Topics

جنوری 2001؁۔زندگی ایک دستاویز

’’اور داہنے والے ۔ داہنے والے کیا ہیں۔ رہتے ہیں بغیر کانٹوں کی بیری میں اور کیلے تہہ بہ تہہ اور لمبی چھائوں اور پانی کے جھرنے اور کثیر میوہ جات جو نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے۔ اور اونچے فرش۔ ہم نے وہ عورتیں اٹھائیں ایک خاص اٹھان پر پھر کیا ان کو کنواریاں، پیار دلاتی اور ہم عمر واسطے داہنے والوں کے۔ ان میں بہت سے اولین میں سے ہیں اور بہت سے آخرین میں۔

              اور بائیں والے۔ کیسے ہیں بائیں والے۔ لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈی ہے اور نہ عزت والی۔ وہ لوگ تھے اس سے پہلے مطمئن اور ڈٹے ہوئے اس بڑے گناہ پر۔‘‘

              انسان کی پوری زندگی ایک دستاویز ہے۔ اس دستاویز کے اچھے یا بُرے ہونے کا تعلق آدمی کی طرز فکر سے ہے۔ ایک طرز فکر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ ہے جسے پیغمبرانہ طرز فکر کہا جاتا ہے جب کہ دوسری طرز فکر بندہ کو اللہ سے دور کرتی ہے اسے شیطانی طرز فکر کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں پیغمبرانہ طرز فکر کے حامل افراد کو داہنے والے اور شیطانی طرز فکر کے حامل افراد کا بائیں والے قرار دیا گیا ہے۔

              برائی یا بھلائی کا جہاں تک تعلق ہے، کوئی عمل دنیا میں بُرا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمل میں معانی پہنانا اچھائی یا بُرائی ہے۔ معانی پہنانے سے مراد طرز فکر ہے۔

              احادیث مبارکہ میں اسے نیت سے موسوم کیا گیا ہے۔ عمل کرنے سے پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہوتا ہے، وہی خیر یا شر ہے۔ آگ کا کام جلانا ہے۔ ایک آدمی لوگوں کی فلاح و بہبود  کے لئے آگ کو کھانا پکانے میں استعمال کرتا ہے تو یہ عمل خیر ہے۔ وہی آدمی اس آگ سے لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالتا ہے تو یہ بُرائی ہے۔

              عمل کا تعلق نیت سے ہے۔ پیغمبرانہ طرزوں میں زندگی گزارنے والے شخص کی طرز فکر اس ارادہ کی تکرار سے بنتی ہے۔ یوں اس کی زندگی کی دستاویز میں پیغمبرانہ طرز فکر غالب رہتی ہے اس طبقہ کو قرآن میں داہنے والے کہا گیا ہے۔

              اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ طرز فکر بھی مسلسل تکرار سے بنتی ہے۔ یوں اس کی زندگی کی دستاویز میں شیطانی طرز فکر غالب رہتی ہے اسے قرآن میں بائیں والے کہا گیا ہے۔

 

 

نورِ نبوت

              رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

              ’’جس شخص کی طرزِ فکر اچھی یا بُری ہو گی اللہ تعالیٰ اس پر سے پردہ اٹھا دے گا جس سے وہ شناخت کئے جائیں گے‘‘۔

              اسی طرح ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:

              ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘۔

              ایک موقع پر ارشاد فرمایا:

              ’’اپنے اعمال کو خالص کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو خاص اُسی کے لئے ہو‘‘۔

              آدمی کی سوچ اور مخصوص طرزِ فکر کی بنیاد پر الگ الگ گروہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کی عادت یہ ہے کہ وہ فیاض ہے، سخی ہے۔ اس گروہ میں پیغمبروں کے وارث اولیاء اللہ اور اس مشن کو آگے بڑھانے والے لوگ شامل ہیں جو اللہ، اللہ کے پیغمبروں اور اللہ کے دوستوں سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی باتوں پر سرتسلیم خم کرتے ہیں، درگزر سے کام لیتے ہیں اور مخلوقِ خدا سے محبت کرتے ہیں۔

              دوسری طرف وہ گروہ ہے جس کی جبلت یہ بن گئی ہے کہ وہ بخیل ہے، کنجوس ہے۔ اس کے اوپر دولت کی پرستش کا گمان ہوتا ہے۔ اس گروہ میں شامل کچھ لوگ سیاسی تقاریر سننے کے خواہش مند ہیں جبکہ کچھ شراب و شباب کے شوقین ہیں۔ نافرمانی، ہٹ دھرمی، ضد اور دھوکہ دہی ان کی عادت ہے۔

              مختصر یہ کہ زمین پر موجود نوعِ انسانی مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک گروہ شک و وسواس میں مبتلا ہے تو دوسرا گروہ یقین اور صداقت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اسی طرح اس مادی دنیا سے اگلی دنیا میں منتقل ہونے کے بعد بھی لوگوں کو انہی دو طبقات یعنی طرزِ فکر کی وجہ سے پہچانا جائے گا۔

              انبیاء کی طرزِ فکر سے آشنا بندہ شیطانی گروہ میں کبھی داخل نہیں ہوتا نہ ہی شیطانی طرزِ فکر میں زندگی گزارنے والا بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ شیطانی طرزوں میں آدمی ذہنی اور نظری طور پر اندھا ہوتا ہے وہ چند سو گز سے زیادہ کی چیز نہیں دیکھ سکتا یہی چیزیں اس کو درد ناک عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں۔ خوف و ہراس اس پر مسلط رہتا ہے۔ اس کے برعکس پیغمبرانہ طرزوں میں آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلط نہیں ہوتا۔

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ