Topics
۱۔ علم کے بغیر
عمل میں نقص ہو گا اس لئے علم حاصل کرنے کرنے کا شوق اور لگن نہایت ہی ضروری ہے۔
۲۔ علم حاصل
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ علم میں انسان محو ہو جائے۔ محویت شوق کامیابی کی علامت ہے۔
۳۔ علم کی لگن
روح کی پیاس کو بجھاتی ہے ۔ روح کی پیاس
بجھنے سے دماغی سکون ملتا ہے۔ علم حاصل کرنے سے آدمی اللہ تعالیٰ کا قرب
حاصل کر لیتا ہے۔
۴۔ حصول علم کی
لگن انسان کو اچھائی اور برائی میں تمیز
کرنا سکھاتی ہے۔
۵۔ علم نور
ہے۔ لاعلمی اندھیرا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ میں آسمانوں اور زمین کا نور ہوں۔ حدیث
شریف میں حضور پاک ﷺ نے علم کی اہمیت اس بات سے واضح کی ہے کہ ” علم حاصل کرو خواہ
تمہیں چین جانا پڑے۔“ علم سے انسان کا قلب روشن ہو جاتا ہے۔ خصوصاً علم حضوری سے
انسان کے قلب میں فراست پیدا ہو جاتی ہے۔
۶۔ اللہ علیم
ہے۔ سب علم اللہ ہی کی جانب سے ہے۔ روحانی آدمی دنیا کی ہر شئے کو اللہ کے علم کا
مظاہرہ سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنے کلام میں تذکرہ فرمایا ہے کہ میری
نشانیوں پر غور کرو۔ روحانی آدمی حصول علم لگن رکھتے ہوئے اپنا وقت غور و فکر میں
گزارتا ہے۔ حدیث شریف ہے۔
Knowledge is the lost property of Momen. He may take it
where he find it
۷۔ علم روحانی
تقاضہ ہے۔ حصول علم کا شوق وہ کشش ہے جس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
۸۔ حصول علم کی
لگن انسان کو اللہ تعالیٰ کے تفکر سے قریب کرتی ہے۔ کائنات کی تخلیق میں خالق کا
مخلوق کے درمیان اپنی صفات کے ساتھ پہچانے جانے کا تفکر کام کر رہا ہے۔ علم کے
راستے پر آدمی کا ہر قدم اللہ کے تفکر کی روشنی میں خالق کی پہچان کراتا ہے۔
۹۔ شعور ایک
خلاء ہے اور اس خلاء کو علم کی روشنی سے بھرا جاتا ہے۔ کائنات مختلف روشنیوں کا
مجموعہ ہے۔ حصول علم کی لگن شعور کی خلاؤں کو روشنیوں سے پر کر دیتی ہے۔
۱۰۔ Without
knowledge man is always in dark. Knowledge awakens the darkness.
۱۱۔ حصول علم کی
لگن ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کے ذہن میں تجسس سے پیدا ہوتا ہے۔ اس تجسس کی تحریک
سے آدمی کے اندر علم کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ روحانی اور مادی علوم دونوں
آدمی کے شعور پر وارد ہوتے ہیں۔
۱۲۔ مادی علم
انسان کی شخصیت کو تراشتا ہے اور روحانی علم انسان کے شعور کی اسپیڈ کو بڑھاتا ہے
تاکہ وہ غیب سے ملنے والی اطلاعات کو صحیح معنی پہنا سکے۔
۱۳۔ علم روح کی غذا ہے۔ غذا انرجی ہے۔ بغیر انرجی کے حرکت ممکن نہیں ہے۔ روح کی حرکت کو جاری و
ساری رکھنے کے لیے حصول علم کی لگن ضروری ہے۔
۱۴۔ حصول علم کی
لگن سے روحانی آدمی میں صفت علیم کا عکس جھلکنے لگتا ہے۔
۱۵۔ انسان کا مقصد
تخلیق اللہ کو پہچاننا ہے اور بقول شیخ سعدی ؒ ” بے علم خدا ناتواں را شناخت۔“
یعنی بغیر علم کے آدمی خدا کو نہیں پہچان سکتا اور بغیر لگن کے علم حاصل نہیں
ہوتا۔
۱۶۔ Knowledge
is like a thirst that never quench Then
more you drink the thirstier you get.
۱۷۔ روح کا دوسرا
نام ذوق ہے۔ ذوق ایک ایسی صفت ہے جو ہر وقت تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔
۱۸۔ علم حاصل کرنے
سے ہم آسمانی Inspiration کو پایہ تکمیل تک پہنچا
سکتے ہیں۔
۱۹۔ حصول علم کی
لگن آدمی کے اندر تعمیری صلاحیتیں بیدار کرتی ہیں۔
۲۰۔ علم آدم کا
ورثہ ہے۔ حصول علم کی لگن اس ورثہ کو حاصل
کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
۲۱۔ اللہ اور بندے
کا درمیانی ربط علم ہے۔ حصول علم کی لگن اس ربط کو مستحکم کرتی ہے۔
۲۲۔ روحانی علوم
حاصل کرنے کے لئے حصول علم کی لگن آدمی کو حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ اللہ پاک
اپنے کلام میں فرماتے ہیں۔ ” اللہ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔“ اس ایت
میں انسان کے مادی اور شعوری علوم کی نفی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حقیقی
علوم غیب کے علوم ہیں جو روح کو حاصل ہیں۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر ۱۔ علم
حصولی اور علم حضوری میں کیا فرق ہے؟
سوال نمبر۲۔ علم
حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر ۳۔ حصول
علم سے اللہ کا قرب کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟
سوال۴۔ تقاضے
کہاں پیدا ہوتے ہیں؟
سوال نمبر۵۔ لاعلمی
کے کیا کیا نقصانات ہیں؟
انسان تقاضوں کا مجموعہ ہے۔ یہ تقاضے روح کے اندر
پیدا ہوتے ہیں۔اللہ کے امر کی تجلیات روح کے ذریعے سے کائنات میں اپنا عمل کرتی
ہیں۔ روح کا دماغ یا شعور اللہ
کے امر کی روشنی کو جذب کرتا ہےاور اس روشنی کے ذریعے اللہ کا امر روح کے اندر
منتقل ہوجاتاہے۔امرکا ارادہ جو کچھ کائنات میں کرنا چاہتا ہے۔روح کے اندر اسی کام
کا تقاضہ پیدا ہوجاتاہےاور روح فوراً ہی اس تقاضےپر عمل شروع کردیتی ہے۔ روح کا
تقاضہ جب شعور میں منتقل ہوتا ہےتو شعور ی دماغ کے اندر اس کا خیال پیدا ہوجاتا
ہےاور پھر جسم اس کام کے لئے مستعد ہوجاتاہے۔اس طرح انسان کی روح اور جسم دونوں
اللہ کے امرپر حرکت کرتےہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ روح اس بات سے واقف ہے کہ اس کے
اندر پیداہونے والا ہرتقاضہ اللہ کی جانب سے ہے۔ مگر جسم یا مادی شعور کےلئےیہ بات
سیکھنی پڑتی ہے اور پھر اس پریقین کرنا پڑتا ہےاور پھر وہ عمل کرتا ہے۔ شعور کے
لئےہر تقاضا نیا ہے۔ کیونکہ وہ علم سے خالی ہے۔ جب اس خلاء میں روشنی آتی ہےتو وہ
اسے پہچاننے میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعور سے باربارغلطی ہوجاتی ہے۔ یہ غلطی
لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب شعور علم کی روشنی کو جذب کرلیتا ہے تو پھر اس
سے غلطی نہیں ہوتی۔ اگر پھر بھی غلطی ہوتی ہے تو اس میں شعور کا ارادہ شامل ہوتا
ہے۔ روح غلطی کی مرتکب اس لئے نہیں ہوتی کہ روح کو اللہ نے علوم عطا کئے ہیں مگر
شعور کو خلاء کہا ہے اور یہ علم سے خالی ہونے کی وجہ سے کمزور ہے ۔پس شعور کی
کمزوری دور کرنے کے لئے اور اسے غلطیوں سے پاک کرنے کے لئےاسے بھی وہی توانائی کی
ضرورت ہے ہے جسےحاصل کرکے روح توانا اور
غلطیوں سے پاک ہے اور یہ توانائی روح کا علم ہے۔ جو قدرت نے اس کے اندر
رکھاہے۔گویا علم ہی وہ صفت ہے جس کے ذریعے شعوراپنی روح سے قریب ہوسکتا ہے۔ ہمارے
اندر حرکت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ تقاضہ نہ ابھرے اور لگن پیدا نہ
ہو۔ جب تک بندے کے اندر حصول علم کی لگن نہ ہوگی وہ علم سیکھنے پر آمادہ نہ
ہوگا۔اس طرح اگر بھوک کا تقاضہ پیدا نہ ہوتو کھانا کھانے پر آمادہ نہ ہوگا اور
حرکت رک جائے گی۔حرکت ہی کائنات ہے جو تسلسل کے ساتھ ازل سے ابد تک جاری ہے۔ ہمارے
اندر ایک صلاحیت کام کررہی ہے جو تجسس کہلاتی ہے۔تجسس ہی آدمی کوعلم سیکھنے پر
آمادہ کرتا ہے۔تجسس اسم محیط کی روشنی ہے۔جب یہ روشنی شعور کو چاروں طرف سے
گھیرلیتی ہےتو روح کی جو فکر بھی شعور میں منتقل ہوتی ہے شعور کے اندر اس کے علوم
سیکھنے کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے۔
ہر آدمی یا عورت جو
دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اس کی روح کے ذمے یہ کام اللہ کی جانب سے ہے کہ وہ شعور کے
اندر اپنے علم کی روشنیاں منتقل کرے۔ ہر کام کے اندر اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت
ضرور موجود ہے۔ ایک روحانی شعور ہر کام کے اندر اس کی حکمتوں کو تلاش کرتا ہے تاکہ
اللہ کی قدرتوں کو بہتر سے بہتر طور جان سکے۔آدم کی روح کو پیدا کرکے اسے کائناتی
علم اور اللہ پاک کی ذات و صفات کےعلوم عطا کرنے کا مقصد ہی یہ دکھائی دیتاہے کہ
روح کو پہلے تیار کردیا اور اسے وہ تمام علوم و صلاحیتیں عطا کردیں جن کے ذریعے
کام لینا مقصود تھا۔ اس کے بعد اسے کام کرنے کا حکم اور اجازت عطا ہوئی ۔ اللہ کے
حکم پر جب روح کام کرتی ہے تو وہی کام کرتی ہے جس کا اسے حکم ملا ہے اور جس کام کی
اس کے اندر صلاحیت موجود ہے۔ خود اپنی صلاحیتوں کوجاننے کے لئے اور اپنی کارکردگی
کوپہچاننےکے لئے اس دنیا میں سب سے پہلے شعور پیدا ہوتا ہے اور شعوری حواس پیدا
ہوتے ہیں تاکہ آدم کی روح یا آدم کی ذات اپنی صلاحیتوں کو پہچان لے ان سے زیادہ سے زیادہ کا م لے سکے۔ اس کے علاوہ
وہ اپنے کام کے نقائص سے خالق کے کام کی پاکی کو پہچان لے اور اس کی صحیح عظمت و
تعریف اس کے دل میں پیدا ہو۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی روح کا وجود تھا اور روح
عالم ارواح میں موجود تھی۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ دنیا میں آنے سے پہلےروح کو
کچھ علم وحواس ہی نہ تھے۔کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ روح جنت میں رہتی تھی ۔
وہاں کھاتی پیتی بھی تھی اور سیر و تفریح بھی کرتی تھی۔ جنت میں آدم و حوا اللہ کے
امراور ارادے سے حرکت کرتے تھے۔ آدم وحوا کے ذہن میں جب تک اپنا ارادہ غالب نہ آیا
وہ خوش رہے۔ اس وجہ سے کہ اللہ کے ارادے میں آدم وحوا کے لئے خوشی کی زندگی ہے۔
اللہ یہی چاہتا ہے کہ بندہ خوش باش رہے اور اللہ کا فرمانبردار اور شکر گزار رہے۔
مگر آدم و حوا اگر ابد تک اللہ کے ارادے پر حرکت کرتے رہتے تو روح کے شعور و ارادے
کی نشوونما نہ ہوتی ۔ آدم بھی فرشتے کی طرح غیر مکلف ہوجاتا کہ جو کام کرتا اللہ
کے ارادے پر کرتا ۔اس کے ذہن کی ہرحرکت اللہ کے امر کی حرکت ہوتی۔ ایسی صورت میں
آدم و حوا کا ہر کام اللہ کے امر کا ہوتا ہے۔ آدم و حوا کی انفرادی پہچان نہ ہوتی
بلکہ آدم وحوا کی پہچان امر ربی کی حیثیت سے ہوتی۔ اللہ پاک نے آدم کو پیدا ہی اس
غرض سے کیا تھا کہ اس کی پہچان بشر یا انسان کی حیثیت سے ہو۔آدم و حوا کے اندر ان
کا اپنا ذہن اور ارادہ حرکت میں آگیا کیونکہ اللہ کے امراور ارادے کی روشنی آدم
وحوا کےذریعے کام کررہی تھی۔ جنت میں آدم و حوا کا ذہن اللہ کے ارادے کی روشنی کو
پوری طرح جذب کررہا تھا اور ان کے ذہن کی اسپیڈ اللہ کے امر کی اسپیڈ تھی جس کی
وجہ سے آدم و حوا کے اندر غلطی اور کمزوری کا خیال ہی نہ تھا۔ جب اللہ نے چاہا کہ
آدم و حوا اپنی ذات کو ذات امر سے الگ ہو کر پہچانیں تو اب اللہ کی یہ فکر ان
کےدماغ میں منتقل ہوگئی کہ وہ ایک بشر ہیں اور ان کا بشری ارادہ وذہن حرکت میں
آگیا جس کی وجہ سےشعور پیدا ہوگیا۔اب انہیں خود اپنی ذات اور اللہ کے امر کی ذات
یعنی نفس اور روح کے کام کا فرق معلوم ہوگیا کہ اللہ کا ارادہ انسان کے لئے کیا
ہے۔ اللہ بشر سے کتنی محبت رکھتا ہے اسے کسی طرح بھی رنج و الم میں مبتلا دیکھنا
نہیں چاہتا ۔روح جب تک جنت میں تھی اسے اس بات کا احساس نہ تھا کہ اللہ پاک اس سے
اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ اسے ہر وقت اپنی حفاظت میں رکھتے ہیں۔ جیسے ماں اپنے
ننھے سے بچے کو ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھتی ہے جیسے مچھلی جب تک پانی کے اندر رہتی
ہے اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ پانی ہی اس کی زندگی ہے۔ جیسے ہی وہ پانی سے
باہر آتی ہےتب اسے اپنی زندگی کےلئے پانی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور پھر واپس
پانی میں جانے کےلئے تڑپ اٹھتی ہے۔ دنیاوی شعور بھی اللہ نے اسی لئے پیدا کیا ہے
کہ انسان کو اپنی ذات کی کمتری اور کمزوری کا پتہ لگ جائے۔ وہ اپنے ارادے کی
کمزوری سے اللہ کے ارادے کی قوت کو پہچان لے اور پہچاننے کے بعد اپنے ارادے کو
اللہ کے امر کی قوتوں سے قوی بنائے تاکہ جو کام اللہ اس سے لینا چاہتے ہیں وہ
انجام دے سکے۔
انسان کی شعوری
زندگی اس کے اپنے ارادے کے ساتھ عملی زندگی ہے۔ یہ زندگی مرنے کے بعد بھی اسی طرح
جاری رہتی ہے۔ روح بحیثیت انسان کے اپنے ارادے کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ زندگی ایک
سفر ہے اس سفر کے دو راستے ہیں۔ ایک علم دوسرا جہالت ۔انسان ان دو راستوں سے زندگی
کا سفر طے کررہا ہے۔ علم روشنی ہے جہالت اندھیرا ہے۔ روح اجالے سے آتی ہے یعنی
اللہ کے پاس سے ۔ اُس کی جنت سے۔ وہ روشنی سے خوب واقف ہے مگر جسم یا دنیا وی شعور
اندھیرے میں پیدا ہوا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں۔ ہم نے انسان کو تین تاریکیوں میں
رکھا۔ نفس کے لئے یہ تین تاریکیاں یہ ہیں کہ ایک تو مادی نفس پیدا ہونے سے پہلے
اللہ کو نہیں جانتا۔ دوسرے اپنی روح کو نہیں جانتا۔ تیسرے اپنے آپ کو بھی نہیں
جانتا۔ مادی شعور کےلئے یہ تین تاریکیاں تین لاشعور ہیں۔ عالم برزخ جو کہ ماں کے
پیٹ کا عالم ہے اس کے اندر روح اپنے نفس کے ان تین اندھیروں میں اپنی روشنیاں
منتقل کرتی ہے۔ یہی وہ ریکارڈہے جو آدمی کا لا شعور بنتا ہےاور دنیا میں آنے کے
بعد آدمی اس ریکارڈ کے اندر کی روشنیوں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کے طور پر استعمال
کرتا ہے۔ روح کی وہ روشنیاں جو عالم برزخ میں یعنی دنیا میں آنے سے پہلےنفس
کے اندر منتقل ہوتی ہیں اور آدمی کا لا
شعور بنتی ہیں ۔مادی نفس ان کی توانائی اور علوم سے واقف نہیں ہوتا۔روح کا شعور
نفس کے چاروں طرف اس طرح محیط ہوجاتا ہےکہ نفس کے اندر ان کے علوم جاننے کی جستجو
اور تقاضہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی لگن آدمی کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور دل
میں شوق پیدا کرتی ہے۔ نفس کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ علم کی اہمیت کو جانے۔ زندگی کی تمام
سہولتیں، تحفظ و سکون علم کے ساتھ ہے۔ علم انسان کے ذہن و دل سے خوف اور بے یقینی
کو دور کرتا ہے۔ دنیا میں بھی جو لوگ زیادہ تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ کم علم سے
زیادہ خوش حال اور عزت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو جو رتبہ عطا کیا ہے
اس کی فضیلت علم کے ذریعے ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ انسان کی وہ زندگی جو اللہ کی رضا
کے مطابق ہے وہ دراصل انسان کے لئے اللہ کا تصور ہے۔ اللہ نے اپنے تصور میں انسان
کے لئے زندگی کا ایک کامل نقشہ اور خاکہ بنا رکھا ہے۔ اس خاکے کے مطابق انسان کی
زندگی جنت کا نمونہ ہے۔ روح اللہ سے قریب ہونے کی وجہ سے اللہ کے تصور میں ان
جنتوں سے واقف ہے۔ مگر عملی طور پر جب تک روح کا شعور ان جنتوں میں داخل نہیں
ہوجاتا روح کا احساس ان سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح کوئی بریانی پکانے کی ترکیب
سیکھ لے۔ ترکیب آنے پر تصور میں تو بریانی ہوگی مگر بریانی کا ذائقہ اور لذت سے
زبان واقف نہ ہوگی نہ ہی پیٹ بھرےگا۔ اسی طرح روح کے اندر ساری کائنات کے علوم
موجود ہیں مگر روح اب ان علوم کو عملی طورپر جاننا چاہتی ہے تاکہ ان علوم کی حقیقت
سے آشنا ہو اور اپنے حواس کے ساتھ ان کی لذتوں کا مزہ اٹھاسکے۔ اللہ تعالیِ نے جنت
اور دوزخ کا ذکر کیا ہے۔ جنت میں بھی کھانے پینے کی چیزوں کا تذکرہ ہےاور دوذخ میں
بھی ہے ۔ مگر جنت کے کھانے خوش ذائقہ اور روح کے لئے باعث تقویت و فرح ہیں اور
دوزخ کے کھانے بدذائقہ اور روح کے لئے باعث عذاب ہیں۔ بد ذائقہ کھاناپکانا بھی
کوئی پسند نہیں کر تانہ ہی کھانا پسند کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے بھی روح کو خوش
ذائقہ کھانا کھانے کی تلقین کی ہے ۔ یہ خوش ذائقہ کھانا آپ یوں سمجھئے کہ یہ
روحانی علوم ہیں۔ وہ علوم جو آدم کو اللہ نے عطا کئے اور بدذائقہ کھانا وہ علوم
ہیں جو اللہ نے آدم کے لئے پسند نہیں کئے ۔ یہ علوم آدم کے دشمن ابلیس کے علوم ہیں
۔نفس کے لئے یہ بات جاننی ضروری ہے کہ جب اس کے اندر علم سیکھنے کا تقاضہ پیدا ہو
تو اس تقاضے کو وہ اپنی روح کی جانب سے جانے کہ روح اپنے علوم کو عملی تجربے میں
بدلنا چاہتی ہے۔ روح کے علوم رحمانی علوم ہیں جب آدمی اپنی روح کی جانب توجہ کرتا
ہے تو رحمانی علوم اس کے ذہن کی سوچ بن کر نفس کے ارادے میں منتقل ہوتے ہیں۔ روح
سے رابطہ شعور کے اندر علم کا شوق بھی بڑھاتا ہے اور علم سیکھنے کی صلاحیت بھی
پیدا کرتا ہے۔ ایک روحانی طالب علم اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ اصل نفس روح ہے۔ روح
وہ نفس ہے جو تجلی کانقطہ ہے اور یہ اللہ کے نور سے روشن ہے۔ اس نقطہ کا سایہ
مادی نفس کا نقطہ ہے۔ مادی نفس ہر وقت اور ہر آن روح کی روشنیوں سے فیڈ ہورہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی روح سے رابطہ رکھتا
ہے۔ تاکہ روح کی روشنیاں ارادے کے ساتھ جذب کرسکےاور روح کے ارادے کے ساتھ شعوری
ارادے کی مطابقت ہوسکے ۔ روح سے رابطہ قائم کرنے کے لئے جب بھی کوئی کام کریں تو
ذہن میں تصور کریں کہ یہ میں نہیں بلکہ میری روح کررہی ہے۔ روح دیکھ رہی ہے۔ روح
ہی سوچ رہی ہے۔روح کھا رہی ہے۔ جب تصور میں ہر وقت روح ہوگی تو روح کا ارادہ اور
شعور غالب آجائے گا اور علم سیکھنے کے تقاضےپر آدمی کے اندر روح کے علوم سیکھنے کی
جستجو اور لگن پیدا ہوگی اور اس لگن کا مطلب یہ ہے کہ روح کے علوم کی روشنیاں شعور
جذ ب کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ روحانی استاد اپنے شاگرد کے اندر علوم سیکھنے کا تقاضہ
پیدا کرتے ہیں تاکہ علم کے لئے اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شوق پیدا ہو۔ جس کے اندر
جتنی زیادہ لگن ہوگی اتنا ہی وہ کامیاب ہوگا۔ شعوری زندگی ساری کی ساری روح کے
سیکھے ہوئے علوم کا عملی تجربہ ہے۔ تجربہ دوطرح کے نتائج پیش کرتا ہے۔ ایک اچھا
دوسرا برا۔ پس زندگی انہی دو راستوں پر چل رہی ہے۔ نفس اگر اپنی روح کا ہاتھ پکڑلے
تو روح اسے اللہ کی جانب روشنیوں میں لے جاتی ہے۔ اندھیرا روح کےلئے اور نفس کے
لئے باعث خوف اور باعث رنج و غم ہے۔ کوئی آدمی بھی زہر کا پیالہ جان بوجھ کر پینا
پسند نہیں کرتا۔ لا علمی وہ زہر ہے جوآدمی جان بوجھ کر اپنے نفس کو پلاتا ہے اور
پھر یہ توقع رکھتا ہے کہ نفس اس سے جاندار اور صحت مند رہے گا۔ لا علمی کا اندھیرا
نفس پر اور زیادہ اندھیروں کی تہیں چڑھا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے
جب روح کی روشنی بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور وہ نفس اپنے اندھیروں میں بھٹکتا
رہتا ہے۔ اللہ ہمیں ایسے عذاب سے بچا کر رکھے۔ آمین۔
خلاصہ:
- تجسس ہی آدمی کوعلم سیکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔تجسس اسم
محیط کی روشنی ہے۔
۔ انسان کی شعوری زندگی اس کے اپنے ارادے کے ساتھ عملی
زندگی ہے۔
۔جنت میں آدم کے ذہن کی اسپیڈ اللہ کے امر کی اسپیڈ تھی۔
۔ نفس کے اندر علم سیکھنے کا تقاضہ روح کی جانب سے ہے اور
روح اپنے علوم کو عملی تجربے میں بدلنا چاہتی ہے۔
۔ مادی شعور کےلئے تین تاریکیاں تین لاشعور ہیں۔
۔ علم انسان کے ذہن و دل سے خوف اور بے یقینی کو دور کرتا
ہے۔
۔روح وہ نفس ہے جو تجلی کانقطہ ہے اور یہ اللہ کے نور سے
روشن ہے۔