Topics

بے مقصد گفتگو

 

۱۔       خاموشی عبادت ہے۔

۲۔       حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس نے خاموشی اختیار کی وہ کامیاب ہو گیا۔

۳۔                حضور پاک ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کا کفیل ہو گیا میں اس کے لئے جنت کا کفیل ہوگیا۔

۴۔       اللہ کی یاد بندے کو فضول گوئی سے دور رکھتی ہے۔

۵۔       خاموشی  تفکر کی جانب مائل کرتی ہے اور تفکر خدا کی جانب مائل کرتا ہے۔ فضول گوئی تفکر سے دور ہٹاتی ہے اور تفکر سے دور ہو کر آدمی خدا سے دور ہو جاتا ہے۔

۶۔       فضول گوئی اور کثرت کلام سے آدمی کا شعور متاثر ہو تا ہے اور روحانی شعور سے جو انفارمیشن آرہی ہے آدمی اس سے بے خبر رہتا ہے اور فضول گوئی سے پرہیز حضور پاک ﷺ کی سنت بھی ہے۔

۷۔       فضول گوئی ضیاع قوت ہے۔ اس سے آدمی کی زندگی پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتےہیں۔

۸۔       کثرت کلام اور فضول گوئی سے آدمی دنیاوی مشغولیت مین پھنسا رہتا ہے جس کی وجہ سے روحانی راستوں میں رکاوٹ  آجاتی ہے۔

۹۔       کثرت کلام سے آدمی پر شعور کا غلبہ رہتا ہے جو روحانیت کے بالکل برعکس ہے۔

۱۰۔    کثرت کلام سے وہ قوت ضائع ہو جاتی ہے جو عمل کا بعث بنتی ہے لہذا گفتار کا غازی کردار کا غازی نہیں بن سکتا۔

۱۱۔    خاموشی بہترین حکمت ہے۔

۱۲۔    کثرت کلام سے نفس میں غرور تکبر پیدا ہوتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھے۔ جیسے سلطان باہو نے فرمایا۔” جو دم غافل سو دم کافر۔“

۱۳۔    فضول گوئی ایک مرض ہے جس سے دل افسردہ اور ذہن منتشر ہو جاتا ہے۔

سوالات

سوال نمبر ۱۔  فضول گوئی کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

سوال نمبر۲۔   کم بولنا ، کم کھانا، کم سونے کے کیا فوائد ہیں؟

سوال نمبر۳۔   تفکر  سے کیا مراد ہے؟ اس کے کیا فوائد ہیں؟

سوال نمبر۴۔   حدیث شریف ہے جس نے خاموشی اختیار کی وہ کامیاب ہو گیا اس کی تشریح کریں۔

٭٭٭٭٭

          ہماری روز مرہ زندگی میں جو اصطلاحیں اور محاورے عام طور سے استعمال ہوتے ہیں وہ بہت سے لوگوں کا تجرباتی نچوڑ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہو جاتا ہے اور یہ فطرت کے اصول کی حیثیت اختیار کر لیتے ہین بلکہ اگر اسے دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو کہا یوں جائے گا کہ لوگوں نے اپنے اندر کام کرنے والی فطرت کو جب پہچانا تو اسے الفاط میں بیان کر کے اس کے معنی و مفہوم کو اصولی صورت میں ڈھال دیا تاکہ  اس اصول کو لوگ اپنا کر اس سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھائیں کہ فطرت تو ہر فرد کے اندر ایک ہی طرز پر کام کر رہی ہے۔ مثلاً بزرگوں کا قول ہے کہ ” خاموشی عبادت ہے۔“ جب ہم بزرگوں کے اس قول میں غوروفکر کرتے ہیں تو اس  قول کے اندر مراقبہ کا اصول چھپا ہوا  نظر آتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زبان خواہ کتنی ہی خاموش رہے، دماغ کبھی خاموش نہیں رہتا۔ دماغ میں تصورات کی فلم چلتی ہی رہتی ہے۔ دماغ میں اگر اللہ کا تصور ہو اور زبان خاموش ہو تو یہ حالت عین مراقبہ کی ہے۔ پھر توجہ پوری طرھ اللہ کی جانب ہو جاتی ہے اور اللہ کے وہ تصورات جس میں اللہ اور بندے کا ساتھ ہے اور جو کچھ اللہ نے اپنے بندے کو مشاہدہ کرانا چاہتا ہے وہ تصورات دل کے آئینے میں ابھرتے ہیں۔ بندگی کے آداب سے واقفیت ہوتی ہے جو لمحہ اللہ کے ساتھ گزر جائے وہی عبات ہے۔ پس اس قول کی سچائی پر کسے  شک ہو سکتا ہے ۔ زبان قلب کی ترجمانی کرتی ہے۔ قلب میں اللہ کا تصور ہوگا تو لب پر بھی ذکر الہٰی ہوگا جس طرح ہر شئے دو رخوں پر ہے کلام بھی دو رخوں پر ہے۔ ایک تو وہ جو اللہ کے امر کی جانب سے ہے۔ اللہ کا امر اللہ کا کلام کُن ہے۔ اس آواز کی روشنی کائنات کے اندر موجود ہے اور سمندر کی لہروں کی طرح متحرک ہیں۔ ہر لہر کے اندر اللہ کا مخصوص کلام بند ہے اور اس کی روشنی میں  کن کے بعد کے ظہورات علم کائنات کی صورت میں موجود ہیں۔ روح کے اندر یہ لہر جذب ہوتی ہے اور اللہ کی آواز اور اس کے علوم کا مظاہرہ روح کے  ذریعے کائنات میں ہوتا ہے۔ روح کا تعلق چونکہ جسم سے بھی ہے لہذا جب آدمی اپنی

توجہ اللہ کی جانب لگا لیتا ہے تو روح کی روشنیوں کا عکس قلب کے آئینے میں پڑنے لگتا ہے۔ یہی مراقبہ کی کامیابی ہے اور عبادت ہے۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ جو شخص اپنے حال کو بیان نہیں کر سکتا اس کو صحیح حال ہی نسیب نہیں ہوتا کیونکہ تیرے حال کو بیان کرنے والا خود تیرا حال  ہی ہے۔ یہاں حال سے مراد قلب کے تصورات ہیں۔  اس کلام کا مطلب یہ ہے کہ قلب کے تصورات روشنی ہیں اور  روشنی اللہ کے امر کی روشنی ہے جس میں اس کے علوم ہیں۔ تفکر اس روشنی کے علوم ہیں معنی پہناتا ہے اور انہیں الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ چناچہ قلب کے آئینے میں عکس کا دیکھ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کا مفہوم و معنی سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ شعور ان کے علوم سے واقف ہو۔ ایسی صورت میں کلام انسان کے لئے فائدے مند ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ اپنے حال کو بیان کر سکتا ہے اور اللہ کے علوم لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ وہ کلام ہے جو حق کی جانب سے ہے اور جن کا ظاہر کرنا احسن ہے۔ دوسرے رخ میں قلب کے آئینے  پر  دنیاوی حالات و لمحات کا عکس پڑتا رہتا ہے اور قلب ہی ان لمحات کی تصویری فلم چلتی رہتی ہے جو دل میں ہوگا وہی زبان پر آئے گا۔ پس ضرورت سے زیادہ دنیا کا ذکر کرنے سے دل دنیا کی طرف مائل ہوتا جاتا ہے اور اللہ کی جانب سے ہٹتا جاتا ہے۔ مسلسل یہ کیفیت دل کو ایک روٹین پر قائم کر دیتی ہے کہ جس  کے اندر بس ہر وقت دل کے آئینے میں دنیا ہی کا عکس پڑتا رہتا ہے اور اللہ کی جانب توجہ ہوتی ہی نہیں ہے۔ ایسے میں آدمی کا کلام نہایت ہی فضول بن جاتا ہے جس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا نہ ہی خود نفع ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی غزوہ میں ایک نوجوان شخص شہید ہو گیا۔ لڑائی سے فراغت کے بعد شہیدوں کی نعشوں میں اس کی نعش بھی ملی اور دیکھا گیا کہ اس کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی ماں آئی اور فاقہ کی حالت میں اللہ کے نام پر جان دینے والے شہید بیٹے کے پاس بیٹھ کر اس کے منہ سے مٹی پونچھی اور کہا کہ

          ” بیٹا تم کو جنت مبارک ہو۔“ یہ سن کر حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ : ” کیا خبر ہے ممکن ہے کہ بے فائدہ کلام کرنے کا عادی ہو۔“

          اس سے معلوم ہوا کہ فضول گوئی کی عادت انسان کے مرتبہ کو گھٹا دیتی ہے۔ کلام حق وہ ہے جو اللہ کے امر کی ترجمانی کرتا ہے۔

          بزرگوں کا ایک قول یہ بھی بہت عام ہے کہ ”کم بولو، کم کھاؤ، کم سوؤ“ بولنا ' کھانا اور سونا تینوں چیزیں زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ چھوڑی تو نہیں جا سکتیں البتہ اس عمل کو زندگی کے روٹین میں اس طرح شامل رکھنا چاہیے کہ یہ مقصد حیات نہ بنے۔  آج کل کے زمانے میں یہ تینوں باتیں لوگوں نے زندگی کا مقصد بنا لی ہیں۔ کوئی بھی اصول جن کا حقیقت پر دار و مدار ہے وہ کبھی  پرپرانے نہیں ہوتے کیونکہ یہ فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ فطرت جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو پیدا کیا ہے۔ اس میں کوئی ردو بدل نہیں ہے۔ کسی مشین کو ہی دیکھ لیں۔ انجینئر نے جن اصولوں پر اسے بنایا ہے وہی اس کے چلانے اور استعمال کا طریقہ بھی مقرر کرتا ہے۔ اس  کے مقرر کردہ طریقے سے ہٹ کر مشین کو چلانے کی کوشش کی جائے گی تو مشین ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ زیادہ بولنا طبی نقطہ نظر سے بھی مضر صحت ہے۔ قلب میں جو روشنی ذخیرہ ہوتی ہے وہ ہماری انرجی کا کام بھی کرتی ہے جب  زیادہ بولیں گے اور فضول بے مقصد بے معنی گفتگو کی جائے گی تو انرجی حرکت کی لہروں میں تبدیل ہو کر اعضاء کو حرکت میں لانے میں خرچ ہوتی جائے گی اور قلب روشنی سے خالی ہو جائے گا۔ اسی عمل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ زیادہ بولنے  سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ دل کا تعلق ہمارے جسم مثالی سے ہے جو روشنیوں کا جسم  ہے۔ دل کا شعور جسم مثالی کا شعور ہے جو مادی جسم کی انرجی بنتا ہے۔ اگر مادی جسم زیادہ حرکت کرے گا تو اسے انرجی کی ضرورت بھی زیادہ پڑے گی۔ زیادہ انرجی استعمال ہوگی تو انرجی کا ذخیرہ کم رہ جائے گا۔مطلب یہ ہے کہ ہم فضول گوئی اور کثرت کلام کے ذریعے اپنے روشنیوں کے جسم کو کمزور بنانے میں پوری طرح مستعد رہتے ہیں۔ یہی جسم تو مرنے کے بعد میں اعراف میں زندگی بسر کرتا ہے۔ گویا ہم اسے پیدائش کمزور اور اپائج و معذور بناتے ہیں جیسا  جسم ہم وہاں لے کر جائیں گے ویسا ہی تو رہے گا۔ اللہ بھی یہی کہتے ہیں جس حالت میں مرو گے اسی میں اُٹھائے جاؤ گے۔ ایک روحانی طالب علم سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس پر عمل کر سکے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ روحانی طالب علم کو اپنا ذہن و دل اس طرح سیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی طرزِ فکر دنیا سے ہٹ کر ہو۔ وہ چیزیں جو روحانی علوم سیکھنے کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ اختیار نہ کئے جائیں۔ روحانی علوم سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وحی کے انوار جو مرشد کے سینے میں موجود ہیں وہ مرشد کے ذریعے سے مرید کے سینے میں جزب ہو گئے۔ ان علوم کی منتقلی کا قانون اور اصول وہی ہے جو وحی کا قانون ہے۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ۔

          ” اور وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کر لو۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔“

          یہاں یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ وحی اللہ کا کلام ہے۔ اس کلام کے معنی اور الفاظ بھی مخصوص ہیں۔ جب وحی نازل ہونے کے وقت زبان میں حرکت ہوگی تو ذہن یعنی اپنا شعور بھی حرکت میں آ جائے گا اور وحی کے الفاظ میں اپنے شعور و عقل سے ہو سکتا ہے کوئی لفظ داخل  ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ میاں نے فرمایا کہ پوری توجہ دو۔ اسی اصول کے تحت جب روحانی علوم سیکھے جاتے ہیں تو بھی ان کی منتقلی کے لئے تصور شیخ کا مراقبہ کہا جاتا ہےاور اپنی پوری توجہ شیخ کے تصور پر لگائی جاتی ہے کہ شیخ کے انوار   مرید کے سینے میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اس عمل کے لئے انخلائے ذہن کی مشق ضروری ہے تاکہ ذہن  پوری طرح یکسو  ہو کر شیخ کی جانب لگ جائے۔ انخلائے ذہنی کے لئے اور ذہن کو یکسو رکھنے کے لئے کم بولنا اور فضول باتوں سے پرہیز بہت ضروری ہے۔ یکسو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ذہن کے اندر خیالات کی یلغار کو روکا جائے اور ذہن پر اتنا کنٹرول آجائے کہ خود بخود آنے والے خیالات کو اپنے ارادے سے کنٹرول کیا جائے اور جس خیال کو چاہے جتنی دیر  چاہے ذہن میں رکھے اور جب چاہے ذہن سے نکال دے۔ خواہ یہ بات کتنی ہی عجیب محسوس ہو۔ مگر انخلائے ذہنی  کی مشق سے خیالات پر کنٹرول ہو جاتا ہے۔ مگر خیالات پر کنٹرول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ارادے کی قوت کو دماغ کے روٹین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے معمول کی حرکت چھوڑ کر آپ کے ارادے کا تابع ہو جائے۔ یہ سب اسی وقت ہوگا جب آپ کے ارادے میں قوت ہوگی۔ ارادے کا مقام دل ہے۔ دل کا نمائندہ زبان ہے۔ زبان جب زیادہ استعمال کی جائے گی تو دل  سے ارادے کی قوت زبان کو حرکت دینے میں خرچ ہو جائے گی پھر ارادہ کس طرح ذہن کو کنٹرول کرے گا اس کے علاوہ چونکہ زبان دل کی ترجمانی کرتی ہے اور دل کی نمائندگی کرتی ہے۔ زبان کا اثر سب سے زیادہ دل پر ہوتا ہے۔ بعض وقت ساری زندگی کے اچھے بھلے تعلقات چند جملے کہہ دینے سے آن کی آن میں ختم ہو جاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ زیادہ باتیں کرتے ہیں وہ اکثر ہی بے معنی اور فضول باتیں کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی قوتوں کو بولنے میں خرچ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے خیال کے اندر نورانیت ختم ہو جاتی ہے اور محض حرکت کی لہریں ہی رہ جاتی ہیں۔ خیال کی نورانیت ہی خیال کا اصل مفہوم و معنی ہے۔ جب اسے ضائع کر دیا جائے تو پھر الفاظ کے حروف محض خول رہ جاتے ہیں۔ جیسے بادام کا جو ہر اس کا تیل ہے۔ تیل نچوڑ لینے سے بادام محض ایسے چھلکے رہ جائیں گے کہ جس میں کوئی قوت نہ ہوگی۔ جھوٹ ، غیبت ، لعن طعن، بے جا خوشامد ، مذاق اڑانا یہ سب فضول گوئی اور کثرت کلام میں آتا ہے اور اخلاقیات سےگری ہوئی حرکت ہے۔ جسے کوئی بھی مذہب گوارا نہیں کرتا اور معاشرے کے سکون و امن میں ان سے خرابیاں آتی ہیں۔ ہمارے پیارے رسول پاک ﷺ نے فرمایا۔

          ” وہ چیز جس کی نسبت میں امت کے بارے میں سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ زبان ہے۔“

          حضور پاک ﷺ کے اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ فضول گوئی انسان کو جن آفتوں میں مبتلا کرتی ہے دنیاوی بھی اور روحانی بھی۔ اس کے لئے رحمت اللعالمین سخت فکرمند ہیں۔ ایسا کوئی بھی کام جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشی نہ ہو وہ کام کیسے قبولیت کی منزل طے کر سکتا ہے۔

          ایک روحانی طالب علم کے اندر استاد غیب میں داخل ہونے کا شوق پیدا  کرتے ہیں تاکہ وہ ” موتو قبل انت موتو“ یعنی مر جاؤ  مرنے سے پہلے، اس کے مطابق مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں ہی غیب کو پہچان لے اور اپنے ارادے کے ساتھ اس میں خوشی خوشی داخل ہو۔  ایسی صورت میں ہر وہ کام جس میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور خوشی شامل ہو اس پر عمل کرنے سے روحانی طرزِ فکر اور ذہن بنتا ہے۔ گزشتہ وقتوں میں لوگ ان علوم کو حاصل کرنے کے لئے برے بڑے چلے کاٹتے تھے۔ مہینوں اور سالوں تنہائی میں رہ کر خاموشی کے ساتھ اللہ کی جانب اپنی پوری توجہ رکھتے تھے اور اس کی عبادت کرتے تھے۔ حضرت صابر کلیر بارہ برس کلیر شریف میں گولر کے درخت کے نیچے مراقب رہے۔ ان کے درجات و کرامات سے کون انکار کر سکتا ہے۔

 آپ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ کے خدمت گزار  نے پوچھا ۔” یا حضرت! فنا و بقا کیا ہے۔ فرمایا۔

          ”پھر بتائیں گے۔“ کچھ دنوں بعد آپ  کا انتقال ہو گیا۔ آپؓ نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ لاش کو ایک پتھر پر رکھ دینا۔ خود ہی کوئی آئے گا اور تجہیز و تدفین کا بندوبست کر دے گا۔ یہ بات آپ نے اپنے خلیفہ سے کہی جو سالہا سال آپ کی خدمت میں رہے جنہوں نے فنا بقا کا مسئلہ پوچھا تھا۔ انتقال فرمانے پر وصیت   پر عمل کیا گیا۔ اس وقت جنگل میں اور کوئی نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد  کچھ لوگ آئے اور ان کے ساتھ ایک نقاب پوش گھوڑا سوار بھی تھا۔ جسد خاکی کی تدفین کی گئی۔ ان خلیفہ کو بہت رشک آیا کہ ساری زندگی میں نے خدمت کی اور آخری  وقت یہ کون سبقت لے گیا۔ اتنے میں جاتے جاتے گھوڑا سوار نے چہرے سے نقاب ہٹائی ۔

          فرمایا ۔ قبر کی جانب اشارہ کر کے۔ وہ فنا ہے اپنی جانب اشارہ کر کے کہا۔ یہ بقا ہے۔ یہ گھوڑا سوار خود مخدوم پاک صابر احمد  کلیری ؒتھے۔

          بزرگوں کے واقعات پڑھ کر اور ان کی عبادات و ریاضت کو جان کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آدمی جتنی زیادہ سے زیادہ جسمانی اور ذہنی انرجی کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور اپنا دھیان اپنے رب کی جانب لگاتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کے اندر باطنی صلاحیتیں متحرک اور پیدا ہو جاتی ہیں۔ بزرگوں کے ہر واقعہ میں ہمارے لئے سبق ہے ۔ ایک کا تجربہ دوسرے کے لئے نصیحت بن جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ  ہرشخص اس تجربے سے گزرے اور پھر سیکھے۔ بلکہ دوسرے کے تجربے سے سیکھے ہوئے نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کٹھن وادیوں سے گزرنے سے بچا جا سکتا ہے۔ جن سے گزر کر انہوں نے نتائج حاصل کئے ہیں۔ اللہ پاک روحانی علوم حاسل کرنے کے لیے ہامرے سینے کھول دے۔ آمین۔


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی