Topics
1.
اپنی محبوب چیز کسی
کو دے دینا ایثار ہے۔
2.
دوسرے کےلئے وہی
پسند کرنا جو اپنے لئے پسند ہو ایثار ہے۔
3.
اپنی ضرورت کی چیز
دوسرے کو دینا جیسے گردہ یا خون کی ضرورت ہو تو دے دینا ایثار ہے۔
4.
کائنات کو اپنی ذات
کا حصہ جانے،کائنات کی ہر شئے کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ایثار ہے۔
5.
اپنی جانوں پر
دوسروں کو ترجیح دینا ایثار ہے۔
6.
اللہ کی مخلوق کے
مفادات کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دینا ایثار ہے۔
7.
اپنا فائدہ نظرانداز
کرکے دوسرے کو فائدہ پہنچانا ایثار ہے۔
8.
اللہ کی رضا کیلئے
ہر وقت کام کرنا خواہ نفس اس میں راضی ہو یا نہ ہو۔
9.
اللہ کی رضا کو تلاش
کرنا ایثار ہے۔
10.
محبت کے بغیر ایثار
نہیں کیا جاتا۔ مخلوق سے اخلاص و محبت کے ساتھ پیش آنا ایثار ہے۔
11.
اللہ کی عطا کردہ
نعمتوں میں مخلوق کو حصے دار جاننا ایثار ہے۔
سوالات
سوال نمبر۱ ایثار کیا ہے؟اس کے کیا
کیا فوائد ہیں؟
سوال نمبر۲ مرشد ، مرید کو ایثار سے
کس طرح واقف کراتا ہے؟
سوال نمبر۳ نورفراست اور عقل سلیم
ایک سالک کیلئے کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر۴ مختلف مذاہب میں ایثار کی
کیا اہمیت ہے؟
ہماری زندگی ایک اجتماعی زندگی ہے۔ اس اجتماعی زندگی میں ہمارا تعلق صرف اپنی
نوع کے افراد سے ہی نہیں بلکہ کائنات میں موجود تمام انواع کے افراد کے ساتھ ہے۔
کسی نوع کے ساتھ ہمارا تعلق جسمانی ہے کسی کے ساتھ ذہنی طور پر ہے۔ غرض کہ زندگی
کے سفر میں ہم ساری مخلوق کے ساتھ چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی ذات کے
ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر خیال نہ رکھا گیا تو دوسروں کا
نقصان بھی ہمارا اپنا ہی نقصان ہوگا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے میں یا میری ذات
ایک اینٹ ہے ظاہر ہے اینٹ کا مقصد حیات تو دیوار میں چننا ہوتا ہےجب تک اینٹ اس
مقصد کو قائم رکھے گی وہ دوسری اینٹوں کے ساتھ تعاون کرے گی اور دیوار بن جائے گی
جیسے ہی اینٹ اپنے مقصد سے یا مرکز سے ہٹی تو دوسری اینٹوں کے ساتھ تعاون نہیں کرے
گی نہ ہی گارا سیمنٹ کے ساتھ تعاون کرے گا۔اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ اینٹ کسی طرح
دیوار میں فٹ نہیں ہوسکے گی اس کا نقصان خود اینٹ کو ہی تو ہوگاکہ اس کا مقصد حیات
ادھورا رہے گا۔
یہی حساب ایک فرد کا ہے۔ ہر فرد کی زندگی ایک مخصوص ڈگر پر روااں دواں ہے۔ یہ
مخصوص ڈگر ہی اس کی حیات ہے۔ اس مخصوص راستےسے ہٹ کر فرد کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہر فرد اپنے آپ کو اس راستے پر قائم اور متحرک رکھنے کی پوری پوری
کوشش کرتا ہے اور چونکہ فرد کی زندگی اجتماعیت کے اندر ہے جس کی وجہ سے اسے زندگی
گزارنے کے مخصوص اصول اپنانے پڑتے ہیں۔ ان اصولوں کے ساتھ وہ اپنے آپ کو دوسرے
افراد کے ساتھ ایک توانائی کے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔ زندگی کے ان اصولوں میں سے ایک
اصول ایثار ہے۔ ایثار اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا ہے۔اللہ تعالیٰ
نے ہر شئے میں اعتدال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اعتدال کا حکم نہایت ہی زبردست حکمت کے
تحت ہے۔ مثلاًآپ ایثار کو ہی لیجئے اگر آپ ہر وقت اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت
کو ترجیح دیتے رہیں گے تو خود آپ کے اہم تقاضے پورے ہونے سے رہ جائیں گے۔ آپ کے
ساتھ آپ کےگھر والے تعاون نہیں کرپائیں گے اور آپ کی گھریلو زندگی متاثر ہو جائے
گی جس کے نتیجے میں ایسی بھلائی کرنے سے آپ کو خوشی کے بجائے پریشانی ہوگی اور آپ
کے ساتھ ساتھ سارا گھر پریشانی میں مبتلا ہوجائےگا۔ ان چیزوں سے بچنےکے لئے سب سے
پہلے اپنے اندر فراست اور عقل سلیم پیدا کرنے کی ضروت ہے۔ فراست یقین سے پیدا ہوتی
ہے ۔ یقین اللہ کا نور ہے۔ اللہ کا نور جب دل میں جذب ہوجاتا ہے تو عقل اس نور سے
سیراب ہوجاتی ہے۔ دماغ کی نظر اس نور کی
روشنی میں شئے کو دیکھتی ہے اور ذہن اسے صحیح معنی پہناتا ہے۔ یقین ایمان
ہے جو کام یقین سے کیا جائے اس میں کامیابی لازمی ہے۔ یقین کے لئے مرکزیت کا ہونا
لازمی ہے۔ کوئی بھی مشن کوئی بھی امر جب آدمی کی مرکزیت بن جاتا ہے تو وہ اس کے
لئے پورے یقین کے ساتھ کام کرتا ہے اس کا ہر قدم اپنے کام و مشن کی تکمیل کےلئے
ہوتا ہے۔ ذہنی مرکزیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ہر قدم منزل مقصود کی جانب ہے۔ ذہنی
مرکزیت سے ہمارے حواس کو یقین کےنور کی توانائی مل جاتی ہے اور وہ عملی طور پر
پوری اسپیڈ کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ گویا ہمارا شعور ایک مشین ہے جس کو چلانے
کے لئے توانائی کی ضرورت ہے۔ یہ توانائی شعور دو ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔ ایک ذریعہ
مادی روشنی ہے۔ دوسرا ذریعہ روح کی روشنی یا نور ہے۔ مادی روشنیوں میں کثافت ہے۔ روح کی روشنیوں میں لطافت ہے۔ دنیا
میں رہتے ہوئے ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہم مکمل طور پر مادی روشنیوں سے کنارہ کش ہو
جائیں۔ پھر تو ہمارے ناسوتی تقاضے ہی بدل جائیں گے۔ البتہ ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے
کہ ہمارے ناسوتی حواس کے اوپر نورانی رنگ غالب رہے تاکہ مادی کثافتیں ہمیں نقصان
نہ پہنچا سکیں ۔ زندگی گزارنے کے جتنے بھی اچھے اصول ہیں جب کوئی بندہ اللہ کی رضا
کے ساتھ ان اصولوں پر عمل کرتا ہے تو اس عمل سے اس کے حواس کے اندر سے مادی
کثافتیں ختم ہوجاتی ہیں اور حواس میں نورانیت آجاتی ہے۔ نورانی حواس ہی غیب میں
کام کرتے ہیں۔ اس طرح زندگی کا ہر نیک عمل نیک غیب کے حواس کی تخلیق کرتا ہے۔ ایک
کامل انسان وہی ہے جو عالم ناسوت میں اپنے مادی حواس کے ساتھ رہتے ہوئے غیب کی
دنیا سے اپنے نورانی حواس کےساتھ رابطہ قائم رکھے۔ اسی کامل بشریت کا نمونہ پیغمبران
علیہ السلام تھے اور ایک روحانی آدمی کو بھی انہیں کا نمونہ بننا چاہئے۔ تمام
مذاہب میں انسانیت کے ایک ہی اصول ہیں۔ محبت ، حسن سلوک ، ایثار، قربانی ، حھوٹ سے
پرہیز، غیبت سےپرہیز وغیرہ وغیرہ ۔ ہر انسان ایسی اخلاق سوز حرکات کو براجانتا ہے
جن سے دوسروں کو نقصان پہنچے اور ہر آدمی حسن سلوک اورنیکی کو اپنےاور دوسروں
کےلئے پسند کرتا ہے۔ اچھائی اور برائی کا یہ تصور لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ کے
پیغام وہدایت کے مطابق پیغمبروں کا لایا ہوا ہے۔ پیغمبروں کی زندگی ہمارے لئے ایک
ایسا نمونہ ہےجس کی پیروی ہمیں بھی اس مقصد حیات کی جانب گامزن کردیتی ہے جس
کےلئےہماری تخلیق ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے ارادے میں بااختیار بنایا ہے۔ یہ اختیار خالق
کا عطاکردہ ہے۔ جب کوئی بندہ اپنی دانست میں یقین کی وادیاں طے کرتا ہوا اس مقام
پر پہنچ جاتا ہے جہاں اختیار الٰہیہ اس کے اندر منتقل ہورہا ہے تووہ اللہ کے اراے
سے واقف ہوجاتا ہے کہ اللہ اس سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔ اختیار الٰہیہ کو پہچان
کر ایک بندہ لا محدودیت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا
یا ہے۔ پس وہ انسان کی فضیلت کو پہچان لیتا ہے۔ انسان کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے
علوم حاصل کرنے اور اپنے اندر موجود صلاحیتوں کا صحیح طورپر استعمال کرنے میں ہے۔
ہر آدمی کے اندر ایثار کی صلاحیت موجود ہے۔ جب وہ اس صلاحیت سے کام لیتا ہے تو
ایثار کے علوم سے پوری طرح باخبر ہوجاتا ہے۔ یہی باخبری اسے غیب کی دنیا میں بھی
ایثار سے متعارف اور منسلک رکھتی ہے۔ غیب کی دنیا میں بھی وہ ایثار کی صلاحیت سے
کام کرےگا اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کے انعام سے مستفیض ہوگا۔ ایثار اپنی جان
پر دوسروں کی جانوں کو ترجیح دینا ہے۔ خدمت خلق کی راہ میں اپنی جان ومال کا ایثار
اللہ کے نزدیک مقبول ترین عمل ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ایک خاکی انسان کو نوری انسان
بنا دیتا ہے۔ فنائیت کو ابدیت بخش دیتا ہے۔ آدمی اپنے نیک عمل کے حوالے سے صفحہ
ہستی پر ابد تک اپنے نام کے ساتھ باقی رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭