Topics
۱۔ اللہ پاک فرماتے ہیں۔” اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے نہ غم۔“ جب انسان اپنی فکر
کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیتا
ہے تو وہ دنیا کے فکر و غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس کا ہر قدم اللہ کی رضا کے لیے
اٹھتا ہے۔ اس کا مقصد حیات اللہ کی خوشنودی حاصل کرناہوتا ہے۔ ایسے بندوں کے لیے
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں ان کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتے ہیں، کان بن
جاتا ہوں جس سے وہ بولتے ہیں۔ غرضیکہ ان کی زندگی کا ہر عمل اللہ کے امر کی حرکت
ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ڈر خوف روحانی راستے میں ایک رکاوٹ ہے اور انسان شک وسوسوں
اور بے یقینی میں ،بتلا ہو جاتا ہے جو کہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
۲۔ کسی قسم کا نقصان ، خوف و دہشت سے آدمی کے
اندر ایسی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں جس سے وہ
سمٹ کر محدودیت کے خول میں بند ہو جاتا ہے جو کہ سرا سر اللہ سے دوری کا
باعث بنتا ہے جب کہ روحانی آدمی اس کے برعکس ہوتا ہے اسے کسی چیز کا خوف و غم نہیں
ہوتا۔
۳۔ لاعلمی خوف اور ڈر کا باعث بنتی ہے۔
۴۔ خوف منفی طرز فکر سے پیدا ہوتا ہے۔ آدمی
میں خود غرضی اور لالچ پیدا کرتا ہے اور دل کی کمزوری کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ
سے ارادے پست ہو جاتے ہیں۔ اللہ سے دوری دنیا کی جانب راغب کرتی ہے اور دنیا کی محبت میں آدمی صرف دنیا کو حاصل کرنے
کے لیے تگ و دو کرتا ہےکیونکہ اس میں اللہ
کی رضا شامل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے ناکامی ہوتی ہے تو وہ اپنی کم مائیگی پر
خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ خوف آدمی کو بزدل بنا
دیتا ہے اور اس کی ذہنی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔ اللہ کی طرف راغب ہونے اور اللہ کی
یاد سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں اللہ کے ذکر سے دل
اطمینان پاتے ہیں۔ اللہ سے دوستی کر لی جائے تو خوف و غم سے نجات مل جاتی ہے۔
۵۔ خوف آدمی اس ہستی سے خائف کر دیتا ہے جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ
بندوں سے محبت کرنے والی ہے۔ روحانی آدمی کو کسی محفل میں ایسی بات نہیں کرنی
چاہیے ج سے حاضرین محفل کے دل میں اللہ کی محبت کے بجائے اس کا خوف پیدا ہو۔
۶۔ ایسے لوگ جو حقیقت آشنا نہیں ہوتے ہمیشہ خوف
کا شکار رہتے ہیں جیسے کبھی بیوی بچوں کی کفالت کا خوف، کبھی روزگار کا خوف ، کبھی
رشتے داروں کا خوف۔۔ ایک روحانی آدمی چونکہ حقیقت آشنا ہوتا ہے اس کے ذہن کی
مرکزیت صرف ذات خداوندی ہوتی ہے اس وجہ سے وہ ہر وقت اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی
فکر میں رہتا ہے۔ وہ اللہ کو اپنا کفیل اور ہر کام
میں
اس کو فاعل حقیقی جانتا ہے۔ اس سے اس کے اندر استغنا پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے
اندر سے دنیا کا خوف نکل جاتا۔
۷۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہرحال میں خدا
وند کریم سے ڈرتے رہو۔ خوف خدا جس کے اندر نہیں وہ روحانی صلاحیت حاصل نہیں کر
سکتا کیونکہ اللہ کے خوف اور محبت دونوں سے دل میں گداز پیدا ہوتا اور ہم اپنے
اعمال پر نظر رکھتے ہیں کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں جس سے اللہ ہم سے ناراض ہو
جائے جس کے اندر خوف خدا نہیں ہوتا وہ قطع رحمی کرنے لگتا ہے جس کے اندر خوف خدا
نہیں ہوتا وہ قطع رحمی کرنے لگتا ہے جس سے لوگ بجائے محبت کے اس سے خوف کھانے لگتے
ہیں۔
۸۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی نہیں ہوتی وہ خوف
کا شکار ہو جاتے ہیں۔
۹۔ خوف جہالت میں پلتا ہے۔
۱۰۔ تعصب اور تنگ نظری سے خوف پیدا ہوتا ہے۔
۱۱۔ خوف ترقی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہے جن قوموں کے
لوگ بہادر اور نڈر ہوتے ہیں وہ قومیں ترقی
کرتی ہیں۔
۱۲۔ خوف ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ آدمی کی شخصیت پر
جب کسی دوسری شخصیت کا دباؤ کا نتیجہ ہے۔ آدمی کی شخصیت پر جب کسی دوسری شخصیت کا
دباؤ پڑتا ہے تو اپنی شخصیت مغلوب ہو جاتی ہے ۔ تب اپنی کمزوری اور دوسرے کی برتری
کا احسا س ہوتا ہے۔ خوف اس وقت پیدا ہوتا
ہے جب دوسرے کی برتری کے ساتھ ساتھ اس سے
نقصان کا اندیشہ بھی ہو جب یہ اندیشہ حد
سے بڑھ جاتا ہے تو آدمی اسے اپنا دشمن سمجھ لیتا ہے اور پھر اس سے دور
بھاگتا ہے۔ اللہ کا خوف اس کی بزرگی اور برتری کی بنا پر تو ضرور کرنا چاہیے اور
اس کی قدرت پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ ہر شئے پر قادر ہے۔ مگر ایک روحانی آدمی اللہ
سے اس طرح خوف زدہ نہیں ہوتا کہ اس سے نقصان کا اندیشہ ہو بلکہ وہ اپنے رب کو انتہائی درجہ کی رحیم و
کریم ہستی جانتا ہے اور اپنی کمزوریوں پر ہر وقت اس سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے۔
اللہ سے اس کا خوف اس بزرگی، برتری اور عظمت کی بناء پر ہوتا اس کے دل پر اللہ کا
رعب طاری رہتا ہے۔ یہ رعب اللہ کی عظمت کا اعتراف کرانے کے ساتھ ساتھ اس کی محبت
بھی بندے کے دل میں پیدا کرتا ہے اور بندہ
اللہ سے قریب ہونے کی خواہش رکھتا ہے اس سے خائف نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال
نمبر۱۔ ” اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم
نہیں ہتا۔“ اس کی تشریح کریں۔
سوال
نمبر۲۔
استغناء سے کیا مراد سے مراد ہے؟ بیان کریں۔
سوال
نمبر۳۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شک سے
باز رہنے کا حکم دیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟
سوال
نمبر۴۔ خوف اور غم سے انسان کس طرح نجات
حاصل کر سکتا ہے؟
٭٭٭٭٭
خوف
کی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں مبتلا ہونے سے آدمی گھبراتا ہے
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آدمی جس چیز سے خائف ہوتا اسے اس شئے سے نقصان کا
اندیشہ ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم سانپ یا شیر کو دیکھتے ہیں تو راستہ چھوڑ کر دوسری
طرف ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں ان سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے بلکہ ہمیں معلوم ہے کہ
یہ نقصان پہنچانے والے جانور ہیں جبکہ اگر ہم سڑک کے پار پھولوں کو دیکھ کیں تو
اپنا رخ بدل کر ان کی جانب چلنا شروع کر
دیتے ہیں کیونکہ ہمارے ذہن میں پھولوں سے کسی قسم کا کوئی گزند پہنچنے کا کوئی
تصور وجود نہیں ہے۔ آدمی جس چیز سے خوف کھاتا ہے اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے
اسے اپنا دشمن جان کر اس سے نفرت کرتا ہے اور جس شئے سے نقصان کی توقع نہیں ہوتی
اسے دوست اور محبوب بنا لیتا ہے۔ اسی طرح اگر آج ہم انسانوں کی زندگی پر غور کریں
تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عام طور سے لوگ موت سے ڈرتے ہیں یعنی آخرت کی زندگی سے
خائف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ سے بھی دور ہیں۔ اگر انہیں یہ یقین آجائے کہ اللہ
پاک نہایت ہی محبت کرنے والی ہستی اس سے کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں اور
زندگی ما بعد الموت اس زندگی سے بدرجہا بہتر ہے تو وہ ضرور موت سے خائف ہونے کی
بجائے موت کی آرزو کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں۔ انہیں کہہ دو کہ اگر تم اپنے دعویٰ
میں سچے ہو تو موت کی تمنا کر کے دکھاؤ۔
وہ ابد تک اس کی تمنا نہیں کریں گے۔ کیونکہ وہ اللہ سے خائف ہیں اور آخرت کی زندگی کی بہتری کی انہیں
امید نہیں ہے۔
حضور
پاک ﷺ نے فرمانا جس مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی کوئی وقعت
نہ ہوگی۔ ان کے دشمن انہیں نوچ کھائیں گے اور اس کے لیے ایک دوسرے کو ایسے ہی دعوت
دیں گے جیسے دستر خوانوں پر لوگوں کو بلایا جاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کیا اس وقت
ہم تعداد میں قلیل ہوں گے۔ فرمایا نہیں
بلکہ بہت زیادہ ہوں گے مگر تمہاری قیمت سمندر کے جھاگ کی طرح ہوگی اور اس کی وجہ
یہ ہوگی کہ تم دنیا کو محبوب رکھو گے اور موت سے ڈرو گے۔ دوسرے لفظوں میں غیب کی
دنیا سے لا علمی اور خوف انسان
کی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کر
دیتا ہے جب کہ ہمارا مشن یہ ہے کہ انسان اللہ کے قریب ہو اور آخرت کی زندگی کا
مشاہدہ کرے۔ قرآن اور آسمانی کتابوں میں جگہ جگہ دوزخ کے عذاب اور خوفناک سزاؤں کا
ذکر ہے جس کو پڑھ کر آدمی خوفزدہ ہو جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
اللہ پاک ایک جانب تو اپنی تعریف میں نہایت ہی رحیم وکریم ہستی کی حیثیت سے بیان
فرماتے ہیں اور دوسری جانب بندوں کے لیے ایسی سزائیں مقرر کر رکھی ہیں کہ اندازہ
ہوتا ہے کہ اللہ میاں بہت سخت طبیعت کے مالک ہیں۔ اصل میں انسان کو دو قسم کے علوم
عطا کیے گئے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی صفت جمالی کے دوسری اللہ تعالیٰ کی صفت جلال
کے۔ جب بندے کو صفت جلالی کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے اندر خوف پیدا ہو
جاتا ہے۔ دوزخ کا ڈراوا اور عذاب کا خوف اسی وجہ سے دلایا گیا ہے تاکہ بندہ اللہ
تعالی کے جلال سے دور رہے۔ جلال اور غصہ نافرمانی کی صورت میں آ تا ہے۔ پس اللہ کے جلال کا نشانہ بھی فرمان
نفس ہے۔ نفس سرکش ہے۔ اس لیے کہ وہ حقیقت سے دور ہے۔ یہ دوری اسے لاعلم اور جاہل
بناتی ہے۔ لاعلمی کی وجہ سے وہ خیال کی
روشنی کو اپنے تقاضوں کے مطابق معنی
پہناتا ہے چونکہ نفس کے تقاضے مادیت میں کام کرتے ہیں اس لیے مادیت کا حسول
ہی نفس کے تقاضوں کی تکمیل ہے۔ جب نفس مادی تقاضوں کے حصول میں اپنے آپ کو جکڑ
لیتا ہے اور مادی زندگی ہی اس کا نصب العین بن جاتی ہے تو اس پر غیب میں داخل ہونے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور
وہ ہمیشہ کے لیے اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اللہ یہ نہیں چاہتا کہ بندہ اس دور ہو
جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نافرمان نفس کو اپنے عذاب سے ڈرایا ہے تاکہ نافرمان نفس
سرکشی سے باز آجائے۔ مادی نفس کی بنیاد نا فرمانی پر ہے۔ مادی جسم جنت میں اللہ کی
نافرمانی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادی نفس کی فطرت
نافرمانی ہے ۔ فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ جس طرح ایک درندے کو سیدھا کر پالتو
بنانے پر بھی اس کی درندگی اس دور نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اس پر مکمل بھروسہ نہیں
کیا جاتا اور اسے عام پبلک میں لایا نہین جاتا۔ اگر لاتے بھی ہیں تو پنجرے میں بند
کر کے لاتے ہیں۔ اس لیے کہ ا س کا مالک جانتا ہے کہ شیر کی درندگی نہیں بدل سکتی
یہ اس کی فطرت ہے۔ جب بھی موقع ملے گا یہ ابھر
آئے گی۔ یہی حال نفس کا ہے کہ آدم وحوا کے جنت میں رہ کر بھی یہ فطرت ان سے
دور نہ ہوئی کیونکہ انسان کمزور ہے اور فطرتاً جلد باز واقع ہوا ہے۔ جب بھی فطری کمزوریاں ابھر کر آئیں، نفس نافرمانی کا
مرتکب ہو گیا۔ تمام بزرگ ہستیاں جو اپنے نفس کی کمزوری اور سر کشی سے آگاہ
ہیں وہ تمام اللہ پاک سے اپنے گناہوں اور خطاؤں پر معافی
مانگتی ہیں۔ گزشتہ زمانے کے بزرگوں کے واقعات پرھنے سے بھی ہمیں یہی بات معلوم
ہوتی ہے کہ وہ تمام اپنے نفس کی کمزوریوں سے خائف تھے اور اس سے چھٹکارا پانے کے
لیے کوشاں رہتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓنے
ایک پرندے کو ہدف بنا کر کہا کاش میں بھی
تیری طرح پرندہ ہوتا تو شریعت و احکام خداوندی کا مکلف نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے
عتاب کے پنجرے میں بند نفس کے سامنے انہیں پرندہ زیادہ آزاد دکھائی دیا کہ اس کے
لیے نہ سزا ہے نہ جزا۔حضرت ابو غفاری ؓکی نگاہ جب بھی اپنے نفس کی کمزوریوں پر
پڑتیں تو فرماتے۔ ” کاش میں درخت ہوتا اور کاٹ دیا جاتا۔ آپ کے اس قول میں بھی نفس
کی سرکشی کا خوف پنہاں ہے۔ حضرت عائشہ فرماتیں۔
کاش میں بھولی بسری ہو جاتی یعنی کاش کوئی میری کمزوریوں اور نادانیوں کو بھول
جاتا۔
ایک
روحانی آدمی اپنے نفس پر اس طرح پاتا ہے کہ اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی جانب
لگا دیتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ فکر کی روشنیاں دماغ کے خلیوں میں جذب ہو کر جسمانی و
دماغی حرکت کے لیے توانائی بنتی ہے۔ جب تصور میں اللہ ہوگا تو دماغ کے خلیوں میں
نور جذب ہو کر توانائی فراہم کرے گا۔ اس طرح دلو دماغ میں نورانیت بھر جائے گی اور جہاں نور ہوتا ہے وہاں نار نہیں
ہوتا۔ جہاں اللہ ہوتا ہے وہاں شیطان نہیں ہوتا۔ پس اللہ کے تصور میں اپنے آپ کو
غرق کر دینے سے شیطان کا خیال خود بخود ذہن سے مٹ جاتا ہے اور نور سے توانائی حاصل
ہوتی رہتی ہے۔ پھر اللہ جس طرح ہم سے کام لینا چاہتا ہے لیتا ہے اس کے علاوہ اللہ
کی ہستی علیم ہے اور شیطان اللہ کے علوم سے آشنا نہیں ہے۔ جب اللہ کا تصور قائم ہو
جاتا ہے تو اللہ کے نور سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے اسی نور کے ذریعے بندے کے علوم
بھی منتقل ہوتے ہین۔ اس کا شعور و عقل زیادہ سے زیادہ ان علوم سے مستفیض ہوتا
ہےعلم کے ذریعے سے وہ اللہ کے قریب ہوتا رہتا ہے اور اس کی اصل فطرت اور صفات کو
پہچانتا ہے مگر اس کے برعکس جب بندے کا رابطہ نور سے نہیں ہوتا تو اس کے قلب وذہن
میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہی تاریکی خوف بن کر آدمی کی روحانی صلاحیتوں کو کھا جاتی
ہے۔ علم روشنی ہے۔ روشنی میں ہمارے حواس کام کرتے ہیں۔ آنکھ دیکھتی ہے کان سنتے
ہیں اور ہمیں ہر شئے کاصحیح پتہ چل جاتا ہے مگر تاریکی میں آنکھ جب دیکھ نہیں سکتی
تو اگر کچھ سنائی دے بھی تو کچھ نظر نہ
آنے کی وجہ سے آدمی خوفزدہ ہو جاتا ہے کیونکہ پھر آنکھ تاریکی کے ڈائی
مینشن میں کام کرتی ہے اور ان ڈائی مینشن سے تصویریں بناتی ہے۔ تاریکی کا ہر ڈائی
مینشن مفروضہ ہے جو ذہن کی اپنی اختراع ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب تنہائی میں یا تاریکی میں آدمی کا ذہن جذب ہو جاتا ہے تو تصور کے
ہیولے اسے نظر آتے ہیں اور وہ سخت خوفزدہ ہو جاتا ہے۔
روحانی
نقطہء نظر سے اللہ تعالیٰ سے خوف کرنے کا اصل مطلب خود اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں
اور نا فرمانیوں سے خوف کرنا ہے۔ ایک روحانی آدمی کے دل میں عام آدمی کی نسبت بہت
زیادہ اللہ کا خوف ہوتا ہے مگر اس خوف کی وجہ خود اپنے نفس کی کمزوری ہوتی ہے کہ
وہ اللہ پاک کی ہستی کے مقابلے میں اپنے نفس کو بے بس اور کم علم جانتا ہے۔ یہ خوف اسے اللہ کی
بارگاہ میں جھکنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس
طرح وہ اللہ سے دور نہیں بلکہ اور زیادہ قریب ہوتا ہے اور اپنی محتاجی کو اللہ پاک
کی تونگری کے ذریعے سے دور کرتا ہے۔ اس طرح اللہ اور بندے کے درمیان ایک مضبوط
رشتہ بندھ جاتا ہے جس میں بندہ اپنے رب کی مہربانیوں اور رحمتوں سے فیاض ہوتا
ہے۔ روحانی آدمی کا اللہ سے خوف کرنا
اس کو مہذب بنادیتا ہے۔ خوف جب کمال کو پہنچتا ہے تو دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو
جاتی ہے یہی بے رغبتی بندے کو زہد کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ کے خوف کے ساتھ ساتھ اس
کی رھمت کی امید بھی ضروری ہے کیونکہ مایوسی
سے کفر پیدا ہوتا ہے۔ رحمت خداوندی سے مایوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نعوذ
باللہ آپ کو اللہ پاک قادریت اور قدرت سے انکار ہے۔ یا اگر انکار نہیں ہے آپ اس کی
قدرت کو بھی اپنی مجبوری اور محتاجی کے چشمے سے دیکھ رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ آپ کی مشکل کو
دور نہیں کرے گا۔ اکثر ہوتا بھی یونہی ہے
کہ آدمی اس قدر مایوس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی مایوسی کے کنوئیں میں ہی ڈوب
جاتا ہے وہاں سے نکلنے نہیں پاتا اور اللہ سے شکایت کرتا ہے کہ اللہ ہماری نہیں
سنتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تو سب کا ہی خالق ہے۔ سب یکساں طور پر اس کی
مخلوق ہے پھر کسی کی وہ سنتا ہے اور کسی نہیں سنتا کا کیا مطلب ہے۔ یہ بات غور طلب
ہے کیونکہ ہم دنیا میں پریشان حال لوگوں کی اکثریت دیکھتے ہیں جب کہ اللہ پاک اپنے
آپ کو رحمٰن اور رحیم کہتا ہے اور غفار الذنوب کہتا ہے۔ جب وہ اس قدر بے نیاز ہے
تو پھر مخلوق کے مبتلائے غم ہو نے کا کیا جواز ہے۔ درحقیقت ساری کائنات ایک منظم
اور مربوط نظام پر چل رہی ہے۔ گویا کائنات کا نظام ایک مشینی نظام ہے۔ جس طرح مشین
چلانے کے خاص قانون و طریقے ہوتے ہیں اسی کائنات کے چلانے کے بھی مخصوص طریقے اور
اصول ہیں۔ تمام مخلوق فرداً فرداً کائنات
کا ایک ایک کل پرزہ ہے۔ اگر اس پرزے کو صحیح رکھا جائے گا اور اس سے صحیح طور ہر
کام لیا جائے تو پھر یہ درست رہے گا۔ کائناتی نظام کو سمجھنے کے لیے ہی اللہ پاک
نے انسان کو روحانی علوم عطا کیے ہین۔ ان علوم میں یہ بھی شامل ہے کہ کائنات کا
خالق کون ہے اور اس کی سورس آف انرجی کیا ہے اور اس انرجی کو حاصل کرنے کے لیے کون
سے اصول اپنانے ضروری ہیں۔ کائنات کا خالق اللہ ہے اور کائنات کی انرجی اللہ کا
نور ہے۔ پس اب سبسے زیادہ ضروری یہ لازم آتا ہے کہ ہم اپنا رشتہ خالق سے اور اس کے
نور سے جوڑ لیں تاکہ ہماری محتاجی دور ہو جائے اور ہمیں انرجی کی مسلسل سپلائی
ملتی رہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں تم سے تمہارےگمان کی قریب ہوں یعنی جیسا تم
مجھے تصور کرو گے ویسا ہی میں تمہارے لیے بن جاؤں گا۔ خوف اور مایوسی میں آدمی اللہ کو بھی اپنی طرح ہی نعوذ با للہ
کمزور سمجھ لیتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات آجاتی ہے کہ بس اللہ میاں تو میری مشکل
میں کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ قدرت اور فطرت کے قانون کے مطابق اللہ پاک بندے کے گمان
کے مطابق ہی بن جاتا ہے۔ مایوسی اور نا امیدی میں انسان اللہ کی مدد کو قبول ہی
نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ اپنی پریشانی و غم میں مبتلا رہتا ہے۔ ایک روحانی
کیریکٹر اس کے برخلاف ہر وقت اللہ سے نیک امید اور نیک گمان رکھتا ہے مگر اس کے
ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ فطرت کا ہر کام مخصوص اصولوں پر چل رہا ہے۔ پس وہ
یہی کوشش کرتا ہے کہ سب سے پہلے تو وہ ان اصولوں کو پہچانے اور پھر ان کے مطابق ہی
اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے۔ اس کا خوف یہ
ہوتا ہے کہ کہیں اس سے فطرت کے
اصولوں کی خلاف ورزی دانستہ یا غیر دانستہ
نہ ہو جائے۔ کیونکہ جب کوئی بندہ قانون کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے تو پھر وہ بچ
نہیں سکتا جیسے شیشے کے اوپر پتھر دانستہ ماریں تب بھی شیشہ ٹوٹے گا اور اگر
نادانستہ لگ جائے تب بھی ٹوٹناہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دانستہ جرم مجرم بنا دیتی
اور نادانستگی معافی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ روحانی آدمی اللہ سے خوف کی حالت میں
اپنے نادانستہ گناہوں اور گلطیوں پر ہر وقت اللہ کے سامنے عجز و انکسار کا دامن
پھیلائے رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جتنا میں اللہ سے قریب ہوں گا اتنا ہی میری
گلطیاں اور کمزوریاں مجھ سے دور ہوں گی کیونکہ
اللہ کی ہستی پاک اور بے نیاز ہے جس طرح سورج کی روشنی میں بیٹھنے سے آدمی دھوپ سے استفادہ حاصل کرتا ہے اور چاند کی روشنی میں بیٹھنے سے
چاندنی کو محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے قریب جانے سے بھی اس کے نور کو جذب کرتا ہے اور
نور کی سفات اپنے اندر محسوس کرتا ہے پس روحانی شخصیت کو اللہ کا خوف سب سے زیادہ
فائدہ پہنچاتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے
اللہ کی قربت اور محبت اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ قرآن نے ایسے ہی خوف کو لفظ ” خشیت
اللہ “ سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے دلوں میں اللہ پاک کی خشیت پیدا کرے۔
آمین۔
٭٭٭٭٭