Topics

جنوری 2002؁۔مشورہ اور رائے

’’اے نبی! یہ تو اللہ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر آپ تیز مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہٰذا آپ ان کو معافی دیجئے اور ان کی بخشش کی سفارش کیجئے اور کاموں میں ان سے مشورہ بھی لے لیا کیجئے‘‘۔  (سورۂ آلِ عمران)

              ’’اور جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے‘‘۔  (سورۂ شوریٰ)

              سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اجتماعی نوعیت کے کئی معاملات میں صحابۂ کرامؓ سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ ان مواقع پر صحابۂ کرامؓ  کھل کر اظہارِ خیال کرتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی گفتگو کو غور سے سنتے۔ اچھے مشورے پر پسندیدگی کا اظہار فرماتے۔

              مشورہ کرنا، ایک دوسرے کو رائے دینا اور سننا قرآن مجید کی نظر میں بہت احسن عمل ہے۔ اس کا دوہرا فائدہ ہے۔ اول یہ ہے کہ آپس میں محبت و انبساط کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اختلافات ختم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ مشورہ کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جب کئی ذہن ایک ہی مسئلہ پر تفکر کریں، غور و تدبر سے کام لیں اور ایک ساتھ مسئلے کا حل تلاش کریں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ کسی نکتے پر ایک آدمی غور کرے اور اسی نکتے پر کوئی لوگ مل کر تفکر کریں تو اجتماعی طور پر تفکر کرنے والے افراد زیادہ بہتر نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

              قرآن کریم بندۂ مومن سے توقع کرتا ہے کہ وہ اجتماعی طرز فکر اختیار کرے لوگوں کے ساتھ مل کر، ان کے دکھ درد بانٹتے ہوئے اور باہمی مشورے کے ساتھ زندگی گزارے۔ وہ عوامی قدروں کا احترام کرے۔ لوگوں کی رائے کو پوری توجہ اور انہماک سے سُنے۔ کسی کی رائے سے اختلاف ہو تو نہایت حکمت اور تحمل کے ساتھ اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرے۔

              آقائے نامدار سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

              ’’تم میں جو شخص کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ اپنے بھائی سے اس کام میں مشورہ کر لے۔ اس صورت میں اللہ اس کو سیدھی راہ دکھا دے گا‘‘۔

              ایک مرتبہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:   

              ’’اے مسلمانو! عقل والوں سے رائے لے لیا کرو تا کہ تم ہدایت پائو۔ اس صورت میں تم کو ندامت نہیں اٹھانا پڑے گی‘‘۔

              کسی اہم معاملہ پر غور کرتے ہوئے کسی صائب الرائے سے مشورہ ضرور کر لیجئے۔ مشورہ لینے سے پہلے یہ اندازہ ضرور کر لیجئے کہ جس سے مشورہ لیا جا رہا ہے اس کا اس حوالے سے تجربہ بھی ہے یا نہیں۔ میڈیکل کے کسی مسئلے پر درزی سے مشورہ کیا جائے یا کمپیوٹر کے کسی مسئلے کا حل کیمیکل انجینئر سے لینا دانشمندی کی دلیل نہیں۔ آپ کو جس شعبے سے متعلق مشورہ لینا ہے اسی شعبے کے تجربہ کار فرد سے رابطہ کیجئے یا ایسے زیرک اور پختہ کارفرد کا انتخاب کیجئے جس کا مشاہدہ و مطالعہ وسیع ہو۔

              کوئی صاحب آپ سے مشورہ لینا چاہیں تو پوری توجہ اور انہماک سے ان کی بات سنیں۔ نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ ان کی پریشانی رفع کرنے کی کوشش کیجئے۔ کسی بھی موقع پر دوسرے کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش مت کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر کرم اور نوازش ہے اور اللہ کریم نے آپ کو سعادت عطا فرمائی ہے کہ کسی فرد نے آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھا۔

              ہمارے پیارے نبیﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:

              ’’آدمی کی رائے اُس وقت تک ٹھیک رہتی ہے جب تک و صلاح لینے والے کا خیر خواہ رہے‘‘۔

              صلاح لینے والے کی بات کسی بھی صورت میں تیسرے فریق تک نہ پہنچنے دیں کیونکہ آپ اس راز کے امین ہیں۔ اگر اس فرد کو یہ بات معلوم ہو گی تو آپ اس کی نظر میں عزت و احترام کے مستحق نہیں رہیں گے۔

              رسولِ رحمتِ دو جہاں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

              ’’جس کسی سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امین ہونا چاہئے‘‘۔

              ’’جو مسلمان کسی مسلمان سے مشورہ لے اور وہ اپنے بھائی کو ٹھیک رائے نہ دے تو وہ خیانت کرنے والوں میں شمار ہو گا‘‘ 

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ