Topics

خدمت خلق

1.     خلق خدا کی بے لوث خدمت کرنا اور اس راستے میں ہرقسم کی تکالیف برداشت کرناخدمت خلق ہے۔

2.     اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر کسی بھی قسم کی اجرت لئے بغیر اپنے آپ کو خدمت خلق کےلئے وقف کردینا۔

3.     اللہ پاک کی طرزفکر اپناکربغیر کسی تعصب کے بے لوث خدمت کرنا خدمت خلق ہے۔

4.     مخلوق یعنی انسانوں کے علاوہ ہرنوع کی بھلائی کےلئے وسائل اور تقاضوں کا صحیح استعمال کرنا خدمت خلق ہے۔

5.     بغیر کسی لالچ کےاللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا اور صلہ کی توقع نہ رکھنا سوائے اللہ کے خدمت خلق ہے۔

6.     ضرورت مند سےدامےدرمے سخنے تعاون کرنا خدمت خلق ہے۔

7.     خلق کےلئے کام کرتے ہوئے اس بات کاخیال رکھنا کہ جو اپنے لئے چاہے وہ دوسروں کےلئے بھی چاہے، یہی خدمت خلق ہے۔

8.     سارے انسانوں کی بلاتفریق رنگ و نسل ، مذہب وملت محض رضائے الٰہی کےلئے خدمت کرنا، مقولہ ہے" عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے خدابنتا ہے۔" حدیث شریف ہے کہ انسانوں میں بہتر وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔

9.     محبت کا دوسرا نام خدمت ہے۔ محبت کےبغیر خدمت نہیں کی جاسکتی خدمت خلق  صفت ربوبیت کا عکس ہے۔

10.                        نائب حیثیت سے خداتعالیٰ کی محبت اورضروریات زندگی کےوسائل مخلوق میں تقسیم کرنا خدمت خلق ہے۔

11.                        اپنے دارہ اختیار میں مخلوق خدا کی ضروریات کا اس طرح خیال رکھنا جیسے اللہ رکھتا ہے، خدمت خلق ہے۔

12.                        لوگوں کے فائدے کےلئے اپنےنفس کو بےآرام کرنا خدمت خلق ہے۔

13.                        اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے۔ اپنی ذات ہر تقاضے سے بے نیاز ہونے کے باوجود مخلوق کے تقاضے پورےکررہاہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ ہر خواہش سے بے نیاز ہوکر بھی مخلوق کو حاجتوں کوپورا کررہا ہے اور مخلوق کی بغیر کسی معاوضے کےخدمت کررہاہے۔ جب کوئی بندہ اللہ کےذہن سے یا اللہ کی طرز فکر سے کام لیتے ہوئے مخلوق کی بے لوث خدمت کرتا ہےتووہ اللہ کےکاموں میں اس کامعاون ومددگاربن جاتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭

سوال نمبر۱         خدمت خلق  کیاہے؟

سوال نمبر۲         خدمت خلق کرکے ہم اللہ سے کس طرح قریب ہوسکتےہیں؟

سوال نمبر۳         خدمت کے کیا کیا فوائداور نقصانات ہیں؟

سوال نمبر۴         نفس کو کس طرح خدمت خلق  پر آمادہ کرنا چاہئے۔

٭٭٭٭٭٭

خدمت خلق اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا عکس ہے۔ یوں تو کائنات کی تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظاہرہ کر رہی ہے مگر انسان کے ساتھ یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ذریعے صفات کا جو بھی مظاہرہ ہو رہا ہے، اس کے علوم سے انسان کو واقفیت عطا کی گئی ہے. آدمی اس بات سے باخبر ہے کہ اس کے اندر جو صلاحیتیں موجود ہیں ان سے اپنے اردے سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی آدمی ان کی طرف توجہ دیتا ہے اور ان کو استعمال کرنا سیکھ لیتا ہے، اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفات کائنات کے اندر کام کر رہی ہیں، ان تمام صفات کے انوار کی ترتیب سے روح آدم وجود میں آتی ہے۔ اسمائے الٰہیہ کے انوار روح کی صلاحیتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے۔ اس کی ربوبیت کی تجلیات تمام مخلوق کو زندگی کے وسائل فراہم کر رہی ہیں۔ ربوبیت کا وصف روح کے ذریعے انسان کے اندر بھی منتقل ہو رہا ہے۔ جس طرح اللہ اپنی مخلوق کے لئے ضروریات زندگی  کی ہر شے فراہم کرتا ہے اسی طرح آدمی بھی اللہ تعالی کی صفت ربوبیت سے کام لے وہی کام کرتا ہے جو رب اپنی مخلوق کے لئے کررہا ہے۔ رب ہر قسم کی احتیاج سے بے نیاز ہونے کے باوجود بھی مخلوق کی حاجتوں کی پوری طرح پاسداری کرتا ہے۔ خدمت خلق رب کے کاموں میں شریک ہونا ہے۔ جس طرح رب العالمین تمام مخلوق کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لیے سہولتیں فراہم کرتا ہے، کوئی بندہ جب اپنے رب کی اس صفت سے کام لیتا ہے، یعنی خود اپنے اندر ربوبیت کی صفت کے انوار کو متحرک کر لیتا ہے، تو اس کی چھپی صلاحیتیں بیدار ہوکر آدمی کو اسی کام کی ترغیب دلاتی ہیں جو کام رب کر رہا ہے۔ اس طرح آدمی کے اندر خدمت خلق کا جذبہ بڑھتا ہے۔صلاحیت اسی کام کی تواانرجی  ہے۔ جتنی زیادہ توانائی کام میں خرچ کی جائے گی، اتنا ہی زیادہ کام بھی ہوگا۔ ایک روحانی آدمی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جو بھی کام کرے، اپنی اتنہائی سکت کے مطابق کرے، جیسا کہ پیغمبر ان علیہ السلام اور ان کےپیروکار نے کیا کہ بغیر کسی دنیاوی غرض کے، اللہ کی مخلوق سے محبت رکھتے ہوئے ان کی سہولت کے لیے جس طرح بھی ممکن ہوامدد کی۔انتہائی  سکت آدمی کے اپنے ارادے کی آخری حد ہے۔ اس حد سے اللہ کا ارادہ شروع ہوتا ہے۔ جب کوئی کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کے اندر بندہ اپنی  سکت کے مطابق اپنی آخری حد تک کام کرتا ہے، اس حد تک جس کے بعد وہ اپنے آپ کو قطعی طور پر بےبس اور مجبور سمجھ لیتا ہے، یہی وہ حد ہے جہاں سے اللہ تعالیٰ کا ارادہ یعنی امر شروع ہوتا ہے۔غیب میں اللہ کے امر کے تجلیات و انوار کام کر رہے ہیں، اور وہ انوار انسان کے ارادے میں منتقل ہونے لگتے ہیں، اس طرح بندے کے ارادے میں اللہ کا ارادہ شامل ہو جاتا ہے اور اُس پر رضائے الٰہی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

آدمی جب کسی کے لیے کوئی کام کرتا ہے تو اُس میں نفس کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑتی ہے۔ مادی نفس میں محدودیت کا شعور ہے اور اس محدودیت کے اندر صرف اپنی ہی ذات سمائی ہوئی ہے۔ خدمتِ خلق کرتے ہوئے نفس کی جانب سےبارہا احتجاج  ہوتا ہے۔آدمی اپنے اوپر ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی خوش اور مطمئن رہتا ہے، مگر کسی دوسرے پر تھوڑا سا مال بھی خرچ کرکے جب نفس کی عینک سے اُسے دیکھتا ہے تو نفس بڑا چڑھا کر دکھاتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ نفس کی عینک کے لینس کی کیا فطرت ہے۔ یہ عینک اپنی محدود حد سے باہر نہیں دیکھ سکتی، اپنی حد میں جو کچھ دیکھتی ہے، وہ نارمل سائز سے بڑا کر کے دکھاتی ہے، یعنی یہ محدب شیشہ ہے جو چھوٹے کو بڑا کر کے دکھاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی پیچھے سے آنے والی روشنی کو ایک مرکز پر جمع کر دیتا ہے۔ جیسا کہ محدب شیشے کو سورج کی روشنی کے سامنے رکھا جائے تو سورج کی روشنی اُس میں سے گزر کر ایک مرکز پر جمع ہو جاتی ہے اور مرکز پر جمع ہونے کی وجہ سے ان  کی حدت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے اگر کاغذ اُس کے نیچے رکھا جائے تو جل اُٹھتا ہے۔ اللہ کا جو نظام ظاہر میں کام کر رہا ہے، وہی باطن میں بھی کام کر رہا ہے۔ مادی نفس جو انسان کو بُرائی کی طرف راغب کرتا ہے، جسم مثالی کی آگ کا محدب شیشہ ہے۔ اس شیشے سے جب آنکھ دیکھتی ہے تو ناسوتی روشنی اُس شیشے سے گزر کر ایک مرکز پر پڑتی ہے، جس میں مثالی نفس کی لہروں سے بنا ہوا جسم ہےجو مادی لہریں ہیں، اُن کی طبی خاصیت آگ یا نار ہے۔ نسمہ کے جسم کی نگاہ کی روشنی بھی نسمہ کی  لہریں ہیں،جن کے اندر حدت ہے۔ جب کوئی آدمی اپنی اَنا کے خول میں بند ہو جاتا ہے تو گویا کہ اُس کے نسمہ کا جسم اپنی آنکھوں کے اوپر محدب لینس چڑھا لیتا ہے۔ نسمہ کا جسم ہماری مادی جسم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔آدمی کی بینائی نسمہ  کےجسم کی آنکھ کی روشنی ہے۔ انانیت کا غلبہ محدب نہیں ہے۔ نسمہ  کی روشنی جب اس لینس سے گزرتی ہے تو اَنا کا غلبہ اُس کی تمام شعاعوں کو اکھٹا کر کے محدود نقطے پر جمع کر دیتا ہے۔نسمہ  کی لہریں ہی جسم کی اور مادی دماغ کی حرکت بنتی ہیں۔ مادی لہریں جب خیال کے ایک نقطہ پر ٹھہر جائیں گی تو قدرت کے قانون کے مطابق اس نقطے میں آگ جمع ہو جائے گی۔ بس آگ کا اثر آدمی کے عمل میں بھی ضرور آئے گا۔ اس کے مزاج سے ان لہروں کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ خود پسندی و خود نما ئی ،کبرونخوت، حسد، جلن غرض کہ بہت سےبیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔جس سے جسمانی صحت بھی  متاثر ہوتی ہے۔ جسمانی حرکت کی یہ لہریں اپنا کام ختم کرکے واپس نسمہ  میں جذب ہو جاتی ہیں۔ یہی اعمال کا ریکارڈ ہے جسے طرزفکر بن جاتی ہے اور یہاں  کی طرزفکر وہاں منتقل ہوجاتی ہے۔  وہی ریکارڈ مسلسل چلتا رہتا ہے یعنی اعراف میں بھی جسم مثالی یا نسمہ  کا ہر عمل خود پسندی و انا کے دائرے میں ہوگا۔ نسمہ کا  جسم اپنے اندر داخل ہونے والی  آگ کو  محسوس  بھی کرے گا۔ یہی سزا ہے۔خدمتِ خلق کے کاموں میں جب نفس کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اور اگر آدمی اُس تکلیف کی طرف متوجہ نہ ہو اور نفس  کی جانب دھیان  نہ دے تو آہستہ آہستہ انا کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے۔ پھر نفس کسی  کی خدمت میں خوشی محسوس کرتا ہے ۔ گویا نسمہ  کی آنکھوں سے محدب لینس اتر جاتا ہے۔

 اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں رب العالمین ہوں، سارے عالمین میں اس کی ربوبیت کے انوار پھیلے ہوئے ہیں۔مخلوق اپنے خالق کو اس کی ربوبیت کے حوالے سے پہچانتی ہے۔ انسان بہت سے تقاضوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے اندر ہر وقت تقاضے اٹھتے رہتے ہیں ۔اس کا ذہن ہر وقت ان  تقاضوں کو پورا کرنے کی جانب لگا رہتا ہے۔ جب وہ اپنے تقاضے میں  ناکام رہ جاتا ہے تو پھر اس پر  اپنی بے بسی  اور لاچاری ظاہر ہوتی ہے۔اپنی محتاجی سے وہ اپنے رب کی بے نیازی کو پہچانتا ہے۔ کائنات کی ہر شے رحمت کے انوار میں لپٹی ہوئی ہے۔ہر شئے کو اس کی زندگی کی انرجی انہی انوار سے فراہم ہورہی ہے۔ یہی انوار مخلوق کو اپنے خالق کی پہچان کراتے ہیں۔ خدمت خلق میں جب کوئی بندہ  اپنے رب کی خوشی  کے لیے، اپنے نفس کی پروا کیے بغیر مخلوق کے فائدے کے لیے کام کرتا ہے تو اس کا رابطہ اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے ان انوار سے ہو جاتا ہے اوروہ جتنا زیادہ وہ کام کرتا  جاتاہے اتناہی زیادہ اسے ان انوار سے انرجی ملتی  جاتی ہے، اس کے وسائل میں وسعت آتی جاتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ  اپنے رب کی مہربانیوں سے فائدہ اٹھا کر اس کی مخلوق کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔وسائل میں وسعت کا مطلب یہ ہے کہ رب اس سے راضی ہے۔ایک روحانی طالب علم کے لئے اس بات سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ اس کا رب اس سے راضی رہے۔اللہ کی رضا اور خوشنودی ہی خدمت خلق کا سب سے بڑا صلہ ہے جو بندہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے۔خدمت خلق ایسی نیکی ہے جس کا صلہ بندے کو اپنی ہی زندگی میں مل جاتا ہے ۔وہ جب کسی کے لئے کام کرتا ہے تو دوسرا فرد بھی اس کے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے کوشاں ہوجاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اسے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے آپس کے تعلقات مضبوط اور خوش گوار ہوتے ہیں۔ لوگوں میں محبت وعزت بڑھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ میل جول ہوتا ہے ۔جس نفس ادب سکھتا ہے۔ اللہ پاک نے رُہبانیت کو پسند نہیں کیا۔ جیسا کہ  قرآن میں اس نے فرمایا ہے کسی بھی پیغمبر نے رُہبانیت اختیار نہیں کی، بلکہ ہر پیغمبر لوگوں کے درمیان  رہے اور اللہ  تعالی کی پہچان کرانے کا اختیار کیا وہ خدمت خلق ہے۔ہر پیغمبر لوگوں کے درمیان رہے اوراللہ تعالی  سے لوگوں کو متعارف کراتے رہے۔ ان سب نے جو راستہ مخلوق کو اللہ تعالی  کی پہچان کرانے کے لئے اختیار کیاوہ خدمت خلق ہے۔ہر پیغمبر نے اللہ کے بندوں کے فائدے کے لئے ساری زندگی کاوشوں اور کوششوں میں گزاردی ۔ اپنی جا ن پر تکلیف جھیل کر لوگوں کو خوش کرتے رہے۔ نتیجے میں اللہ ان سب سے راضی رہااور انہیں وہ مقام عطا کیا جو دوسروں کو نہیں ملا۔خدمت خلق تمام پیغمبروں کی ہی  عادت رہی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو دیکھئے کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کا اللہ سے واسطہ اور رابطہ قائم رکھنے کے لیے خانہ کعبہ بنا دیا تاکہ بندے اپنے رب کے گھر آتے جاتے رہیں اور اس طرح ان کے قلب میں اللہ بس جائے۔اللہ اینٹوں کے گھر میں نہیں بستا مگر  بندہ جب اس حرم پاک  کے پاس پہنچتا ہے تو اللہ بندے کے دل میں بس جاتا ہے۔ بندوں کے لیے ذہنی مرکزیت قائم کرنے کا اس سے بڑا اور کیا نظام ہو سکتا ہے بلاشبہ یہ بہت عظیم خدمت ہے اور قیامت تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔

اللہ کا پیغام بندوں تک پہچانے میں پیغمبروں نے جو تکالیف و آواز اٹھاءی اسے کون نہیں جانتا۔  حضرت موسیٰ کے واقعہ کو پڑھیں ۔ باربار ان کی قوم کی ان سے غداری کا مظاہرہ کرتی تھی۔ باربار وہ انہیں ڈرا کے دھمکاکے اور محبت و معافی ہرطرح سے ان کی اصلاح کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے اللہ کی خوشنودی  اور مخلوق کے فائدے کے لئے فرعون جیسے ظالم اور جابر سے ٹکرانا پسند کرلیا اور جن لوگوں نے کا ساتھ دیا  اور ان کی خدمات کو قبول کیا انہیں اس ظالم کے شکنجے سے بچا کر لے گئے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کیجئے ۔ نبوت سے پہلے کی زندگی کے حالات پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ آپ ؐکی پوری زندگی کا مقصد خلق خدا کو فائدہ  اور آرام پہنچانا تھا۔ بیواؤں کا سودا سلف لانا، یتیموں کی ضروریات کا خیال رکھنا ،  تجارت میں مالک کو نفع دلانے کے لئے پوری محنت سے  کام کرنا، امانتوں  کی پوری  حفاظت کرنا وغیرہ وغیرہ۔یہ سارے وہ اوصاف ہیں جو تمام کے تمام لوگوں کو فائدہ پہچانے کے لئے ہیں۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں: "اگر تم میری خوش نودی چاہتے ہو تو پہلے میرے بندوں کو خوش رکھو۔یعنی اللہ کی خوشی اس کی مخلوق کی خوشی میں ہے۔ مخلوق کو آرام و راحت پہنچانا اور اسے خوش  دیکھنا اللہ نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔ جب کوئی بندہ اللہ کے شعار کو اپنا بنا لیتا ہے اور وہ بھی اپنے رب کی طرح اس کی مخلوق کو آرام و راحت پہنچانے اور خوش رکھنے میں اپنی خوشی جان لیتا ہے، تو اللہ بھی اس سے خوش ہو جاتا ہے اور مخلوق بھی اس خوش ہوجاتی ہے۔خود اس کا اپنا نفس بھی مطمئن ہوجاتا ہے چونکہ تمام پیغمبروں کا مشترکہ شعار اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا اور انہیں  آرام  پہنچانا  رہا ہے ۔ روحانی راستوں کا متلاشی جب پیغمبروں کے شعار کو اپنالیتا ہے تو اس کو تمام پیغمبروں کی تائید بھی حاصل ہوجاتی ہےاور پیغمبروں کے ذریعے سے اللہ تک پہنچنے میں اسے آسانی ہوجاتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

 

 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی