Topics

ستمبر 2001؁۔ابراہیم کے مہمان

’’کیا آپ ابراہیم کے معزز مہمان کی حکایت بھی پہنچی ہے جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم نے جواب میں سلام کیا‘‘۔  (سورہ الذریٰت: 25-24)

              جب حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:

              ’’بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں، مجھے رسوا نہ کرو، خدا سے ڈرو اور میری بے عزتی سے باز رہو‘‘۔ 

              (سورہ الحجر: 69-68)

              اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت کرتے ہیں۔ مہمانوں کو زحمت نہیں، رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ گھر میں مہمان آنے سے عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ کے مہمان پر کوئی حملہ کرے تو آپ اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھئے۔

              مہمان کے سامنے اچھے سے اچھا کھانا پیش کیجئے۔ دسترخوان پر خورد و نوش کا سامان اور برتن وغیرہ مہمانوں کی تعداد سے زیادہ رکھئے۔ ہو سکتا ہے کہ کھانے کے دوران کوئی اور صاحب آ جائیں پھر ان کے لئے بھاگ دوڑ کرنا پڑے۔ اگر برتن اور سامان پہلے سے موجود ہو گا تو آنے والا بھی عزت اور مسرت محسوس کرے گا۔ مہمان کے لئے خود تکلیف اٹھا کا ایثار کرنا اخلاقِ حسنہ کی تعریف میں آتا ہے۔

              مہمان نوازی کے بارے میں ارشاد نبویﷺ ہے:

              ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا احترام و اکرام کرے‘‘۔

              ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

              ’’میری سنتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ آدمی اپنے مہمان کو رخصت کرنے کے لئے گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ آئے‘‘۔

              نبی مکرمﷺ خود بہ نفسِ نفیس مہمانوں کی خاطر داری فرماتے تھے۔ جب آپﷺ مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے’’اور کھایئے اور کھایئے‘‘ جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کر دیتا تو اس وقت آپﷺ اصرار نہیں فرماتے تھے۔

              ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا ’’حضور میں بھوک سے بے تاب ہوں‘‘۔ آپﷺ نے امہات المومنینؓ میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی۔ جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے دوسرے گھر آدمی کو بھیجا۔ وہاں سے بھی یہی جواب آیا تو آپﷺ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے؟‘‘

              ایک انصاری صحابی نے اس مہمان کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے ان کی بیگم نے بتایا ’’ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھانا ہے‘‘۔

              صحابیٔ رسول نے کہا ’’بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ خاتون نے بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا اور جب کھانا پیش ہوا تو کسی بہانے سے چراغ بجھا دیا۔ مہمان کھانے کے دوران یہی سمجھتا رہا کہ میزبان بھی کھانے میں شریک ہیں۔

              صبح جب یہ انصاری سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا ’’تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے‘‘۔

              مہمان کو بھی چاہئے کہ اپنے میزبان کے لئے بلائے جان نہ بنے۔ ایسی چیزوں کی خواہش ظاہر نہ کرے جو میزبان کی طاقت سے باہر ہو یا اسے مشقت میں مبتلا کر دے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہمان کو ہدایت دی ہے کہ اس حد تک میزبان کے پاس نہ ٹھہرا رہے کہ وہ تنگ دل ہو جائے۔

Topics


Noor E Naboat Noor E Elahi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں نور نبوت نورالٰہی کے شائع شدہ تقریباً تمام مضامیں کا ذخِرہ