Topics

نومبر 1989؁ء۔اخلاق حسنہ

عربی میں شہد کی مکھی کو نحل کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ایک سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہوئے شہد کی مکھی اور شہد کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

                اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ پہاڑوں میں گھر بنانا اور درختوں اور چھتوں میں۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل جو تیرے لئے نرم اور آسان ہیں۔ اس کے پیٹ سے ایک چیز پینے کی رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کے لئے تندرستی ہے۔ بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کریں۔

                قابل غور یہ بات ہے کہ کس طرح ایک مکھی پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے۔ اور جب وہ اس کے پیٹ میں رہ کر باہر آتا ہے تو میٹھا اور لذیذ بھی ہوتا ہے نیز صحت بخش بھی۔ خدا کی پیدا کردہ اس لذیذ مفید نعمت کی اہمیت، افادیت اور لذت کا اندازہ نبی کریم کے ارشادات سے مزید کیا جا سکتا ہے۔

                علیکم بالشفائین العسل والقرآن۔

                دو چیزوں سے صحت حاصل کرو۔ شہد اور قرآن کریم سے۔ اس حدیث میں شہد کو صحت بخش ہونے کے ساتھ قرآن کریم کو بھی ذریعہ صحت فرمایا گیا ہے۔ شہد جسمانی امراض کو ختم کرنے اور جسم کو صحتیاب کرنے والی غذا ہے اور قرآن کریم روحانی امراض کو ختم کرنے اور روح کو جلا بخشنے والی کتاب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

                ’’ہم اتارتے ہیں قرآن میں وہ چیز جو ایمان والوں کے لئے شفا اور صحت و رحمتہ المومنین ہے۔‘‘

                حضرت ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ میرے بھائی کے پیٹ میں درد ہے یا اس نے کہا کہ میرے بھائی کو اسہال (دستوں) کی شکایت ہے تو حضورﷺ نے فرمایا۔ اسے شہد پلا دو۔ وہ شخص چلا گیا اور پھر واپس آ کر عرض کیا۔ میں نے بھائی کو شہد پلایا تھا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ نبی کریمﷺ نے پھر شہد پلانے کا حکم دیا۔ دو تین بار ایسا ہی ہوا۔ جب وہ چوتھی مرتبہ خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا۔ اللہ نے سچ فرمایا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔

                اس ارشاد کو سن کر اس شخص نے اپنے بھائی کو دوبارہ شہد پلایا اور وہ صحتیاب ہو گیا۔

                اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم ہو جانے سے انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سکون کی بارش برستی رہتی ہے۔ روحانیت میں قیام صلوٰۃ کو ترجمہ ربط قائم کرنا ہے۔ یعنی اپنے اللہ سے ہر حال اور ہر حرکت میں تعلق اور ربط قائم رکھا جائے۔ نماز کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کیجئے۔ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے۔

                دشمنوں کی فتنہ انگیزی اور ظلم و ستم سے گھبرا کر بے ہمت، بزدل اور پریشان ہو کر بے رحموں کے سامنے سرنگوں ہو کر اپنے قومی وقار کو داغدار کرنا دراصل احساس کمتری اور خود کو ذلیل کرنے کی علامت ہے۔ اس کمزوری کا کھوج لگایئے کہ آپ کے دشمن میں آپ پر ستم ڈھانے اور آپ کے ملی تشخص کو پائمال کرنے کی جرأت کیوں ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی دو وجہیں بتائی ہیں۔

                ۱۔            مسلمان دنیا سے محبت کرنے لگیں گے۔

                ۲۔           موت ان کے اوپر خوف بن کر چھائے گی۔

                کیا اتباع سنت یہی ہے کہ ہم کرسی اور میز پر کھانا کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ کبھی آپ نے ایسا نہیں کیا لیکن کبھی بھولے سے اس بات کا خیال بھی نہ آئے کہ آپ کی غذا کیا تھی اور جو کچھ تھی وہ کس وجہ سے تھی۔ چمچے کے استعمال سے پرہیز مگر کھانا لذیذ سے لذیذ تر کھانا، کھانا حلق تک ٹھونس کر کھانا اور اپنے بھائیوں اور فاقہ زدوں سے ایسی لاپرواہی اور بے اعتنائی برتنا جیسے ان کا زمین پر وجود ہی نہیں ہے۔ پائنچے ٹخنوں سے ذرا نیچے ہو جائیں تو گناہ کبیرہ لیکن اگر لباس کبر و نخوت، ریا اور نمائش کا ذریعہ بن جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔ یہ کونسا اسلام ہے کہ ہم نمازیں قائم کریں مگر برائیوں سے باز نہ آئیں۔ روزے رکھیں مگر صبر کی بجائے حرص و ہوس، غصہ اور بدمزاجی کا مظاہرہ کریں۔ جب کہ رسول اللہﷺ کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بندے کی ایک بار غیبت کرنے سے روزہ، نماز اور وضو سب کچھ فاسد ہو جاتا ہے۔

                ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے آپﷺ سے کہا کہ مشرکین کے لئے بددعا کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’میں بُرا چاہنے کے لئے نہیں آیا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ آپﷺ کا اخلاق حسنہ یہ تھا کہ مدینہ میں لوگ اکثر صبح ہی صبح پانی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے تھے۔ تا کہ آپﷺ اس میں برکت کے لئے ہاتھ ڈال دیں۔ کتنی ہی زیادہ سردی کیوں نہ ہو، آپﷺ لوگوں کو مایوس نہیں فرماتے تھے۔ اور پانی میں ہاتھ ڈال دیتے تھے۔ اگر کسی کنیز کو بھی کچھ ضرورت ہوتی تو آپﷺ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی اور آپﷺ کبھی جانے میں تامل نہیں فرماتے تھے۔

                میرے دوستو! اللہ بڑا رحیم ہے، بڑا کریم ہے، معاف کرنے والا ہے۔ مگر دانستہ غلطیاں ناقابل معافی جرم ہیں۔ اتباع سنت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگو! محض دعوئوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اخلاق نبویﷺ اختیار کرنے میں ظاہری پابندی کو شدّ و مد سے بیان کرنے والو! اگر صداقت اور خلوص نہ ہو تو یہ سب ریا اور دکھاوا ہے۔

                یاد رکھو! حضور پاکﷺ کی مجموعی زندگی میں سے چند اعمال کو اختیار کر کے اتباع سنت کا دعویٰ کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ