی کے بعد آدمی جادو ٹونے، بھوت پریت، آسیب اور منفی خیالات سے آزاد ہو جاتا ہے۔

                زمین پر موجود ہر شئے میں کوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہے، کوئی شئے بے رنگ نہیں ہے۔ کیمیاوی سائنس بتاتی ہے کہ کسی عنصر کو شکست و ریخت سے دوچار کیا جائے تو مخصوص قسم کے رنگ سامنے آتے ہیں۔ رنگوں کی یہ مخصوص ترتیب کسی عنصر کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہر عنصرمیں رنگوں کی ترتیب جدا جدا ہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذ ہے۔ انسان کے اندر بھی رنگوں اور لہروں کا ایک مکمل نظام کام کرتا ہے۔ رنگوں اور لہروں کا خاص توازن کے ساتھ عمل کرنا کسی انسان کی صحت کا ضامن ہے۔ اگر رنگوں میں رد و بدل ہو جائے تو انسانی طبیعت میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔

                جذبات و محسوسات میں رنگوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ بری خبر سن کر چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے، خوف کے عالم میں چہرے کے رنگ میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ غصہ کی حالت میں آنکھیں اور چہرہ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کمرے کی دیواروں کا رنگ گہرا سرخ ہو تو طبیعت پر بار محسوس ہونے لگتا ہے۔ اگر اسی کمرے کی دیواروں کا رنگ نیلگوں کر دیا جائے تو طبیعت سکون محسوس کرتی ہے۔ سرسبز و شاداب درخت اور رنگ برنگے پھول دیکھ کر ذہنی اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ لیکن یہی پودے جب خزاں میں سبز لباس اتار کر زرد پیراہن اوڑھ لیتے ہیں تو انہیں دیکھ کر محسوسات بدل جاتے ہیں۔

                نظریہ رنگ و نور ہمیں بتاتا ہے کہ نہ صرف انسان کے جسم بلکہ حواس میں بھی رنگوں کی مخصوص مقداریں کام کرتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے رنگوں کے نظام میں تبدیلی واقع ہو جائے، کسی رنگ کی کمی ہو جائے، کوئی رنگ زیادہ ہو جائے یا رنگوں کے تناسب میں فرق آ جائے تو محسوسات میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔

                علم روحانیت میں شاگرد کے اندر رنگوں اور روشنیوں میں رد و بدل کیا جاتا ہے تا کہ شاگرد کا ذہن لاشعوری حواس سے قریب ہو جائے۔ مراقبہ کی مسلسل مشق سے بھی روشنیوں کے نظام میں رنگینی بڑھنے لگتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ روشنیوں اور رنگوں کی تبدیلیاں کسی صلاحیت کو بیدار کرنے میں استعمال ہوں۔ اگر رنگوں اور روشنیوں کا اضافہ کسی صلاحیت، کسی حس کی تعمیر میں خرچ نہیں ہوتا تو ان سے معمول کے حواس متاثر ہونے لگتے ہیں۔

                روحانی استاد شاگرد کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا معائنہ کرتا رہتا ہے، حسب ضرورت ان میں تصرف کی قوت سے کمی بیشی کرتا ہے تا کہ رنگوں اور روشنیوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ شعور کی قوتیں بھی کام کرتی رہیں۔

                اس کے برعکس جب ایک عام شخص میں رنگوں اور روشنیوں میں معمول سے ہٹ کر تبدیلی واقع ہوتی ہے تو طبیعت اس کو برداشت نہیں کر پاتی ہے اور اس کا مظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یا ذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہم اس تبدیلی کو کسی نہ کسی بیماری کا نام دیتے ہیں مثلاً بلڈ پریشر، کینسر، فساد خون، خون کی کمی، سانس کے امراض، دق و سل، گٹھیا، ہڈیوں کے امراض، اعصابی تکالیف اور دیگر غیر معمولی احساسات و جذبات وغیرہ۔

                روحانی علوم کے طالب میں کس طرز پر رنگ و روشنی میں تبدیلی کی جائے اس کا تعین صرف ایک ماہر روحانی استاد ہی کر سکتا ہے۔ طبیعت کا رجحان، ذہن کی قوت، طرز فکر، طبعی ساخت اور دیگر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

                مراقبہ کے ذریعے رنگ و روشنی کو جذب کرنے کا طریقہ یہ ہے:

                طریقہ نمبر1:

                آرام دہ نشست میں بیٹھ کر تصور کیا جاتا ہے کہ رنگ اور روشنی کی لہریں پورے جسم میں جذب ہو رہی ہیں۔

                طریقہ نمبر 2:

                مراقبہ میں تصور کیا جاتا ہے کہ رنگ یا روشنی کی لہر آسمان سے نازل ہو کر دماغ میں جذب ہو رہی ہے۔

                طریقہ نمبر 3:

                مراقبہ میں تصور کیا جاتا ہے کہ گرد و پیش کا پورا ماحول روشنی سے معمور ہے اور یہ روشنی مراقبہ کرنے والے کے جسم و ذہن میں جذب ہو رہی ہے۔

                طریقہ نمبر4:

                یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مراقبہ کرنے والا روشنی کے دریا میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ روشنی اس کے جسم میں مسامات اور سانسوں کے راستے اس میں جذب ہو رہی ہے۔

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی