Topics

محدود اور لا محدود

 

۱۔       محدودیت سے مراد رکا ہوا ، اٹکا ہوا یا مقید ہے۔ اس کی پہچان یہ ہےکہ جو آدمی محدود طرزِ فکر رکھتا ہے اس میں جلن ، حسد اور غصہ ہوتا ہے۔ لامحدودیت سے مراد جو احاطے میں نہ آسکے یا لامتناہی اس کی وسعت کا دائرہ کائنات کے دائرے سے نکل کر اللہ سے جا ملتا ہے لامحدودیت کا ادراک آدمی کے اندر محبت ، ایثار اور خدمت کے جذبات ابھارتا ہے۔

۲۔       When Allah said KUN every particle from infinite came into existence. Existence is finite.

۳۔       Ph.D دنیاوی علوم کی انتہا ہے۔ ایک  Ph.D  آدمی کی ایجادات کو دیکھ کر اور اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو دیکھ کر یہ سمجھ میں اتا ہے کہ انسان کتنا بھی علم سیکھ جائے وہ محدود ہے اور اللہ کا علم لامحدود ہے۔

۴۔       ذاتی فکر محدودیت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر حاصل ہونے سے لامحدودیت میں ذہن داخل ہو جاتا ہے۔

۵۔       اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ اس میں اللہ پاک ہماری محدودیت اور اپنی لامحدودیت کا تذکرہ فرما رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ محدودیت اپنی  انا کا خول ہے اور لامحدودیت اللہ کی ذات ہے۔

۶۔       محدودیت کی پہچان آدمی کا شعور ہے اور لامحدودیت آدمی کا لاشعور اور روح کا علم ہے جس میں ٹائم اینڈ اسپیس کی پابندی سے آزادی آدمی کو لامحدودیت میں داخل کر دیتی ہے۔ لامحدودیت اللہ کا علم ہے۔

۷۔       خدا کی ذات وصفات اور اس کا مر لامحدود ہے جب کہ آدمی کا ذاتی ارادہ محدود ہے۔

۸۔       انسان کا شعوری دماغ محدودیت ہے اور لاشعوری دماغ لامحدودیت ہے جو روح کا دماغ ہے۔ جنت میں آدم و حوا کا لاشعوری دماغ کام کر رہا تھا۔ دنیا میں آکر شعوری دماغ کام کرنے لگا اور لامحدودیت کا دماغ پس پردہ چلا گیا۔ دونوں دماغ انسان کے دو حواس ہیں۔

۹۔       محدودیت نافرمان ذہن کی دنیا ہے یعنی شر۔ نافرمان ذہن کا ہر عمل آدمی کو محدودیت میں مقید رکھتا ہے۔ لامحدودیت فرمانبردار ذہن کی دنیا ہے یعنی خیر۔ یہ روح کی یا غیب کی دنیا ہے۔ روح کے دماغ کا ہر عمل لامتناہیت میں لے جاتی ہے۔

۱۰۔    This world can only give you certain amount but Allah’s gift are limitless.

۱۱۔    اپنی فکر کو اپنے ذاتی دائرے تک محدود رکھنا محدودیت ہے۔ اپنی فکر کو اللہ کے امر کے دائرے سے منسلک کر دینا لامحدودیت ہے۔

۱۲۔    شعور مسافر ہے اور لاشعور راستہ۔ مسافر محدودیت ہے اور راستہ لامحدودیت ۔ لامحدودیت کااحاطہ عقل و شعور کے بس کی بات نہیں۔

۱۳۔    لامحدودیت کی تمثیل دائرہ اور محدودیت کی تمثیل مثلث ہے۔ اپنی روح کو پہچاننا لامحدودیت کو پہچاننا ہے۔

۱۴۔    غیب کی ہر شئے لامحدود ہے اور ظاہر کی ہر شئے محدود ہے۔

۱۵۔    Matter یعنی مادے کی ہر چیز میں کشش ہے اور ہر چیز کی کشش صرف اپنے مرکز کی جانب ہے۔ مادے کی جانب کھنچاؤ محدودیت ہے۔ اللہ کا نور لامحدودیت ہے۔ نور کی جانب بڑھاؤ لامحدودیت ہے۔ شعور کا علم محدودیت اور لاشعور کا علم لامحدود ہے۔

۱۶۔    ظاہری حواس یا مادی حواس کے دائرہ کار کو محدودیت اور باطنی حواس یا نورانی حواس کے دائرہ کار کو لامحدودیت کہتے ہیں۔

۱۷۔    کسی شئے یا ہستی کا حواس کی گرفت میں آجانے کا نام محدودیت اور حواس کی گرفت میں نہ انے کا نام لامحدودیت ہے۔

۱۸۔    باہر دیکھا محدودیت ہے اور اپنے اندر دیکھنا لا محدودیت ہے۔

۱۹۔    محدودیت وہ ہے جس کو نظر دیکھ سکتی ہے اور اس کا تذکرہ بھی کرتی ہے۔ محدودیت میں حد قائم ہو جاتی ہے۔ محدودیت کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے اور سمجھ بھی سکتا ہے اور اس کا واضح طور پر نقشہ بھی کھینچ سکتا ہے۔ محدودیت مادی آنکھ کی رینج ہے۔ لامحدودیت مادی نظر کی حد سے باہر کی حد کو کہتے ہیں۔ یہ حد مادی حواس کے لیے غیب ہے۔ غیب لا محدودیت ہونے کی وجہ سے یہاں حد بندی کا تصور نہیں ہے۔ غیب میں ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد حواس کام کرتے ہیں۔ آزاد حواس اور آزاد فکر کے ذریعے ہی اللہ کی پہچان کی جا سکتی ہے۔

۲۰۔    کوئی بھی خیال جب عقل و شعور اور مادی حواس کے دائرے میں اپنا مظاہرہ کرتا ہے وہ محدودیت ہے اور جب خیال کی روشنی عقل و شعور اور مادی حواس کے دائرے سے باہر مظاہرہ کرتی ہے وہ لامحدودیت ہے۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   محدودیت اور لامحدودیت میں کیا فرق ہے؟

سوال نمبر ۲۔  انسان کی تخلیق اور اللہ کی تخلیق میں کیا فرق ہے؟

سوال نمبر ۳۔  ٹائم اینڈ اسپیس سے آدمی کس طرح آزاد ہو سکتا ہے؟

سوال نمبر۴۔   لامحدودیت میں آدمی کس طرح داخل ہو سکتا ہے؟

٭٭٭٭٭

محدودیت انسان کا وہ شعور ہے جو آدمی کو مادی دنیا یا ٹائم اینڈ اسپیس کے اندر مقید رکھتا ہے اور لامحدودیت روح کا وہ شعور ہے

جو انسان کو اللہ کے علم میں دیکھنے ، سمجھنے اور جاننے کا شعور عطا کرتا ہے۔ اللہ کا علم لامحدود ہے۔ پس لامحدودیت کا شعور آدمی کو لامحدودیت میں داخل کر دیتا ہے۔ انسان کے اندر دو قسم کے حواس کام کر رہے ہیں۔ مادی حواس ٹائم اینڈ اسپیس میں کام کرتے ہیں اور روحانی حواس ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد رہ کر کام کرتے ہیں۔ گویا ہر آدمی کے اندر اللہ پاک کی تخلیق کردہ اشیاء کو سمجھنے اور دیکھنے کے لیے دو زاویہ نگاہ ہیں۔ ایک زاویے میں آنکھ شئے کے ظاہری خدوخال کو دیکھتی ہے۔ دوسرے زاویے میں آنکھ شئے کے باطنی نقش و نگار کودیکھتی ہے۔ ظاہری زاویہ نگاہ میں نظر کی روشنی شئے کو چھو لیتی ہے۔ نگاہ کی روشنی کا شئے  کو چھو لینے کی وجہ سے شئے کا ادراک حواس میں بدل جاتا ہے جس کی وجہ سے شئے کا علم حواس کے دائرے میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔   ظاہری حواس محدود ہونے کی وجہ سے شئے کی قربت کا احساس دلاتے ہیں یعنی یہ نگاہ کا وہ زاویہ ہے جو شئے کو قریب ہی دیکھ لیتی ہے۔ دوسرا زاویہ نگاہ شئے کو حواس کے دائرے سے باہر دیکھتا ہے۔ پس اس زاویے میں نگاہ شئے کو دور دیکھتی ہے۔ اگر ہم قریب اور دور دیکھنے کے اس عمل کو اچھی طرح سمجھ جائیں تو محدودیت اور لا محدودیت کے شعور کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ ہمارے اندر دو دماغ کام کر رہے ہیں۔ ایک دماغ شعور ہے دوسرا لاشعور ہے۔شعوری حواس محدودیت ہے اور لاشعوری حواس لامحدودیت ہے۔ لامحدودیت غیب ہے۔ غیب میں روح اللہ کے امر پر کام کر رہی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عالم امر کی تحریکات کا نام غیب ہے اور غیب کی تمام تحریکات امر ربی یا روح کے ذریعے عمل میں آتی ہیں۔ غیب میں روح جو بھی حرکت کرتی ہے وہ حرکت لاشعوری دماغ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت امر ربی کی تجلی کا ایک نقطہ ہے جو روح کے ذریعے لاشعوری دماغ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ امر ربی کی تجلی کے اس نقطے میں غیب کی کسی نہ کسی شئے کا مکمل علم ہوتا ہے جسے روح غیب میں دیکھ لیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تجلی کا یہ نقطہ روح کے ادراک کا نقطہ ہے جس میں روح کی جانب سے اس شئے کی اطلاع اور علوم ہے جو شئے  روح نے غیب میں دیکھی ہے۔ تجلی کا یہ نقطہ جس مقام پر نزول کرتا ہے وہ مقام نقطہ ابحت کہلاتا ہے۔ اس مقام سے تجلی کے نقطے سے فلیش کی صورت میں تجلی نزول کر کے اخفیٰ کے مقام پر آتی ہے اور خفی تک پھیل جاتی ہے۔ اس طرح تجلی کا ایک دائرہ بن جاتا ہے۔

          اخفی اور خفی کی تجلی کے دائرے میں روح کی نگاہ جو امر ربی کی نظر ہے، تجلی کے اندر عالم امر کے نقش و نگار دیکھ لیتی ہے۔ روح کی نگاہ کا یہ دیکھنا ایک فلیش کے اندر دیکھنا ہے۔ یہ فلیش ادراک کا وہ لمحہ ہے جو امر کُن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی کسر ہے جو  سیکنڈ کا اربوں کھربوں حصہ ہو سکتا ہے۔ وقت کی یہ مختصر ترین اور کم ترین فصل شعور کی گرفت میں نہیں آتی جس کی وجہ سے شعور اسے معنی نہیں پہنا سکتا۔ جیسے کوئی تین سو میل کی رفتار سے گاڑی میں سفر کرے تو راستے کی کسی بھی شئے کو دیکھ نہ پائے گا اور پوچھنے پر یہی کہے گا کہ کچھ نہیں دیکھا۔اسی طرح یہ فلیش لائٹ جب اور آگے بڑھتی ہے تو روشنی کی رفتار میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے اور تجلی کے نقطے سے دوری کی وجہ سے اس کے اندر ایک درجہ کثافت آجاتی ہے۔ تجلی کی روشنی کا یہ دائرہ نور کہلاتا ہے۔ جو سر اور روح کا دائرہ ہے۔ روح کی نظر نور میں عالم امر کے نقش و نگار دیکھ لیتی ہے۔ تجلی کے نقطے سے روشنی جیسے جیسے دور ہوتی جاتی ہے روشنی  میں کثافت بڑھتی جاتی ہے۔ اس طرح روشنی کے مزید دائرے بنتے جاتے ہیں اور ہر دائرے میں کثافت(Density)  کی مقداروں کے مطابق امر کی رفتار بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح نور کے بعد ایک دائرہ روشنی کا ہے جو قلب اور نفس کہلاتا ہے۔ اس دائرے سے نکل کر روشنی میں اس حد تک کثافت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ تجلی کے نقطے سے اس حد تک دور ہو جاتی ہے کہ اس کے اندر امر کی رفتار اور حرکت پر تقریباً جمود طاری ہو جاتا ہے۔ یہی انجماد شئے کو نگاہ کے سامنے ٹھہرا دیتا ہے اور آدمی ظاہر میں دیکھ لیتا ہے۔ ظاہر میں دیکھنا جیسے اسکرین پر عکس کو دیکھنا ہے۔ عکس میں روشنی کی ساری حقیقت چھپ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظاہر کو دیکھ کر باطن کا اندازہ نہیں ہوتا۔ البتہ باطن کو دیکھ کر ظاہر کا اندازہ فوراً ہو جاتا ہے۔ اخفیٰ ، خفی ، سر کے مقام پر تجلی کی روشنی لاشعوری حواس بناتی ہے جن کا تعلق لاشعوری دماغ سے ہے۔ روح، قلب اور نفس کی روشنی شعوری حواس بناتی ہے جس کا تعلق شعوری دماغ سے ہے۔ اس طرح دماغ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نظر کا دیکھنے کا اور شعور کے معنی پہنانے کا قدرت نے ایک مخصوص فنکشن رکھا ہے جو ہمارے دماغ میں وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ ہمارے دماغ میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً بارہ کھرب خلیے  (Cells)  موجود ہیں۔ ان خلیوں کا مجموعہ دماغ ہے۔ تجلی کے نقطے سے نکلنے والی روشنی ان خلیوں میں منتقل ہو جاتی ہے مگر یہ منتقلی بے ترتیب نہیں ہوتی بلکہ ایک ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دماغ میں خیال آتا ہے تتلی کا۔ جیسے ہی خیال آتا ہے دماغ کے خلیوں میں خیال کی روشنی جذب ہو جاتی ہے اور یہ خلیے ننھے منے بلب کی صورت میں روشن ہو جاتے ہیں اور اس انداز اور ترتیب میں روشن ہوتے ہیں کہ ان کی ترتیب سے تتلی کی صورت یا خاکہ بن جاتا ہے۔ قلب کی نگاہ اسے دیکھ لیتی ہے اور تتلی کو پہچان جاتی ہے۔ اب جب بھی تتلی ظاہر میں دکھائی دیتی ہے تو وہ فوراً پہچان لیتی ہے۔ اس طرح آدمی کی نگاہ اپنے اندر بھی دیکھتی ہے اور باہر بھی دیکھتی ہے۔ انر کا تعلق غیب سے ہے۔ اس کے اندر کائنات کے تمام خاکے تجلی ، انوار اور روشنی میں ہیں۔ انہی خاکوں کا عکس مادی دنیا ہے۔ اگر انسان اپنے انر میں دیکھنا سیکھ لے تو وہ غیب کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ مظاہرات غیب کی بساط تجلی پر ہے جس کا تعلق ذات باری تعالیٰ سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیب میں رونما ہونے والے تمام مظاہرات کائنات کی اصل قوت تجلی کی روشنی ہے یہی بات اللہ پاک بھی اپنے کلام میں فرمارہے ہیں کہ ہر شئے اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اللہ کی جانب لوٹ  جاتی ہے۔ انسان بھی اللہ ہی کی طرف سے آرہا ہے اور اللہ ہی کی جانب لوٹ جانے والا ہے۔ یعنی ہر شئے لامحدودیت سے محدودیت میں آتی ہے اور لامحدودیت کا تعارف کراتی ہے۔ اسی تعارف کے لیے اور اللہ کی پہچان کے لیے مادی شعور عطا ہوا ہے۔ اگر آدمی اس شعور کے ذریعے غیب کی دنیا میں داخل نہ ہو اور مظاہرات غیب کو پہچاننے کی کوشش نہ کرے تو تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ آدمی کی تخلیق کا مقصد یہی ہے کہ ہر آدمی انفرادی طور پر اپنے خالق اور رب کی عظمت و جبروت کا اعتراف کرے۔ اپنے رب کی ربوبیت کا اعتراف کرنے اور اس کی قدرت اور جبروت کو پہچاننے کے لیے روح کو دو قسم کے حواس عطا ہوئے ہیں۔ شعوری حواس میں انسان مظاہر کائنات کو بے بسی ، مجبوری اور محتاجی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہے۔ محتاجی کا یہ احساس اسے ٹائم  اینڈ اسپیس کے اندر بند کر دیتا ہے۔ جب بندے کی نظر اپنی محتاجی اور کمزوری کو دور کرنے والی ہستی کی جانب پڑتی ہے تو اسے لامحدودیت کا احساس ہوتا ہے۔

          حضور پاک ﷺ پر بذریعہ وحی اللہ پاک نے یہ ایت نازل فرمائی۔ ” آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا۔“ (سورہ مائدہ)

          اس آیت میں  اللہ تعالیٰ حضور پاک ﷺ کو یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ ہم نے آپ ﷺ کے اندر محدودیت اور لامحدودیت دونوں حواس کی تکمیل کر دی ہے یعنی آپﷺ  کے شعوری حواس اور لاشعوری حواس دونوں حواس کی تحریک انتہائی عروج پر ہے۔ اسلام سے مراد علم الاسماء ہے۔ علم الاسماء اللہ پاک کی ذات اور صفات کے علوم ہیں۔ اللہ پاک حضور پاک ﷺ کو یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ اے حبیب ﷺ! ہم نے آپ ﷺ کو اعلیٰ علیین کے وہ حواس عطا کر دیئے ہیں جن حواس کے ذریعے آپﷺ ہر عالم میں اللہ پاک کی ذات و صفات کا مکمل ادراک کر سکتے ہیں۔ دین سے مراد اللہ پاک کی توحید کو جاننا اور پہچاننا  ہے۔ اسلام سے مراد اللہ پاک کی توحید کو علم الاسماء کے دائرے  میں جاننا اور پہچاننا ہے۔ پس اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو ایسی عقل اور ایسا شعور عطا فرمادیا کہ جو عقل و شعور اللہ پاک کی توحید ، اس کی خالقیت اور ربوبت کو اپنے شعوری اور لاشعوری حواس کے ذریعے عالم ناسوت سے لے کر عالم غیب تک اسی طرح جانتی ، پہچانتی اور مشاہدہ کرتی ہے جس طرح اللہ چاہتا ہے۔ حضور پاک ﷺ کے اعلیٰ ترین حواس کی تعریف اللہ پاک نے معراج کے واقعہ میں بھی بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں۔” ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ ہی حد سے آگے بڑھی۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی بری بڑی نشانیاں دیکھیں۔“ ( سورہ نجم ) یہاں بھی حضور پاک ﷺ کے حواس کی تعریف کی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ کا ذہن اور حواس و ادراک پوری طرح اللہ پاک کی قدرت کے تابع ہیں کہ جو کچھ اللہ نے چاہا، آپ ﷺ نے بالکل بعینہ اس پر عمل کیا اور اللہ پاک کے حکم کی پوری پوری طرح تعمیل کر کے اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیاں دیکھ لیں۔

          ان آیات میں ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ بندگی تابعداری کا دوسرا نام ہے۔ جس شخص کے اندر تابعدار ی کی جتنی زیادہ سکت ہوگی اتنا ہی وہ اپنے رب سے قربت حاصل کرے گا اور غیب میں اس کی نشانیاں دیکھ سکے گا۔ بندگی کا دوسرا نام اپنی انا کی نفی کر دینا ہے۔ جیسے ہی بندہ اپنی انا کی نفی کرتا ہے وہ اللہ کی انا سے باقی رہتا ہے۔ پھر اللہ اس سے وہی کام لیتا ہے جس کام کے لئے بندے کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ہوتا تو وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے مگر اگر بندے  کی انا اور ذاتی ارادہ اللہ کے ارادے اور راہ میں مزاحم ہو تو کام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ایک بندہ اللہ کے دربار میں ایسی صورت میں جاتا ہے کہ جس امر کے ساتھ اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے وہ اس امر کی تکمیل کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اور ایک بندہ ایسی صورت میں اپنے رب کے سامنے جاتا ہے کہ اس کا کام ادھورا رہ جاتا ہے ۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سا بندہ خوش ہوگا اور کون سا ناخوش ہوگا۔ ناخوشی ہی عذاب ہے۔ پس بندگی اور تابعداری کے ذریعے شعوری اور لاشعوری دونوں حواس کی سکت بڑھائی جا سکتی ہے اور جتنی سکت زیادہ ہوگی اتنی  ہی صلاحیت زیادہ بڑھے گی۔ صلاحیت بڑھنے سے حواس کا استعمال بھی بہتر طور پر کیا جا سکے گا اور محدودیت اور لامحدودیت کی پہچان بہتر طور پر ہو سکے گی۔ اس مضمون کو ہم اس مثال کے حوالے سے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

          آدمی کے اندر ہر صلاحیت اللہ پاک کے کسی نہ کسی اسم کی تجلی ہے۔ چونکہ یہ اللہ کی صفت ہیں جس کی وجہ سے انسان ان کی ناواقفیت ہے اور اسے ان صلاحیتوں کو استعمال کرنا نہیں آتا۔ شعور کے لیے یہ صلاحیت ایک نقطہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس طرح نقطے کی قیمت شعور کے نزدیک صفر ہے۔ اسی  طرح شعور لاعلم ہے۔ مثال کے طور پر ایک نقطے کا نام اسم بصیر رکھتے ہیں۔ اس نقطے کے اندر تجلی اور انوار کی جو مقداریں کام کر رہی ہیں شعور انسانی اس سے لاعلم ہے۔ اسی لاعلمی کی بناء پر اسے اس کی قدر ومنزلت کا اندازہ نہیں ہوتا اور وہ یکسر طور پر اسے فراموش کر دیتا ہے۔ شعور کی یہی لاعلمی اور فراموشی لاشعور ہے کہ جہاں صلاحیتیں موجود ہیں مگر خوابیدہ ہیں۔ تجلی کے اس نقطے سے روشنی پھیلتی ہے اور نقطے کے اطراف  میں دائرے بناتی ہے۔ گویا نقطے کی روشنی پھیل کر دائرے پر محیط ہوگئی۔ روشنی کے یہ دائرے ہی محدودیت اور لا محدودیت کا شعور ہیں اور ان دائروں کے اندر روشنی کی مقداریں تجلی کے علوم اور تجلی کے  نقطے کی ماہیت ہے۔ تجلی کے نور کے ہر دائرے میں کائنات کی کسی نہ کسی نوع کا شعور موجود ہے۔ اس طرح اگر ہم اسم بصیر کی تجلی کا نقطہ تصور کریں تو اللہ کی صفت کا یہ نقطہ یا تجلی اپنے مرکز سے اللہ کے حکم کن سے پھیلتی ہے اور پھیل کر ازل ابد کی حدود پر محیط ہو جاتی ہے۔ مرکز سے تجلی کا پھیلاؤ اپنے نقطے کے اطراف میں دائروں کی صورت میں پھیلتا ہے۔ تجلی کی روشنی کا ہر دائرہ اسم بصیر کی متعین مقدار ہے۔ یہ متعین مقداریں کائنات کی بصارت اور بینائی ہے۔ ہر نوع کے اندر اسم بصیر کی متعین مقداریں اس نوع کی نظر یا بینائی کا کام کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق کی بینائی ایک مخصوص ویو لینگتھ پر کام کرتی ہے۔ اللہ نے انسان کو اسمائے الہٰیہ کے علوم بخشے ہیں۔ یعنی تجلی کے نقطے کا ادراک عطا فرمایا ہے۔ اس مثال کے حوالے سے اس کی تشریح اس طرح ہوگی کہ اسم بصیر کی تجلی کا نقطہ اپنے اندر جس قدر قوت بینائی رکھتا ہے یا تجلی کی روشنی کا انتہائی پھیلاؤ انسان کی بصارت ہے۔ بشرطیکہ وہ اس بصارت کو پہچان کر اس سے کام لینا سیکھ لے۔ تجلی کے ہر نقطے کی روشنی کا پھیلاؤ ازل سے ابد تک ہے یعنی اللہ پاک نے انسان کو اپنی صفات عطا کی ہیں کہ اللہ کی نظر ازل اور ابد کے اندر جو کچھ دیکھتی ہے یہ نظر اللہ نے انسان کو بھی عطا کی ہے اور وہ بھی اللہ کی نظر سے ازل ابد کے اندر دیکھ سکتا ہے۔ اسی نظر سے اللہ کے حبیب ﷺ نے اللہ پاک کو ایک کمان سے بھی کم کے فاصلے پر دیکھ لیا جو انسان کے اندر کام کرنے والی اسم بصیر کی تجلی کی آخری حد یا انتہائی پھیلاؤ ہے۔ تجلی کا نقطہ تجلی کی محدود ترین صورت ہے۔ یہ محدود ترین صورت آدمی کا شعور ہے اور تجلی کا لامحدود پھیلاؤ دائرہ ہے۔

          نقطے اور دائرے کے درمیان روشنی کے لاشمار دائرے ہیں جو تجلی کی روشنی کا ایک ایک پھیلاؤ ہے۔

          انسان کی نظرنقطے یعنی محدودیت سے لامحدودیت میں دیکھتی ہے اور لامحدودیت سے پھر نقطے کی جانب لوٹتی ہے اور لامحدودیت میں جو کچھ دیکھتی ہے نقطے یعنی محدودیت کو اطلاع دیتی ہے۔ نظر کا پھیلنا اور سمٹنا ہی انسان کے حواس اور ادراک ہیں۔ جب آدمی اپنی صلاحیتوں کو نہ تو جاننے کی کوشش کرتا ہے نہ ان کو استعمال کرتا ہے اور اگر کرتا بھی ہے تو بس اپنے ہی ذات کے خول کے اندر بند ہو کر کرتا ہے یعنی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے تو ایسا شخص محدود طرز فکر کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے اندر کام کرنے والی ہر روشنی اس کی اپنی حد یا جسمانی خول سے آگے نہیں پھیلتی اور جب جسم موت کے بعد ذرات بن کر بکھر جاتا ہے تو روشنی بھی اتنے سارے ذرات میں تقسیم ہو کر بالکل ہی معدوم ہو جاتی ہے۔ نظر ہمیشہ ڈائی مینشن میں دیکھتی ہے۔ جب جس ڈائی مینشن یا جن خول میں نظر کام کر رہی ہے وہ ڈائی مینشن ٹوٹ جاتاہے تو چونکہ بندے کے پاس کوئی اور ڈائی مینشن نہیں ہو پاتا یا  وہ دوسرے ڈائی مینشن سے واقف نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ بینائی سے کام نہیں لے سکتا۔ دوسرے لفظوں میں وہ مرنے کے بعد اندھا ہو جاتا ہے اور بینائی کی صلاحیت سے محروم ہو جا تا ہے کیونکہ وہ جس فریکوئنسی یا ویو لینگتھ پر دنیاوی زندگی کی فلم کو دیکھ اور محسوس کر رہا تھا اس فریکوئنسی سے مرنے کے بعد رابطہ ٹوٹ گیا۔ اب اس کے پاس مرنے کے بعد کی فریکوئنسی کا کچھ علم کا کچھ علم نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے بعد کی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا اور پریشان ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم فریکوئنسی ہے یا تجلی کی روشنی کا ایک پھیلاؤ ہے اور عمل اس فریکوئنسی کے اندر داخل ہونا ہے۔ حواس علم اور عمل دونوں کا مجموعہ ہے جو روشنی اور حرکت سے مل کر بنتے ہیں۔ محدودیت انسان کا ذاتی ارادہ اور شعور ہے اور لامحدودیت اللہ کا ارادہ اور اللہ کا امر ہے۔ جب آدمی اپنے اندر واقع ہونے والی ہر حرکت کو اپنے ذاتی ارادے اور قوت کا نتیجہ سمجھ لیتا ہے تو حرکت محدود ہو جاتی اور امر کی روشنی کو روح کی روشنی ہے' محدودیت میں عمل کرتی ہے جس کی وجہ سے آدمی کی صلاحیتیں ابھرنے کی بجائے دب جاتی ہیں مگر جب آدمی اپنے اندر کام کرنے والی ہر حرکت کو اللہ کا امر جان لیتا ہے تو روح کی روشنیوں کا پھیلاؤ اللہ کے ارادے اور امر الہٰیہ تک جا پہنچتا ہے۔ پس بندہ اپنے عمل میں اللہ  کی رضا اور ارادے کو پہچان لیتا ہے۔ یہی پہچان اسے لامحدودیت میں داخل کر دیتی ہے جہاں وہ اپنے اندر کام کرنے والی ہر صلاحیت کو اللہ کے نور کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے اور اس نور کو پہچان کر اللہ کی لامتناہیت اور بزرگی و عظمت کا اعتراف کر لیتا ہے ۔ یہی اعتراف اس کے لئے اللہ تعالیٰ  سے مستقل طور پر رابطے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے اور وہ اللہ کی صفات کا میڈیم بن کر اس کے اوپر کام کرتا ہے اس کی اپنی ذاتی انا اللہ کی انا میں اس طرح گم ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی انا کا نہ تذکرہ کرتا ہے نہ اس کے اندر اپنی انا کا شعور باقی رہتا ہے بلکہ اس کا اپنی ذات یا نفس کا شعور ختم ہو جاتا ہے اور اللہ کی انا کا شعور اس کے اندر ابھر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کچھ اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے ۔ محدودیت سے لا محدودیت کی پہچان اپنے اختتام کو پہنچتی ہے یعنی نظر یا اسم بصیر کی بینائی لامحدودیت سے محدودیت کی جانب آتی ہے۔ یہ محدود ترین مقام انسان کی بینائی ہے یا آنکھ ہے۔ یہاں سے یہ بینائی پھر لامحدود یت یعنی اللہ کی جانب لوٹتی ہے۔ جس طرح اللہ کی انا محدودیت میں آکر  فرد کی انا میں منتقل ہوگئی اسی طرح فرد کی انا لامحدودیت میں لوٹ کر دوبارہ اللہ کی انا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وہ دائرہ ہے جس میں مخلوق گردش کر رہی ہے اور اپنی محتاجی اور کمزوری سے اللہ پاک کی سبحانیت کو پہچان کر اس کا اعتراف کر رہی ہے۔ پس اپنے  نفس کی بے بسی اور ارادوں کی کمزوری اور اُمیدوں کے ٹوٹنے سے ہی اللہ پاک کی سبحانیت اور لامحدودیت کی پہچان کی جاتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

          دوستو!آج اس نشست میں ہمارے درمیان ایک ایسی ہستی بھی موجود ہیں جن کی شرکت کے لئے ہم اپنے اوپر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ وہ ہستی عالم روحانیت کا جگمگاتا سورج ہے اور آپ ان سے بخوبی متعارف ہیں۔ اب میں آپ جناب کی بارگاہ میں عاجزانہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ بھی آج کے اس موضوع پر اپنے مفید نکات اور روحانی نظریہ سے ہمیں استفادہ حاصل کرنے کا موقع عطا فرمائیں۔ شکریہ

٭٭٭٭٭



Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی