Topics

وحی کی حقیقت

 

۱۔       وحی روح کی زبان ہے۔ جب تک کسی بندے کو روح کا عرفان حاصل نہیں ہو جاتا وہ وحی کی طرزوں کو سمجھ نہیں سکتا۔

۲۔       حضور پاک ﷺ کے پاس حضرت جبرئیل  علیہ السلام وحی لے کر آتے تھے تو پاس بیٹھا آدمی بھی وحی کی آواز نہیں سن سکتا تھا۔ وحی کی آواز کی وہی سن سکتا ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے۔

۳۔       وحی کلام الہٰی ہے جو بات اللہ پاک اپنے بندے سے کرتے فرشتے کے ذریعے یا کسی پردے میں، اللہ تعالیٰ کا امر وحی کے ذریعے آتا ہے بندے کے دل میں کسی بات کا القاء ہونا وحی کی طرزوں میں ہے۔ ساؤنڈ کی متعین مقدار ہے۔ قرآن حکیم وحی الہٰیہ میں سے ہے۔

۴۔       وحی اللہ تعالیٰ کا اپنے خاص بندوں سے براہ راست رابطہ کا نام ہے۔ وحی انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوا کرتی تھی۔ لطیفہ اخفیٰ سے تجلی جب  بغیر کسی رکاوٹ کے انسانی ذہن پر نزول ہو تو اسے وحی کہا ہے۔ وحی کی روشنیوں کو جذب کرنے کی سکت صرف انبیاء علیہ السلام کو دی گئی تھی۔تجلی کی یہ روشنیاں اللہ تعالیٰ کی جانب  خاص ہدایات ہیں۔ ان ہدایات کو کتابی صورت دی گئی تو انہیں آسمانی کتابیں کہا گیا جن میں توراۃ، زبور، انجیل اور قرآن شامل ہیں کیونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے مگر اب بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے انہی طرزوں پر رابطہ قائم کرتے ہی ں اس رابطہ کو الہام اور کشف اور القاء کہا جاتا ہے۔

۵۔       وحی سے مراد اللہ کا کلام یا حکم ہے جو پیغمبروں پر اتارا گیا۔ وحی کی  حقیقت کی سب سے بڑی نشانی قرآن پاک ہے جو حضور پاک ﷺ پر نازل ہوا۔ حالانکہ آپ اُمی تھے۔قرآن ہر زمانے کے لیے ہدایت ہے۔

۶۔       وحی کی حقیقت یہ ہے کہ اس  کو پیغمبروں کے علاوہ کسی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

۷۔       امر الہٰی بغیر کسی شعوری مداخلت کے موصول کرنا اور اس کی اطلاع کے مطابق معنی پہنانا وحی ہے۔

۸۔       اللہ تعالیٰ کے پیغام کی ترسیل وحی کہلاتی ہے جو کسی فرشتے کے ذریعے ہوتی ہے۔ وحی تمام پیغمبران علیہ السلام پر نازل ہوئی مگر قرآن میں ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی پر وحی بھیجی ۔ جس سے ثابت ہوا کہ تجلی کا عالم ناسوت میں نزول وحی کہلاتا ہے۔

۹۔       ہماری زندگی روح کی انفارمیشن کی مرہونِ منت ہے۔ جس لمحے روح سے اطلاعات آنی بند ہو جاتی ہیں شعوری جسم مردہ  ہوجاتا ہے یعنی روح کی اطلاعات بند ہونے شعور فوراً ہی معطل ہو جاتا ہے۔ شعور ان اطلاعات میں معنی پہناتا ہے اور معنی پہنانے میں اپنا ارادہ استعمال کرتا ہے، اسے خیال کہتے ہیں۔ مگر روح کی وہ اطلاعات جو براہ راست شعور میں داخل ہوں اور

          ان  اطلاعات سے ہمارا ارادہ واقف نہ ہو تو اطلاعات کی یہ صورت وحی ، کشف ، الہام اور القاء کہلاتی ہیں، کشف، الہام اور القاء وحی کی طرزیں ہیں۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   وحی سے کیا مراد ہے؟ وحی کی طرزوں کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟

سوال نمبر۲۔   کشف، الہام اور القاء کیا فرق ہے؟

سوال نمبر۳۔   سورس آف انفارمیشن کیا ہے؟

سوال نمبر۴۔   حقیقت محمدیﷺ کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کریں۔

 سوال نمبر۵۔  حجابات کیا ہیں؟ حجاب محمود، حجاب کبریا اور حجاب عظمت میں کیا فرق ہے ہے؟

سوال نمبر۔     تدلیٰ کیا ہے؟ اس کی تفصیل بیان کریں۔

٭٭٭٭٭

          اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ہم نے کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سےبڑی ایسی بات نہیں چھوڑی جس کی قرآن میں وضاحت نہ کر دی گئی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہی بلکہ اکثریت یہی کہتی ہے کہ ہمیں قرآن کی باتیں اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتیں۔ مطلب یہ کہ اس کے نکات سمجھ میں سمجھ میں نہیں آتے۔ آپ جانتے ہیں کہ لکھنے والا جب کوئی تحریر لکھتا ہے تو اس کے اندر س کی ایک فکر کام کرتی ہے وہ جو کچھ بھی لکھتا ہے اس کی فکر میں اس کا ایک خاص مفہوم ہوتا ہے۔ الفاظ تحریر بن کر صفحہ پر بکھر جاتے ہیں۔ مگر ذہن کا مفہوم الفاظ کے پیچھے چھپ جاتا ہے جب کوئی پڑھنے والا اس تحریر کو پڑھتا ہے تو الفاظ پڑھ کر اپنی فکر کے ذریعے سے معنی پہناتا ہے۔ اگر لکھنے والے کی فکر کے ساتھ اس کی فکر نہ ملی تو پڑھنے والے کے قلب میں  اس کا تاثر نہیں ابھرتا۔ اس کا ذہن تحریر کی گہرائی میں نہیں جاتا جس کی وجہ سے اسے نہ لطف آتا ہے جب الفاظ دل کی گہرائی میں اتر جائیں  اور اس گہرائی میں ذہن انہیں معنی پہنائے۔ قرآن کا بھی یہی قاعدہ و اصول ہے سمجھنے کا۔ قرآن وحی کا کلام ہے  اور اس  کے پیچھے اللہ  کا تفکر کام کر رہا ہے۔ قرآم کےنکات اور حکمتیں اس وقت سمجھ میں آ سکتی ہیں جب ہماری فکر اللہ کے تفکر سے مل  جائے۔ اللہ پاک نے سینکڑوں جگہ قرآن کی آیات میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اگر ہم بار بار قرآن پڑھ کر اس میں  غور و فکر کریں گے تو صاحب ﷺ وحی کے ذہن سے ہمارا رابطہ ہو جائے گا اور جس طرح انہوںﷺ نے قرآن کے معنی سمجھے ہمیں بھی ان کی نسبت سے یہ مفہوم و معنی سمجھ میں آجائیں گے۔ مگر اس معنی کو سمجھنے سے پہلے ذہن کی تیاری بھی ضروری ہے۔ اللہ پاک اپنے کلام میں کئی جگہ فرماتے ہیں کہ ۔” ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ ہے کوئی سمجھنے والا۔“ اس  کا مطلب یہ کہ قرآن کو اس کے اصلی معنی و مفہوم پر سمجھنا مشکل نہیں ہے بشرطیکہ اس کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کیا جائے۔ روحانی علوم وہی علوم ہیں جو بذریعہ وحی پیغمبروں پر نازل ہوئے۔ پس ان علوم کے اصل معنی وہی ہیں جو پیغمبروں نے الفاظ کی صورت میں ہمارے سامنے رکھےہیں۔ ان علوم کو سیکھنے کے لیے ہمیں بھی اپنے ذہن کو اسی طرزِ فکر پرڈھالنا ہوگا جس پر پیغمبران علیہ السلام کا  رابطہ وحی کے ذریعے اللہ پاک سے ہوا۔ جب ایک روحانی علوم کے طالب کی طرزِ فکر اس طرز پر بن جاتی ہے۔ تب قرآن کا سمجھنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ روحانی علوم کو سمجھنے کےلیے وحی کی حقیقت کا جاننا ضروری ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہم اپنے ذہن کو کس طرز پر طرز پر تیار کریں کہ وحی کے علوم کے انوارات پیغمبروں کے کے ذریعے ہمارے سینے میں بھی منتقل ہو جائیں اور ہمارا روحانی راستے پر چلنے کا منشا پورا ہو۔

          ہماری ساری زندگی روح کی اطلاعات پر حرکت کر رہی ہے۔ ہمارے مرشد کریم حضور بابا جی فرماتے ہیں کہ زندگی ایک اطلاع ہے۔ اطلاع اس تسلسل سے موصول ہوتی ہے کہ ہم ہر چیز کو رواں دواں دیکھتے ہیں۔ جب انفارمیشن کی یہ رو ہمارے مادی جسم سے کٹ  جاتی ہے تو ہم اس سے اگلے لیول پر زندگی رواں دواں دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارا روشنی کا جسم ان اطلاعات کو اسی  طرح موصول کر رہا ہوتا ہے لیکن مادی جسم نہیں رہتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اطلاعات بیک وقت بیک وقت دو اسکرین پر چل رہی ہوتی ہیں۔ ایک اسکرین یعنی مادی جسم۔ دوسرا اسکرین یعنی روشنیوں کا جسم مثالی۔ جب  مادی جسم کے اسکرین سے ان اطلاعات  کا سلسلہ موقوف ہوجاتا ہے تو اطلاعات اسی طرح پہلے کی نسبت سے روشنی کے جسم پر چلتی رہتی ہیں اور ہمارے  تمام حواس روشنیوں کے جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں اور روشنی کے جسم کا شعور ہی ہمارا شعور مرنے کے بعد کا بن جاتا ہے۔

          قرآن میں وحی کے الفاظ کو کئی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ فرماتے ہیں ہم نے شہد کی مکھی پر وحی کی۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو وحی کی۔ اس کے علاوہ حضور پاک ﷺ کے لیے فرماتے ہیں۔ ” قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے اترا۔ تمہارا ساتھی نہ راہِ حق سے بھٹکا اور نہ بہکا اور وہ تو بولتا ہی نہیں اپنی خواہش سے ۔ نہیں ہے یہ مگر وحی  جو ان کی طرف کی جاتی ہے اور انہیں سکھایا ہے زبردست قوتوں والے نے دانا نے۔“   (سورہ  نجم)

          یہ بات  تو واضح ہوگئی کہ  زندگی روح کی جانب سے موصول ہونے والی اطلاع کا نام ہے اور زندگی کی تمام حرکات یہی اطلاعات بنتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وحی بھی اطلاع ہے کیونکہ وحی بھی زندگی کی حرکات کا باعث بنتی ہے۔  وحی موصول ہوئی تو پیغمبران علیہ السلام نے اللہ کے مشن پر جدو جہد کی۔ کھوج یہ لگانا ہے کہ وحی کی وہ کون سی حقیقت ہے جو ایک بشر کو نبوت کے درجے پر فائز کرتی ہے اور مکھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کو اس فضیلت سے محروم کرتی ہے کیونکہ لازمی طور سے یہ وہ وحی نہیں ہے جو پیغمبروں کے اوپر نازل ہوئی۔ ورنہ مکھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بھی پیغمبر ہی کا درجہ مل جاتا۔ پھر ذہن یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پیغمبروں کے علاوہ ایک عورت اور ایک جانور کے لیے وحی کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا جب کہ وحی کا تعلق پیغمبروں کے ساتھ ہے اور پھر اللہ میاں یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں غورو فکر کرو۔ جیسا کہ سورہ نحل کی آیت ہے۔ اور وحی کی تیرے رب نے شہد کی مکھی کو کہ بنا لے پہاڑوں میں چھتے اور درختوں میں اور ان چھپروں  میں جو لوگ بناتے ہیں پھر رس جوسا کر ہر قسم کے پھولوں سے ، پس چلتی رہا کر اپنے رب کی آسمان کی ہوئی راہو ں۔ نکلتا ہے ان کے شکموں سے ایک شربت مختلف رنگوں والا۔ اس میں شف ہے لوگوں کے لیے۔ بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ ؛

          ان آیات سے صاف طور پر یہ معنی نکلتے ہیں کہ اللہ پاک نے یہاں وحی لا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ انسان کی توجہ اس خاص طور پر جائے اور وہ اس میں غورو فکر کرے۔ اس کا مطلب یہ کہ ان آیات میں غوروفکر کرنے  وحی کی طرزوں کا پتہ چلتا ہے۔ اب ہم اس حدیث کی طرف کی طرف آتے ہیں جو اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور پاک ﷺ کے وحی لے کر آئے تو حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ ” اے جبرئیل! کبھی تو نے یہ بھی دیکھا  کہ وحی کہاں سے آرہی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ سرکار وحی کی تجلیات وانوار سدرۃ المنہتیٰ سے میں آپ ﷺ کے پاس لاتا ہوں میرے لیے یہی حکم ہے۔ یہ انوار کہا ں سے سدرۃ المنہتیٰ پر نازل ہوتے ہیں میں نہیں جانتا۔ کیونکہ اس مقام سے اوپر میری پہنچ نہیں ہے ورنہ میرے جل جائیں گے اور میرا شعور منتشر ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اب جب وحی کا سدرۃ المنہتیٰ پر نزول ہو اور آپ کو ان انوار و تجلیات کو ہمارے پاس لانے کا حکم ملے تو ہماری نسبت سے سدرہ سے اوپر جا کر دیکھنا کہ وحی کہاں سے آرہی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کے حکم پا ایسا ہی کیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سدرہ سے اوپر لامکانیت میں بھی رسول ﷺ کی ذات اقدس جلوہ افروز ہے اور وحی کا نزول آپﷺ کی ذات کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ھیرانی کی حالت میں حضور پاک ﷺ کی جانب زمین پر تشریف لائے اور فرمایا حضور عجیب اسرار ہے جسے میرا ذہن سمجھ نہیں پایا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں بھی آپ ﷺ ہیں اور یہاں بھی آپ ﷺ ہیں۔ وحی بھیجنے والے بھی آپ ﷺ اور وحی موصول کرنے والے بھی آپ ﷺ ہیں۔

          اس حدیث شریف میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے اوپر وحی کی حقیقتیں منکشف ہونے لگتی ہیں۔ اس حدیث میں وحی کا وہ اصل مرکز بتایا گیا  ہے جہاں سے وحی کائنات میں نازل ہوتی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ اسلام حضور  پاک ﷺ کی  اجازت اور نسبت کے ساتھ اس مرکز پر پہنچے جہاں سے وحی بھیجی جاتی ہے۔ ہم سب ان مراکز کی بات کرتے ہیں جہاں پر وحی موصول ہو رہی ہے

یعنی پیغمبران علیہ السلام کا دنیا میں موجود شعور اور جب دنیا سے اس شعور یا پیغمبروں کی ہستیاں پردہ کر گئیں تو ہم نے وھی کا سلسلہ منقطع ہونا جانتے ہیں۔ اصل میں وہ مرکز جہاں پر وحی آرہی ہے وہ حقیقت محمدی ﷺ کا عالم ہے۔ اس عالم کو روح بحیثیت روح محمدی ﷺ کے کام کر رہا ہے۔ یہ وہ روح اعظم ہے جس کا تعلق براہ راست  ذات باری تعالی ٰ کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات حقیقی اس روح اعظم یا حقیقت محمدی ﷺ کے پردے میں چھپی ہوئی ہے۔ یہی بات اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ اللہ پاک سے  کوئی بھی پردے کے بغیر یا فرشتے کے بغیر کلام نہیں کر سکتا نہ ہی دیکھ سکتا۔ اب یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ پاک کو اگر کوئی دیکھتا ہے یا اس کا کلام سنتا ہے تو وہ دیکھنا یا سننا حقیقت محمدی ﷺ کے حجاب میں ہے۔ یہ تجلی ذات کا وہ عالم ہے جس کو نور اول کہا گیا ہے اور جو ہمیشہ سے تھا۔ جب اللہ پاک نے چاہا کہ ظاہر ہو تو پھر یہ خزانہ ظاہر ہوا۔ کن کہنے سے تجلی ذات کے اندر  شعور متحرک ہوگیا اور یہی شعور اول ہے جو ذات کی پہچان کراتا ہے۔ اس شعور کی صورت محمد رسول اللہﷺ ہیں جو ذات احمد ﷺ ہیں۔  اس ذات احمدﷺ کی تعریف اللہ پاک کی جانب سے بیان کی گئی ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ ہر صورت و شعور  سے ماوراء ہستی ہیں مگر ذات خالق نے مخلوق کے سامنے اپنے آپ کو حقیقت محمدی ﷺ کے پردے میں ظاہر کرنا پسند فرمایا ہے یعنی حقیقی ذات پھر بھی پردے میں ہے۔ اسے کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ذات کی تجلی کو دیکھ کر اللہ کہہ دیتے ہیں جب کہ وہ ذات نہیں ہے بلکہ  ذات کا عکس ہے۔ مگر انسان کے حواس یہی معراج ہے کہ وہ ذات کے حجاب تک رسائی حاصل کرے۔ یہی بہت بڑی بات ہے۔آنکھ ہمیشہ ڈائی مینشن میں دیکھتی ہے بغیر ڈائی مینشن کے نہیں دیکھ سکتی۔ بینائی کا نور اللہ ہی کا ہے۔ اللہ ہی دیکھ رہا ہے اور اللہ ہی سن رہا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کی بینائی یا نظر تو بغیر ڈائی مینشن کے بھی دیکھتی ہے۔ یہی دیکھنا اللہ کا ذاتی علم ہے مگر کائنات بذات خود ایک مخصوص ڈائی مینشن کا نام ہے۔ اسمائے اس کی حدود مقرر ہے۔ ہم ان حدود کو ازل  ابد سے تعبیر کرتے ہیں جو اللہ کی قدرت کی حدود ہے۔ حقیقت محمدی ﷺ یا روح اعظم تجلی ذات کی وہ تشکیل ہے جس کے ذریعے اللہ کی نظر کائنات میں دیکھتی ہے اور کائنات میں سنتی ہے۔ گویا حقیقت محمدی ﷺ کا عالم اللہ پاک کے ان ذاتی علوم کا عالم ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے ارادے سے ظاہر فرمایا ہے۔ حقیقت محمدیﷺ کا ہر جلوہ اللہ پاک کے ذاتی علوم کا ایک عکس ہے چونکہ یہ تمام علوم اللہ پاک کی ذات کے ہیں اس لیے ان کی ان کی ہر  تجلی  کو ذات کی تجلی کہا گیا ہے اور ان تجلیات سے آگے حقیقی ذات تک انسان کے شعور کی رسائی نہیں ہے۔ اب ہم یوں کہہ سکتے ہیں حقیقت محمدیﷺ یا روح اعظم کی ظاہری صورت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے اور باطنی ذات باری تعالیٰ کی تجلی ہے ذات خالق جب بھی اپنے آپ کو کائنات میں ظاہر کرنا چاہتی ہے وہ حضور پاک ﷺ کے پردے میں ظاہر کرتی ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ کا درجہ اللہ سے قریب ترین بیان کیا گیا ہے۔ گویا حقیقت محمدی ﷺ ایک جانب ظہور الہٰی کا واسطہ بنی دوسری جانب ظہور کائنات کا واسطہ بنی۔ اللہ کی حقیقی پہچان روح اعظم کے ذریعے ہوئی

ہے۔ یہ وہ پہچان ہے جو اللہ کے ارادے میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا مقصد تھا۔ وحی اللہ کے کلام کی وہ تجلیات ہیں جو روح اعظم کے دہن مبارک سے آواز اور کلام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس دہن مبارک کے پردے میں تجلیات اللہ ہی کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر ان تجلیات کو بشری دماغ اور بشری حواس کے مطابق معنی و مفہوم پہنانا ضروری تھا تاکہ بشر یا آدم اللہ کے کلام کو سمجھ جائے اور اس پر عمل کر سکے۔ پس اس مقصد کے لیے اللہ تعالی ٰ نے اپنے ارادے سے ایک صورت بنائی اور اس اپنی تخلیق کو خود پسند فرمایا اور خود اس کی تعریف کی اور اس بشر کو اپنا پیغامبر اور قاسم بنایا اور خود اس پردے کے پیچھے رہ کر اپنے ارادے پر کام کرنے لگے۔ اب اصل ذات کیا ہے۔ کیسی ہے؟ یہ تو یا خود اللہ جانتا ہے اور یا پھر حقیقت محمد رسول اللہ صلعم کی ذات مبارک جانتی ہے۔ انسان کی زیادہ سے زیادہ رسائی تو بس اسی حقیقت محمدی ﷺ کے شعور تک ہے۔ وہ بھی اتنی کہ جو کچھ یہ شعور اپنے ارادے سے بتانا چاہے اور بس۔ اسی حقیقت کو اللہ پاک بیان فرماتے ہیں کہ وہ تو کچھ بولتے ہی نہیں سوائے وحی کے۔ یہ حقیقت محمدی ﷺ کے شعور کا تذکرہ ہے کہ اس کا ہر کلام اللہ کے کلام کی تجلیات ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کے اوپر دنیا میں یہی شعور غالب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر کلام اللہ پاک نے وحی میں شمار کیا ہے۔ حضور پاک ﷺ کے ارادے پر اللہ کا ارادہ غالب تھا اور ہے۔

          حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں کہ جو اطلاعات ہم تک پہنچتی ہیں ہم ان اطلاعات کو اپنے ارادے سے معانی و مفہوم پہناتے ہیں ایک ہزار میں سے نو سو نناوے حصے تو اس اطلاع کو ہمارا ذہن رد کر دیتا ہے اور ایک حصہ فی ہزار کو اپنے حافظہ میں توڑ مروڑ کے رکھ دیتا ہے یعنی ہم اپنے ذہن سے ان اطلاعات کو زیادہ تر غلط معنی پہناتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تو زمین کی اکثریت کے پیچھے چلے تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے یعنی ان اطلاعات میں غلط معنی پہنا کر انہیں کچھ کا کچھ  بنا دیں گے۔ اب جس آدمی کا شعور اس مادی لیول سے ترقی کر کے روشنی  نور کے لیول سے گزرتا ہوا تجلی کے لیول تک پہنچ جاتا ہے تو وہ ان اطلاعات کو بالکل وہی معنی پہناتا ہے جو اللہ کے ارادے میں ہیں۔ انبیاء علیہ السلام چونکہ شعور کے اس درجے پر پہنچے ہوئے تھے اسی لیے وہ اس کے اندر اللہ کے ارادے کے مطابق معنی پہناتے رہے۔ کشف ، الہام اور القاء وحی کی طرزیں ہیں۔ اصلی وحی جو پیغمبروں کے ساتھ منسوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا ارادہ پیغمبروں کے ارادے پر اپنا تصرف کر کے جو کچھ انہیں سکھانا چاہتے ہین، سکھا دیتے ہیں۔ وحی کا یہ سلسلہ براہ راست ہے جو نبوت کے بعد اب دنیا سے منقطع ہو چکا ہے۔ اس کی ذیلی صورت یہ ہے کہ جو کچھ پیغمبروں کو اللہ نے سکھایا اپنے خصوصی تصرف کے ساتھ۔ پیغمبروں کے ذریعے سے وحی کے یہ انوارات جو علوم لدنی کہلاتے ہیں۔ یہ انوارات اولیاؤں اور روحانی افراد کے اندر منتقل ہوتے ہیں۔ یہ تینوں درجات پیغمبروں کے تصرف کے درجات ہیں۔ اس کا تذکرہ حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ پر وحی کرنے کے ذکر میں آیا ہے یعنی حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ پر بھیجی جانے والی وحی پیغمبر کا تصرف یا ارادہ ہے۔ جس کا فاعل حقیقی ظاہر ہے کہ اللہ ہی کا ارادہ ہے۔ اس کے بعد اللہ کے ارادے پر پیغمبران علیہ السلام کی ہستیاں حرکت میں آکر عملی طور اللہ کے ارادے پر کام کرتی ہیں۔ یہ عالم امر ہے۔ عالم امر سے فرداً فرداً ہر مخلوق کو کائنات کے ذرے ذرے کے لیے احکامات نازل ہوتے ہیں۔ یہ احکامات روح کی آواز کی لہریں ہیں جس پر ساری کائنات کی روحیں حرکت میں آجاتی ہیں اور حکم خداوندی پر مستعد ہو جاتی ہیں۔ یہ وحی ہے جس کا تذکرہ شہد کی مکھی کے ذکر میں آیا ہے۔وحی، کشف، الہام اور القاء کا ایک ہی قانون اور اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ وحی بھیجنے والا اپنے ارادے کی قوت سے وحی وصول کرنے والے کے ارادے کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے۔ اس طرح وصول کرنے والے کا ارادہ مغلوب ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ارادے سے سوچ نہیں سکتا۔ پھر جو کچھ بھیجنے والا ارادہ کرتا ہے وہ اطلاع اور علم اس کے قلب میں منتقل کر دیتا ہے۔ چونکہ دوسرے آدمی کا ارادہ تو مغلوب ہے وہ معنی پہنا نہیں سکتا اس وجہ سے غالب شدہ ارادہ ہی اسے معنی پہناتا ہے۔ چونکہ بھیجنے والا  بھی وہی ہے تو معنی بھی وہی درست ہوتے ہیں جو وہ پہناتا ہے۔

          عالم امر سے فرداً فرداً جو احکامات روحوں کو نازل ہورہے ہیں وہ ہر روح کے لیے اس کی زندگی کا ایک دائرہ ہے۔ زندگی کا یہ ریکارڈ ہر ذی روح کے اندر ہوتا ہے۔ اسی ریکارڈسے زندگی کو حرکت کی انرجی اور حکم ملتا ہے۔ یہ حکم خود اپنی روح کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی نے خود اپنی روح کے ذریعے اللہ کا امر اور حکم موصول کیا۔ اللہ نے اسے بھی وحی اس لیے کہا کہ روح کے اندر غیب کا ارادہ کام کر رہا ہے اور غیب میں پیغمبروں کا اور اللہ کا ارداہ کام کرتا ہے۔ یعنی شہد کی مکھی اپنے نفس کےارادے پر نہیں بلکہ اپنی روح کے ارادے پر کام کرتی ہے۔ عالم امر سے عالم ناسوت کے درمیان وحی کی جو ترسیل ہے وہ آواز کی یا ساؤنڈ کی لہروں پر ہے۔ یہ وحی کی ذیلی طرزیں ہیں جسے کشف الہام اور القاء کہا ہے اور عالم امر عام سے آگے عالم امر خاص اور تجلیات کے عالمین میں وحی کی ترسیل  پیغمبروں کے تفکر کی لہروں پر ہے اور تجلی ذات کے عالمین میں وحی کی ترسیل اللہ تعالیٰ کے تفکر یا انا کی لہروں پر ہے۔ اللہ پاک کی انا کی لہروں کا شعور تدلیٰ ہے جو حضور پاک ﷺ کو معراج میں حاصل ہوا۔ اس شعور کے ساتھ انہوں نے اللہ کو اپنی ذات سے  قریب ترین دیکھا۔ وحی کی یہی حقیقت انسانی شعور کی انتہائی بلندی ہے۔


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی