Topics
۱۔ ہر حال میں بااخلاق ، بامعنی اور روحانی
گفتگو۔ فضول گوئی سے پر ہیز ، بولنے میں اپنی باری کا انتظار ، مجلس میں بولنے
والے کو دل لگا کے سننے والا۔ مجلس برخاست ہونے سے پہلے نہ اٹھنے والا آداب مجلس
سے واقف مانا جائے گا۔
۲۔ بادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔ ان کلمات
پر عمل کرنے والا آداب مجلس سے واقف ہو جاتا ہے۔
۳۔ مجلس دو آدمیوں کی ہو یا بہت سے آدمیوں کی۔
اس میں سب سے بڑا ادب یہ ہے کہ کوئی بات نیگیٹو انداز میں نہ کی جائے کہ جس سے کسی
کا دل دکھے کیونکہ آدمی آدمی کی دوا ہے نہ کی آدمی آدمی کے لیے زہر۔
۴۔ مجلس میں دوسروں کے نقطہ نظر اور ان کے
تاثرات کا خیال رکھنا چاہیے۔ چہرے پر غم نہیں بلکہ خوشی کا تاثر ہونا چاہیے۔ سوائے
ایسی جگہ کہ جہاں دوسرے کے غم میں شرکت کی خاطر ہو ، قرآن و حدیث کی کوئی بات ایسی
نہیں کرنی چاہیے جس سے آپ اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ مجلس میں اس طرح بیٹھنا
چاہیے جیسے آپ عبادت میں مصروف ہیں اور
اللہ کو آپ کو دیکھ رہا ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جس مجلس میں اللہ کا ذکر
ہوتا ہے وہاں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور مجلس کے اختتام تک وہیں رہتے ہیں۔
۵۔ روحانی طالب علم یا سالک چونکہ منزل بہ
منزل ترقی کرتا ہوا حضور پاک ﷺ کی مجلس تک پہنچتا ہے اور ان کی مجلس کے آداب وہ
اپنے پیر و مرشد کی مجلس میں سیکھتا ہے۔ آداب مجلس جاننے والا آدمی ہی اس مقام تک
رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
۶۔ مجلس
میں داخل ہوتے ہی حاضرین کو سلام کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہر کام اللہ کی
سلامتی اور اللہ کی رحمتوں کے ساتھ شروع کرے۔ آداب مجلس کا یہ پہلا اصول ہے۔ ایک
روحانی طالب علم کسی بھی محفل میں بغیر جگہ کا تعین کیے ہوئے جہاں بھی جگہ ملے
بیٹھ جاتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکلے جس سے
دوسروں کا دل دکھے۔ صرف خود ہی نہ بولتا رہے بلکہ دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دے۔
اگر حاضرین محفل سے کسی بات پر اتفاق نہ ہو تو ایک دو بار اپنی رائے کا اظہار کرے
اور پھر خاموش ہو جائے۔ مجلس میں نرم اور مٹھاس بھرے لہجے میں بات کرنا چاہیے۔
اسلام مساوات سکھاتا ہے۔ اس لیے محفل میں ہر چھوٹھے بڑے کا خیال رکھنا چاہیے۔
۷۔ ہمارے حضور پاک ﷺ ادب کا چلتا پھرتا نمونہ
تھے۔ حضور پاک ﷺ کے فرمان کے مطابق بہترین محفل وہ ہے جہاں اللہ کا ذکر ہے۔ محفل
میں جا کر سب کو سلام کرنا۔ دوسروں کی بات دھیان سے سننا۔ زیادہ اونچی آواز میں نہ
بولنا۔ قہقے نہ لگانا بلکہ چہرے پر مسکراہٹ رکھنا سب آداب مجلس میں آتا ہے۔
۸۔ اچھے لوگوں کی صحبت سے آدمی پر اچھا اثر
ہوتا ۔ اچھی مجلس میں علم کی باتوں کے ساتھ ساتھ دوستی اور محبت کے رشتے قائم ہو
جاتے ہیں۔ مجلس کے آداب میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ آدمی خود کو دوسروں سے برتر نہ
سمجھے۔
۹۔ آداب مجلس میں میزبان کے لیے ضروری ہے کہ
مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے صاف ستھری جگہ کا انتظام کرے اور ان کی تواضع کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کھانے کا انتظام کرے۔ مہمانوں
کے لیے لازم ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر جائیں اور تہذیب اور خوش اخلاقی کے ساتھ
محفل میں شرکت کریں۔ میزبان پر کسی طریقے سے بوجھ نہ بنیں اور میزبان کا شکریہ ادا
کریں۔
۱۰۔ آدمی کی پہچان اس کے دوستوں سے ہوتی ہے۔ اگر
دوست اچھے ہوں گے تو مجلس بھی اچھی ہوگی۔ اچھی مجلس میں آدمی مجلس کے آداب سیکھتا
ہے۔ اس لیے آداب مجلس سیکھنے کے ساتھ ساتھ دوستی کا حلقہ بھی بہترین ہونا چاہیے۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال
نمبر۱۔ آداب مجلس کے آداب کیا کیا ہیں؟
سوال
نمبر۲۔ با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب ۔
اس کی تشریح کریں۔
سوال
نمبر۳۔ صحبت کا اثر شخصیت پر کس طرح اثر
انداز ہوتا ہے۔
سوال
نمبر۴۔ ایک لمحے کا تقرب سو سالہ نفلی
عبادت سے افضل ہے ، یہ کس کے بارے میں کہا
گیا ہے ، اس کی تفصیل بیان کریں۔
٭٭٭٭٭
اللہ
پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک نفس سے تمہیں پیدا کیا۔ ایک نفس یا نفس واحدہ کا مطلب
یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسانی کی فطرت ایک ہے۔ اپنے نفس کو پہچا ننے کا نام ادب ہے
جو آدمی اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے اور اپنے اندر کام کرنے والی فطرت کے آداب جان
لیتا ہے وہ دوسروں کے درمیان بھی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ اللہ پاک کے نزدیک
سب سے بڑا گناہ جہل ہے جس کی نشانی شیطان
ہے۔ شیطان اپنی جاہلیت کی وجہ سے سے راندہ درگاہ ہوا اور آدم اپنے علم کی وجہ سے
مقبول بار گاہ الہٰی ہوا۔ شیطان نے اپنے
جہل کو اپنا علم قرار دیا۔ اس کی نگاہ نے حقیقی علوم پر اپنے جہل کا پردہ ڈال دیا
اور اسی وجہ سے اس کے اندر تکبر ابھر آیا۔ وہ جہالت و تکبر کے خول میں یہ بھی بھول
گیا کہ وہ اس وقت اس علیم و خبیر کی بارگاہ میں حاضر ہے۔ وہ اپنے رب کی بارگاہ عظیم میں گستاخی کا
مرتکب ہوا۔ اگر اسے اپنے نفس کی پہچان اور ادب ہوتا ہے تو اپنے خالق کی بار گاہ
ادب کا بھی اسے لحاظ ہوتا اور اس کے آداب وہ جان لیتا۔ قرآن کی ہر تمثیل اللہ کے علوم کی ایک کتاب ہے جس کے علوم آدم کو
عطا کیے گئے ہیں اور ہر انسان پر ان کا جاننا ضروری ہے۔ قرآن کی ہر تمثیل میں اللہ کی کوئی نہ کوئی فکر اور ارادہ کام
کررہا ہے۔ جب ان آیات میں غور و فکر کیا جائے تو اس کے پردے میں اللہ کی حکمت
دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کے ارادے کی تحریک اس کے امر کا دائرہ ہے جو لوح محفوظ کی
ایک تمثیل ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہر
شئے اللہ کی جانب سے آرہی ہے اور اللہ ہی کی
جانب لوٹ کر جانے والی ہے۔ گویا لوح محفوظ کی ہر تمثیل ازل سے ابد تک اپنے امر کی حرکت کا دائرہ پورا
کرتی ہے۔ مخلوق کی نظر اس دائرے میں اپنے آپ کو دیکھتی ہے۔ نظر جہاں تک پہنچتی ہے وہیں تک ذہن کی بھی رسائی
ہوتی ہے جیسے ہاتھی کے اوپر اگر چیونٹی چڑھ جائے تو اگر اس کے دانت پر چڑھے گی تو
یہی سمجھے گی کہ سارا ہاتھی ہی سفید چکنا
اور سخت ہے اور اگر پاؤں پر چڑھے گی تو یہی کہ ہاتھی ایک سیاہ ستون ہے کیونکہ چیونٹی کی نگاہ ہاتھی
کو پورا کا پورا نہیں دیکھ سکتی جس کی وجہ سے وہ ہاتھی کے جسم کے مختلف حصوں کی
کڑیاں نہیں ملا سکتی۔ اور اپنے تھوڑے علم کو کامل سمجھ لیتی ہے۔ مگر اس علم سے
حقیقت آشکار نہیں ہوگی بلکہ حقیقت پر باطل
کا پردہ پڑ جاتا ہے کہ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو وہ چیونٹی کی بتائی ہوئی تعریف پر
کبھی بھی ہاتھی کی شناخت نہیں کر سکتا کہ وہ تو ہاتھی کا سارا وجود ہاتھی کا دانت
سمجھے گا یا پھر ایک ستون اور پھر باطل کو حقیقت جان کر اپنی بات منوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا۔ شیطان کی
بھی یہی مثال بیان کی گئی ہے کہ خود اس کی اپنی کو تاہ نظری اور کوتاہ ذہنی نے
حقیقت کو اس کے اوپر منکشف نہ ہونے دیا اور اپنی بات منوانے کے لیے اس نے آدابِ
مجلس کا بھی خیال نہ کیا کہ وہ کس کے ساتھ مخاطب ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نفس کے چشمے
سے سب کچھ دیکھ رہا تھا اس لیے اپنے سامنے اسے اور کوئی دکھائی ہی نہ دیا ۔ اس
پوری تمثیل میں اللہ تعالیٰ نے یہی نصیحت
اور سبق رکھا ہے کہ نفس کو پہچاننے کا نام ہی ادب ہے جو آدمی اپنے نفس کی حقیقت سے
واقف ہوتا ہے وہ اپنے اندر فطرت کے تقاضوں سے بھی واقف ہو جاتا ہے اور جب اپنی نوع
کے دوسرے لوگوں سے ملتا ہے تو اسے یہ جانتے ہوئے دیر نہیں لگتی کہ دوسروں کے اندر
بھی وہی تقاضے کام کر رہے ہیں جو اس کے اندر ہیں تب وہ لوگوں کے ساتھ میل جول کے
اداب سیکھ بھی لیتا ہے اور ان پر عمل کر کے انہیں اچھی طرح نبھا بھی لیتا ہے۔
اس
سلسلے میں سورہ نور میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
”مومنو!
اپنے گھروں کے سوا دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے بغیر اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو یہ
تمہارے حق میں بہتر ہے۔“
ہر
قوم اور ہر مذہب کے لوگوں میں سلام کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں ۔ کوئی ہیلو کہتا
ہے، کوئی سلام کہتا ہے، کوئی نمستے
کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ اصل میں سلام
کے ذریعے ایک آدمی دوسرے آدمی کے درمیان اجنبیت کی دیوار گراتا ہے۔ اس کے بعد
تخاطب کا ایک سلسلہ چل جاتا ہے اور ایک ذہن دوسرے ذہن کی لہروں کو آسانی کے ساتھ
قبول کر لیتا ہے اور خیالات میں ہم آہنگی ہو جاتی ہے۔ جس سے ماحول دوستانہ ہو جاتا
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے اس بات کو لازم قرار دے دیا کہ جب بھی کسی دوسرے
کے گھر جاؤ تو ان کی اجازت لو اور پہلے سلام کرو۔ اجازت طلب کرنے میں پردہ اور حیا
کا پہلو نکلتا ہے کہ ہر شخص دوسرے کے سامنے اپنے آپ کو بہتر طور پر ظاہر کرنا
چاہتا ہے۔ اس میں جسمانی پردہ اور حیا بھی شامل ہے اور گھریلو معاملات میں بھی
پردہ داری مطلوب ہے۔ پھر سلام کرنے سے گفتگو کا آغاز بہتر طور پر شروع ہو جاتا ہے
اور دوستی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ تمام بنی نوع انسانی ایک خالق کی مخلوق کی اور ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اللہ
پاک یہی چاہتے ہیں کہ خلق خدا آپس میں انس و محبت کے رشتے میں بندھے رہیں تاکہ
دلوں کو سکون رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی جانب سے ایسے اصول بنائے گئے ہیں جن
اصولوں کی پیروی کرنے سے بنی نوع انسانی کو راحت و سکون میسر اتا ہے اور دنیا میں
امن چین قائم ہو جاتا ہے۔ سورہ نور کی اس
آیت میں اللہ پاک نے مومنین کو مخاطب کیا ہے کہ
” اے مومنو! آپ سب جانتے ہیں کہ مومن
وہ ہے جس کے سینے کے اندر اللہ کا نور ذخیرہ ہوتا ہے۔ مومن اللہ کے نور کے ذریعے
سے ہر شئے کو پہچانتا ہے۔ یہاں مومنوں کو مخاطب کرنے سے مراد یہ ہے کہ یہ قانون ہے
جو مومنین کے لیے لازمی ہے۔ مومن روحانی
شعور رکھنے والے کو کہتے ہیں کیونکہ نور کا شعور ہی روح کا شعور ہے۔ پس اللہ پاک
نے مومنوں کو مخاطب کر کے جو یہ حکم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو اللہ کا
حکم سب کے لیے ہے مگر مومن کے لیے اس پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ قرآن یہ
بھی کہتا ہے کہ جنت میں جب لوگ جائیں گے تو وہ امنے سامنے بیٹھے ہوں گے اور ایک
دوسرے کو سلام کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا
کہ جنت میں بھی سلام کرنے کا قانون اور اصول رائج ہے۔ جنت کا شعور روحانی شعور ہے
یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے روحانی بندوں کے لیے سلام کرنے کی تاکید کر دی اور
گھروں میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنا ضروری قرار دے دیا تاکہ ایک روحانی
آدمی کے اندر روحانی شعور زیادہ سے زیادہ متحرک ہو جائے اور وہ روحانی اصولوں کی
جانکاری حاصل کر کے ان پر عمل کرنا اپنا معمول بنالے۔ اس طرح اس کا شعور روحانی
شعور کے تابع ہو کر کام کرے گا اور روح کا ارادہ شعور میں منتقل ہو جائے گا۔ پھر
ہر کام اللہ کے امر کے عین مطابق ہو جائے گا۔روح کے آداب مجلس سیکھ کر شعور بھی
عملی طور پر روح کا ساتھ دے سکے گا۔ اس سے ایک یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایک
روحانی شخصیت کے لیے اپنے کردار کا ہر پہلو روح کے ادب و آداب کے مطابق اختیار
کرنا چاہیے۔ مومن کی پہچان بھی یہی ہے کہ اس کی ہر حرکت سے اللہ کے امر کی نشاندہی
ہو۔ دوسرے لفظوں میں اس کے ہر عمل میں اللہ کی رضا شامل ہو۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کی عقل و
شعور پر روحانی عقل و شعور غالب آجائے اور وہ روحانی عقل کے ذریعے کائنات کو اور
اللہ کو پہچان لے۔
اللہ
پاک نے اپنے کلام میں فرمایا ہے۔
”مومنو!
جب تم سے کہا کہ مجلس میں کھل کر بیٹھا کرو۔ خدا تم کو
کشادگی بخشے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں
سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا اور
خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ (سورہ
المجادلہ)
ان
آیات میں بھی مومنو کو مخاطب کیا گیا ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ایسا کرنے
سے ان کے درجات میں اضافہ ہوگا۔ درجات میں بلندی سے مراد شعور میں زیادہ سے زیادہ
وسعت ہے۔ شعور میں وسعت روح کی روشنیوں کے جذب کرنے سے آتی ہے۔ روح کا نور جتنا
زیادہ سے زیادہ دل میں اور عقل میں جذب ہوگا اتنا ہی زیادہ حواس کا پھیلاؤ ہوگا
اور حواس کا جتنا زیادہ پھیلاؤ ہوگا اتنا ہی زیادہ علم میں اضافہ ہوگا۔ علم میں
جتنا زیادہ اضافہ ہوگا بندہ اللہ کے اور غیب کے قریب ہو سکے گا۔ اس آیت میں بتایا جا
رہا ہے کہ مومن کی ہر حرکت اس کے قلب کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ مجلس میں جب ایک
روحانی بندہ لوگوں میں بہت گھس کر بیٹھنے کی بجائے ذرا کھل کر بیٹھتا ہے تو اس سے
اس کا ذہن بھی ہلکا اور کشادہ ہو جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب بہت گنجان اور ملے ملے بیٹھیں تو دھیان اس شخص
کی طرف زیادہ جاتا ہے بہ نسبت محفل میں
دوسرے ذکر و اذکار کی جانب جانے کے قریب رہنے پر اس کی جسمانی حرکت اور پسینے
وغیرہ کی بو ہر وقت آئے گی اور ہوسکتا ہے کہ اس کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کر لی
جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مجلس میں کشادہ بیٹھنے سے دل میں کشادگی آنے کا لکھا ہے کہ دوسرے کے لیے ذہن و دل میں
کوئی ناگوار خیال نہ آئے۔ میزبان کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے سے اس کے گھر کا
دروازہ مہمان پر کھل جاتا ہے اور محبت و انس اور دوستی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے کہنے پر اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ پاک فرماتے
ہیں کہ جب آداب مجلس کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا ہے تو اس
سے اللہ پاک اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ روحانیت میں انہیں ترقی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب
یہ کہ جب کوئی اللہ کے بندوں کی خوشی اور ان کے آرام کا خیال رکھتا ہے تو اللہ بھی
اس کے آرام و پسند کا خیال رکھتا ہے۔ آداب مجلس کا ہر اصول لوگوں کے درمیان انس و
محبت ، اخوت و ہمدردی اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لیے ہے تاکہ لوگوں میں اپس میں
بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل ایسے تعلقات قائم ہوں جن سے ان کے ذریعے زیادہ سے
زیادہ فطرت کا اظہار ہو سکے اور فطرت سے قریب ہو کر وہ اپنے رب کو پہچان لیں۔
دنیاوی لحاظ سے بھی ان اصولوں پر کاربند رہنے سے اپس میں ایسے رشتے قائم ہو جاتے
ہیں جن پر معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے مدد
ملتی ہے۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔
وہ
محفل جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے اللہ پاک کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ حدیث شریف میں
ہے کہ جب بندہ محفل میں اللہ کا ذکر کرتا
ہے تو اللہ پاک بھی اس بندے کا ذکر فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں اور فرشتوں کو اس
بندے پر اور اس مجلس کے تمام اراکین پر رحمتیں اور نعمتیں نازل کرنے کا حکم دیتے
ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک ایسی مجلس میں اپنی پوری توجہ کے ساتھ موجود
ہوتا ہے اور اپنی خوشی کا اظہار فرشتوں کے سامنے کرتا ہے۔ ایک روحانی طالب
علم روحانی علوم سیکھنے کے لیے ایسی ہی
مجلسوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے جہاں اللہ کا ذکر ہو۔ اللہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ اللہ
پاک کی توجہ ایسی مجلسوں کو نورانی بنا دیتی ہے۔ نور خواہ آنکھ سے نظر نہ آئے مگر
اس کے اثرات ہمارا قلب ضرور قبول کرتا ہے
اور ہمارے اندر کثافت دور ہوتی ہے۔ نور کی لطافت اور پاکی ہمارے قلوب اور نفس پر
اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ اس پاک مجلس
کا ایک رعب ہمارے اوپر طاری ہو جاتا ہے اور نفس اس سے ادب سیکھتا ہے اور مجلس کے
آداب خود بخود آجاتے ہیں۔ آدمی مجلس کے آداب مجلس میں بیٹھنے سے ہی سیکھتا ہے۔
آدمی کے اندر نقل کرنے کی صلاحیت ہے۔ اچھی بات کی نقل کرنا انسانیت ہے جب کہ فضول
باتوں اور بے ہودہ حرکتوں کی نقل کرنا بندر کا کام ہے اور یہ انسان کو انسانیت کے
مقام سے گرا دیتا ہے۔ چناچہ مجلس کے اداب
سیکھنے کے لیے آدمی کو ایسی مجلس میں شرکت کرنا چاہیے جہاں سے وہ کچھ سیکھ سکےاور
کچھ حاصل کر سکے۔ ورنہ ضیاع وقت ہوگا۔ روحانی محفل میں گزارہ ہوا ہر لمحہ عبادت
میں شمار ہوتا ہے کیونکہ جس طرح عبادت کے ذریعے اللہ کا نور قلب و ذہن میں جذب
ہوتا ہے،روحانی محفلوں میں بھی اللہ کے
ذکر کے انوار منتقل ہوتے ہیں۔ جس سے
روحانی شعور بیدار اور متحرک ہوتا ہے۔
اللہ
پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔