Topics

تئیسواں باب ۔ رنگین جسمیہ(کروموسوم)


                علم حیاتیات کے مطابق کسی بھی جاندار جسم کی بنیادی اینٹ کا نام خلیہ (Cell) رکھا گیا ہے۔ اگر اس خلیہ کی ساخت کو دیکھا جائے تو اس میں ایک مرکزہ (Nucleus) پایا جاتا ہے جو کہ ایک شفاف مادے (Cytoplasm) سے گھرا ہوتا ہے۔ اس مرکزے میں کچھ اور چیزوں کے علاوہ سب سے اہم چیز کروموسومز ہوتے ہیں۔ یہ کروموسوم ڈی این اے نامی مادے سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ لچھوں پر مشتمل ایک دھاگہ نما ساخت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کروموسومز پر موجود جین (Genes) کو جاندار کی جسمانی ساخت، شکل و صورت اور وراثتی خصوصیات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے، اس کے جسم کو بنانے، چلانے اور قائم رکھنے کے تمام افعال کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔

                یہ امر انتہائی غور طلب ہے کہ کروموسوم دریافت کرنے والے سائنسدان نے آخر اس کا نام کروموسوم یعنی رنگوں سے بنا ہوا جسم(Body of Colours) ہی کیوں تجویز کیا۔

                اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو کروموپیتھی میں ہم درحقیقت روشنی کی رنگین شعاعوں یعنی لہروں کی ایک مخصوص فریکوئنسی کے ذریعے کروموسومز کو ان کے درکار رنگ مہیا کر کے ان کے افعال کی درستگی میں مدد اور اعانت کرتے ہیں۔

                سورج کی روشنی جب جاندار اجسام پر پڑتی ہے تو خلیوں کی دیواروں (Cell Wall) سے گزر کر خلیے کے شفاف مادے سائٹو پلازم سے گزرتی ہے اور طیف کے سات رنگوں میں تقسیم ہو کر مرکزے میں موجود کروموسومز کو درکار رنگ مہیا کرتی ہے۔ رنگ جن کی توانائی کی مخصوص مقداریں ہی ان کروموسومز کی غذا ہیں اور یہی رنگ ان کی درست اور صحت مندانہ کارکردگی کے بھی ضامن ہیں۔ جب ان کروموسومز کو ان کے درکار مطلوبہ رنگ براہ راست مہیا کر دیئے جاتے ہیں تو وہ اپنے مدافعاتی نظام کو بروئے کار لا کر جسم کو کسی بھی قسم کے مرض سے نجات دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

            رنگ اور غذا:

                ہم یہ بات جانتے ہیں کہ درختوں کے پتوں میں دور کرنے والا پانی اور معدنی عناصر سورج کی روشنی میں ایک مخصوص کیمیائی عمل جسے ضیائی تالیف (Photo Synthesis) کہتے ہیں، کی وجہ سے نشاستے میں تبدیل ہو کر نباتات اور حیوانات کی خوراک بنتے ہیں۔

                سورج کی روشنی میں معدنی عناصر اور ایسی گیسیں شامل ہیں جو انسانی غذا کا اہم جزو ہیں۔ سورج کی روشنی سے براہ راست یا بالواسطہ بننے والی غذا ہمیں قوت اور توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب ہم غذا استعمال کرتے ہیں تو غذا میں شامل رنگ اور روشنی کی مقداریں ہمارے جسم میں جذب ہو جاتی ہیں اگر روشنی اور غذا دونوں کو استعمال کیا جائے تو حاصل ہونے والی توانائی دگنی ہو جاتی ہے۔

                مثال:

                جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے رنگ اور روشنی پہ جو تجربات کئے وہ کروموپیتھی کے طلبا کے لئے مشعل راہ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز مجھے انسپائر Inspireہوا کہ سورج کی شعاعوں میں سب رنگ موجود ہیں اور ان رنگوں سے ہماری ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سورج کی روشنی کو اپنے حیاتیاتی سسٹم میں اگر ذخیرہ کر لیا جائے تو غذا کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ پروگرام کے مطابق صبح سورج نکلنے سے پہلے میں مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا تھا اور سانس کے ذریعہ غذا کا تعین کر کے سورج کی کرنوں کو اپنے معدہ میں ذخیرہ کر لیتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی کے علاوہ کسی قسم کی غذا کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ ہی کوئی کمزوری محسوس ہوئی البتہ کھڑے ہو کر چلنے میں زیادہ لطافت محسوس ہوتی تھی اور خلاء میں چہل قدمی کا تاثر قائم ہوتا تھا۔ ٹھوس دیواریں کاغذ کی بنی ہوئی نظر آتی تھیں۔

                 سورج وٹامن ڈی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سورج کی روشنی میں وٹامن ڈی کے علاوہ دوسرے وٹامن بھی شامل ہیں اور ہر وٹامن کسی نہ کسی رنگ سے متعلق ہیں۔

                ۱۔            وٹامن اے                               پیلا رنگ

                ۲۔           وٹامن بی                   سبز رنگ

                ۳۔           وٹامن سی                  زرد رنگ

                ۴۔           وٹامن ڈی                 بنفشی رنگ

                ۵۔           وٹامن ای                 بنفشی رنگ

                ۶۔           وٹامن کے                گہرا نیلا رنگ

                غذا کے ذریعے رنگ جذب کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مطلوبہ اور درکار رنگوں کے مطابق سبزیاں اور رس دار پھل زیادہ استعمال کئے جائیں۔ پھل اور سبزیوں میں سورج کی روشنی کا انجذاب براہ راست ہوتا ہے لیکن خوراک میں رنگوں کے تناسب کا خیال رکھنا ضروری ہے اور مختلف رنگوں کی سبزیوں اور پھلوں کو ایک توازن کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے، بہت زیادہ پکانے اور بھوننے میں غذا میں موجود رنگ ضائع ہو جاتے ہیں۔

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی