Topics

رزق حلال

 

۱۔       حلال روزی نصف ایمان ہے۔ محنت سے کمائی ہوئی روزی اللہ کے نزدیک بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔

۲۔       حلال رزق  میں اللہ پاک برکت ڈالتا ہے اور کئی چیزوں کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ آدمی کے گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کیسے پوری ہوئی؟

۳۔       اللہ تعالیٰ حلال کو استعمال کرنے اور حرام سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس سے پتہ چلا کہ حلال وہ ہے جس کے استعمال میں اللہ کی رضا شامل ہے اور حرام وہ ہے جو اس کے برعکس ہے۔

۴۔       اللہ  پاک قرآن میں فرماتے ہیں کہ حلال اور طیب چیزیں کھاؤ۔ رزق حلال احسن عبادت ہے۔ رزق حلال سے صالح خون بنتا ہے اور مثبت طرزِ فکر  بنتی ہے۔ رزق حلال کے ثمرات آئندہ نسلوں تک پہنچتے ہیں۔

۵۔       رزق حلال کی کاوش اور تگ و دو سے معاشی ، معاشرتی اور کائناتی حرکت جاری و ساری رہتی ہے۔

۶۔       رزق حلال کما کر فیملی کو سپورٹ کرنے میں اللہ کی صفت ربوبیت کا استعمال ہے۔

۷۔       رزق حلال کا استعمال احکام الہٰی کا عملی مظاہرہ ہے۔ رزق حلال کے ذریعے قرب خدا نصیب ہوتا ہے۔ حضور بابا جی فرماتے ہیں۔ حرام رزق کھانے والے کے اندر انوار جذب نہیں ہوتے۔

۸۔       حلال روزی کا استعمال بندے کے اندر اللہ کی طرزِ فکر پیدا کرتا ہے۔

۹۔       حلال روزی کے استعمال سے ذہن اور دل اللہ پاک کی فرمانبرداری کی جانب راغب ہوتا ہے۔

۱۰۔    آدمی جو کچھ کھاتا ہے اس خون بنتا ہے خون بدن میں داخل ہو کر جس طرح عضلات بناتا ہے اسی طرح دماغ اور دل میں داخل ہو کر خیالات اور حواس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ حرام روزی سے جو خون بنتا ہے دل اور دماغ اس خون سے منفی اثرات جذب کرتے ہیں جس کی وجہ سے طرزِ فکر میں منفیت اور نافرمانی پیدا ہو جاتی ہے۔

۱۱۔    جس طرح انسان  کی بنائی ہوئی موٹر میں مخصوص انرجی ڈالی جاتی ہے جیسے ڈیزل کی موٹر میں میں ڈیزل ہی ڈالا جاتا ہے اس طرح پیٹرول سے چلنے والی موٹر میں اسی قسم کا پیٹرول ڈالا جاتا ہے جو موٹر بنانے والے نے اس کے لیے منتخب کیا ہے۔ انسان بھی اللہ کی بنائی ہوئی مشین ہے اس کے اندر بھی وہی انرجی ڈالی جائے گی جو بنانے والے نے اس کے لیے منتخب کی ہے اور مخصوص کی ہے۔ یہ مخصوص انرجی حلال رزق سے فراہم ہوتی ہے۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر ۱۔  رزق حلال عین عبادت ہے، تشریح کریں۔

سوال نمبر۲۔   حرام روزی کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

سوال نمبر۳۔   عذاب اور ثواب سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر۴۔   جو لوگ سود کا کاروبار کرتے ہیں وہ اللہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اس پر روشنی ڈالیں۔

٭٭٭٭٭

          انسان کی زندگی میں رزق حلال کو بڑا دخل ہے۔ رزق حلال کے اثرات اور ثمرات آدمی اپنی ہی زندگی میں بہت جلد دیکھ لیتا ہے۔آئے دن ہمارے سامنے ایسی مثالیں ایسے واقعات اور ایسے مشاہدات اتے رہتے ہیں کہ جس میں رزق حلال یا حرام کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے، گھر تباہ ہو جاتے ہیں، جانیں تلف ہو جاتی ہیں، موذی بیماریاں لگ جاتی ہیں، غرضیکہ حرام کی دولت سے آدمی اپنا سکون کھو بیٹھتا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے جب کہ کھانا تو ایک ہی پیٹ میں جاتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ کو تمہاری قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہاری نیت پہنچتی ہے۔ ان آیات میں اللہ پاک نے عمل کے ریکارڈ کا قانون بیان کیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ ہر عمل اور ہر حرکت کے دو رخ ہیں۔ ہم ان دو رخوں کو دو ریکارڈ کہتے ہیں۔ ایک ریکارڈ عمل یا حرکت کی ظاہری صورت ہے۔ دوسرا ریکارڈ عمل کی باطنی صورت ہے۔ ظاہری اور مادی صورت میں ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے قربانی کی مثال دی ہے تو قربانی کا ارادہ جب کیا جائے گا اس ارادے کی تکمیل کے لیے جانور کی ضرورت ہے اور بھی چیزیں جو اس سلسلے میں درکار ہیں وہ تمام وسائل کے زمرے میں شامل ہیں۔ جس طرح قربانی کا عمل ظاہر میں انجام کو پہنچا اور قربانی ہو گئی، جانور ذبح ہوا، خون بہا اس کا گوشت کھایا گیا بالکل اسی طرح باطنی رخ میں بھی قربانی کے عمل کی فلمبندی ہوتی ہے۔ یہ فلمبندی ظاہری  حرکات کی نہیں ہے۔ ظاہری حرکات کی فلمبندی تو عمل کا عملی مظاہرہ ہے بلکہ یہ فلمبندی قربانی کے عمل میں دلی کیفیات کی ہے کہ قربانی کا ارادہ کرتے وقت اور قربانی کے عمل کے اختتام تک دل کی جو جو کیفیات تھیں، ان کی الگ فلم بن جاتی ہے اس طرح ہر عمل کے دو  ریکارڈ بنتے ہیں جو ریکارڈ ظاہری ہوتا مرنے کے بعد  ظاہری جسم کت ساتھ ساتھ ریکارڈ بھی تلف ہو جاتا ہے یعنی مرنے کے بعد یہ جانور گوشت پوست کی حیثیت سے آپ کو نہیں ملے گا کیونکہ مرنے کے بعد جس طرح ہمارا گوشت پوست کا جسم مٹی کے ذرات میں منتقل ہو جاتا ہے اسی طرح دنیا کی ہر شئے کا جسم مٹی کے ذرات میں منتقل ہوجاتا ہے اور روشنیوں کے جسم کے ساتھ اعراف میں داخل ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر عمل میں دلی کیفیات جس کو اللہ پاک نے نیت کہا ہےیہ روشنیوں کے جسم یا اعراف کے جسم مثالی کا عمل ہے۔ اس کا مطلب

ہر عمل جو آدمی کرتا ہے۔ یہ دو جسموں کے ساتھ کرتا ہے ایک مادی جسم کے ساتھ اور ایک روشنیوں کے جسم مثالی کے ساتھ، مادی جسم کے ساتھ جو کرتا ہے وہ مادی جسم کی حرکت ہے۔ مادی جسم کے فنا ہونے کے بعد یہ حرکت بھی ختم ہو جاتی ہے مگر روشنیوں کے جسم کے ساتھ جو حرکت کرتا ہے یہ حرکت روشنیوں کے جسم باقی رہتی ہے حافظے کا ریکارڈ بن کر۔ مرنے کے بعد جسم مثالی اپنے حافظے کے ریکارڈ کو دہراتا ہےاور اس سے وہی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو اس ریکارڈ میں فیڈ ہوتی ہیں مگر چونکہ اب مرنے کے بعد ہم خود بحیثیت جسم مثالی کے زندگی گزارتے ہیں جس کی وجہ سے عمل کی ہر حرکت روشنیوں کے جسم کے حواس بن جاتی ہے۔ جس طرح دنیا میں عمل کی ہر حرکت مادی جسم کے حواس بنتی ہے اور ہم قربانی کا جانور ذبح بھی کرتے ہیں۔ اس کے گوشت کا مزا بھی چکھتے ہیں۔ دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں، خوش ہوتے ہیں۔ اس پورے عمل میں جو کچھ دلی کیفیات ہیں یہ جسم مثالی کا شعور ہے کہ اس نے اس عمل کو کس نظر سے دیکھا۔ اب جس طرح اس نے دیکھا بالکل اسی طرح اعراف میں وہ اس عمل کی کاپی کرتا ہے اور ہم روشنیوں کے جسم کے احساس کے ساتھ قربانی کے عمل کو محسوس کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ جو کچھ دنیا میں کرتا ہے ہر عمل دو رخوں  میں اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ ایک رخ میں تو ہم مادی جسم کے ساتھ دیکھ لیتے ہیں۔ مرنے کے بعد دوسرے رخ میں روشنیوں کے جسم کے ساتھ دیکھ لیں گے۔ تب کہیں جا کر ایک عمل انجام پائے گا مگر جس طرح خوشی اور غم  یہاں محسوس کیا جاتا ہے وہاں بھی خوشی اور غم کی کیفیات ہوں گی چونکہ مادی جسم سے ہزاروں گنا روشنی کے جسم کا احساس ہے یہی وجہ ہے کہ اعمال کو درست  رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار مادے سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ مادے اور روشنی کی رفتار سے مراد ذہن کی اور حواس کی رفتار ہے۔ اس رفتار کو ہم یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر مادی جسم نے حلال کا ایک لقمہ کھایا تو روشنی  کے جسم نے حلال کے دس ہزار یا اس سے زیادہ لقمے کھائے۔ روشنیوں کے جسم مثالی کی حرکت مادی جسم سے دس ہزار گنا زیادہ سے لے کر ساٹھ ہزار گنا زیادہ تک ہے۔ اب اسی حساب سے ہم رزق حرام کا تصور کرتے ہیں۔ مادی جسم اگر ایک لقمہ حرام کا کھاتا ہے تو جسم مثالی کم از کم دس ہزار لقمے حرام  کے کھا جاتا ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ غذا سے خون بنتا ہے اور خون سے زندگی کی حرکت جسمانی طور پر جاری رہتی ہے۔ حرام اور حلال می فرق یہ ہے کہ  حرام میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہے اور حلال میں اللہ کی رضا شامل ہے۔ اب صورتحال یہ بنی کہ جب ہم حلال کا ایک لقمہ کھاتے ہیں تو اللہ خوش ہو کر کہتا ہے دیکھو میرا بندہ میرے حکم سے کھا رہا ہے جیسا  میں نے اس سے کہا ویسا کر رہا ہے اور جب  حرام کا ایک لقمہ  کھاتا ہے تو اللہ بندے سے سخت نا خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میرا نافرمان ہے۔ میں نے اسے منع کیا پھر بھی کھا لیا ہے۔ سوال یہ پے کہ اللہ ہمیں کیوں اجازت دیتا ہے یا منع کرتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے تھوڑی دیر کو آپ اپنے آپ کو ماں باپ کے روپ میں دیکھیں۔ ویسے بھی آپ میں سے اکثر ماں یا باپ ہیں۔ اب غور کریں کہ آپ اپنے بچے کو کسی چیز سے کیوں روکتے ہیں اور کسی چیز کی اجازت کیوں دیتے ہیں۔ آپ یہی کہیں گے کہ بچے کی بھلائی کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اللہ بھی تو ماں اور باپ کی جگہ ہے اس نے سب کو پیدا کیا ہے پھر اگر وہ روکتا ہے یا اجازت دیتا ہے تو اس پر الزام کیوں ہےنافرمان بچہ سرکش ہوتا ہے اور سرکشی کی وجہ سے نافرمانی کا نقصان اٹھاتا ہے۔ مگر بچے کے دکھ پر ماں باپ بھی تو دکھ اٹھاتے ہیں۔ اگرچہ بچے کی سرکشی میں ان  کا دخل نہیں ہوتا وہ تو پہلے ہی بچے کو تنبیہ کر چکے ہوتے ہیں پھر دکھ کیوں اٹھاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ماں باپ اور بچے کے درمیان ایک تعلق ہے جس طرح ماں کے پیٹ میں بچے کا تعلق ماں کے ساتھ ہوتا ہے اور ناف کی نالی  کےذریعے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوتے ہیں کہ ماں جو کچھ کھاتی ہے اس نالی کے ذریعے سے بچے کو خوراک پہنچتی ہے۔ اسی طرح بچہ پیدا ہونے کے بعد جسمانی طور پر تو ناف کا یہ تعلق کٹ جاتا ہے مگر جسم مثالی کے ساتھ بچے کے جسم مثالی کا رشتہ روشنی کے تار سے بندھا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کے جسم مثالی سے اس کے دل کی تمام کیفیات روشنی کی صورت میں ماں باپ کو اور ماں باپ کی دلی کیفیات روشنی کی صورت میں بچے کو منتقل ہوتی رہتی ہیں اور  دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو اس ربط کے ذریعے محسوس کرتے ہیں۔ یہی صوتحال اللہ اور اس کی مخلوق کی ہے کہ تمام مخلوق اللہ کے ساتھ انا کے رشتے سے منسلک ہے۔ اللہ  کہتا ہے یہ میری تخلیق ہے۔ جب بندہ اللہ کی رضا کا کام کرتا ہے تو اللہ خوش ہو کر کہتا ہے یہ میری تخلیق ہے۔ جب بندہ اللہ کی رضا کا کام کرتا ہے تو اللہ خوش ہو کر کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے جس نے ایسا اچھا کام کیا ہے۔ جب سرکشی کرتا ہے تب ناراض بھی ہوتا  ہے مگر اس کی ناراضگی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ سرکشی کی وجہ سے بندے کو نقصان پہنچتا ہے۔ جیسے بچہ منع کرنے کے باوجود اپنا ہاتھ جلا بیٹھے۔ اب ماں باپ اسے برا بھلا کہیں گے تو اس وجہ سے  کہ بچے  کا ہاتھ جل گیا۔ اس کے ہاتھ جلنے کی تکلیف ماں باپ کو ہوئی۔  اللہ کی ناراضگی بھی بندے کی تکلیف کی وجہ سے ہے ۔ اللہ کا بندے کے عمل سے نہ کچھ سنورتا ہے نہ بگڑتا ہے۔ بس انا کا تعلق اللہ اور مخلوق کے درمیان مخبری کا باعث بنتا ہے کہ اللہ مخلوق کے ہر عمل اور ہر حرکت سے باخبر رہتا ہےاور انا کا تعلق کبھی ختم نہیں ہو سکتا اس لیے کہ تمام مخلوق کا خالق اللہ ہی ہے۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔

          حضور پاکﷺ کا فرمان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسافر ہے جس کا سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے چہرہ گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے اور کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ سے کہتا ہے۔ یا اللہ یا اللہ۔ حالنکہ اس کا کھانا پینا پہننا سب حرام مال سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا کیسے قبول کرے۔ حالانکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ مسافر کی دعا اللہ قبول کرتا ہے۔

          حال ہی میں امریکہ میں ایک سروے کیا گیا تھا جو خوراک اور طرزِ فکر کے بارے میں تھا جس کے نتیجہ میں یہ رپورٹ آئی کہ  Cheapاور Junk فوڈ کھانے والوں کی سوچ بھی ایسی ہی گھٹیا ہوتی ہے جب کہ اچھی خوراک مثلاً پھل ، سبزیاں گوشت وغیرہ کھانے والوں کی سوچ  بھی اچھی ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ طرزِ فکر کا رزق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ حضور پاکﷺ کی حدیث کے

حوالے  سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ جب مسافر نے حرام  مال کھایا اور استعمال کیا تو اس کی سوچ اور طرزِ فکر منفی ہوگئی جو شیطانی طرزِ فکر ہے تو اب رحمٰن اس کی کیسے سنے گا۔

          حضرت علی ؓکا ایک واقعہ ہے کہ آپ نے اپنے غلام کو بازار میں شہد لینے بھیجا تو واپسی پر یہ دیکھا کہ اس نے ایک تہائی مقدار یا کم و بیش اس میں سے چاٹ لی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اتنا ہی حصہ میں نے تمہارے لیے ذہن میں سوچا تھا کہ تم شہد لاؤ  تو میں تمہاری نذر کروں گا مگر افسوس کہ تم نے اسے ناجائز طریقے سے حاصل کیا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر شئے کی مقداریں مقرر کی ہیں۔ رزق بھی  اللہ پاک نے ہر بندے کے لیے مخصوص مقداروں میں مقرر کیا ہے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے مقرر کر دیا ہے۔ البتہ اس کے حصول کے دو طریقے ہیں حلال یا حرام۔

          مزید برآں حجاج بن یوسف جو کہ ایک انتہائی ظالم و جابر حکمران تھا اور جس کے بارے میں حضرت   عمر ؓؓبن عبدالعزیز شانی ؓنے فرمایا تھا کہ تمام امتوں کے ظالم و جابر ایک جگہ جمع کیے جائیں تو اس امت کا یہ ظالم سب سے نمبر لے جائے گا۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ بغداد میں ایک فقراء کا فروہ تھا جب لوگ کسی ظالم و جابر حکمران سے تنگ پڑ جاتے تو ان کے پاس جا کر ان سے دعا کرواتے۔ وہ فقراء دعا کرتے۔ ان کی دعاؤں سے یا تو اس جابر حکمراں کی موت  واقع ہو جاتی یا حکومت بدل جاتی۔ حجاج بن یوسف نے سب سے پہلے ان کی دعوت کی اور دعوت انہیں کھلانے کے بعد کہنے لگا کہ حرا م مال کھانے والے کی دعا میں کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ میں نے تم کو حرام مال کھلوا دیا ہے جاؤ اب جو دعا میرے خلاف کرنی ہے کر لو اس کا کچھ اثر نہ ہو گا اور ایسا ہی ہوا کہ ان درویشوں کی ظلم کے خلاف بددعا کا کچھ اثر حجاج پر اور اس کی  حکومت پر نہ ہوا اور ہو ظلم و ستم کرتا رہا یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔

          حجاج کے بارے میں آتا ہے کہ اس نے بچپن میں بھیڑیے کا دودھ پیا تھا۔ لہذا ظالمانہ طبیعت کے بارے میں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بھیڑئیے کا دودھ اس کے خون میں شامل ہوجانے کی وجہ سے اس کے اندر  بھیڑیئے کے خصائل پیدا ہو گئے۔ اسکاٹ لینڈ میں ایک ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں کہ سو ڈگری یعنی نقطہ ابال پر ابالنے سے بھی اس کے اثرات ختم نہیں ہوتے اور یہ جراثیم نہیں مرتے۔ اب خنزیر کھانے والی قوموں میں ہم اس کے خصائل کا مظاہرہ برسر عام دیکھتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ حرام خوراک کا تعلق براہ راست ہماری طرزِ فکر اور اعمال پر پڑتا ہے۔ہم جو غذا کھاتے ہیں وہ دو طرح سے ہمارا جزوبدن بنتی ہے۔ ایک تو مادی جسم اس سے توانائی حاصل کرتا ہے اور عضلات وغیرہ بنتے ہیں۔ دوسرا یہ غذا روشنی بن کر ہمارے روشنیوں کے جسم مثالی کے اندر جذب ہو جاتی ہے۔ یہ روشنیاں جسم مثالی کی غذا بن جاتی ہے۔ اللہ کی نافرمانی کا احساس روشنیوں کو کثیف کر دیتا ہے۔ یہ کثیف روشنیاں جسم مثالی کو بیمار کر دیتی ہیں۔ اسی کثافت کا اثر جسم پر بھی پڑتا ہے اور آدمی نقصان اٹھاتا ہے۔ حرام رزق کھاتے وقت یہ خیال کرنا چاہیے کہ ہم صرف اپنے پیٹ  میں ہی حرام مال نہیں ڈال رہے بلکہ مرنے کے بعد والے جسم کے اندر بھی کثافتیں اور غلاظتیں انڈیل رہے ہیں اور اگلی زندگی میں بھی اپنے آپ کو بیمار بنا رہے ہیں۔رزق کا مطلب صرف کھانا پینا ہی نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام وسائل رزق ہیں۔ رزق حلال کا مطلب یہ ہے کہ بندہ زندگی کے تمام وسائل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس کے مقرر کردہ اصولوں کے ذریعے حاصل کر لے تاکہ اسے اس زندگی میں بھی اور آئندہ زندگی میں بھی اللہ کی خوشنودی حاصل رہے۔ آمین۔

٭٭٭٭٭

 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی