Topics

انا کی فطرت

 

۱۔       خود کی نفی کرنا ، یہ سمجھنا کہ ہر کام اللہ کی طرف  سے ہو رہا ہے اور وہ طرزِ فکر جو انسان کو اللہ کی طرف لے جاتی ہے آدمی اپنے ہر کام میں اللہ کے تصور کو غالب رکھتا ہے اور ہر حالت میں اس کا شکر گزار  ہوتا ہے۔

خودی                                                                                                                                                                                                                               کاسر                                                                                                                        نہاں                                                                                                                                   لا                                                                                                                                                                                                                   الہ                                                                                                                                                                                                                                        الا                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   اللہ

خودی        ہے      تیغ      فشاں    لا الا الا اللہ

اگرچہ        بت      ہیں      جماعت کی آستینوں میں

مجھے       ہے      حکم    اذاں     لا الہ الا اللہ

۲۔       انا کی پہچان یہ ہے کہ جس شخص میں انا کا غلبہ ہوتا ہے اس میں خوپسندی، خود نمائی اور احساس برتری کے جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اللہ کو ناپسند ہے کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ الحمد اللہ رب العالمین۔ یعنی ہر تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام عالمین کا رب ہے۔ انا تو کائنات میں صرف ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ انا پرست اللہ کی بجائے خود کو مخلوق کی توجہ کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔

۳۔       ساری کائنات میں ایک ایگویا ایک شعور کام کر رہا ہے جس کوانا کہتے ہیں۔ یہ انا اللہ کی انا ہے یعنی کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے کن فرمانے سے اس کا آغاز ہوا ۔ یہ کائنات کے ذرے ذرے میں ایک لائف اسٹریم یا انرجی کا کام کر رہی ہے۔ اس کا عکس ایک بندے میں بھی کام کرتا ہے۔ اسی لیے حضور پاکﷺ کا فرمان  ہے جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ روحانیت میں آدمی اپنی انا کی نفی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

۴۔       انا سے مراد انسان کی اپنی ذات ہے اور اپنی ذات کی پہچان اپنی پہچان ہے جس نے اپنے  نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا سے مراد انا کی پہچان ہے انا وحدت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

۵۔       انا کو عام لفظوں میں ایگویا میں کہہ سکتے ہیں۔ روحانی لوگ بتاتے ہیں کہ میں تو صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے۔ انسان جو بھی کام کرے وہ جانتا ہو کہ وہ اللہ کی دی ہوئی توفیق سے کر رہا ہے۔ وہ خود کچھ بھی نہیں۔جس آدمی میں انا زیادہ ہوتی ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ دوسروں سے خود کو زیادہ عقل مند اور عالم سمجھتا ہے۔ ذرا سی بات پر جلد غصہ میں آجاتا ہے اگر ان باتوں سے اجتنا ب کیا جائے تو اپنی انا کو اللہ کی انا سے ملایا  جا سکتا ہے یہی روحانی انسان کی نشانی ہے۔

۶۔       انا ایک انفرادی فکر ہے جس کو ہم میں یا اپنی ذات سے تعبیر کرتے ہیں  یہ کن کی آواز ہے۔

۷۔       انا یعنی اپنی ذات کی فکر یا شعور آدمی کے اندر صرف اتنا ہی ہونا چاہیے کہ و ہ اپنے آپ کو اللہ کی مخلوق کا ایک فرد جانے جو دراصل مخلوق میں پہچان کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر ان کا شعور اس تعلق سے ہٹ کر صرف اپنی ذات پر مرکوز ہو جائے تو انسان خود بڑے بڑے دعوے کرنے لگ جاتا ہے۔ گویا کائنات میں وہی سب کچھ ہے اور یہ بات اسے کفر و شرک کے قریب کر دیتی ہے۔

۸۔       انسان اپنے آپ کو مخلوق، محتاج اور بے بس مان کر ہی اپنی انا کی اصل کنہ تک پہنچ سکتا ہے۔ انا کی حقیقت کی عدم پہچان انسان کو خالق سے دور لے جاتی ہے۔

۹۔       انسانی شعور کی ابتدا ء لا علمی سے ہوتی ہے اور اس کے قریبی لوگ اسے ایک نام دیتے ہیں اور وہ خود بہ حیثیت زید ، بکر کے نام سے پہچانتا ہے۔ ایک روحانی آدمی چونکہ ایک ایسے راستے پر ہوتا ہے جس میں ہر فکر کی گہرائی میں تفکر کیا جاتا ہے و ہ یہ تو جانتا ہے کہ اس دنیا میں آنے کے بعد مجھے زید یا بکر کا نام دیا گیا مگر وہ اس سے پہلے کیا تھا اوراس کی حقیقت کیا تھی اس کی جستجو کرتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ  زید یا بکر کے پیچھے کام کرنے والی  حقیقت تک پہنچ جاتا ہے وہ اس حقیقت کو پا لیتا ہے جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو کھنکناتی مٹی سے بنایا ہے اور اس کے اندر اپنی روح پھونکی ہے یعنی انسان کی حیثیت صرف خلاء ہے اس کے اندر کام کرنے والی انا اس کی اپنی ذاتی نہیں ہے۔

۱۰۔    اللہ اور بندے کے درمیان دوئی ہماری انا ہے۔ تخلیق کائنات سے پہلے انا ناقابل تذکرہ شئے تھی کیونکہ اس وقت دوئی نہیں تھی یعنی میں اس وقت زیرِ بحث اتی جب سامنے دوسرا موجود ہو۔ لہذا اللہ کی حقیقی ذات کی پہچان اور روح کے عرفا ن کے ذریعے سے انا کی پہچان کی تکمیل ہو سکتی ہے۔

۱۱۔    روح اعظم یعنی تجلی کا شعور حاصل کرنے سے انا کی پہچان ہوتی ہے۔

۱۲۔    کائنات کی ہر شئے  کا باہمی ربط انا کی لہروں پر ہے۔ کائنات میں یہاں سے وہاں تک ایک ہی انا کام کر رہی ہے۔ وہ ذات واحد کی انا ہے اس کی پہچان صفات الہٰیہ کی معرفت ہے۔

۱۳۔    انا کی پہچان اپنی ذات کی پہچان ہے۔ خالق اور مخلوق کے باہم ربط کی پہچان کرنا یہ جان لینا کہ وہی سب کا رب ہے اور اسی کے حکم پر کائنات کی حرکت جاری و ساری ہے۔

۱۴۔    اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں۔” اس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ اچھے عمل کون کرتا ہے۔“

          اچھے عمل سے مراد عبادت  اور عبادت سے مراد بندگی ہے۔ بندگی کا حق اس وقت ادا ہوتا ہے جب بندہ اپنی انا کو اللہ کی انا میں شامل کر دیتا ہے اور مرتبہ احسان حاصل کر لیتا ہے۔ اس راستے می جاں طلبی، خودنمائی اور خود پسندی بنیادی رکاوٹ ہے۔

۱۵۔    روحانیت انسان کو وسعتوں میں لے جاتی ہے۔ کائناتی علوم سے روشناس کراتی جب کہ محدودیت کا سب سے تنگ دائرہ اپنی انا کا خول ہے۔ اس لیے انا پرست آدمی جب تک کسی مرشد کی اطاعت میں اس محدودیت سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا، سلطان یا اپنی روح سے اس کا رابطہ نہیں ہوتا۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   انا سے کیا مراد ہے؟ اس کی تفصیل بیان کریں۔

سوال نمبر۲۔   انا کی نفی کیوں ضروری ہے اس کے کیا فوائد ہیں؟

سوال نمبر۳۔   توحید ذاتی سے کیا مراد ہے ؟

سوال نمبر ۴۔  طین اور حین سے کیا مراد ہے؟ قرآن میں ہے کہ ” ہم نے انسان کو بجنی مٹی سے پیدا کیا“ اس پر روشنی ڈالیں۔

سوال نمبر۔۵۔  انا لہروں کے ذریعے دوسری مخلوقات سے ہمارا رابطہ کس طرح قائم ہے؟

٭٭٭٭٭

          آپ سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی ہے اور آدم کو تخلیقی فارمولے اور کائنات کے انتظامی امور کی تعلیمات عطا کی ہیں۔ جنہیں اسمائے الہٰیہ کہا گیا ہے۔ ان  میں اللہ کی ذات اور صفات دونوں کے علوم شامل ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ کے سوا  کائنات  میں اور کوئی ذات نہیں ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مخلوق کے اندر اس کا اپنا انفرادی شعور بھی کام کر رہا ہے۔ ہر شخص اس انفرادی شعور کا ایک نام رکھ کر مخلوق کے درمیان اپنی پہچان برقرار رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کائنات میں ایک ہی ذات موجود ہے پھر انفرادیت اور کثرت کہاں سے آگئی۔ ہم اس کثرت کو کیونکر وحدت کے ساتھ ہم آہنگ کریں کریں گے۔ جب ہم اللہ پاک کی توھید میں غور کرتے ہیں تو انجشاف یہ ہوتا کہ توحید ذاتی دراصل اللہ پاک کی ایک فکر ہے۔ فکر کی یہ تجلیات ذات کی تجلیات ہیں جو کائنات کی بنیاد ہے۔ ان تجلیات کے اندر ذات کا شعور انا کی لہروں کی صورت میں موجود ہے۔ تجلی ذات کا شعور کن کہہ کر وجود میں آیا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر شئے کو اس فطرت پر پیدا کیا ہے اور فطرت میں کوئی ردو بدل نہیں ہے۔ انا کی فطرت حاکمیت ہے کیونکہ یہ شعور حاکم فطرت یا خالق کا ہے۔تخلیقی قانون کے مطابق فطرت میں کوئی تبدیلی لائی  نہیں جا سکتی ۔ نہ ہی فطرت توڑی مروڑی جا سکتی ہے۔ لہذا انا کی لہروں سے حاکمیت کا تصور نہیں  نکالا جا سکتا کیونکہ حاکمیت کا تصور انا کی فطرت ہے۔ فطرت بدلی نہیں جا سکتی۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ انا کی لہروں کا رخ بدل دیا جائے اور اس ہستی کی جانب موڑ دیا جائے جو حقیقت میں حاکمیت کا وصف رکھتی ہے۔ انا جب لا محدودیت میں کام کرتی ہے تو اس کا رخ اللہ کی جانب ہوتا ہے جیسا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں میں ہوں تمہارا رب۔ اللہ پاک کا یہ فرمانا لامحدودیت کا فرمان ہے۔ لامحدودیت کے ذرے ذرے میں ذات خالق کی یہ فکر کام کر رہی ہے۔ اسی عالم تجلیات کو توحید ذاتی کہا گیا ہے۔ ذات کی یہی فکر امر الہٰی کے ساتھ کائنات کی خلا میں اپنا مظاہرہ کرتی ہے اور فکر کی ہر تجلی امر الہٰی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہی صورتیں ان کے  وہ اجسام ہیں جنہیں روح مثالی کہا جاتا ہے۔ جب یہ روح مثالی تنزل کر کے عالم ناسوت میں داخل ہوتی ہے تو اس کے اندر کام کرنے والی انا کی لہروں کی رفتار اتنی سست پڑ جاتی ہے کہ لہریں گنجان ہو جاتی ہیں اور جمود طاری ہو جاتا ہے۔ انہی گنجان لہروں سے انا ٹھوس جسم وجود میں آتا ہے اور انا کی ذات کا تصور جسم مثالی سے منتقل ہو کر اس ٹھوس جسم میں کام کرتا ہے۔ انا میں چونکہ فطرتاً حاکمیت کا وصف ہے یہی وجہ ہے کہ بندہ اپنی کنہ حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر انا کی فطرت کی فطرت کو اپنے نفس کی فطرت سمجھ لیتا ہے اور ہر تقاضے اور فکر کا رخ شعور کی جانب ہوڑ دیتا ہے۔ انا کی لہریں شعور میں داخل ہو کر انفرادی پہچان بن جاتی ہے اور حاکمیت کا وصف آدمی کو خدا ئی کا دعویٰ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جیسا کہ فرعون نے رب ہونے کا دعویٰ کیا۔ ” اناربکم الاعلی “ اگر فرعون انا کی کنہ حقیقت سے واقف ہوتا تو ہرگز بھی خدائی کا دعویٰ نہ کرتا۔

          ساری کائنات کی بنیاد انا کی لہروں پر ہے۔ انا کی لہروں کے ذریعے  خیالات کا ردو بدل ہوتا ہے گویا انا کی لہریں خیالات کی ترسیل کا کام کرتی ہیں۔ اگر کائنات کے اندر سے انا کی لہریں نکال دی جائیں تو کائنات کے اندر سے حواس یا دماغ ختم ہو جائے گا۔ ہمارا دماغ انا کی لہروں کو وصول بھی کرتا ہے اور بھیجتا بھی ہے۔  یہ دہری حرکت ہمارے اندر ہر لمحے جاری و ساری ہے اور اسی حرکت کا نام زندگی ہے۔ ہمارا دماغ یا شعور ایک ایسا اسٹیشن ہے جس سے کائنات کی ساری انائیں منسلک ہیں۔ جب ہم کائنات کی اناؤں کی بات کرتے ہیں ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کائنات کے افراد کا انفرادی شعور جو خالق سے ہٹ کر مخلوق کی پہچان کراتا ہے ساری کائنات انا کے اجسام کا مجموعہ ہے۔ کائنات کی تخلیق میں اللہ پاک کی خود کو پہچانے جانے کی فکر کام کر رہی ہے۔ اللہ پاک کی اس فکر اور ارادے کی تکمیل پر تمام مخلوق کام  کر رہی ہے یعنی تمام مخلوق اللہ پاک کو پہچاننے کا کام کرہی ہے۔ انا کی لہریں کائنات میں دو رخوں میں کام کرہی ہیں۔ ایک رخ میں انا ذات خالق کی پہچان بنتی ہے دوسرے رخ میں مخلوق کی پہچان بنتی ہے۔ایک رخ میں خالق کی فکر توحید کام کر رہی ہے دوسرے رخ میں خالق کی فکر کائنات کام کر رہی ہے۔ دونوں رخ انا کے دو پہلو ہیں۔ ایک رخ دوسرے رخ کی پہچان کا باعث بنتی ہے۔ ایک رخ ذات کی تجلیات ہے  جو فکر توحید کے ذریعے اپنے آپ کو بہ حیثیت خالق پہچان کرانا چاہتی ہے دوسرا رخ صفات کی تجلیات ہیں جو فکر توحید صفاتی کے ذریعے خالق کی پہچان کرنا چاہتی ہے۔ انا کی لہروں کے ان دونوں رخوں کا بہاؤ اور مرکز ذات باری تعالیٰ کی ہستی ہے۔ تمام مخلوق انا کی لہروں کے ان دونوں رخوں کے ساتھ اللہ پاک سے وابستہ ہیں۔ انا کی لہروں کا مر کز اور سورس ہی ذات خالق اور ذات واحد ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر شئے اللہ کی تسبیح کرتی ہے اس میں پہاڑوں، پتھروں، کنکروں، پرندوں کا ذکر ہے کہ سب اپنے خالق کی تسبیح کرتے ہیں یعنی ہر شئے انا کے رشتے سے خالق کو پہچانتی ہے۔ انا کی لہروں کی متعین مقداروں سے مخلوق کے اجسام وجود میں آئے ہیں۔ انا کی لہروں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نورانیت ہوگی اتنے ہی اجسام لطیف ہوں گے اور جتنی نورانیت کم ہوتی جائے گی اجسام کے اندر ٹھوس پن اتا جائے گا۔ اسی مناسبت سے ازل سے لے کر ابد تک انا کی  لہروں کے مختلف زون ہیں۔ ہر ذون میں انا کی لہریں لطیف اور کثیف اجسام کی تخلیق کر رہی ہیں۔ ان ذون کو تجلی ، نور، روشنی اور نسمہ کہا گیا ہے۔ انا کا وہ  رخ جسے ہم توحید ذاتی  کہہ چکے ہیں یہ تجلی ذات کا شعور ہے جو ذات کی انا ہے ۔ ازل میں جب اللہ پاک نے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا ارادہ کیا تو اس ارادے سے ذات کی انا یا تجلی ذات کا شعور ظاہر ہوا۔ اسی شعور کو روح اعظم کہتے ہیں جو ذات کی وحدت فکر ہے۔ یہی وہ رخ ہے جو دوسرے رخ کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ روح اعظم کو حقیقت محمدی کا عالم بھی کہتے ہین۔ اسی نور کو کائنات کی تخلیق کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم اس رخ کو کائنات کی توانائی کہیں تو دوسرا رخ کائنات ہے جو اس رخ سے توانائی حاصل کر رہا ہے۔

          اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے کھنکھناتی  بجنی مٹی  سے آدم کا پتلا بنایا۔ پتلے سے مراد شعوری جس م ہے۔ قرآن اس شعوری جسم جو مادے سے بنا ہے اس کے دو رخ بیان کرتا ہے ایک رخ طین دوسرا حین ۔ طین مٹی یا مادہ ہے۔ حین اس مٹی یا مادے کی نیچر ہے۔ اس نیچر یا فطرت کو اللہ نے کھنکھناتی بجنی کہا ہے یعنی خلاء ہے۔ طین اور حین دونوں رخ مٹی کے اس پتلے کے ہیں جسےآدم  کہا ہے اور ان دونوں رخوں میں انا کی لہریں زندگی میں  روح کی انا کی لہریں ہیں تو آدم کا جسم مثالی وجود میں آتا ہے۔ اسی کو انا کا جسم بھی کہتے ہیں۔ یہی وہ جسم ہے جو فرد کا شعور پہچان بنتا ہے اور دوسری جانب انا لہروں پر روح کے تصورات کی ترجمانی کر کے اللہ  کی پہچان کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالی کے کن کہنے سے ازل سے ابد کے درمیان انا کی لہروں کا ایک جال وجود میں آگیا۔ اس جال کے اوپر اللہ تعالیٰ کے تصورات مظاہر کائنات کی صورت میں موجود ہیں۔ انا کی لہروں کا جال ہی کائنات کی Base                                           ہے یا وہ پردہ ہے جس پر مظاہر کائنات کا ڈسپلے ہورہا ہے۔ ہر شئے لامحدودیت سے محدودیت میں آ کر اپنا تعارف کراتی ہے اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے اور پھر واپس وہیں لوٹ جاتی ہے۔ تمام کائنات اسی اصول پر سفر کر رہی ہے۔ کائنات کی تمام انائیں وحدانیت کا پھیلاؤ ہے۔ ہر شئے فکر تو حید کے بحر بیکراں میں گم ہو جاتی ہے۔ یہی گمشدگی مخلوق کی انا کی فنائیت ہے جسے ناقابل تذکرہ کہا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب کائنات ناقابل تذکرہ تھی اور پھر ایک وقت آئے گا جب وہ ناقابل تذکرہ ہو جائے گی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔

          تذکرہ بابا تاج الدین ؒمیں لکھا ہے کہ راجہ رگھو رائے جی نے حضور  بابا تاج الدینؒ سے ایک دن پوچھا کہ حضور دنیا میں خال خال لوگوں نے جنات، ارواح اور دیگر غیر مرئی مخلوق کو دیکھا ہے۔ مگر ساری دنیا کے انسان خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی بھی معاشرے سے ہو وہ ان کی موجودگی کو تسلیم ضرور کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ انہوں نے فرمایا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایک ایسی مشین ہے جو دوہری حرکت کرتی ہے یعنی ہم انفارمیشن ریسیو بھی کرتے ہیں اور ٹرانسمٹ بھی کرتے ہیں۔ جتنے بھی سیارے ہیں اور دیگر نظام ہیں ان میں آباد مخلوق کے ساتھ بلکہ تمام موجودات کے ساتھ ہمارا ایک نادیدہ ذہنی رابطہ ہے جس کی بدولت ہم ایک دوسرے کے وجود سے آگاہ ہیں۔ ہم چاند کو دیکھ کر چاند کہہ دیتے ہیں اور سورج کو دیکھ کر سورج کہہ دیتے ہیں۔ دراصل یہ رابطہ ہی انا کی لہریں ہیں۔ ان کے ذریعے ہم دیگر مخلوقات کو اپنی موجودگی پر مطلع کر رہے ہیں۔ جب آدمی کے اندر اپنی موجودگی کا یعنی اپنی ذات کے وجود کا احساس بہت زیادہ ہوجاتا ہے تو اس کی تمام توجہ کا مرکز صرف اپنی ذات رہ جاتی ہے۔ وہ دوسروں  کی موجودگی کا انکار تو نہیں کرتا مگران کے مفادات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ وہ اپنے اوپر کسی کا کوئی حق تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنا ہی حق دوسروں پر جتاتا رہتا ہے۔ ایسا آدمی  انفرادی طرزِ فکر کا حامل ہوتا ہے اور اس کا ذہن اس قدر محدود ہو جاتا ہے کہ کائناتی شعور تک اس رسائی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ایسا شخص جس کے اندر اپنی انا کا غلبہ ہو وہ شخص کبھی روحانی  نہیں ہو سکتا کیونکہ روحانیت کے لیے شیخ کی اطاعت لازمی ہے اور انا پرست آدمی انا کے غلبہ کی وجہ سے کچھ سیکھ نہیں سکتا۔ وہ ہر وقت  چوں چرا میں مبتلا رہتا ہے۔ حضور بابا جی نے فرمایا کہ کسی کے ساتھ پانچ منٹ گزارنے سے ہی اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں انا ہے یا نہیں۔ آج کل دنیا میں ہر شخص ہر طبقہ ہر گروہ ہر ملک اس بات کا رونا رو رہا ہے کہ میرے حقوق غصب کر لیے گئے ہیں، میرے حقوق مجھے دلواؤ۔ کوئی آدمی دوسرے کے حقوق اپنے اوپر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے یعنی سارا معاشرہ ہی انا پرستی کا شکار ہے۔ لہذا سارا معاشرہ ہی اپنی روح سے دور ہے۔ محدودیت میں قید ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری طرف ایسا روحانی دور بھی گزرا ہے کہ ایک شخص نے یہ کہا کہ اس پر میرے یہ حقوق ہیں اور یہ لے  نہیں رہا۔مثلاً حضرت عمرؓکے زمانے میں ایک آدمی نے  اپنی زمین بیچی دوسرے نے خرید لی۔ اس میں کھدائی کے دوران اسے سونے کے سکے ملے وہ اس آدمی کے پاس گیا کہ یہ آپ کے پیسے ہیں۔ میں نے صرف زمین خریدی تھی ان سکوں کے پیسے آپ کو نہیں دیئے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں بھائی میں نے جہاں زمین بیچی تھی اس کے ساتھ کو کچھ اس کے اندر ہے وہ بھی بیچ دیا تھا جب دونوں میں کوئی فیصلہ نہ ہواتو حضرت   عمر ؓکے پاس گئے اور صورتحال بیان کی کہ  یہ اپنا حق مجھ سے نہیں لے رہا۔ حضرت عمرؓنے پوچھا کیا تم دونوں کی اولاد ہے؟ ایک نے کہا لڑکی ہے دوسرے نے کہا  لڑکا۔ حضرت عمرؓنے ایک کی لڑکی کے ساتھ دوسرے لڑکے کی شادی کر کے یہ دولت انہیں عطا کر دی۔

          اللہ پاک فرماتے ہیں۔” اس سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے۔ نیک اعمال کرے اور اس عمل سے اپنے آپ کو کوئی بڑی شئے نہ سمجھنے لگے بلکہ یہ کہے کہ میں بھی عام مسلمانوں میں سے ایک ہوں۔“

٭٭٭٭٭


 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی