Topics

اکتوبر 1989؁ء۔قرض دینے کا اجر

اللہ رب العالمین کے محبوب بندے رحمت اللعالمین محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔

                میں نے معراج کی رات جنت میں ایک دروازہ دیکھا جس پر تحریر تھا کہ صدقے کا دس گنا اجر ملے گا اور قرض کا اٹھارہ گنا۔ میں نے جبرائیلؑ سے پوچھا کہ یہ کی بات ہے کہ قرض دینے کا اجر صدقے سے زیادہ ہے حالانکہ صدقے کا اجر زیادہ ہونا چاہئے۔

                جبرائیلؑ نے کہا۔ یا رسول اللہﷺ! بات یہ ہے کہ صدقہ کبھی فقیر کو ملتا ہے اور کبھی ایسے شخص کو بھی مل جاتا ہے جو اس کا محتاج نہیں ہوتا مگر قرض تو صرف اس کو دیا جاتا ہے جو محتاج ہو۔ اس لئے قرض دینے کا اجر زیادہ ہے۔

                بندہ ایک بات منہ سے نکالتا ہے جو اللہ کی خوشنودی کی بات ہوتی ہے۔ بندہ اس کا خیال نہیں کرتا اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کی بدولت اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔ اسی طرح آدمی خدا کو ناراض کرنے والی بات لاپرواہی سے زبان سے نکالتا ہے جو اسے جہنم میں گرا دیتی ہے۔

                جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اگر بولے تو منہ سے اچھی بات نکالے ورنہ چپ ہی رہے۔

                جو شخص اسلوب کلام میں اس لئے ادل بدل کرتا ہے کہ لوگ اس کے اوپر گرویدہ اور فریفتہ ہو جائیں تو خدا قیامت کے دن اس کا فدیہ اور اس کی توبہ قبول نہیں کرے گا۔

                اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کرو۔ ورنہ اللہ اس پر رحم فرما کر اس کی مصیبت ہٹا دے گا اور تجھے مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔

                جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے درد اور رحم سے محروم رکھا وہ ناکام اور نامراد ہو گیا۔

                مشہور و معروف شخص کے لئے تکلیفیں ہیں اور گمنام و غیر معروف شخص کیلئے آسائش ہے۔

                ایک مجلس میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں کوئی مشروب پیش کیا گیا۔ اس وقت آپ کے دائیں ہاتھ ایک نو عمر بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ اور بائیں ہاتھ معمر لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے اس مشروب میں سے چھوڑا سا پانی پی کر اس نو عمر لڑکے کو دے کر کہا۔ اگر تم اجازت دو تو بقیہ مشروب ان حضرات کو دے دوں۔ وہ کہنے لگا نہیں۔ خدا کی قسم آپﷺ سے ملنے والے حصے میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ چنانچہ حضورﷺ نے وہ پیالہ اس لڑکے کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

                معرفت الٰہی اصل حکمت ہے اور پرہیز گاری دین کی اساس ہے۔

                ایمان بااللہ کے بعد اصل حکمت حیا اور خوش خلقی ہے۔

                فال لینے والے، کہانت کرنے والے اور جادوگر کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔

                اللہ رحمت کرے اس شخص پر جو گفتگو کے معاملے میں بخیل ہو اور مال کے سلسلے میں فیاض ہو۔

                حاملہ عورتیں، بچے والیاں، دودھ پلانے والیاں، اپنی اولاد سے محبت کرنے والیاں، اگر شوہر سے اچھی روش رکھیں اور نماز قائم کریں تو بلاشبہ جنت میں داخل ہوں گی۔

                اپنے ماں باپ سے نیکی کرو۔ تمہاری اولاد تم سے نیکی کرے گی۔

                تُو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔

                خداوند کریم جوان عبادت گزار فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات کرتا اور کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کہ اس نے صرف میرے لئے جوانی کے جذبات اور اس کے تقاضوں کو کچل دیا ہے۔

                جہاں مہمان نہ آئے ہوں وہ گھرانہ منحوس ہو جاتا ہے۔

                جس گھر میں بچے نہ ہوں اس میں برکت کہاں؟

                نرم ماج، ملائم طبع، آسان گیر اور ملنسار آدمی پر جہنم حرام ہے۔

                سلام کرنے میں پہل کرنا اور اچھی گفتگو کرنا مغفرت کا سبب ہے۔

                استغفار گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

                سچے اور امانتدار تاجر پر جنت کے دروازے بند نہیں کیے جائیں گے۔

                دنیا اور آخرت کی تمام خوبیاں علم سے وابستہ ہیں۔ اور دونوں جہاں کی تمام برائیاں جہالت سے وابستہ ہیں۔

                جو اہل علم سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔

                علم اسلام کی زندگی اور دین کا ستون ہے جس نے علم حاصل کیا۔ اللہ اس کو اجر عظیم دے گا۔ اور جس نے علم کے ساتھ عمل کیا اللہ اس کے علم میں اور اضافہ کرے گا۔

                حسن زبان حسن انسان ہے۔

                ہمسائے کا احترام عمر اور آبادی میں اضافہ کرتا ہے۔

                حیا سرمایۂ زینت ہے۔ تقویٰ سرمایۂ بزرگی۔ صبر بہترین سواری ہے اور غیب سے سامانِ راحت کا انتظار عبادت ہے۔ اگر تم مسلمانوں کی پوشیدہ باتوں کی جستجو میں پڑو گے تو ان کو فساد میں مبتلا کر دو گے۔

                آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے والوں میں پہل کرنا قصور وار ہے۔ بشرطیکہ مظلوم جواب میں حد سے نہ بڑھے۔

                بہت لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہوں میں لئے جائیں گے نہ سفارش کرنے والوں میں۔

                رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ غیبت زنا سے سخت تر گناہ ہے۔ لوگوں نے پوچھا۔ یا رسول اللہﷺ! غیبت زنا سے سخت گناہ کیوں کر ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو معاف نہیں کرے گا۔ جب تک کہ وہ شخص اس کو معافی نہ دے دے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔

                غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرے جس کی تو نے غیبت کی ہے۔ دعا اس طرح کی جائے اے اللہ! تو میری اور اس کی مغفرت فرما۔

                سب سے وزنی چیز جو قیامت کے دن مومن کی ترازو پر رکھی جائے گی وہ اس کا حسن اخلاق ہو گا۔ اور اللہ اس شخص سے بغض رکھتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا ہے اور بدزبانی کرتا ہے۔

                چغلی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے بتایا کہ ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے اور یہ عذاب کسی ایسی بات پر نہیں ہو رہا جسے وہ چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو بآسانی اس سے بچ سکتے تھے بلاشبہ ان کا جرم بڑا ہے۔ ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا۔ دوسرا اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔

                ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ صفیہؓ کا یہ عیب کافی ہے کہ وہ پستہ قد ہے۔ یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا:

                اے عائشہؓ! تم نے منہ سے اتنا گندہ لفظ نکالا ہے کہ اگر اسے سمندر میں گھول دیا جائے تو پورے سمندر کو گندہ کر دے۔

                کوئی شخص دوسرے شخص کو فاسق و کافر نہ کہے کیونکہ اگر وہ فاسق و کافر نہیں ہے تو کہنے والے پر لوٹ آتا ہے۔

                بدگمانی سے بچو کہ بدگمانی سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں۔ نہ لوگوں کے عیوب کی ٹوہ لگائو۔ نہ ان کی جاسوسی کرو۔ نہ ان کی کوئی چیز ہتھیائو۔ نہ آپس میں حسد کرو۔ نہ باہم بغض رکھو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کیا جائے۔ نہ اسے رسوا کیا جائے، نہ اسے ذلیل و خوار کیا جائے۔ آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔

                خالق کائنات اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب بندے رحمت اللعالمین سے فرمایا ہے:

                جب تک بندے کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے رہتے ہیں میں اس کے ساتھ رہتا ہوں۔

                اے بندے! تو اپنا وقت میری یاد اور عبادت میں گزار۔ میں تیرے فقر کو دور کر دوں گا۔ اور تجھے غنی بنا دوں گا۔ اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو تجھے دنیاوی جھمیلوں میں گرفتار کر دوں گا۔ فقر کو تجھ سے جدا نہ کروں گا۔

                کانا پھوسی ایک شیطانی عمل ہے وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں۔

                اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو۔ ٹھیک بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا۔ اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرما دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

                کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں۔ اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔

                قرآن مجید میں اعلان کیا گیا ہے:

                اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔ اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان پھر تمہیں اسی فتنہ میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروائے تھے تا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اس کے ساتھ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

                زبان اور قوت گویائی کی اسی اہمیت اور اس کی اسی شر انگیزی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے خصوصی انعامات و احسانات میں شمار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے:

                ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے قوت گویائی کے شرف سے مشرف کر دیا۔‘‘

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ