Topics
۱۔ بزرگوں کا
کہنا ہے کہ اللہ پاک کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ ہر چیز ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل میں آرہی ہے۔ دنیا میں
جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے وہ سب لوح محفوظ پر درج ہے۔ انسان
کو چاہیے کہ اپنی طرف سے کام کی تکمیل میں پوری کوشش کرے۔ مگر نتیجہ اللہ پر چھوڑ
دے۔ اللہ نے جو بندے کی تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہر حال میں اسے ملنا ہے۔
۲۔ تقدیر اور
تدبیر کے علم سے روحانی آدمی کی آگاہی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے حسن تدبیر سے اپنی
تقدیر معلق میں اپنے علم و ارادے
کواستعمال کر سکے۔ روحانی آدمی ہر کام کی ابتداء احسن تدبیر کے ساتھ کرتا ہے۔
تقدیر میں کوئی ردوبدل نہیں ہے وہ جانتا ہے کہ تقدیر پر کوئی زور نہیں ہے اس لیے
وہ راضی برضا رہتا ہے۔
۳۔ ایک روحانی
فرد کے لیے تقدیر بھروسہ رکھنا ضروری ہے۔ یہ یقین اس کے ارادے کو اس طرح تقویت
بخشتا ہے کہ وہ اپنے حسن تدبیر سے بگڑے ہوئے کاموں کو سنوار دیتا ہے۔ ایک شخص جس
کو کسی بزرگ نے بتایا کہ اس کو فلاں حادثہ پیش آنے والا ہے مگر ان میں اتنی قوت و
سکت نہیں ہے کہ وہ اس حادثے سے اسے بچا
سکیں۔ ان بزرگ نے اس شخص کو حضرت غوث پاک ؓکے پاس بھیجا۔ حضرت غوث پاکؓ نے بھی اس کی
تصدیق کی۔ پھراس واقعہ کو عالم رویت سے عالم رویا میں تبدیل کر دیا۔ یہ حضرت غوث
پاکؓ کی کرامت بھی ہے اور ان کا علم اور
حسن تدبیر بھی ہے۔ انہوں اپنی روحانی قوت سے حادثے کے واقعہ ہونے کا وقت
بدل دیا۔
۴۔ تدبیر اور
تقدیر سب کچھ لوح محفوظ پر درج ہے۔ اس لیے تدبیر کرنا بھی ضروری ہے اور تقدیر پر صبر شکر کرنا بھی ضروری ہے۔
۵۔ تقدیر پر
عمل کسی نہ کسی تدبیر کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔
۶۔ توکل کایہ مطلب ہے کہ
خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا
مقدرکےحوالےکر
۷۔ ہر آدمی کی
تقدیر پیدا ہونے سے پہلے لکھی جاتی ہے۔ ا
س لیے حالات کیسے بھی ہوں انسان کو ہر حال میں کوشش جاری رکھنی چاہیے اور نتیجہ
اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس ارادے سے کہ اللہ پاک اس بات پر قدرت رکھتے ہیں جس کو
جو چاہیں عطا کریں۔
۸۔ اللہ کی رضا
ہی تقدیر ہے۔ ہرحال میں اللہ سے خوش رہنا چاہیے۔
۹۔ تدبیر آدمی
کی کاوش اور تقدیر پر اللہ کی مرضی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں جو انسان یا قوم اپنی
حالت خود بدلنے کی کوشش نہیں کرتی اس کی حالت اللہ بھی نہیں بدلتے۔ اس لیے اگر
انسان کو کسی چیز کی جستجو ہو تو اسے حاصل کرنے کے لیے پوری پوری کوشش کرنی چاہیے
ایک روحانی آدمی کی جستجو علم حاصل کرنا اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتی ہے ۔
کوشش و محنت کر کے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا تقدیر سے آگاہی ہے۔
۱۰۔ تقدیر دو طرح
کی ہیں۔ ایک تقدیر مبرم دوسری تقدیر معلق۔ تقدیر معلق انسان کا ارادہ ہے اور تقدیر مبرم اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے۔ جیسے
ایک کھڑے ہوئے آدمی کو کہا جائے کہ ایک پاؤں اٹھاؤ تو وہ اپنا ایک پاؤں اٹھا لے گا
یہ تقدیر معلق ہے لیکن جب اس سے کہیں کہ دونوں پاؤں اوپر اٹھا لو تو نہیں اٹھا
سکتا یہ تقدیر مبرم ہے۔
۱۱۔ اللہ پاک
فرماتے ہیں۔ ”جب تم میں سے کسی کی موت آئے تو وہ کہتا ہے اے میرے رب تو نے مجھے
مزید مہلت کیوں نہ دی۔ میں بھی صدقہ خیرات کرتا اور نیک لوگوں میں شامل ہو جاتا۔
اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں موخر کرتے کسی نفس پر اس کا وقت جب کہ وہ آجاتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ خوب واقف ہیں ہمارے اعمال سے۔“
ان آیات کی
روشنی میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بندے کی
تدبیر بھی اللہ پاک کی لکھی ہوئی تقدیر کا ایک جز ہے۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ تقدیر
سے کیا مراد ہے؟ تقدیر معلق اور تقدیر مبرم سے کیا مراد ہے؟
سوال نمبر۲۔ قلم
لکھ کر خشک ہو گیا اس کی تشریح کریں۔
سوال نمبر۳۔ توکل
سے کیا مراد ہے؟ تفصیل بیان کریں۔
سوال نمبر۴۔ لوح
محفوظ کیا ہے؟ لوح اول دوم میں کیا فرق ہے؟
٭٭٭٭٭
تقدیر
کے لغوی معنی ہیں اندازہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جب کن کہا تو جو کچھ اللہ تعالی ٰ
کے علم میں تھا وہ تمام کا تمام لوح محفوظ پر ڈسپلے ہو گیا۔ علم کا مظاہرہ اللہ
تعالیٰ کے ارادے کے عین مطابق ہوا۔ علم کے ساتھ ارادے کی مطابقت تقدیر ہے۔ یہ
تقدیر اللہ تعالیٰ کے ارادے کی وہ قوت ہے جو اللہ کے علم کوعدم کے پردے سے ثبات کے
پردے پر لانے والی ہے۔ عدم سے مراد معرفت الہٰی کی نفی ہے جسے صرف لا سے تعبیر کیا
گیا۔ عدم کے پردے میں بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے مگر جب تک خود ارادہ الہٰی
میں اپنی ذات کو ظاہر کرنے کا خیال نہ آیا اس وقت تک معرفت الہٰی کا ذکر نہ تھا۔
جب ارادہ الہٰی اپنی ذات کو خلق میں ظاہر کرنے پر آمادہ ہوا یہی آمادگی زمانہ ازل
کی بنیاد اور آغاز ہے۔ اس آغاز میں سب سے پہلے لا کی معرفت ظہور میں آئی۔ یہ پردہ
عدم کے اسرار و رموز ہیں جس کے اندر ذات کی مشیت کام کر رہی ہے۔ جب مشیت ایزدی
اپنے آپ کو عدم سے اثبات میں ظاہر کرتی ہے تو
معرفت الا کا آغاز ہوتا ہے یعنی عدم کے پردے کے پیچھے مشیت ایزدی نے جس طرح
اور جس اندازے پر اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا ارادہ کیا مشیت ایزدی کی تجلیات نے اسی
انداز میں پردہ اثبات پر اپنے آپ کو ظاہر کر دیا۔ معرفت لا اور معرفت الا دونوں ہی
معرفت ذات کے علوم ہیں جنہیں علم القلم کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ پاک کے ذاتی علوم ہیں
اسی درجہ میں کائنات نا قابل تذکرہ ہے۔ یہ ذات کی تجلیات کا عالم ہے۔ اس عالم میں ذات کائنات کی تخلیق کا ارادہ کرتی
ہے۔ اس ارادے سے معرفت صفات موجود ہیں۔ معرفت صفات الہٰیہ کے بعد معرفت اسمائے
الہٰیہ کا ظہور ہوتا ہے یعنی صفات الہٰیہ کی تجلیات کو بغرض کائنات کی تخلیق کے
ایک تشکیلی صورت میں ڈھالا جاتا ہے۔ صفات الہٰیہ کی تشکیلی صورت اسمائے الہٰیہ
مشیت ایزدی کی تشکیلی صورت ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے ارادے سے تمام اسمائے الہٰیہ
حجاب محمود ، حجاب کبریا اور حجاب عظمت سے نکل کر لوح محفوظ پر اپنے آپ کو ظاہر
کرتے ہیں۔ اسمائے الہٰیہ کا ظہور سب سے پہلے لوح محفوظ کے تئیس شعبوں میں ہوتا ہے۔
ان تئیس شعبوں میں اسمائے الہٰیہ کی تجلیات کائنات کا پورا خاکہ تیار کرتی ہیں۔
یہی وہ عالم ہے جسے وحدت الوجود کا نام دیا گیا ہے۔ اس عالم کے متعلق اللہ پاک
فرماتے ہیں کہ ” ہم نے ہر چیز کو پیدا کیا معین مقداروں سے“ یہ مقداریں کائنات کے
تخلیقی فارمولے ہیں جو اللہ کے ارادے کے تابع ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کا علم کامل
ہے۔ وحدت الوجود کی ہرحدت کائنات کا تخلیقی فارمولا ہے۔ یہ ذات کی وہ تجلیات ہیں
جو آگے چل کر کائنات کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ وحدت اللہ تعالیٰ
کی فکر کائنات ہے جس میں کائنات کی مصلحتوں اور حکمتوں کا ریکارڈ ہے۔ یہ حقیقت کے
علوم کہلاتے ہیں۔ ان علوم کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ یا ایک درجہ تقدیر مبرم کہلاتا ہے
اور دوسرا رخ یا درجہ تقدیر معلق کہلاتا ہے۔ تقدیر مبرم اٹل تحریرات ہیں جن میں
کوئی ردو بدل نہیں ہے۔ ان کی حیثیت نظام
کائنات کی ہے۔ یہ تدبیر سے ٹل نہیں سکتی جیسے موت ، کہ کوئی بھی ذی روح موت سے
نہیں بچ سکتا۔ یہ قدرت کی وہ سنت ہے جس میں کوئی ردو بدل نہیں۔ قرآن میں اسی کے
متعلق ذکر ہے کہ اللہ کی سنت میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے نہ ہی تعطل واقع ہوتا ہے۔
یہ وہ تکوینی علوم ہیں جو آدم کو نیا بت کے دائرے
میں منتقل ہوئے ہیں اور یہی اسمائے الہٰیہ کے علوم کہلاتے ہیں۔ ان کا دوسرا
رخ تقدیر معلق ہے جیسا کہ ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ تقدیر مبرم کی تحریرات میں کوئی
تبدیلی یا ردو بدل نہیں ہے یعنی اس کے اندر آدم کا ارادہ شامل نہیں ہے۔ یہ تحریرات
اسمائے الہٰیہ کے وہ نظام و قوانین ہیں جو کائنات کی بنیاد ہیں۔ اس کے اندر اللہ
کا ارادہ کام کر رہا ہے ۔ تقدیرمبرم کے علوم بندے کو ارادہ الہٰی سے آگاہ کردیتا
ہے۔ یہی ارادہ الہٰی تقدیر مبرم ہے۔ جس کے اندر بندے کا کوئی بس نہیں چلتا۔
تقدیر معلق آدم کے وہ اختیارات ہیں جو
آدم کو نیابت اور خلافت کے دائرے میں عطائے ہوئے ہیں۔ یہ اختیارات
تقدیر مبرم کے علوم کے دائرے میں ہیں۔ ان اختیارات کا استعمال تدبیر ہے۔
تقدیر معلق میں انسان کا ارادہ کام کرتا ہے مگر یہ ارادہ بھی اللہ کے ارادے کی
مطابقت میں کام کرتا ہے۔ مثلاً دعا سے موت کا وقت بدل گیا مگر موت کا قانون نہیں
بدلا۔ موت آئے گی ضرور۔ اسی کے متعلق اللہ
پاک فرماتے ہیں ” لکھتا ہے اللہ اور مٹاتا
ہے اور اس کے پاس ہے اصل کتاب۔“ اصل کتاب
یعنی تقدیر مبرم کی تحریرات۔ لکھتا ہے اللہ یعنی اصل کتاب میں اللہ نے لکھ دیا کہ
موت آنی ہے۔ مٹاتا ہے یعنی بندے کا ارادہ ا س موت کو قبول نہیں کرتا جس وجہ سے موت
کا وقت بدل جاتا ہے مگر پھر بھی اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق موت آکر رہتی
ہے۔ بندے کا موت کو قبول نہ کرنا اور زندگی کی دعا کرنا اس سلسلے میں صدقہ خیرات
کرنا وغیرہ وغیرہ تمام چیزیں اور عمل تدابیر میں آتا ہے۔ تدبیر و وسائل کی تخلیق
کرتی ہے۔ وسائل کی تخلیق کی بنید مخلوق کے تقاضے اور روح کے تقاضے ہیں۔ تقدیر معلق
کی اطلاع روح کسی نہ کسی طور پر شعور کو دیتی رہتی ہے۔ مثلاً خواب یا چھٹی حس کا
ادراک تاکہ آدمی کا شعور بھی روح کے تقاضے کی تکمیل میں اپنی تدابیر کے ساتھ شامل
ہو جائے۔
اللہ
پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں۔” بے شک یہ تو ایک نصیحت ہے۔ پس جو چاہے پکڑے اپنے
رب کی طرف راہ۔ مگر تم نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے اور اللہ تعالیٰ
علیم اور حکیم ہے۔ داخل کرتے ہیں جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت میں ظالموں کے لیے ایک
درد ناک عذاب ہے۔“
اللہ
تعالیٰ نے ان آیات میں تقدیر اور تدبیر دونوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلے فرماتے ہیں کہ
یہ تو نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی طرف آنا چاہتا ہے یعنی اس میں
تدبیر کا تذکرہ فرمارہے ہیں کہ انسان اللہ
کی جانب آنے کی تدبیر اور ارادہ کرے پھر فرماتے ہیں لیکن تم تو کچھ چاہ ہی نہیں
سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔ اس میں
تقدیر کا تذکرہ ہے کہ ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا۔ پھر اس کی وجہ بتائی جا رہی ہے کہ
اس وجہ سے کہ اللہ علیم اور حکیم ہے وہ جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت میں داخل کر لیتے
ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے بندے کی مرضی پر نہیں مگر جن لوگوں نے اپنی
تدبیر سے غلط راہ اختیار کی ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ سعید
اور شقی روحوں کو ازل میں ہی الگ الگ کر
دیا تھا۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے بچوں کو نصیحت کی کہ ایسے ایسے کرنا اور ساتھ
ہی فرما دیا کہ تقدیر کے مقابلے میں میں تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتا یعنی میری نصیحت
تو محض ایک تدبیر ہے جو ضروری نہیں کہ حسب خواہ نتائج برآمد کرے۔ اس لیے حضور بابا
جی فرماتے ہیں کہ انسان تگ و دو یعنی تدبیر میں سستی نہ کرے اور نتیجہ اللہ پر
چھوڑ دے یعنی نتیجے پر نظر رکھے بغیر اپنی کوششیں خلوص نیت کے ساتھ جاری رکھے۔
تقدیر کو سمجھنا ہی اللہ پر توکل اور
بھروسہ ہے۔ تقدیر اللہ کا علم ہے اور تدبیر بندے کا اپنے ارادے اور اختیار کا
استعمال ہے یعنی بندہ چونکہ اللہ کے علم سے ناواقف ، اپنی تقدیر سے ناواقف ہے اس لیے وہ اپنی
طرف سے تدبیر کرتا ہے۔ بندے کی تدبیر
علم حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے یا جہالت
کا ذریعہ بنتی ہے۔ علم اللہ کے قریب کرتی ہے جہالت اللہ سے دور کرتی ہے۔ ایک بندے
کے لیے فائدے مند ہے دوسرا نقصان دہ۔تدبیر بندے پر فرض ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک
صحابی اپنے اونٹ کو ایک طرف بٹھا کر آئے۔ حضور پاک ﷺ نے پوچھا۔ گھٹنوں پر رسی
باندھی ہے۔ انہوں نے کہا نہیں اللہ کے توکل پر چھوڑ آیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے
اس کے رسی باندھو پھر اللہ کے بھروسے پر چھوڑ آؤ یعنی تدبیر بھی ضروری ہے اور
تقدیر پر بھروسہ بھی۔ اس مضمون سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی
ضروری ہے۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کا ذکر آیا ہے۔ علیم اور حکیم۔
صفت علیم اللہ کا علم ہے اور صفت حکیم
اللہ کے تدبیر ہے۔ آدم کو اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات منتقل ہوئی ہیں۔ اسم علیم کی
تجلیات جب آدم کے اندر منتقل ہوئیں تو آدم اسمائے الہٰیہ کے علوم کا حامل بنا۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے آدم کو اسمائے الہٰیہ کے کل علوم عطا کر دیئے
یعنی آدم کو اللہ کے اسم علیم کی نسبت حاصل ہو گئی اور جب اسم حکیم کی تجلیات و
انوار منتقل ہوئے تو آدم کے اندر ارادہ منتقل ہوا یعنی آدم کے اندر روح کا شعور
منتقل ہوا۔ اس طرح آدم کی روح اپنی ذات میں کائناتی علوم کی حامل بھی ہے اور
کائناتی شعور اور روحانی شعور بھی رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں روح علم کے ساتھ ساتھ
دماغ بھی رکھتی ہے یعنی اسمائے الہٰیہ کی تجلیات و انوار کا علم اسے حاصل ہے اور
ان تجلیات و انوار کو اسے اپنے ارادے سے
کام لینے کی تدبیر بھی آتی ہے۔ جب کوئی بندہ اسمائے الہٰیہ کے علوم کو حاصل کر کے
کائنات کی اشیاء میں تصرف کرتا ہے تو یہ تصرف اس کا معجزہ و کرامت شمار ہوتی ہے جس
میں اس کے مادی شعور کا دخل نہیں ہوتا۔ روحانی راستے پر چلنے والا اللہ کے فضل و
کرم سے اور اپنے ارادے کی سکت کے مطابق یہ علوم حاصل کرتا ہے۔
تدبیر میں نظر کام کے نتیجہ پر ہوتی ہے
یعنی انسان کی نظر عالم اسباب میں دیکھتی ہے۔ اس کا ہر کام وسائل و اسباب کا پابند
ہے۔ وسائل و اسباب کی پابندی انسان کے عمل کو دو طرح کے نتائج سے گزارتی ہے۔
کامیابی یا ناکامی، خوشی یا غم ، اچھائی یا برائی وغیرہ۔ یہ دونوں نتائج دو طرح کی طرزِ فکر سے حاصل ہوتے ہیں۔ مثبت اور
منفی طرزِ فکر ۔ جہاں آدمی کا ارادہ کام
کرتا ہے وہاں اس کی کوشش اور تدبیر بھی کام کرتی ہے اور کوشش کا دارومدار وسائل پر
ہے۔ مثبت اور منفی طرزِ فکر کی لہریں اور روشنی وسائل کے اندر جذب ہو کر ان کی
حرکات کو مثبت یا منفی کر دیتی ہے۔ اس طرح ہر کام جب اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو
وہ حاصل شدہ لہروں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ لہریں ہمارے حواس کے اندر جذب ہو جاتی ہیں
اور ہمارے اوپر ان کی کیفیات وارد ہو جاتی ہیں۔ تدبیر بھی تقدیر ہی کا حصہ ہے اس
سے باہر نہیں۔ اللہ پاک کے تفویض کردہ اختیارات کا استعمال تدبیر ہے۔ ایک روحانی
آدمی ان اختیارات کو اپنی سکت کے مطابق انتہائی بلندی تک لے جاتا ہے اور تمام
مخلوقات پر اپنی بزرگی اور برتری بہ حیثیت علم و تدبیر کے پہنچان لیتا ہے۔ یہی
آگاہی اسے روحانی
راستوں پر اللہ
تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے۔ وسائل کا حصول، وسائل کی کمی بیشی اور وسائل کی تبدیلی
آدمی کے اندر ٹائم اینڈ اسپیس کے حواس و احساس کو گھٹاتی اور بڑھاتی ہے جیسے گاڑی
میں دو میل کا سفر دس منٹ میں طے ہوتا ہے اور بیل گاڑی میں دو گھنٹے میں۔ وسائل
انسان کی معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے حصول کے لیے
اللہ کی رضا کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ انسان کا ارادہ وسائل کے اندر کام کرتا ہے
جیسے وہ چاہے تو گاڑی میں سفر کرے اور چاہے تو بیل گاڑی میں ۔ اسے اختیار ہے۔ مگر
یہ اختیار اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون اور نظام کے مطابق ہی نتیجہ اور انجام
سے آدمی کو نوازے گا۔ یہاں ایک حکایت حسب مضمون یاد آتی ہے۔
ایک شخص تقدیر اور تدبیر کے مسئلے کو
جاننا چاہتا تھا۔ وہ ایک بزرگ کے پاس گیا کہ مجھے تقدیر اور تدبیر کا مسئلہ سمجھا
دو۔
ان بزرگ نے کہا کہ” دیکھو ابھی تھوڑی دیر میں یہ
عمارت گر جائے گی اور ملبہ بن جائے گی۔ اگر تم تب بھی نہ سمجھے تو فلاں درزی رہتا
ہے اس کے پاس چلے جانا۔ “
یہ بات سن کر وہ آدمی خوف زدہ ہو کر تیزی سے عمارت کے باہر
آگیا۔ اس کے باہر آتے ہی عمارت گر گئی اور وہ بزرگ اس عمارت کے ملبے تلے دب کر مر
گئے۔آدمی نے سوچا کیسا عجیب آدمی تھا جب اس کو پتہ تھا کہ عمارت گرنے والی ہے تو
پھر وہاں سے بھاگا کیوں نہیں۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا وہ اس درزی کے پاس گیا۔
وہ درزی بیٹھا کفن سی رہا تھا اس نے اس سے اپنا مدعا بیان کیا اور اس مسئلے پر
روشنی ڈالنے کو کہا۔
اس نے کہا کہ
”دیکھو وہ جو سامنے بچہ کھیل رہا ہے میں
اس کا کفن سی رہا ہوں یہ بچہ ابھی تھوڑی دیر میں مرنے والا ہے۔“
وہ شخص بہت
گھبرایا۔ کہنے لگا۔” تم کیسے بے وقوف آدمی ہو جب تم کو پتہ ہے کہ یہ بچہ مرنے والا
ہے تو تم اس کے ماں باپ کو اطلاع کیوں نہیں دیتے کہ وہ اس کے بچانے کی ترکیب کریں
الٹا تم اس کا کفن سینے بیٹھ گئے ہو یہ تو برے ظلم کی بات ہے۔“
درزی چپ چاپ اسے دیکھتا رہا کچھ نہ بولا۔ اتنے میں وہ بچہ
پاؤں پھسلنے سے گرا اور فوراً ہی مر گیا۔ درزی دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور اسے گود
میں اٹھا کر لے آیا۔ وہ آدمی حیرانی سے بولا۔
”یہ کس کا بچہ ہے ؟ درزی
بولا۔ ”یہ میرا بچہ ہے۔ اگر تم کو اب بھی تقدیر اور تدبیر کا مسئلہ سمجھ
نہیں ایا تو فلاں مقام پر ایک موچی بیٹھا تمہیں ملے گا تم اس کے پاس چلے جاؤ۔“
وہ آدمی حیران و پریشان اس موچی کے پاس گیا اور گزشتہ
واقعات بیان کیے اور اس سے اس مسئلے کو سمجھانے کی درخواست کی۔ اس نے کہا کہ:
” دیکھو وہ جو سامنے درخت دکھائی دے رہا ہے جمعرات کے دن
شام کے چار بجے تم کو اس درخت کے ساتھ لٹکا کے پھانسی دے دی جائے گی اب تم اپنے
بچاؤ کے لیے جو مرضی تدبیر کرنا چاہو کر لو۔ تم پہلے ہی اس مسئلے کی تلاش و جستجو
میں دو بندے مروا چکے ہو۔“
یہ بات سن کر وہ آدمی فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور رخصت طلب
کر کے دل میں یہ سوچتا ہوا چلا آیا کہ
ابھی تو دو د ن باقی ہیں جمعرات آنے میں۔ میرے پاس گھوڑا ہے میں اس مقام سے دور
چلا جاؤں گا پھر دیکھتا ہوں کس طرح پھانسی لگتی ہے۔ وہاں سے وہ اگلے مقام پر گیا تو
ایک ویرانے میں دو جوان لڑکا لڑکی پریشان بیٹھے رو رہے تھے اس نے گھوڑا روکا اور
پوچھا کہ:
” اس ویرانے میں تم کیا کر رہے ہو۔“
انہوں نے کہا کہ: ” ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں
اور شادی کرنا چاہتے ہیں مگر بزرگوں کی اجازت نہ ملنے پر یہاں آ کر چھپ گئے ہیں۔
ہمارا گھوڑا بھی مر گیا اور کھانا بھی ختم ہو گیا ہے۔“
لڑکی نے انگوتھی
ہاتھ سے اتار کر دی اور کہا۔ ” تم ہم پر ایک احسان کرو بازار جا کر اس انگوٹھی کو
بیچ کر کچھ کھانا لا دو۔“
اس شخص کو اس
نوجوان جوڑے پر ترس آگیا اس نے کہا۔” میں ابھی تمہارے لیے کھانے کا بندوبست کرتا
ہوں۔“ یہ کہہ کر چلا تو بازار میں آکر ایک سنار کے پاس انگوٹھی دکھائی ۔
اس نے کہا۔” ذرا ٹھہرو۔“ یہ کہہ کر وہ دکان کے اندر گیا چند
لمحوں بعد ایک اور آدمی اس کے ساتھ تھا۔ اس شخص نے پوچھا۔
” یہ انگوٹھی تم نے کہاں سے لی۔ “
اس نے کہا۔ ” میں نے اس طرح سے لی اور یہ واقعہ پیش
آیا۔دراصل یہ انگوٹھی اسی سنار نے ایک ہفتے قبل بنائی تھی جو ایک نواب کی بیٹی کے
لیے تھی۔ دوسرے دن سے ہی وہ بیٹی گم ہو گئی تھی اور نواباسے ڈھونڈ رہا تھا جیسے ہی سنار نے انگوٹھی دیکھی اس شخص کا
غریبانہ حلیہ دیکھ کر تاڑ گیا کہ یہ ایک غریب مسافر ہے کسی طرح نواب کی
بیٹی سے اس کی ملاقات ہو گئی ہوگی اس نے اسے قتل کر کے اس کی انگوٹھی چھین لی
ہوگی۔یہ سوچ کر اس نے فوراً ہی دکان کے اندر جا کر نواب کو اطلاع کر دی تھی وہ
دوسرا شخص نواب تھا۔ پولیس بلائی گئی اور اس آدمی کو پکڑ لیا گیا اس نے بہت حیل حجت کی اور اپنی صفائی میں دلیل دینے
لگا کہ تم کو یقین نہ آئے تو فلاں جگہ وہ بیٹھے ہیں وہاں چلو۔ اس قصے میں کافی دیر
ہوگئی بالآخر وہ نواب اور پولیس کے
ساتھ اس صحرا میں آیا جہاں لڑکا
لڑکی ملے تھے لیکن چونکہ کافی دیر ہوگئی تھی لڑکا لرکی سمجھے کہ یہ آدمی شاید
پکڑا گیا
یا کہیں چلا گیا کہیں مخبری نہ ہو جائے اور ہم بھی پکرے جائیں گے وہ وہاں
سے چل دیئے۔ اب سب کو پکا یقین ہوگیا کہاس شخص نے جھوٹا قصہ گھڑا ہے اصل قاتل یہی
ہے جس نے لڑکی کا قتل کیا ہے۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور لے چلے۔ جمعرات کے دن وہ
اسے اسی درخت کے نیچے لے ائے جس درخت کی نشاندہی موچی نے کی تھی شام کے ٹھیک چار
بجے اسے اسی درخت پر پھانسی پر چڑھایا گیا۔ اسی لمحے موچی سامنے آگیا اور اس سے
پوچھا۔
” اے آدمی! تقدیر اور تدبیر کا مسئلہ سمجھ میں آیا ۔“ اس نے
پھانسی پر چڑھتے ہوئے کہا۔ ” اب سمجھ میں
آگیا۔“
اس قصے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تقدیر کا لکھا بندے کی آنکھوں سے چھپا ہوا رہتا
ہے وہ تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کے نتیجے
کو اپنی کوشش اور محنت کا صلہ
سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تقدیر کے لکھے کو ٹال دیا مگر جب تقدیر سامنے نظر آتی ہے تب بندہ پہچان لیتا ہے کہ یہ عین اللہ کےارادے کے مطابق
ہے اور اللہ کا علم کامل ہے جس میں کوئی
ردو بدل نہیں ہے۔ پس اگر وہ اس میں تدبیر بھی کرتا ہے تو اللہ کے حکم و قانون کی
پاسداری اور تعمیل میں کرتا ہے اور جان لیتا ہے کہ تدبیر اور دعا وغیرہ اللہ کے حکم کو نہیں ٹال
سکتی۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کے علم و ارادے سے باہر کسی شئے کا وجود
نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے اپنے قرآن میں فرمایا۔” نہیں آتی کوئی مصیبت زمین پر
اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ لکھی ہوئی
کتاب میں ا س سے پہلے کہ ہم ان کو پیدا کریں۔ بے شک یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان
ہے ( ہم نے تمہیں اس لیے بتا دی) تم غم زدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہیں نہ ملے اور
نہ اترانے لگو اس چیز پر جو تمہیں مل جائے۔ “( سورہ الحدید ۲۲)
تقدیر علم الہٰی ہے اور تدبیر علم الہٰی کا پہچاننا ہے۔
وما علینا الا البلاغ۔
٭٭٭٭٭