Topics
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اجتماعی زندگی کے اصول متعین کئے ہیں۔ادب کے اصول پر بھی مخلوق کے ساتھ اجتماعی تعلقات زیر بحث آجاتے ہیں جیسے ماں باپ کا ادب 'مرشدکا ادب'بڑوں کا ادب 'استاد کا ادب'احسان کرنے والے کا ادب وغیرہ وغیرہ۔ ادب کی یہ ساری جزئیات اجتماعیت کو صحیح نظام کو اوپر برقرار اور قائم رکھنے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ملک میں اس طرح رہنا کہ کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ مخلوق کے ساتھ ادب میں شمار ہوتا ہے۔ قرآن میں جابجا اس کا حکم آیاہے۔ مثلاً ساءل کو نہ جھڑکو ، پھل دار درختوں کو نہ کاٹو'(اسلامی اصول جنگ) کیونکہ پھلوں سےمخلوق کو فائدہ ہے۔مخلوق کو فائدہ پہنچے گا تو مخلوق میں سکون چین ہوگا۔ جس سے ملک میں امن و امان قائم رہے گا۔ اس دائرے میں ادب کا مطلب فرمانبراداری ہے۔ ایسی فرمانبرداری جس میں اللہ پاک کی رضا شامل ہو۔ مخلوق کے ساتھ ادب احسان کا مرتبہ رکھتا ہے۔ یہ احسان ایک بندہ دوسرے بندے کے ساتھ ادب احسان کا مرتبہ رکھتا ہے۔ یہ احسان ایک بندہ دوسرے بندے کے ساتھ اپنے حسن سلوک کی بناء پر کرتا ہے۔ حسن سلوک کی وجہ سے آپس میں انس و اخوت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔اسی رشتے پر کائناتی شعور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ گویا ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک رکھنا بھی مخلوق کے ساتھ ادب کے درجے میں آتا ہے۔ ادب جب اپنی انتہاکو پہنچ جاتا ہے تو انس ومھبت سے گزر کر عشق کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ عشق ذہن و دل کو مرکزیت کے آداب سکھلاتا ہے اور ذہن و دل کا مرکز اللہ پاک ہے۔ روحانی راستے پر چلنے والا سالک مرشد کی رہنمائی میں بندگی کے آداب سیکھتا ہے۔
۔اپنے نفس کے ساتھ ادب
اپنےنفس کے ساتھ ادب بندے پر خود آگاہی کا دروازہ کھولتا ہے۔بندے کا خود اپنے
اندر موجود صلاحیتوں کا اپنے ارادے کے ساتھ استعمال کرنا اپنےنفس سے آگاہ و آشنا
کرتا ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ ادب یہ ہےکہ اخلاقی اور معاشرتی تمام خرابیوں اور
برائیوں سے بچا جائے۔ہمارے اندرضمیر ایک ایسا مقام ہے جسے ہم اچھائی اور برائی میں
تمیز کرنے والی ایجنسی کہہ سکتے ہیں۔ یہ حق کی آواز ہے جو خیال کے اندر پازیٹو اور
نیگیٹیو یا خیر اور شر کی اطلاع دیتی ہے۔ ایک روحانی آدمی کو اپنے ضمیر کی آواز سے
پوری طرح مطلع رہنا چاہئے کیونکہ خیال کے دو رخ اسی مقام سےشروع ہوتے ہیں۔ یہی وہ
مقام ہے جہاں آدمی عمل کا فیصلہ کرتا ہے اور اس فیصلے پر ہر عمل کی اچھائی یا
برائی کا انحصار ہوتا ہے۔ ضمیر حق کی آواز ہے۔ ضمیر کی اطلاع کبھی غلط نہیں ہوتی ۔
یہ وہ کسوٹی ہے جو خیال کے اندر پازیٹو اور نیگیٹیو مقداروں کو جانچ کر آپ کے
سامنے رکھ دیتی ہے۔البتہ آدمی کا فیصلہ غلط ہوتا ہے جس کی وجہ س عمل میں خرابی
آجاتی ہے۔ اپنی ذات کےساتھ ادب یہ ہے کہ آدمی اپنے ضمیر کو پوری طرح بیدار رکھے
اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا سیکھ لے۔ جیسے جھوٹ بولنا ضمیر گوارہ نہیں کرتا وہ
فوراً اطلاع دے دیتا ہے کہ جھوٹ کے اندر سراسر منفی لہریں کام کررہی ہیں اور ان
لہروں کا بہاؤ آدمی کا حق کےراستے سے کتنی دعور پڑجاتا ہے۔ یہی
اس جھوٹ کے نقصانات ہیں۔ اگر آدمی اپنے ضمیر کے خلاف عمل کرتا ہےتو وہ مجرمانہ
ذہنیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ضمیر کی آواز کو مسلسل رد کرنے سے مجرمانہ ذہنیت طرز فکر
بن جاتی ہے۔ پھر آدمی شیطان کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ ہمارا نفس یا عقل و دشعور ایک
نقطہ ہے۔ اس نقطے کا تعلق کائناتی شعورسے ہے۔ نفس کا شعور انفرادی شعور ہے اور
کائناتی شعوراجتماعی شعورہے۔ انفرادی شعورپہلے خود اپنے آپ سے واقف ہوتا ہےاور
اپنے آپ کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہے پھر کائنات یعنی اجتماعی شعور کے اندر اپنی
موجودگی سے واقف ہوتا ہے اور پھر اللہ کی ذات سے آگاہ ہوتا ہے۔
|
اللہ یاخالقیت کا شعور
نفس کا نقطہ یا انفرادی شعور
کائنات یا اجتماعی شعور
نفس کے تمام آداب کائنات میں اپنےلئے ایک عزت کا مقام بنائے کے لئے ہیں۔
کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظاہرہ ہے۔ صفات کی روشنیاں کائنات کی حدود میں آکر
اپنا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ فطرت ہے۔ جب فطرت کی روشنیاں ایک نقطے یعنی نفس آدم میں
سمٹ جاتی ہیں تو یہ نقطہ فرد بن جاتا ہےاورفرد کے ذریعے فطرت کی روشنیوں مظاہرہ
ہوتاہے۔فطرت اللہ کی صفات کا نور ہے۔ جب فرد اپنی غلط طرزفکر کی وجہ سے اپنی انا
کے خو ل میں بند ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کی صفات سے واقف ہوتا ہے نہ ذات سے ساری
کائنات اس کے لئے اجنبی بن جاتی ہے۔ وہ بس اپنے ہی نقطے میں گھومتا رہتا ہے اور
اسی نقطے کو ساری کائنات سمجھ لیتا ہے۔۔ان اللہ خلق آدم علی صورتہ۔۔یعنی"بے
شک اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایاہے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کا نقطہ
یا آدم کا شدور اپنے اندر لا محدودیت کا شعور اورر علم رکھتا ہے۔ آدم کا نقطہ ایک
سمندر ہے جس میں اللہ کی صفات کے انوار ہیں۔ بات صرف ان لہروں سے واقفیت کی ہے۔
سمندر کی ہر لہر دوسری لہر سے وابستہ ہے اور ہر لہر سمندر کا ایک جز ہے۔ کوئی بھی
موج جو سمندر سے اٹھتی ہےساحل تک پہنچتی ہے پھر یہاں سے واپس لوٹ جاتی ہے۔ اصل
سمندر اللہ کی ذات کی تجلیات ہیں جس کی موجیں اللہ کا امر ہے۔ امر کی تجلی جب نزول
کرتی ہے تو موج کی طرح ساحل سے ٹکراتی ہے اورپھر واپس سمندر میں لوٹ جاتی ہے۔ یہ
ساحل انسانی نفس یا شعور ہے۔ گہرے پانی سے موج اٹھ کر ساحل کی سوکھی ریت کی جانب
آتی ہےاور اسے گیلا کرکےواپس لوٹ جاتی ہے۔ ریت نے پانی کو جذب کرلیا جتنی دیر پانی
جذب رہےگا ریت کے ذرات پانی سے یعنی سمندر سے مستفیض ہوتے رہیں گے اور لہروں کا
لطف اٹھائیں گے۔ عقل کل سمندر ہے جو انفرادی شعور کا احاطہ کرلیتی ہےاور اسے اپنی
شناخت عطاکردیتی ہے۔
اللہ پاک نے آدم کو اسمائے الٰہیہ کے علوم عطا کئے ہیں۔ یہ علوم روح کے حافظے
کاایک ریکارڈ ہے۔ اس مقام سے اسمائے الٰہیہ کی ایک شعاع موج کی طرح اٹھ کر نفس
انسانی (ساحل)کی طرف آتی ہے۔ نفس
انسانی یا عقل انسانی ایک خلاء ہےجیسے ریت کا ذرہ ۔ اس خلاء میں شعاع کی روشی داخل
ہوجاتی ہے۔ جیسے ذرے نے پانی کو جذب کرلیا۔ اس طرح نفس یا عقل انسانی اللہ کی صفات
کا ادراک کرلیتی ہے۔ نفس انسانی سمندر نہیں ہےمگر سمندر سے منسلک ضرور ہے۔ جیسے ساحل
بھی سمندر کا ایک حصہ ہے۔ جب آدمی اپنے نفس کو سمندر سے یعنی اللہ پاک کی تجلیات و
انوار سے منسلک کردیتا ہے تو اس کے نفس میں نور کی لہریں بہنے لگتی ہیں۔ ہر لہر
دوسری لہر سے قوت و طاقت میں مختلف ہوتی ہے۔ محیط کل اللہ وہ ہستی ہے جس کے اندر لاشمار صفات کام کررہی ہیں۔ ہر
صفت دوسری سے مختلف ہے۔ نفس کی مثال ایک موتی کی سی ہے۔ موتی کے قلب میں آرپار
سوراخ ہوتا ہے بغیر سوراخ کے موتی گلے کا ہار نہیں بن سکتا۔نفس کے موتی کا سوراخ
جان کے دھاگے سے روح کے گلے میں اٹکا ہے۔ جان روح کی روشنی ہے جو نفس کی خلاء میں
آجارہی ہے۔ نفس اگر اپنے خلاءکو روشنی کے داخل ہونے سے بند کرلے تو روح کے گلے کا
ہار ٹوٹ کر گرپڑے گا۔روح فطرت ہے، فطرت اللہ ہے۔ اللہ ہر فائدے ونقصان اور خیر وشر
سے مبرا ہے۔ ہارٹوٹ گیا تو نفس کا موتی ٹوٹ پھوٹ جائےگا۔ روح تو جیسی ہے ویسی رہے
گی فرد کا شعور بکھر جائےگا جو خود اپنے نفس کی پہچان ہے۔ سورہ واقعہ میں اس کا
بیان آیا ہے۔
"وحورعین۔کامثال
اللولوء المکنو" یعنی حوریں جیسے سچے موتی جو چھپا رکھے ہوں۔
یہاں حورعین سے مراد نفس قدسیہ ہے جو سچے موتی کی مانند ہے۔
سچا موتی سیپ میں چھپا کر رکھا جاتا ہےتاکہ سمندر کے پانی کی طاقتور لہریں اس پر
اثرانداز ہوکر اس کی آب و تاب کو خراب نہ کردیں۔ سیپ وہ حصار اور تحفظ ہے جو اللہ
نے موتی کو بخشا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا سمندر کا ہر جانور کسی نہ کسی حصار کے اندر
ہے یعنی خول کے اندر ہے تاکہ اس کا جسم یا انفرادی پہچان باقی رہے۔ روحانی علوم بھی
سمندر ہیں۔اس سمندر میں جب کوئی سالک تیرنا چاہتا ہے تو بغیر حصار کے سمندر کی
لہریں جو قوت و جبروت کا عالم ہے اپنی حدود میں داخل ہونے والے نفس کے تنکے کو خس
و خاشاک کی طرح بہالے جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ تنکا موجوں کے زور سے
ٹوٹ پھوٹ کر ذرہ بن کر بکھر جاتاہے۔روحانیت میں مرشد آپ کا سیپ بن جاتا ہے۔ وہ
مراد کے گرد اپنی توجہ اور تصرف کا ایک ایسا حصار بنادیتاہے کہ عقل کل کے سمندر
میں فرد کی عقل اس کے حصار کے ساتھ موجوں کے اوپر سفر کرتی رہے۔ اپنے نفس کے ساتھ
ادب کی منزل خود آگاہی ہے،جو بندہ اپنے
نفس سے واقف ہوجاتاہے وہ خود آگاہی کی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور اپنے نفس کے ساتھ
ادب کرنے کا حق ادا کردیتا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭٭