Topics

محبت

 

1.     محبت سے مراد یہ ہے کہ کسی سے ہمدردی کرے۔

2.     کسی کی جانب بے لوث مخلوص اور جذبات کے بہاؤ اور ہمدردی کے جذبات کا اظہار محبت ہے۔

3.     کسی سے انسیت،چاہت اورہمدردی کےجذبات کا اظہار محبت ہے۔

4.     محبت تسلیم و رضا کا نام ہے۔

5.     دو اجسام کے دریان قوت کشش کا نام محبت ہے۔

6.     کسی کی ذات کو اپنے حواس پر محیط کرلینا محبت ہے۔

7.     محبت ایک ایسا اندرونی جذبہ ہے جو پہلے تو آدمی کو کسی ہستی کی طرف راغب کرنا ہے اور اپنی انتہا میں اس بات کا متقاضی بن جاتا ہےکہ آدمی اپنے محبوب پر اپنا سب کچھ نچھاور کردے۔

8.     محب کا محبوب کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینا اور اپنی خواہشات پر اس کی خواہشات کو ترجیح دینا محبت ہے۔

9.     دل میں گداز اور خلوص کا نام محبت ہے۔

10.                        محبت ایک ناقابل بیان جذبہ ہے۔

11.                        محبت نور کی لطافت کا نام ہے۔

12.                        اللہ اور مخلوق کے درمیانی رشتے کا نام محبت ہے۔

13.                        محبت فطرت ہے۔محبت کائنات کی روح ہے۔ جس طرح روح کے بغیر جسم مردہ ہے محبت کے بغیر کائنات ادھوری ہے۔

14.                        تمام مثبت خیالات کا مرکز محبت ہے۔

15.                        محبت وہ نظر ہے جو شئے میں نقص نہیں دیکھتی۔

٭٭٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱    محبت کیا ہے؟ روحانیت میں محبت کی اہمیت کیا ہے؟

سوال نمبر۲    اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں یہ یقین ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟

سوال نمبر۳    سالک کے لئے کیوں ضروری ہے کہ مرشد سے محبت کرے؟

سوال نمبر۴    محبت فاتح عالم کس طرح ہے؟

٭٭٭٭٭٭٭

محبت فطر ت ہے اور فطرت خالقیت کا مظاہرہ ہے۔ ہماری زندگی میں آئے دن اس کی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ جیسے بچہ جب پیدا ہوتاہے تو ماں کی پہلی نظر میں بچے کے لئے ممتا کی ساری محبتیں سمٹ آتی ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی بھی دیکھنے والا اسے پہچان جاتا ہے۔ اللہ پاک کے عطا کردہ اختیار کےمطابق ماں اپنے بچے کی خالق ہے۔ اپنی تخلیق پر پہلی نظر خالقیت کی نظر ہے۔ جو ماں کےذریعے سے بچے پر پڑتی ہے۔ اس نظر میں محبت کے جذبے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خالق کائنات نے بھی جب کائنات بنائی اور بنانے کے بعد اس پر نظر ڈالی تو اس نظر میں خالقیت کا سارا جمال سمٹ آیا اور یہ جمال کائنات کےذرے ذرے میں محبت بن کر جذب ہوگیا یعنی خالق کائنات کا پہلا ادراک محبت ہے۔ یہ اسم رحیم کی تجلی ہے اور اس کا رنگ سرخ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ محبت ہمارے اندر کیا جذبات ابھارتی ہے۔

محبت ہمیں فرمانبرداری سکھاتی ہے۔ محبت انکساری وعاجزی پیدا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے کی محبت میں آدمی اپنے نفس کو بھول جاتا ہے۔ محبت میں آدمی اپنا تن من دھن قربان کرکے بھی یہ سمجھتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کیا۔ محبوب اگر ایک نظر بھی دیکھ لیتا ہے تو محب یہ سمجھتا ہے کہ مجھے ہفت اقلیم مل گئے۔محبت میں وفا و جفا مساوی نظرآتی ہیں۔ یعنی محبت اس قدر پازیٹو جذبہ ہے کہ محبوب کے کسی بھی طرز عمل و طرز سلوک کو نیگیٹیو معنی نہیں پہناتاہے بلکہ جفا کے اندر بھی کوئی نہ کوئی حکمت تلاش کرکے مطمئن ہوجاتا ہے اور ہر حال میں محبوب کے ساتھ راضی اور خوش رہتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ذہن کے نیگیٹیو خیالات کو دبادیتا ہے اور ان کا رخ پازیٹو کی جانب موڑ دیتا ہے۔ محبت ادراک کا پہلا عکس ہے۔ عدم سے وجود میں آتے ہی کائنات نے یعنی روحوں نے سب سے پہلےاللہ کی جس صفت کا ادراک کیا وہ محبت ہے۔ روحوں نے جان لیا کہ کوئی نہایت ہی محبت سے ہمیں دیکھ رہا ہے اوراس لمحے روحوں کو نہ اپنی خبر تھی نہ اللہ کی۔بس گمشدگی کے عالم میں محبت کا ایک ادراک ابھر آیا۔ جیسے سمندر کی تہہ میں پانی کی بوند کے اندر سرخ ذرہ چمک اٹھا۔ پس خالق کی نگاہِ محبت کا ادراک کائنات کی تمام روحوں کےادراک کی بنیاد بن گیا۔ کائنات کی ہر مخلوق بنیادی طور پر اپنے خالق کو پہچانتی ہے۔ روح فطری طور پر اللہ پاک سے محبت رکھتی ہے۔ روح کی محبت کا عکس کائنات کے ذرے ذرے میں ہے۔اسی جذبے کےتحت جانور بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ محبت فاتح عالم ہے۔ عالم محسوسات میں محبت ہی بنیادی حس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب محبت سے کام لیا جاتا ہے تو حواس کی گہرائی میں محبت کی لہریں متحرک ہو جاتی ہیں اور اس کے اثرات دور دور تک پھیل جاتے ہیں۔ نظر تمام حواس کا مجموعہ ہے۔ روح پر اللہ کی وہ نظر جو ازل میں ڈالی گئی وہ نظر روح کے ادراک وحواس کی بنیاد بنی۔روح کا ازل سے لے کر ابد تک کا سفر اللہ کی نظر کی روشنی میں ہے۔ اللہ  کی نظر نے کائنات کی ہر شئے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اللہ کی نظر کے گھیراؤ کا تصور مرتبہ احسان کہلاتا ہے۔ حضور پاک ؐ کا قول ہے کہ نماز کی حالت میں تصورکرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اللہ کو اللہ کی نظر کی روشنی میں دیکھ رہے ہو۔ ادراک ہی یقین ہےجیسے ہی یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ کے انوار نے ہمیں ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے اسی لمحے بندہ ان انورار کا ادراک کسی نہ کسی طرح کرلیتا ہے۔کبھی نور کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے ہوجاتا ہے کبھی نماز میں سرور آجاتا ہے۔ کبھی اس قدر بے خبری ہوجاتی ہے کہ وقت کا احساس نہیں ہوتا۔ کبھی نمازمیں مادی جسم انتہائی لطیف محسوس ہوتا ہے۔ یہ ساری حالتیں اللہ کے نور کا ادراک ہیں جو مادی حواس کے دائرے میں بندہ کرتا ہے مگر یہ ادراک مادی حواس کی گہرائی کے رخ میں ہوتا ہےاور اس کی شرط پوری پوری ذہنی یکسوئی اور دھیان ہے۔

محبت ادراک کل ہے جیسا کہ آپ کو پہلے بتایا جا چکا ہے کہ نگاہ تمام حواس کا مجموعہ ہے۔ جب کسی شئے کو دیکھا جاتا ہے تو بغیر چھوئے ہوئے بھی اس کی نرمی، گرمی، موٹائی ، ٹھوس پن، لطافت غرض کہ ہر چیز کا تقریباً پتہ چل جاتا ہے۔ یعنی نگاہ مکمل علوم رکھتی ہے۔ مگر اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ انسان کمزور ہے۔ اس کے مادی حواس ناقص ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ آدمی کی مادی نظر کمزور ہے۔ نظر کی کمزوری کے لئے چشمہ لگانا پڑتا ہے۔ چشمے یا عینک سے نظر کی کمزوری دور ہو جاتی ہے اور صاف نظر آتا ہے۔ چشمے یا عینک سے نظر کی کمزوری دور ہوجاتی ہے اور صاف نظر آتا ہے۔ روحانی سفر میں کوئی طالب علم جب علم سیکھنے کی غرض سے مرشد کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہے تو مرشد اپنے ادراک کی عینک اس کی آنکھوں پر لگا دیتا ہے۔ مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں عینک کے بے شمار لینس اور شیشوں کے نمبر ہوتے ہیں۔ کسی میں قریب سے صاف دکھائی دیتا ہے کوئی دور سے اچھی طرح دکھائی دیتا ہے۔

اعلیٰ علیین کے حواس اسمائے الٰہیہ کے حواس ہیں۔ہرشخص کی آنکھوں کا چشمہ مختلف نمبر کا ہوتا ہے۔ ایک چشمہ دوسرے کو بہت کم ہی لگتا ہے۔روح کو اللہ پاک نے اعلیٰ علیین جس میں روح اسمائے الٰہیہ کی تجلیات کو دیکھتی اور پہچانتی ہے۔ روح کی تمام صلاحیتیں اسمائے الٰہیہ کے انوار ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ سمیع اللہ وبصیر۔اللہ ہی سنتا ہےاللہ ہی دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماعت اور بصارت کی صفات اللہ پاک کی ہیں۔ بندہ اور تمام مخلوق اللہ کی سماعت سے سنتی ہے اور اللہ کی بصارت سے دیکھتی ہے۔اللہ پاک نے روح کے حواس کو معتبر قراردیا ہے۔ اسمائے الٰہیہ کے انوار براہ راست روح کے حواس اور صلاحیتیں بنتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں روح کی آنکھ پر اسم بصیر کی عینک لگی ہے۔ جس طرح اللہ کی بصارت کائنات میں دیکھتی ہے۔ روح بھی اسی طرح دیکھتی ہے اور روح کی سماعت اسم سمیع کی روشنی ہے۔ کائنات میں جس طرح اللہ کی سماعت کام کررہی ہےروح بھی ان آوازوں کو سنتی ہے۔ مادی حواس کو کمزور اس وجہ سے کہا گیا کہ مادی آنکھ روح کی آنکھ کا بہتر ہزارواں لینس ہے۔ روح کی آنکھ بہتر ہزار لینس کے ساتھ جب دیکھتی ہے تو اسے ہر شئے مادہ یاMatter  کی دکھائی دیتی ہے۔ اسی حوالے سے ہر حس کے اتنے ہی درجات ہوگئے ۔کوئی بھی حس جس درجے میں کام کرتی ہےوہی حواس آدمی پر مرتب ہوتے ہیں۔اللہ کی پہلے نظر کاادراک جب روح کے ذریعے شعور تک پہنچتا ہے اس ادراک کو مرتبہ احسان کہا گیا ہےاورجب ناسوتی حواس میں اللہ کی نظر کی روشنی داخل ہوجاتی ہےتو شعور و عقل میں تفکر کا ایک نیا راستہ کھل جاتا ہے۔اسی فکر کو فکر وحدانی کہتے ہیں۔ جس کےذریعےناسوتی عقل وحواس نورسے سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ کل ذات اللہ ہے۔ ادراک کل بھی اللہ ہی کا ادراک ہے۔ادراک کل محبت ہے۔ اللہ پاک پیکر محبت ہے۔ باقی تمام ادراک اس کی محبت کی تقسیم ہے۔ روزمرہ زندگی میں ہر شخص اس بات کا بارہا تجربہ کرچکا ہوگا کہ محبت میں کشش ہے۔ محبت کی ڈور دلوں کو باندھ دیتی ہے۔ ایک دل دوسرے دل کی جانب محبت کی ڈور سے کھنچا چلا آتا ہے۔ دل مرکز ہے اور مرکزوہ نقطہ ہے جہاں تمام حواس ایک جگہ حمع ہوتے ہیں۔ تمام حواس کا مجموعہ نظرہے۔ نظر کافطری اور طبعی و ازلی ادراک محبت ہے۔محبت دل کا ادراک ہےجب ایک بندہ اللہ کے لئےدوسرے بندے سے محبت کرتا ہے تو اللہ کی محبت کی ڈور ان دونوں کو آپس میں باندھ دیتی ہے۔ ایک دل دوسرے دل کو پہچان لیتا ہے۔ ایک روح دوسری روح کو دوست کی حیثیت سے جان اور پہچان لیتی ہے۔ محبت ہی وہ ادراک ہے جس سے ایک روح دوسری روح کے قریب ہوتی ہے۔محبت دوہستیوں کے دریمان فاصلہ مٹادیتی ہے۔ محبت جس طرح ایک بندے کو دوسرے بندے کے قریب کرتی ہےایک روح کو دوسری روح کے قریب کرتی ہےاسی طرح اللہ سے محبت کرنے والے بندےکومحبت کی کشش اللہ کے قریب کردیتی ہے۔ آپ کے سامنے پیغمبروں کی طرززندگی ہے ۔اللہ والوں کی زندگی  کے نقشے ہیں۔ حضرت بلالؓ کا واقعہ یادکیجئے۔ لوگوں نے انہیں تپتی ریت کے اندر گردن تک دفن کردیا۔ چلچلاتی دھوپ میں سارا سارا دن اسی حالت میں رہے مگر اللہ کے عشق سے انکار نہ کرسکے۔ آہ!کیاآپ محبت کی اس گہرائی کواپنے دل میں محسوس نہیں کرتے۔ آہ!کیا آپ کے دل کی نظر حضرت بلالؓ کے دل کو اللہ کی محبت کے نور کی ڈوریوں میں بندھا نہیں دیکھتی جو دل ہر طرف سے اللہ کی محبت میں جکڑا جاتا ہے۔ وہ دل کیسے انکار کرسکتاہے۔ وہ دل اس کے قبضے میں رہتا ہی کب ہے۔ اس پر تواس کے محبوب کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ محبت توشمع اور پروانے کا کھیل ہے۔ محبت کے کھیل میں دونوں ہی جلتے ہیں۔ محبت کاادراک عاشق اور معشوق دونوں پر یکساں رہتا ہے۔ محبت نظرکا ادراک ہے۔ جب ایک فرد دوسرے کو محبت سے دیکھتا ہےتودوسرا بھی اسے محبت سے دیکھتا ہے۔ اللہ کی نظر کا مکمل ادراک روح میں موجود ہے۔ باقی ساری کائنات روح کے ادراک کا پھیلاؤہے۔ ازل میں اللہ نے جب اپنی تخلیق روح کودیکھا تو اللہ کی نظرکی روشنیاں روح کے اندر جذب  ہوگئیں اورروح کے اندر روشنیوں کاایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آپ ایک خوبصورت گلاب کا پھول ہاتھ میں لیتے ہیں۔ اسے دیکھ کر اور سونگھ کر آپ کو جو خوشی ہوتی ہے اس کا اظہار آپ الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ آپ کے ہونٹ اسے دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی تمام حسیں خوشی کے اظہار میں شامل ہوجاتی ہیں۔ ہر حس ایک مخصوص طرز پر اپنااظہار کرتی ہے۔بالکل اسی طرح اللہ کےدیدار پر اصل  میں روح نے جو خوشی کا اظہار کیا تو ساری کائنات وجود میں آگئی ۔ یہ اظہار حقیقت محمدی ؐروح اعظم کا اظہار ہے۔ جسے نوراول بھی کہا جاتا ہے اور اسی نور کو باعث تخلیق کائنات  کہا گیا ہے۔ کائنات کی ہر شئے حقیقت محمدی ؐیا روح محمدی ؐکا ادراک ہے جسے روح محمدی ؐکا اللہ کی تجلی کو دیکھ خوشی کا اظہار پھول ہے۔جب روح محمدیؐ اللہ کے دیدار سے خوش ہوئی تو ساری کائنات میں پھول کھل گئے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں ہم نے ہر شئے کو اس کی فطرت پر پیداکیا ہے۔فطرت درحقیقت روح اعظم یا حقیقت محمدیؐ کا ادراک ہے جو روح کا ازلی شعور ہے اور ازلی حواس ہیں۔ یہی ازلی شعور اللہ سے قریب ہے۔ اسی کو اللہ نے کہا ہے کہ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ فطرت ہی خالق کی پہچان ہے۔ فطرت ہی روح اعظم کا شعور ہے۔ دین اسلام فطرت کے اصول و قوانین ہیں۔ ہر وہ ادراک جو فطرت میں داخل ہے وہ دین ہے اور فطرت بدل نہیں سکتی۔ اس لئے کہ فطرت اسمائے الٰہیہ کی روشنیوں کا ادراک ہے۔ کائنات کی ہر نوع کوئی ایک فطرت کا مظاہرہ عام  طور سے کررہی ہے۔ جیسے پرندے اپنی اڑان کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اڑان ایک فطرت بن کر کام کررہی ہے جو بدل نہیں سکتی۔ کوئی نوع درندگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ غرض کہ کائنات کی اشیاء کا مطالعہ کرنے سے فطرت سامنے آجاتی ہے۔ انسان فطرت کا مجموعہ ہے۔ اس کو کائنات کہا گیا ہے۔ فطرت کی بنیاد محبت پر ہے۔ یعنی دین کی بنیاد محبت پر ہے۔ دین سے محبت نکل جائے تو وہ دین باقی نہیں رہتا۔ بھلا بنیاد کے بغیر بھی عمارت کھڑی ہوسکتی ہے۔ تسخیر کائنات خود اپنی ذات کو پہچان لیتا ہےاور اس فطرت سے اسی کے مطابق کام لیتا ہے تو ایسی صورت میں وہ کائنات کی تسخیر کر لیتا ہے۔روحانی علوم تسخیر کائنات کے علوم ہیں۔ ایک روحانی علوم کا طالب یہ بات جانتا ہے کہ یہ کائنات ظاہر میں نہیں بلکہ اس کے اپنے باطن میں ہے۔ ورنہ ظاہری کائنات کو تسخیر کرنے کے لئے تو لاکھوں  برس کی   عمر ؓؓبھی آدمی کےلئے ناکافی ہے۔ وہ ساری کائنات میں کہاں گھوم سکتا ہے۔البتہ باطن میں جو کائنات ہے اس میں اللہ کی محبت اورحضورپاکؐ کی رحمت سے ان کے فضل وکرم سے وہ جہاں بھی سیر کرادیں ان کے لئے زندگی کا ایک لمحہ بھی لاکھوں برس کے برابر ہے۔محبت کا ادراک ٹائم اینڈ اسپیس کو ختم کردیتا ہے۔ ایک روحانی آدمی کے ہر جذبے پر جب محبت کارنگ چڑھ جاتا ہے تو اس کاغصہ اور غضب بھی اللہ کا جلال بن جاتا ہے۔ اس سے دوسرے بندے کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اس کے سفلی جذبات جل جاتے ہیں اور بندے کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ یہ سب رحمت للعالمیں ؐ کاوصف ہے۔ رحمت اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہے جس کا وسیلہ حضورپاکؐ کی ذات اقدس ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭



Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی