Topics
۱۔ روح کو اللہ تعالی ٰ نے جب پیدا کیا تو اسے
اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا کیے۔ اپنی روح کا عرفان حاصل کرنے سے صفات الہٰیہ کا
ادراک ہو جاتا ہے۔ جو ایک روحانی آدمی کے اندر ہو نا چاہئے تاکہ وہ اس کے ذریعے
اللہ تک رسائی کر سکے۔
۲۔ اپنے اندر موجود اللہ تعالیٰ کے نور کو
پہچاننا اور اس کا مظاہرہ کرنا اللہ کی صفات کا ادراک ہے۔
۳۔ قرآن پاک
میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں تمہارے اندر ہوں تم دیکھتے کیوں نہیں یعنی کوئی
بھی انسان اپنے باطن میں جھانک کر اللہ پاک کے مقرر کردہ اصولوں کے تحت اللہ
تعالیٰ کی صفات کا ادراک کر سکتا ہے۔
۴۔ کائنات کی
بنیاد اللہ تعالیٰ کی صفات کے انوار ہیں۔ انسان ایک آنکھ ہے جو اللہ پاک کی صفات
کا ادراک کرتی ہے۔
۵۔ اللہ تعالی
کی عطا کردہ صلاحیتوں کا استعمال کرنا اللہ پاک کی صفات کا ادراک ہے۔
۶۔ روحانی شعور
کی بیداری سے صفات الہٰیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ روحانی شعور کی بیداری کے لئے لگن اور
تجسس بنیادی امور ہیں۔
۷۔ روحانی حواس
کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک کیا جاتا ہے۔
۸۔ کسی شئے کے
ظاہر میں تفکر کرنے سے اس کے باطن کا
ادراک ہو جاتا ہے چونکہ ہر شئے کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کی روشنیاں کام کر رہی
ہیں۔ اس لئے شئے کے باطن کا ادراک اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہے۔
۹۔ مرتبہ احسان
کے مطابق اگر آدمی ہر فعل و عمل کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے منسوب کر دے تو اس کے
زہن کی مرکزیت اللہ کی ذات بن جاتی ہے۔ اس کا ذہن اور قلب اللہ کی تجلیات و انوار
کو قبول کرنے لگتا ہے اور اس کے حواس ان انوار و تجلیات کا ادراک کر لیتے ہیں۔
۱۰۔ جب آدمی اپنی
انا کی نفی کر کے کوئی کام سر انجام دیتا ہے تو اس کام میں اسے اللہ پاک کی صفات
کا ادراک ہو جاتا ہے۔
۱۱۔ مظاہرات کے پس
پردہ کام کرنے والے عوامل کو پہچاننا صفات الہٰیہ کا ادراک ہے۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر ۱۔ اللہ کی صفات کیا ہیں اور ان کا عرفان ہم کس طرح
حاصل کر سکتے ہیں؟
سوال نمبر۲۔ مرتبہ احسان کیا ہے؟
سوال نمبر۳۔ ذات کی نفی سے کیا مراد ہے؟
سوال نمبر۴۔ پس پردہ عوامل کا سراغ کس طرح لگایا جا سکتا
ہے؟
٭٭٭٭٭
اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ”
اللہ نور السمٰوات والارض“ اللہ نور ہے آسمانوں اور زمینو ں کا۔ نور اللہ پاک کی
صفات ہے۔ صفات کا تعلق ذات سے ہے جس طرح
اللہ کی ذات پردے میں ہے اسی طرح صفات بھی پردے میں رہ کر کام کرتی ہے۔
آسمانوں اور زمینوں میں نور مخلوق کے حجاب
میں کام کر رہا ہے۔ زمین پر بسنے والی مخلوق کو دکھائی دیتی ہے مگر نور دکھائی
نہیں دیتا۔ حالانکہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ کے نور نے تمام زمین و آسمانوں
اور اس کے اندر ہر شئے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اللہ اول آخر ظاہر باطن ہر جگہ موجود
ہے۔ اللہ پاک یہ بھی فرماتے
ہیں کہ ہم نے آدم کو کھنکھناتی بجنی مٹی
سے بنایا ہے جو چیز اندر سے خالی ہوتی ہے اس پر چوٹ لگانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔
بجنی مٹی سے مراد آدم ایک خلاء کا نام ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے اپنی کتاب
لوح و قلم میں اس کی بڑی اچھی مثال دی ہے۔
جو کائنات کی صورت اس طرح ہے کہ جیسے ایک صفحہ ہے اس صفحے پر سارے صفحے کو سیاہ کر
دیا جائے مگر صرف جگہ جگہ دنیا کی چیزوں کے خاکے بنا کر ان خاکوں کو خالی چھوڑ دیا
جائے تو ایک نظر دیکھنے میں یہ خاکے کبوتر، چاند، سورج ، پہاڑ ، آدم وغیرہ لگیں گے
حالانکہ یہ تو صرف خلاء ہے۔ اس میں تو سیاہی ہے ہی نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے
خلاء کی مختلف شکلوں کا نام مختلف رکھ دیا
ہے۔
پس اسی طرح
مخلوق کے سارے اجسام خلاء ہیں۔ ان خلاؤں میں اللہ کا نور جب بھر جاتا ہے تو خلاء
کے اندر یہ نور روح کہلاتا ہے۔ نور انرجی ہے۔ یہ انرجی خلاء کے اندر جب کام کرتی
ہے تو خلاء کے اندر اس نور سے تبدیلی آجاتی ہے۔ یہی تبدیلی خلاء کی حرکت ہے۔ حرکت
خلاء کے اندر ہی واقع ہوتی ہے۔ باہر تو ہر طرف نور ہی نور ہے۔ نور اللہ کی صفات
ہے۔ اللہ کی ذات و صفات میں کوئی تغیر نہیں ہے۔ پس ہر حرکت ہر تغیر مخلوق کے اندر
ہے۔ کائنات کی ہر مخلوق کا جسم خلاء ہے۔ اس جسم کے اندر روح اللہ کا نور ہے۔ نور
جب جسم کے قالب میں ڈھل جاتا ہے تو جس طرح ڈائی میں پلاسٹک ڈال کر ڈائی کی صورت
میں پلاسٹک کو ڈھال دیا جاتا ہے اسی طرح روح کا نور جس کے قالب میں ڈھل کر جسم کی
صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ ہر مخلوق کی روح اس کے جسم کی صورت پر ہے۔ ہر جسم
کو روح کی روشنی قوت پہنچا رہی ہے جس کی وجہ سے جسم حرکت میں رہتے ہیں۔ مگر روح کے
علوم صرف انسان کو عطا کئے گئے ہیں۔ جس طرح پلاسٹک کو مختلف ڈائی میں ڈال کر مختلف
صورتوں میں ڈھالا جاتا ہے، ڈھلنے کے بعد پلاسٹک کوئی نہیں کہتا بلکہ صورت کے نام
سے پکارا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر صورت دراصل پلاسٹک ہی ہے۔ اسی طرح نور جب مختلف
خاکوں میں بھر جاتا ہے تو ہر خاکہ ایک مخلوق اور شئے کہلاتی ہے اور اس خاکے کے
اندر نور کا ہیولا روح کہلاتا ہے۔ نور کے ہر ہیولے کو اس خاکے کی صورت کے مطابق
پہچان عطا ہوتی ہے۔ اس طرح آدم کا ہیولا آدم کی روح اور پہاڑ کا ہیولا پہاڑ کہلاتا
ہے۔ حالانکہ آدم کا ہیولا اور پہاڑ کا ہیولا دونوں ہی نور ہیں۔ جسے اللہ نے اپنی
ذات سے منسوب فرمایا ہے۔ مطلب یہ کہ کائنات کے اجسام کے پس پردہ دراصل ایک ہی روح
کام کر رہی ہے جو درحقیقت اللہ پاک کے نور کی مختلف صورتیں ہیں۔ مختلف صورتیں ہونے
کی وجہ سے نور کی مقداریں زیرِ بحث آجاتی ہیں۔ یہ متعین مقداریں ہی شئے کا جسم
بناتی ہیں۔ روشنی کی مخصوص مقداروں کی وجہ
سے شئے کی ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ اور عقل و شعور بھی
ترتیب پاتا ہے۔ جب ہم دماغ کی بات کرتے
ہیں تو ایک اندازے کے مطابق دماغ تقریباً بارہ کھرب خلیوں سے مل کر بنا ہے۔ ہر
خلیہ ایک خلاء ہے۔ اس خلاء میں نور یا روشنی آکر اپنی قوت اور صلاحیت کا مظاہرہ
کرتی ہے۔ چونکہ یہ مظاہرہ خلاء کی حدود کے اندر ہے یہی وجہ ہے کہ خلاء اس مظاہرے
کو اپنی ذات سے منسوب کرتا ہے اور یہی فرد
کا شعور کہلاتا ہے۔ گویا شعور اور عقل اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کہ شعوری
دماغ کے اندر جو خلیات کام کر رہے ہیں ان کے اندر روح کی روشنی نہ بھر جائے۔ روشنی
سے خالی دماغ کو ہم عقل و شعور نہیں کہہ سکتے۔ جیسا کہ موت کے وقت آدمی کا دماغ
ساکت ہو جاتا ہے یعنی روشنی نکل جاتی ہے۔ اس وقت آدمی ہر قسم کے حواس سے بھی خالی
ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب دماغ کے خلیوں میں روشنی جذب ہو
جاتی ہے تو یہ روشنی عقل ، شعور اور حواس بن کر جسم کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ دماغ میں خلیات کی مخصوص تعداد اور ان کے اندر جذب شدہ روشنی کی
متعین مقداریں دنیا کی مخلوق کا مختلف ذہن اور شعور بناتی ہے۔ تمام مخلوق کے دماغ
کے اندر روشنی کی متعین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر نوع
نور اور روشنی کی متعین مقداروں کے گروپ کا نام ہے۔ یہی متعین مقداریں شئے کا
ظاہری جسم بھی بناتی ہیں۔ ظاہری جسم اور ظاہری حواس اللہ پاک کی بڑی نعمت ہیں اور
اس میں بڑی حکمت ہے۔ اگر آدم کو دنیا میں پیدا نہ کیا گیا ہوتا تو آدم اللہ پاک کو
اس کی صفات کے ذریعے سے نہ پہچانتا۔ غور کیجئے۔ اللہ پاک نے اپنے کلام میں فرمایا
ہے کہ ازل میں تمام روحوں کو پیدا کر کے اللہ پاک نے ان پر اپنی تجلی ظاہر کی۔
تمام روحوں کو آواز دی کہ میں تمہارا رب ہوں۔ تمام روحیں اللہ پاک کو دیکھ کر
پہچان گئیں اور اقرار کیا کہ واقعی آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ روحوں کا یہ اقرار اور
مشاہدہ تجلی ذات کی حدود میں ہے۔ یہاں روحوں نے اللہ کو دیکھا ، اللہ کو بحیثیت رب
کے پہچان لیا مگر اس مقام پر روحیں خود اپنی ذات سے واقف نہیں ہیں کہ اللہ نے
انہیں کیوں پیدا کیا ہے۔ کیا صلاحیتیں بخشی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام ادراک اور
علوم روحوں کو دنیا میں آکر عطا ہوتا ہے۔ کائنات
کی تمام مخلوق کے اندر اپنی ذات کا
ادراک عالم ناسوت میں آکر ہوتا ہے۔ مادی وجود میں
آنے کے بعد ہر شئے خود اپنے آپ کو فرد کی حیثیت سے پہچان لیتی ہے اور ہر
فرد اپنی نوع کو خوب اچھی طرح پہچانتا ہے۔ جیسے بکری تمام بکریوں کو اپنے جیسا
سمجھتی ہے اور ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہے۔ آدم کو چونکہ اللہ پاک نے اسمائے
الہٰیہ کےعلوم بخشے ہیں۔آدم کی روح اپنے اندر موجود اسمائے الہٰیہ کے انوار اور اس
کی صفات کو جانتی ہے مگر دنیا میں انے سے پہلے آدم کو اپنی انفرادی شناخت نہ تھی
بلکہ وہ کائنات کی دوسری روحوں کی طرح خود کو ایک روح کی حیثیت سے جانتا تھا۔ اس
دنیا میں آکر انفرادی طور پر انسان کا ارادہ کام کرنے لگا۔ جب کہ اس دنیا میں آنے
سے پہلے انسان کا ادراک نوع کی صورت میں کام کر رہا تھا۔ جیسے تمام روحوں نے اللہ کو دیکھا۔ تمام
روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ جنت میں آدم و حوا کی غلطی کا تذکرہ آیا ہے
کہ وہ جنت میں غلطی کرنے کی پاداش میں دنیا میں اتارے گئے۔ جنت میں آدم وحوا کی
غلطی ایک فرد کی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ خطا بھی پوری بنی نوع انسانی کی ہے۔چونکہ
جنت کا وہ شعور نوعی شعور تھا یہی وجہ ہے کہ ہر فرد اگرچہ اسی غلطی کی پاداش میں
جنت سے یہاں آتا ہے مگر نوعی شعور کا انفرادی شعور میں تبدیل ہونے کی وجہ سے دنیا
میں انے کے بعد اس غلطی کا احساس بھول جاتا ہے۔ نوعی شعور میں ایک فرد واحد کی
غلطی سب کی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ انفرادی شعور میں ایک فرد کی غلطی کا ذمہ
دار وہی فرد واحد ہوتا ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار
قرار دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے فرد کے وہ حواس جو نوعی دائرے میں کام کر رہے تھے۔
اب تمام نوع کا ادراک ایک فرد کے اندر سمٹ آتا ہے۔ اس طرح ایک فرد تمام نوع کے
شعور سے واقف ہو جاتا ہے۔ اسی حوالے سے وہ کائنات کی تمام مخلوق کو شعوری طور پر
جان اور پہچان لیتا ہے اور اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ ہر نوع کے ہر فرد کے اندر
بھی روشنیوں کی مقداروں میں کمی بیشی ہے جس کی وجہ سے اس کی شکل و صورت میں اور اس کے ذہن میں تبدیلی
آجاتی ہے ۔ یہی تبدیلی اس کی حرکات و سکنات بھی ایک دوسرے سے مختلف کر دیتی ہے۔ ہر
شخص اس تبدیلی کو خود اپنے دائرے میں محسوس کرتاہے۔ اس طرح دنیا میں آکر جب آدمی خود اپنی ذات سے واقف ہوتا ہے تو
پھر وہ اپنے بنانے والے کی جانب بھی متوجہ
ہوتا ہے۔ جب خالق کی طرف ذہن جاتا ہے تو اپنی طرح حرکت کرتی ہوئی تمام
مخلوق کا رشتہ بھی خالق سے وابستہ دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کائنات کی ہر شئے کی
گہرائی میں نظر اور ذہن پہنچتا ہے۔ رفتہ رفتہ خود اپنے ہی شعور کے دائرے میں آدمی
کائنات کی تمام اشیاء کا ادراک کرنے لگتا ہے اور ان کے اندر کام کرنے والے جذبات
کو سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے وہ یہ جان لیتا ہے کہ ایک بلی کے اندر بھی وہی محبت کام
کر رہی ہے جو میرے اندر ہے۔ جب میں بلی کو محبت کے ساتھ سینے سے چمٹا کے پیار کرتا
ہوں تو بلی بھی محبت کے اظہار میں غرغر کر کے پیار سے آنکھیں موند کر سینے سے چپک
جاتی ہے۔ اسی طرح مختلف شئے کے اندر کام کرنے والی مختلف صلاحیتوں کو آدمی اپنے
شعور اور حواس کے دائرے میں پہچانتا ہے۔ تب اس پر اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ جو
صلاحیت کسی دوسرے فرد کائنات کے اندر کام کر رہی ہے وہی صلاحیت خود اس کے اپنے
اندر بھی کام کر رہی ہے۔ محبت اللہ کی صفت ہے۔ اللہ اپنی مخلوق سے بے انتہا محبت
کرتے ہیں۔ اللہ کی صفت کی روشنیاں جب مخلوق میں جذب ہو جاتی ہیں تو مخلوق کی
صلاحیت کہلاتی ہے۔ مخلوق ان صلاحیتوں کو اپنی سکت کے مطابق استعمال کرتی ہے۔ ایک
بلی اپنے مالک کو دیکھ کر آنکھیں موند کر
غر غر کی آواز نکالتی ہے۔ آدمی بلی کی محبت کا اظہار اس طرح نہیں کرتا۔ مگر اس کے
باوجود بھی وہ بلی کے پیار کو سمجھ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر
اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفات موجود ہیں۔
وہ ساری صفات دوسری مخلوق کے مقابلے میں انتہائی درجے پر کام کر رہی ہیں۔ مثال کے
طور پر ایک برتن ہے کہ جس میں ایک گیلن پانی سماتا ہے۔ دوسرا برتن ہے کہ جس میں دس
گیلن پانی سماتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھوٹا برتن بڑے برتن میں سما جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر
جتنے بھی اسمائے الہٰیہ کام کر رہے ہیں ان اسماء کے انوار کی مقداریں کائنات کی
تمام مخلوق کے اندر کام کرنے والی مقداروں سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے انسان ہر شئے
کے جذبات و احساسات کو پہچان لیتا ہے یعنی انسان کے اندر کام کرنے والا ہر اسم
دوسری مخلوق کے اندر کام کرنے والے اسماء کے مقابلے میں اسم اعظم کا درجہ رکھتا
ہے۔ اسم اعظم کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر اسمائے الہٰیہ کا شعور متحرک ہو جائے
اور وہ اسمائے الہٰیہ کو بحیثیت اللہ پاک کی صفات کے پہچان جائے اور ان صفات کی
فطرت کو اپنے اندر کام کرتا ہوا دیکھ لے اور اپنے ارادے کو اسمائے الہٰیہ کی فطرت
کے مطابق ڈھال لے۔ دوسری مخلوقات کا شعور اسمائے الہٰیہ کی فطرت کی اس بلندی تک
نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے وہ ان علوم سے آشنا نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کے
سوا کوئی بھی مخلوق صفت عشق میں فطرت کی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتی۔ جس بلندی پر اللہ اپنے بندے سے
عشق کرتا ہے۔ جب بندہ اللہ کے عشق کی اس عظمت کو پہچان لیتا ہے تو پھر وہ اپنے اپ
کو محبوبیت کے مقام پر دیکھ لیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نظام الدین اولیا ءؒ کا لقب
محبوب الہٰی قرار پایا۔بندے کے لئے اللہ کے عشق کی انتہائی بلندی محبوبیت کا مقام
ہے۔ جس میں اللہ اور بندے کے درمیان راز و نیاز ہوتے ہیں مگر یہ مقام بھی بوسیلہ
جلیلہ حضور پاک ﷺ کے بندے کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بندہ جب اپنے
اندر صفات الہٰیہ کا ادراک کرتا ہے تو یہ پیغمبران علیہ السلام کے ادراک کا ادراک
ہے۔ تمام پیغمبران علیہ السلام کا تعلق براہ راست اللہ پاک کی ذات اور صفات کے
ساتھ ہے۔ وہ اپنے بشری شعور کے دائرے میں اللہ پاک کی ذات و صفات کا جس طرح ادراک
کرتے ہیں۔ یہ ادراک کائنات کے ذرے ذرے میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ادراک کی سب سے پہلی
تقسیم خود ذات ہے۔ یعنی بشر یا بنی نوع انسانی ہے۔ اس طرح ادارک کی تقسیم اللہ پاک
سے براہ راست پیغمبران علیہ السلام پیغمبروں سے بنی نوع انسانی اور پھر بنی نوع
انسانی کے ذریعے ادراک دوسری مخلوق میں تقسیم ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے انسان اپنی
ذات میں کل کائنات کا ادراک رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام مخلوق کی فطرت سے جلد
ہی واقف ہو جاتا ہے اور اسے ان کے سمجھنے میں زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ آدمی
ہر مخلوق کے ساتھ بہت جلد مانوس ہو جاتا ہے ۔ چرند پرند، درند، پیڑ پودے ہر شئے کے
ساتھ اس کی ذہنی ہم آہنگی ہو جاتی ہے۔یہاں تک کہ اجرام فلکی اور آفاقی مخلوق جنات ، فرشتے اور روحوں سے بھی اس کا
ذہنی رابطہ ہو جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہی ہے
کہ انسان کے دماغ کے کمپیوٹر میں تمام کائنات کی فریکوئنسی کام کر رہی ہے۔ ہر
فریکوئنسی کسی ایک اسمائے الہٰیہ کا ادراک اور نور کی رو ہے۔ اس رو سے مخلوق کو
اسمائے الہٰیہ کی روشنی تقسیم ہوتی ہے۔ جب بندے کا رابطہ اپنے ذہن کے اندر کام کرنے والی اس فریکوئنسی
سے مل جاتا ہے تو وہ اس فریکوئنسی سے فیڈ ہونے والی مخلوق کے شعور اور ان کے ادراک
کو پہچان لیتا ہے۔ اسی قانون کے تحت کائناتی تصرفات بھی عمل میں آتے ہین جس کا
اظہار معجزہ اور کرامت ہے۔
انسان کے اندر اسمائے الہٰیہ کی
فریکوئنسی کا انقطاع رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ
ان سے وقوف حاصل کرے اور ان انوار و تجلیات سے اپنے ارادے اور ضرورت کے مطابق
انرجی حاصل کرے۔ اس مقصد کے لئے جو اصول پیغمبروں نے اختیار کیا وہی اصول قانون
قدرت اور سنت الہٰیہ کا درجہ رکھتا ہے۔ تمام پیغمبران علیہ السلام کا یقین اور
ایمان اس بات پر رہا ہے کہ ہر شئے کا فاعل حقیقی اللہ ہے۔ ان کے پاس جو کچھ بھی
پہنچ رہا ہے وہ منجانب اللہ ہے ۔ ان کے ذہن و دل میں اللہ کے تصور کو اولیت حاصل
تھی۔ جس کی وجہ سے ان کے دماغ میں کسی شئے کا خیال آتے ہی ان کا رابطہ اسمائے
الہٰیہ کے نور سے جا ملتا اور خیال کے عکس کو ان کے قلب و جسم کی نگاہ کے نور میں
دیکھ لیتی اور اس شئے کی اصلیت سے واقف ہو جاتی۔ پھر اگر مظاہرے میں خلاف فطرت
کوئی بات دکھائی دیتی تو امر ربی کی حقیقت سے واقف ہونے کی بنا ء پر وہ اس خرابی کو دور کرنے کی ہمت
اور صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اسی اصول کو
اپنا کرپیغمبروں نے اللہ پاک کی ذات و
صفات کا عرفان اور ادراک حاصل کیا۔ پیغمبروں کی زندگی تمام بنی نوع انسانی کے لئے
ایک نمونہ ہے۔ اللہ پاک سورہ عصر میں فرماتے ہیں کہ ” والعصر ان الانسان لفی خسر“ یعنی قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے۔ عصر سے مراد
وہ زمان حقیقی ہے جو اللہ کا امر کن ہے۔ جس کی مدت ازل سے ابد تک تصور کی جاتی ہے۔
اللہ پاک اس زمانے کی قسم کھا کر ہمیں اطلاع دیتے ہیں تاکہ انسان پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی نظر
ازل سے ابد تک دیکھ رہی ہے اور اس کے اندر واقع ہونے والی ہر حرکت سے وہ پوری طرح
با خبر ہے۔ انسان نقصان میں ہے کیونکہ اس کی زندگی کی حرکت سے وہ پوری طرح باخبر
ہے۔ انسان نقصان میں ہے کیونکہ اس کی زندگی کی
حرکت دنیاوی اعتبار سے بہت ہی تھوڑی ہے۔ دنیا کی زندگی نہایت ہی مختصر ہے۔
اس زمان حقیقی کا ایک کم ترین لمحہ ہے۔ اس
کم ترین لمحے میں حقیقت سے واقف ہو جانا آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ مگر ایک ہی
صورت ہے جو آدمی کی حقیقت کا ادراک کر رہی ہے۔ وہ یہ ہے جو اگلی آیات میں بیان
کرتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں صبر
سے کام لے۔ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کی مرکزیت قائم ہو جانا۔
اللہ سے رابطہ قائم ہونے سے نور کی رو دماغ میں بہنے لگتی ہے اور نور ادراک بن کر
حواس کے دائروں میں گردش کرنے لگتا ہے اور شعور کسی نہ کسی طور پر نور کا ادراک کر
لیتا ہے۔ نور اللہ کے خزانے ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو عنایت کیے ہیں۔ کسی کریم
کی کرم نوازی آدمی کو اس کے قریب کر دیتی ہے۔ اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کا حصول
بھی بندے کو اپنے خالق سے قریب کر دیتا ہے اور یہی اللہ بھی بندے سے چاہتا ہے کہ
وہ اپنے رب کو اس کی صفات کے ساتھ پہچان کر ان عظمتوں اور بزرگی کی تعریف کرے اور
اس کی ربوبیت کا اعتراف کرے۔ پس ایک روحانی بندے کے اندر صفات الہٰیہ کا ادراک و
شعور ہونا چاہئے جس کے ذریعے وہ سلوک کے
مدارج طے کر سکے۔
٭٭٭٭٭