Topics

اللہ صبر کرنے والوں کا رفیق ہے

 

۱۔       ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے کا نام صبر ہے۔

۲۔       ہر شئے  کو اللہ کی جانب سے مان کر کسی دکھ یا تکلیف میں اسی ہستی کی جانب مکمل بھروسے کے ساتھ بہتری کی توقعات وابستہ کرنے کا نام صبر ہے۔

۳۔       قرآن میں ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے یعنی اللہ پر مکمل بھروسہ اللہ کو پسند ہے اسی کا نام صبر ہے۔

۴۔       ہر تکلیف کو اللہ کے لیے برداشت کرنا اور اپنی کوشش کو جاری رکھنا صبر ہے کیونکہ صبر کرنے سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

۵۔       زندگی میں پیش انے والی تکالیف کو نظر انداز کرنا صبر ہے۔

۶۔       اللہ تعالیٰ اور رب ہے اس کی عطا کردہ نعمتوں کا جاننا اور ان پر مطمئن رہنا صبر ہے۔

۷۔       اپنے اندر وسعت پیدا کرنے کا نام صبر ہے۔

۸۔       آدمی کے صبر   سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ نفس کی خواہشات پوری ہوتی عہنے سے خوشی کم ہو جاتی ہے اور دل مر جاتا ہے ۔ خواہش پوری نہ ہونے پر خوش رہنا صبر ہے۔

۹۔       عزیز ترین شئے کھو جانے اور نامساعد حالات میں بھی غم کو پاس نہ آنے دینے کا نام صبر ہے۔

۱۰۔    اللہ پاک فرماتے ہیں۔ جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا وہی محسن ہے۔ محسن یعنی احسان پر فائز ہونے والا اللہ کے قریب ہوتا ہے اور ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ "إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ" ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صبر   سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔

۱۱۔    ایک روحانی آدمی کا اللہ کی مشیت کو جانتے ہوئے اپنے آپ کو ثابت قدم رکھنا صبر ہے۔

۱۲۔    اللہ پاک اپنے قرآن میں فرماتے ہیں کہ اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں اور صبر کرنے والوں کی نشانی یہ ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت اتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اور وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اللہ پاک کسی پر اس کی سکت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔

۱۳۔    صبر کرنے کی صلاحیت آدمی کو مضبوط اور باہمت بناتی ہے ۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! ہر حال میں صبر اور شکر کرو۔ اللہ ہر حال میں صبر اور شکر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

۱۴۔    صبر وہ صلاحیت ہے جو انسان کے اندر فرمانبرداری اور تابعداری کی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے۔ صبر کرنے والے کے اندر اللہ پر بھروسہ اور یقین زیادہ ہوتا ہے اور وہ اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھ لیتا ہے۔ کسی سے تکرار یا بحث نہیں کرتا ۔

۱۵۔    اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ آل محمد ﷺ نے عملی طور پر صبر کا مظاہرہ کیا یعنی کربلا کے مقام پر تقریباً ساری آل نے شہادت کا جام نوش کیا۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے یعنی صبر کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔

۱۶۔    By being patient your reward will always be greater from Allah.

۱۷۔    جو اللہ کی رضا میں صبر کرتے ہیں وہی فلاح پانے والے یعنی قرب خداوندی حاصل کرنے والے ہیں۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   صبر کیا ہے؟ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اس کا مفہوم بیان کریں۔

سوال نمبر۲۔   صبر کے فوائد کیا ہیں؟

سوال نمبر ۳۔  صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟

سوال نمبر۴۔   اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ اللہ سے مدد مانگو۔ اس کی حکمت بیان کریں۔

٭٭٭٭٭

صبر ایک ایسی صلاحیت ہے جسے ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہی رہتے ہیں۔ دنیاوی زندگی ٹائم اینڈ اسپیس میں بند ہے اور دنیا کی ہرخواہش اور ضرورت پورا ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ ہر شخص اس قانون سے آگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کے لیے انتظار بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح ہم صبر   کرنے کی صلاحیت کو مستقل طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں مگر یہ ہمارا ایک ایسا روٹین ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے انتظار کا وقفہ طویل ہو جاتا ہے۔ اس طوالت کی وجہ سے ہمارے اندر موجود صبر کی صلاحیت گھٹنے لگتی ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کی حیثیت  ایک مشین کی سی ہے۔ یہ اللہ میاں  کی بنائی ہوئی ایک مشین ہے۔ اس مشین کی حرکت کے لیے جو انرجی استعمال ہوتی ہے وہ انرجی اسمائے الہٰیہ کی روشنیاں ہیں۔ اسمائے الہٰیہ اللہ پاک کی صفات ہیں۔ اسمائے الہٰیہ کی تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار روشنیاں ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہماری ہر صلاحیت کسی نہ کسی اسمائے الہٰیہ کی روشنی ہے۔ جب ہم اسے استعمال کرتے ہیں تو ہمیں اس کی صفت سے آگاہی ہوتی ہے۔ مثلاً جب کسی تکلیف پر صبر کرتے ہیں تو صبر   کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا شعور مسلسل کسی ایک فکر پر کام کر رہا ہے۔ ہماری تمام توجہ اس فکر میں شامل ہو جاتی ہے۔ فکر کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے یعنی فکر کی روشنی ٹائم اینڈ اسپیس میں سفر کرتی ہوئی اس مقام تک پہنچتی ہے جہاں حاصل فکر موجود ہے۔ فکر کی روشنی جب تک سفر کرتی رہتی ہے سفر کے لیے اسے انرجی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انرجی اسمائے الہٰی کی روشنی ہے۔ ہم جیسے جیسے اسمائے الہٰی کی روشنی استعمال کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے ہماری فکر ٹائم اینڈ اسپیس  کا سفر کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقصود کو پہنچ جاتی ہے اور ذہن اس فکر کے اندر روشنی کے علوم حاصل کر لیتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ کے تخلیقی قانون کے تحت ہر شئے دو رخوں پر کام کررہی ہے۔ اسی اصول کو مدِ نظر رکھ کر ہم اپنی فکر کے سفر کو بھی دو رخوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ذہن کی فکر خیال ہے۔ ہر خیال محرک ہے۔ خیال کی حرکت  دو طرح سے ہوتی ہے ایک رخ میں خیال کی حرکت ظاہری طور پر ہوتی ہے یعنی جسمانی طور پر۔ ذہن کا خیال جسمانی اعضاء کو حرکت دے کر اپنا مقصد پورا کرتا ہے اس طرح جو بھی حرکت ہوتی ہے وہ ٹائم اینڈ اسپیس کی حد  کے اندر ہوتی ہے۔ دوسری حرکت جو ظاہری حرکت کے پس پردہ بیک وقت عمل میں اتی ہے وہ حرکت اس روشنیوں کے جسم کی حرکت ہے جسے ہم جسم مثالی  کہتے ہیں۔ جسم مثالی عالم اعراف کا جسم ہے۔ یہ جسم مادی جسم کی نسبت لطیف ہے۔ لطیف ہونے کی وجہ سے اس کی حرکت مادی جسم کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ ہے یعنی روشنی کی رفتار پر یہ جسم کام کرتا ہے۔ ذہن کا ہرخیال ٹائم اینڈ اسپیس کی ایک یونٹ ہے۔ اس یونٹ کے اندر اس یونٹ یا لمحے کے علوم بند ہیں۔ یونٹ یا لمحہ اللہ تعالی ٰ کے کُن کہنے کے بعد کے ظہورات ہیں۔ کن کے بعد ظہورات لامحدودیت کا لمحہ ہے۔ آدمی یا روح کا شعور اس لمحے کو قدم قدم چل کر طے کرتا ہے۔ روح کا ہر قدم لمحہ کن کی ایک یونٹ ہے۔ اسی یونٹ کے علوم اور ادراک خیال کی صورت میں آدمی کے دماغ پر وارد ہوتے ہیں۔ خیال کے مدارج واہمہ ، خیال ، تصور اور مظہر روح کے ادراک کی مختلف صورتیں ہیں۔ اگر ہم اپنے اندر کام کرنے والے ادراک کی یہ  مختلف حالتیں اور ان کی اصول و قوانین کو پہچان لیں تو ہمارے اوپر صبر کی حقیقت بھی وضح ہو جائے گی اور عملی طور پر صبر کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔

آپ سب روحانی اسکول کے طالب علم ہیں اور روحانی علوم سیکھ رہے ہیں۔ آپ حضور قلندر بابا اولیا ءؒ  کی کتاب لوح و قلم کے حوالے سے اور حضور بابا جی جناب مرشد کریم کی تعلیمات کے حوالے سے اب تک اس بات سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں کہ روح کے تین پرت ہیں۔ تجلی ، نور اور روشنی۔ گویا روح تین اجسام کا مجموعہ ہے۔ تجلی ، نور اور روشنی۔ یہ تینوں پرت اپنی اپنی جگہ ایک مکمل جسم ہے۔ اس کے بعد چوتھا جسم روح کا ظاہری جسم ہے جو ہمارا دنیاوی جسم ہے گویا روح ایک کام کو چار جسموں کے ساتھ  انجام دیتی ہے مگر یہ چاروں اجسام اس طرح ایک زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے آدمی کے جسم کے اندر دل بھی ہے، جگر بھی ہے، معدہ بھی ہے، آنتیں بھی ہیں، پھیپڑے بھی ہیں، ان سب کے مجموعے کا نام آدمی ہے۔

کوئی ایک بھی حصے کو نکال دیا جائے تو جسم ناکارہ ہو جائے گا یا معذور ہو جائے گا۔ یہی مثال روح کی ہے۔ روح تجلی ، نور، روشنی اور نسمہ چاروں سے مل کر بنی ہے۔ کوئی ایک دائرہ بھی حذف ہو جائے تو اس عالم سے روح کا وجود مٹ جائے گا۔ خیال کے مدارج بھی انہی چار عالمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ واہمہ خیال کا وہ ادراک ہے جو روح کا تجلی کا جسم محسوس کرتا یا جانتا ہے۔ خیال وہ ادراک ہے جو روح کا نوری جسم محسوس کرتا اور پہچانتا ہے۔ تصور وہ ادراک ہے جو روح کا نوری جسم محسوس کرتا ہے ۔ مظہر خیال کا وہ ادراک ہے جو مادی جسم  محسوس کرتا ہے۔ یہ چاروں ادراک روح کے شعوری حواس ہیں۔ روح کے شعوری حواس کی لہریں ان چاروں پرتوں سے گزرتی ہیں۔ جس جس جسم سے گزرتی ہیں وہ جسم اپنے شعوری حواس کے ذریعے ان لہروں کو محسوس کر لیتا ہے اور ان لہروں کا علم جان  لیتا ہے۔ روح کے ادراک کی لہریں زمانہ ازل یا کن کے بعد کے ظہورات کی ایک یونٹ ہے۔ ہمارا شعور روح کے ادراک یا ازلی شعور کے علوم کو حاصل کرتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کن کہا تو کائنات کے علوم کا مظاہرہ چار عالمین میں یا چار دائروں میں عمل میں آیا۔ ایک دائرہ جو سب سے پہلا ہے وہ تجلی کا علم ہے۔ دوسرا نور کا ہے۔ تیسرا روشنی کا ہے۔ چوتھا نسمہ کا ہے۔ نسمہ کا یہی ایک رخ مادی دنیا ہے۔ ہمارا مادی جسم نسمہ کا جسم ہے۔ یہاں سے حرکت کی لہریں پھر واپس پلٹتی ہیں اور ان ہی عالمین میں سے گزرتی ہیں جہاں سےنیچے ائی تھیں۔ کن اللہ کا امر  ہے۔ اللہ لامحدود ہستی ہے۔ اللہ کا امر اللہ کا ارادہ ہے جس کی اسپیڈ بھی لامحدود ہے۔ اس لامحدودیت کو تجلی کہا گیا ہے۔ روح اامر ربی ہونے کی حیثیت سے عالم تجلی سے یا اللہ کے امر اور ارادے سے منسلک ہے۔ روح کا لامحدودیت سے رابطہ روح کے تجلی کے پرت یا جسم کے ساتھ ہے۔ خیال کا آغاز اس پرت سے ہوتا ہے یعنی لمحہ کن کا ادراک تجلی کے نقطے سے شروع ہوتا ہے۔ اس نقطے میں ازل سے  لے کر ابد تک یا کن سے لے کر فیکون تک کے علوم بند ہیں۔ سب سے پہلے ان علوم کو روح کا تجلی کا پرت حاصل کرتا ہے پھر یہ علوم روح کے دوسرے پرت یعنی نور میں آتے ہیں۔ پھر روشنی میں اور پھر نسمہ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا شعور ان کا ادراک واہمہ، خیال، تصور اور احساس کے ذریعے کرتا ہے۔ لامحودیت سے محدودیت میں  آنے والی روشنی اپنی اسپیڈ کو بتدریج کم کرتی جاتی ہے پھر مظہر بننے کے بعد اپنی اسپیڈ کو بتدریج بڑھاتی جاتی ہے۔ کن کے کے لمحات کی روشنی کا یہ پروسس آدمی کے  یا روح کے حواس کے دائروں کے اندر عمل میں آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی اپنے لاشعوری اور شعوری حواس کے ذریعے ان کے علوم کو پہچانتا ہے۔

          صبر اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنے اور اس کے فیصلے کے اگے سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔ اللہ کی رضا سے شعور اس لئے بے خبر رہتا ہے کہ اس کو اپنے کام کے پردے میں چھپی ہوئی حکمت دکھائی نہیں دیتی۔ ھکمت اللہ کا امر ہے۔ ہماری آنکھ ظاہری حرکت کو دیکھتی ہے اور ذہن اس ظاہری حرکات کی نوعیت کو جانتا ہے۔ مگر ان ظاہری حرکات کے پردے میں اللہ کے ارادے کو نہیں جانتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی حرکت اور جسمانی حرکات کو اپنی عقل کے مطابق معنی پہنا دیتا ہے اور اس معنی و مفہوم کی کیفیات حواس کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔ رنج، غم، پریشانی، دکھ وغیرہ حواس کے دائرے میں روشنیوں کے انجماد سے پیدا ہوتی ہیں۔ روشنیاں جب حواس کے دائرے سے گزرتی رہتی ہیں تو دماغ پر دباؤ نہیں پڑتا۔ آدمی پر سکون اور خوش رہتا ہے۔ حواس کے دائرے  میں آنے والی ہر روشنی اپنے اندر علم رکھتی ہے۔ یہی علم خیال کی صورت میں دماغ پر وارد ہوا ہے۔ کسی خیال کا زہن میں اٹک جانے کا مطلب یہ ہے کہ حواس کے دائرے میں خیال کی روشنی کا ٹھہراؤ آگیا ہے۔ جس طرح پانی بہتا رہے تو صاف رہتا ہے۔ ٹھہر جائے تو گندا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روشنیاں بھی بہتی رہیں تو ایک تسلسل رہتا ہے۔ جب ٹھہر جائیں تو تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور ذہن پر بوجھ پڑتا ہے۔ اس بوجھ کو ہٹانے کے لیے اور روشنیوں کا بہاؤ دوبارہ نارمل ہونے کے لیے اللہ پاک نے انسان کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب آدمی پر کوئی مصیبت اتی ہے اور باوجود کوشش کے اس سے دور نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خیال کی روشنی ایسی جگہ ٹھہری ہوئی ہے جہاں پر اس کی سکت کام نہیں کر رہی ہے۔ ایسے ہی مقام پر انسان اپنے آپ کو بے باس اور مجبور دیکھتا ہے اور اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ غیب  میں کوئی قوت ایسی ہے جس کے ہاتھ میں ساری کائنات کی باگ دوڑ ہے اور وہ اس قوت کے اگے جھک جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسی مقام پر بندہ اپنے رب کو پہچانتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ پر سکون اور محفوظ رہے۔ اللہ اپنی مخلوق سے بے انتہا محبت کرتا ہے وہ کسی طور نہیں چاہتا کہ بندہ پریشانی یا رنج و غم میں مبتلا ہو۔ مگر خیال کی روشنی جب تک اپنے پروسس میں ہوتی ہے آدمی کے اوپر غم اور خوشی دونوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کیفیات کو بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ روشنیوں کے بہاؤ میں تبدیلی کی جائے۔ روشنیوں کے بہاؤ میں تبدیلی دو طرح سے ہو سکتی ہے۔ ایک تو روشنیوں کی اسپیڈ بڑھائی جائے دوسرے گردش کا رخ تبدیل کیا جائے۔ پس اس عمل کے لیے وقت درکار ہے۔ کیونکہ ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے جہاں ٹائم اینڈ اسپیس کے حواس ہم پر غالب ہیں ہر کام اپنے وقت میں ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ پاک نے صبر   کی تلقین کی ہے۔ ایک روحانی  شخصیت کو فطرت کے اصولوں سے واقفیت ہونی چاہیے۔ کائنات کی ہر شئے ہر فرد فطرت کے اصولوں پر حرکت کر رہا ہے۔ انسان کے اندر خیال کی روشنی بھی فطرت کے اصولوں پر حرکت اور عمل کرتی ہے۔ حرکت زندگی ہے اور ٹھہراؤ موت ہے۔ زندگی کا لمحہ خوشی کا تاثر دیتا ہے جب کہ موت کا لمھہ غم کا تاثر دیتا ہے۔ ہمارے اندر روشنیوں کے بہاؤ کا سرکل چلتا رہے تو ہم خوش اور پُرسکون رہتے ہیں۔ غم کا وقت بھی تیزی سے گزر جاتا ہے مگر بہاؤ رک جائے تو غم کا وقت سالوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ ایک لمحہ جب فنا ہو جاتا ہے تو دوسرا جنم لیتا ہے۔ ایک خیال جب گزر جاتا ہے تو دوسرا خیال آجاتا ہے۔ فنائیت کا احساس غم کی کیفیت ہے کیونکہ خیال کی روشنی جب حواس کے دائرے سے نکل جاتی ہے تو دوسری روشنی آنے کے درمیان کا وقفہ روشنی سے محرومی کا وقفہ

ہے۔ ہر خیال کی روشنی ایک لہر  ہے جس کے اندر روشنی کی متعین مقداریں موجود ہیں۔ حواس کے دائرے میں جب روشنی منتقل ہوتی ہے تو اس روشنی  سے روح کا جسم کام کرتا ہے۔ روح کا ادراک ہی وہ روشنی ہے جو خیال کی صورت بنتی ہے۔ ادراک کی وہ تصویر جو روح کے ذہن میں بنتی ہے وہ  واہمہ کہلاتا ہے۔ ادراک ادراک کی جو تصویر واہمہ کے بعد روح کے ذہن کے پردے پر بنتی ہے وہ خیال کہلاتا ہے۔ اس کے بعد تصور اور مظہر کی صورت میں روح کا ادراک اپنے آپ کو ظاہر کر دیتا ہے۔ روح کی نظر جس پردے پر تصویر کو دیکھتی ہے اس کے علوم اسے حاصل ہو جاتے ہیں۔ روح کی نگاہ بیک وقت تجلی ، نور، روشنی اور نسمہ میں کام کرتی ہے مگر مادی آنکھ صرف ظاہری صورت ہی دیکھ سکتی ہے جس کی وجہ سے نظر یا روشنی کا سرکل پورا نہیں ہوتا اور حواس پر دباؤ پڑتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں صبر   کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جب کسی مشکل وقت میں صبر   کرتا ہے تو حواس کے دائرے میں رکی ہوئی روشنیوں میں اللہ کا نور شامل ہو جاتا ہے اور رکا ہوا بہاؤ پھر حرکت مین آجاتا ہے۔

          صبر کی تعریف یہ ہے کہ مشکل وقت میں اللہ کی مدد کا انتظار کرے اور اس انتظار میں اللہ سے جھگڑا نہ کرے۔ اللہ سے شکایت کرنا اور اپنے رنج و غم میں اس کا شاکی ہونا اللہ سے جھگڑا  کرنا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کے غم میں رو رو کر آنکھیں گنوا دیں۔قرآن میں درج ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کہا کرتے تھے کیا آپ یوسف علیہ السلام کے غم میں اپنے اپ کو ہلاک کر دیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کہتے میں کوئی شکوہ نہیں کر رہا، تقدیر میں جو کچھ ہے میں اس پر راضی ہوں۔  مطلب یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بچھرنے کا حضرت یعقوب علیہ السلام کو انتہائی صدمہ اور رنج تھا۔ اس رنج کی وجہ سے وہ روتے تھے کہ جدائی برداشت نہ ہوتی تھی۔ مگر وہ اس بات سے واقف تھے کہ کاتب تقدیر نے جو لکھا ہے وہ ضرور ہو کر رہتا ہے۔ پس سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس قصے میں غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روح کی نظر سے جب کوئی ایسی شئے اوجھل ہو جاتی ہے جس میں اس کا پورا پورا انہماک ہوتا ہے تو یہ انہماک نگاہ کا تجسس بن جاتا ہے اور نگاہ اس شئے کو تلاش کرتی رہتی ہے۔ پھر جب تک اس شئے کو دوبارہ پا نہیں لیتی اسے چین نہیں آتا۔ نظر جب تک تلاش میں بھٹکتی ہے اس کی روشنی خرچ ہوتی  جاتی ہے۔ وہ مضحمل اور درماندہ ہو جاتی ہے۔ صبر کرنے سے اللہ کی مدد نور کی صورت میں اسے حاصل ہو جاتی ہے اور وہ مطلوب کی تلاش میں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ” اے ایمان والو! صبر کرو اور صلوٰۃ کے ساتھ اللہ سے مدد چاہو۔ اللہ سے رابطہ قائم کرنے سے اللہ کی مددبندے کو حاصل ہو جاتی ہے۔

٭٭٭٭٭

 

 


 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی