Topics
۱۔ ہر پیغمبر
نے اللہ کے مشن کو اپنی خوش کلامی کے ذریعے پھیلایا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں اگر تم
مجھ سے محبت کرتے ہو تو ان کی (پیغمبروں) پیروی کرو۔ پھر اللہ تم سے محبت کرنے
لگیں گے۔ جس طرح ایک پیغمبر نے اللہ کے مشن کو محبت، ایثار، خوش اخلاقی اور
خوش کلامی سے گھر گھر پہنچایا۔ ایک روحانی آدمی چونکہ پیغمبر کا نائب ہوتا ہے اسی
طرح خوش مزاجی اور خوش خلقی سے ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے اللہ کی خوشنودی
حاصل کر سکتا ہے۔
۲۔ آدم اللہ
پاک کی نافرمانی کے نتیجہ میں پریشان ہوگئے۔ اس سے پہلے وہ خوش و خرم رہ رہے تھے۔
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ آدم نے اللہ سے ذہن ہٹا کر شیطان کی انسپائریشن کو قبول کر
لیا تو وہ پریشانی کا شکار ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک منبع سکون و سلامتی ہے۔ جب
تک ذہن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم رہتا ہے بندہ خوش رہتا ہے اور جب ذہن اس حالت
سے نکل آتا ہے انسان پریشان ہو جاتا ہے ۔ بقول اللہ تعالیٰ ” شیطان نے انہیں گمراہ
کر دیا اور اس حال سے انہیں نکلوا دیا جس میں وہ تھے۔“ یعنی ان کے ذہن کی
فریکوئنسی کو بدل دیا۔ لہذا خوش مزاجی کے لیے ضروری ہے کہ بندے کا ذہن اللہ سے
وابستہ رہے۔
۳۔ خوشی اور
غمی باہر کی چیز نہیں بلکہ ذہن کی مختلف حالتوں کے نام ہیں۔ جب آدمی اس راز سےواقف
ہو جاتا ہے تو وہ یہ جان لیتا ہے کہ منفی خیالات کو مثبت میں کس طرح بدل دیا جائے
یعنی انفارمیشن کو مثبت معنی کس طرح پہنائے جائیں ایسا بندہ چونکہ اس بات کو جان
لیتا ہے کہ ہر چیز اللہ ہی کی جانب سے ہے وہ کسی کو کسی چیز کا اصل فاعل نہیں
سمجھتا ۔ لہذا اسے کوئی دوش نہیں دیتا اور نتیجتاً پریشان نہیں ہوتا بلکہ خوش رہتا
ہے۔
۴۔ حدیث شریف
ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کے ملنا بھی صدقہ اور نیکی ہے۔ روز مرہ کے
تعلقات میں خوش مزاجی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کو سب میں ممتاز کرتی ہے اور
اس کی شخصیت کو دلفریب بناتی ہے۔ حقیقی خوش مزاجی یہ ہے کہ انسان پریشانی سہہ کر
بھی خوش مزاج رہے۔
۵۔ خوش مزاجی
دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے۔ ایک روحانی خوش مزاج آدمی اللہ کے قریب ہوتا ہے اور
اپنی خوش مزاجی سے دوستوں کو بھی اللہ سے قریب کر دیتا ہے۔ بڑے سے بڑا غم خوش مزاجی
سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
۶۔ اللہ پر
مکمل بھروسہ رکھنا اور ہر حال میں مثبت سوچ اور غم کو اپنے نزدیک نہ آنے دینا
اور ہر کسی سے محبت سے پیش آنا خوش مزاجی
ہے۔
۷۔ دوسروں کی
کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا اور ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی ستائش کرنا خوش مزاجی
ہے۔
۸۔ خوش مزاجی
ایسی صلاحیت ہے جس میں بندہ خود بھی خوش رہتا ہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی
کوشش کرتا ہے۔ ایک روحانی آدمی کا رابطہ چونکہ اپنی روح کے ساتھ ہوتا ہے اور روح
ہر شئے کی حقیقت سے آگاہ ہوتی ہے اس لیے روحانی آدمی ہر وقت خوش رہتا ہے۔
۹۔ ہر حالت میں
خوش رہنے والے انسان بھی خداوند کریم کا ایک تحفہ ہے جو اپنی فطرت سے دوسروں کے
دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ ایک روحانی آدمی اللہ پاک کی تعلیمات کو نہایت ہی موثر
الفاظ میں لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچا دیتا ہے۔
۱۰۔ خوش مزاج آدمی
کے پاس بیٹھ کر دوسرا شخص اپنا دکھ درد بھول جاتا ہے۔ وہ اس طرح لوگوں کی دلداری
کرتا ہے کہ دوسروں کی پریشانی کو سکون میں بدل دیتا ہے۔
۱۱۔ By
being happy by nature you make others happy and Allah likes it when you make
others happy.
۱۲۔ Happy by nature is a sign of being positive.
۱۳۔ رسول پاک ﷺ ہر
کسی کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آتے تھے اور کسی سے سخت لہجے میں بات نہیں کرتے تھے
۔ دوسروں کو بھی خوش مزاجی سے بات کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ اس سے محبت اور آپس میں
اخلاص بڑھتا ہے اور تحمل مزاجی پیدا ہوتی ہے۔ خوش مزاج آدمی کی موجودگی ماحول کو
بھی خوشگوار بنا دیتی ہے۔
۱۴۔ سچی خوشی
روحانی خوشی ہے جو آدمی کے اندر ہے۔ برے حالات میں آدمی کی پرکھ ہوتی ہے ۔ اگر وہ
صبر اور خوش مزاجی سے حالات کا مقابلہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس بندے کا ساتھ
دیتا ہے اور جلد ہی اس کو اس مصیبت سے نکال دیتا ہے اگر آدمی بد مزاج ہو تو خراب
حالات میں اور بھی زیادہ خدا کا منکر ہو جاتا ہے اور پھر خدا بھی جلد اس کی حالت
نہیں بدلتا۔
۱۵۔ ہم جب کسی سے
رابطہ قائم کرتے ہیں تو اپنا خیال دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔ ہمارا بات کرنا اس کے ذہن
پر فوراً اثر انداز ہوتا ہے۔ الفاظ ایک قسم کی لہر ہے جو روشنی کی بنی ہوتی ہے۔
خوش مزاج آدمی مسکرا کر دھیمی آواز میں اچھے الفاظ میں بات کرتا ہے تو سننے والے
کے ذہن میں اس کی روشنی منتقل ہو جاتی ہے ۔ اس ماحول میں مثبت خیالات پیدا ہوتے
ہیں اس کے برعکس بدمزاج آدمی کی زبان سے گلہ شکوہ اور منفی خیالات نکلتے ہیں جس کے
نتیجے میں اس کے ارد گرد کے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔
۱۶۔ حدیث میں ہے
کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ” تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔“
خوش اخلاق آدمی خوش مزاج ہوتا ہے۔
۱۷۔ ؎
زندگی
زندہ
دلی
کا
نام
ہے
مردہ
دل
کیا
خاک
جیا
کرتے
ہیں
۱۸۔ خوشی ایک
باطنی کیفیت ہے۔ جب یہ باطنی کیفیت متحرک ہو جاتی ہے تو اس کا مظاہرہ خوش مزاجی
ہے۔ خوشی جنت کے دماغ یعنی لاشعور سے رابطہ قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ سچی
خوشی کیا ہے؟ اس کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر۲۔ فطرت
کے اصولوں سے ہم کس طرح واقف ہو سکتے ہیں؟
سوال نمبر ۳۔ خوش
مزاجی کے کیا فوائد ہیں، بیان کریں۔
سوال نمبر۴۔ گردش
کا کیا قانون ہے؟ کلاک وائز اور وینٹی
کلاک وائز گردش میں کیا فرق ہے اور یہ حواس پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں؟
٭٭٭٭٭
انسان
اشرف المخلوقات ہے۔ اسی اعتبار سے ہر اچھی صفت و صلاحیت کا مظاہرہ انسان کے ذریعے
ہی ہونا چاہیے۔ اگر انسان کسی بھی صفت کے اظہار میں دوسری مخلوق سے کمتر رہ گیا
تو گویا کہ اس صفت میں وہ دوسری مخلوق
سبقت لے گئی۔ حالنکہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ اپنے
اندر موجود ہر صلاحیت کا دوسری تمام مخلوق کی نسبت بہترین طور پر مظاہرہ کر سکتا
ہے ۔ مخلوق کی تمام صلاحیتیں اسمائے الہٰیہ کی روشنیاں اور انوار و تجلیات ہیں۔
اسی حوالے سے روحانی نقطہ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کے اندر موجود تمام
اسمائے الہٰیہ اسم اعظم کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی انسان اپنے اندر موجود
صلاحیتوں کا مظاہرہ اور استعمال جس بلندی پر کر سکتا ہے اس بلندی و عروج پر پہنچنا
کسی اور مخلوق کا مقدر نہیں ہے۔ خودشناسی کے متعلق یہ ایک جنرل بات اپ کو معلوم ہو
گئی جو قانون اور سنت الہٰی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ہم اپنے عنوان کی جانب اتے ہیں۔
خوش مزاجی یوں تو ہر انسان کے لیے فائدہ مند ہے مگر روحانی آدمی کے لیے اس
لیے زیادہ ضروری ہے کہ اس کا رابطہ بہت سے
لوگوں کے ساتھ رہتا ہے۔ روحانی راستے پیغمبروں کے راستے ہیں۔ ان راستوں پر چل کر
کسی بھی آدمی کو انہی تمام چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے جن سے پیغمبران علیہ السلام
پہلے ہی گزر چکے ہیں۔ پیغمبروں نے اس راستے پر جو علوم حاصل کیے وہ علوم عوام تک
پہنچانا اپنی ذمہ داری سمجھی۔ یہی وجہ ہے کہ اج دنیا والے ان علوم کی کچھ نہ کچھ
سمجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پیغمبر وں کے ساتھ ساتھ ان کے علوم بھی پردہ غیب
میں لوٹ جاتے۔ لوگوں سے کنارہ کش رہ کر جینا اتنا مشکل نہیں جتنا لوگوں کے درمیان
رہ کر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ ہر شخص کا اپنا ایک دماغ ہے جس سے وہ کام لیتا ہے اور
ہر فرد کا دماغ اپنی معنویت کے اعتبار سے یکتا ہے یعنی ہر ایک کا دماغ ایک ایسی
مشین ہے جو اپنے اندر منتقل ہونے والی خیال کی روشنی کو منفرد معنی پہناتا ہے۔
ایسی صورت میں آدمی جتنے زیادہ لوگوں سے واسطہ رکھتا ہے اتنا ہی زیادہ نظریات کی
بھیڑ میں گویا کہ گھر جاتا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ اس بھیڑ میں رہ کر اپنے نظریئے
اور اپنے نقطہ نظر کو دوسروں کے نظریات پر حاوی کر دیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں
دوسروں کی طرزِ فکر کو اپنی طرزِ فکر میں ڈھال لیا جائے۔یہ کام پیغمبروں کا ہے کہ ایک انسان نے پوری پوری
قوم کے ذہن کو اپنے ذہن کے مطابق بدل ڈالا اور ان کے اندر پلنے والے صدیوں کے
فرسودہ عقائد کو بہت تھوڑے عرصے میں نئی بنیادوں پر تبدیل کر دیا۔ پیغمبروں کے بعد
جو لوگ بھی پیغمبروں کے مشن پر کام کرتے ہیں۔ ان کے اندر پیغمبروں کا ذہن اوران کی
طرزِ فکر منتقل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اسی انداز میں کام کرتے ہیں جس طور پر
پیغمبروں نے عمل کیے اور کامیاب رہے۔ گویا پیغمبروں کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر
قدم بنی نوع انسانی کے لیے اللہ کی جانب سے متعین کردہ راستے ہیں جن پر چل کر ہی
کوئی بندہ اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔
کسی
روحانی مشن میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک ایسے اسکول میں داخلہ لے لیا
ہے جس میں آپ کے اندر پیغمبرانہ سوچ منتقل کی جاتی ہے۔ طرزِ فکر یا ذہن کے سوچنے
کا انداز ایک ایسی فریکوئنسی ہے جس فریکوئنسی پر شعور لاشعور سے اطلاعات وصول کرتا
ہے۔ پیغمبرانہ طرزِ فکر منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی فکر کے ساتھ بندے
کا رابطہ ہو جانا۔ اس طرح لاشعور سے انے والی اطلاع میں وہ بندہ اپنی سکت کے مطابق
اسی انداز میں معنی پہناتا ہے جس انداز میں پیغمبر نے اسے سمجھا تھا۔ جاننا چاہیے
کہ تمام مخلوق کے ذہن کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں پیغمبروں کے دماغ اور فکر سے
منتقل ہو رہی ہیں کسی بھی مخلوق یا بشر کا رابطہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے یا اس
کی صفات سے ہرگز بھی نہیں ہے بلکہ خالق سے تمام مخلوق کا رابطہ بواسطہ پیغمبران
علیہ السلام کے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بندوں کے لیے پیغمبروں کی زندگی کا ہر عمل قابل
اتباع ہے۔روحانی استاد وہی ہو سکتا ہے جسے اپنے پیغمبر کی نسبت حاصل ہو۔ نسبت سے
مراد طرزِ فکر ہے۔ شاگرد جب اپنے استاد سے علم سیکھتا ہے تو علم اسی وقت منتقل
ہوتا ہے جب استاد کی طرزِ فکر شاگرد میں منتقل ہوتی ہے۔ یہی اصول دنیاوی علوم
سیکھنے کے لیے بھی ہے۔ بچہ جب استاد سے علم سیکھنے بیٹھتا ہے تو استاد کہتا ہے یہ
الف ہے تو بچہ بھی بغیر اپنا ذہن استعمال کیے ہوئے استاد کے ذہن سے الف کو الف
کہتا ہے۔ اس کے بغیر وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔ اسی طرح روحانی استاد بھی اپنے شاگرد
کے اندر اپنی طرزِ فکر یا ذہن منتقل کرتے ہیں۔ پھر وہ خود نظر سے غیب کا مشاہدہ
کرتے ہیں اور جس تفکر سے غیب کو سمجھتے ہیں شاگرد بھی اسی نظر اور تفکر سے
غیب کا مشاہدہ کرتا ہے اور غیب کے علوم
سیکھتا ہے۔ طرزِ فکر کی منتقلی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایسی باطنی صلاحیتیں
بیدار ہوگئیں جو اس سے پہلے خوابیدہ تھیں۔
بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ان صلاحیتوں کا مظاہرہ اور استعمال کرتا ہے۔
روحانی زندگی اور تعلیمات اس اعتبار سے نہایت ہی عملی زندگی ہے۔ اس زندگی کا ہر
عمل روح کا ایک قدم ہے جو وہ اللہ کی جانب ان راستوں پر بڑھاتی ہے جن راستوں پر چل
کر پیغمبران علیہ السلام اللہ تک پہنچے۔ ہر اچھی صلاحیت بندے کو اللہ کی صفات اور
اس کے اسماء سے متعارف کراتی ہے ۔ ہر آدمی کے اوپر اللہ پاک کی کسی نہ کسی صفت کی
روشنی کا غلبہ ہے اور اس روشنی میں وہ
اپنی زندگی کی حرکات و سکنات کو عملی صورت بخشتا ہے۔ بہت سے لوگوں سے رابطہ
رکھنے میں اور اجتماعی زندگی گزارنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک فرد اپنے
اندر خوابیدہ صلاحیتوں کو پہچان لیتا ہے جب
وہ اس صلاحیت کا مظاہرہ مد مقابل دیکھتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ مل جل کر زندگی
گزارنے میں ایک دوسرے کی عادات و اطوار
آدمی قبول کرتا ہے۔ روحانی فرد روحانی اعتبار سے میسر مجلس ہوتا ہے یعنی وہ
اپنی اچھی اور مثبت صلاحیتوں کا اس بلندی پر مظاہرہ کرتا ہے کہ تمام لوگ جو اس کے
ارد گرد ہیں اس کی روشنی کو قبول کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر یہ اسی وقت ہوسکتا
ہے جب خود اس کے اندر اتنی صلاحیت اور روشنی موجود ہو کہ لوگ اس کا فائدہ اٹھا
سکیں۔ خوش مزاجی کا اجتماعی زندگی میں بہت دخل ہے۔ بڑی سے بڑی محفل میں ایک خوش
مزاج آدمی ساری محفل پر چھا جاتا ہے۔ اللہ پاک نے ہمارے اندر ایک ایسی صلاحیت رکھی
ہے جو دوسروں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے یہ صلاحیت ہماری آواز ہے۔ ہم دیکھتے
ہیں کہ آوازاور الفاظ میں بڑی تاثیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آواز اور الفاظ خیالات
کا اظہار ہوتے ہیں۔ ہر خیال روشنی کی ایک مخصوص لہ کا نام ہے۔ جب یہ لہر زبان کے
ذریعے سے باہر آتی ہے تو وہ آواز اور الفاظ میں اپنا مظاہرہ کرتی ہے۔ ساری کائنات
روشنی کی لہروں پر متحرک ہے۔ ساری کائنات کی حرکت اللہ تعالیٰ کی آواز ہے۔ جسے کن
کے نام تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی کائنات کے اندر کن کی لہریں حرکت کی بنیاد ہیں جو
کائنات کی حرکت کے پس پردہ رہ کر کام کر رہی ہیں۔ ساری کائنات ان لہروں کا پھیلاؤ
ہے۔ ہر لہر ایک مخصوص فریکوئنسی ہے۔ روح اس فریکوئنسی پر غیب کی انفارمیشن شعور کو
فراہم کرتی ہے۔ سب سے پہلے اس اطلاع کی روشنی ہمارے دماغ سے ٹکراتی ہے اور لہر کے
ٹکرانے سے ہمارے اندر حواس پیدا ہوتے ہیں۔
جیسے ہی ہمارا دماغ اس روشنی یا لہر کو قبول کرتا ہے فوراً ہی ایک فلیش ہوتا ہے۔
اس فلیش کو ہمارا دماغ واہمہ کے معنی پہناتا ہے جو نہایت ہی مبہم خیال ہے جب یہ
لہر یا فلیش دماغ میں چند سیکنڈ کے لیے ٹھہر جاتا ہے تو خیال کی صورت اختیار کر
لیتا ہے اور پھر جب مزید چند سیکنڈ کے لیے ٹھہر جاتا ہے تو کیال کی صورت اختیار کر
لیتا ہے اور پھر جب مزید چند سیکنڈ اور ٹھہر تا ہے تو خیال کی ایک تصویر ذہن میں
آجاتی ہے۔ اسی کو تصور کہتے ہیں اور پھر جب تصور ذہن میں یا دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے تو شئے کو آنکھ دیکھ لیتی ہے۔ تصور
کی آنکھ جو کچھ قلب میں دیکھتی ہے ہمارے اندرونی حواس اسے بہت قرب محسوس کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے احساس میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ خیال کی ہر ہر لہر ہمارے لئے دو قسم کی اطلاع لے کر آتی
ہے۔ ایک خوشی کی دوسرا غم کی ۔ خوشی اور غم کی اطلاعات ہر ان اور ہر لمحے ہمارا
دماغ وصول کر رہا ہے کیونکہ حرکت کی لہروں پر دونوں قسم کے خیالات کی روشنیاں حرکت
کر رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی بھی فرد کا ذہن صرف خوشی کی اطلاعات کو ہی
موصول کرتا رہے اور غم کی اطلاعات کو قطعی طور پر رد کرتا رہے۔یہ خلاف ِ قانون
فطرت ہے۔ البتہ انسان کو اللہ نے ایسی صلاحیت اور ارادہ عطا کیا ہے کہ جس کے ذریعے
سے آدمی خوشی اور غم کے احساسات میں ایک بیلنس رکھ سکتا ہے اور اس بیلنس کی وجہ سے
اس کے اوپر خیالات کا دباؤ نہیں پڑتا اور وہ خوش باش رہتا ہے۔ ایک خوش مزاج آدمی
اپنے اندر اس بیلنس کو ہمیشہ مدِ نظر رکھتا ہے جس کی وجہ سے نہ وہ غم سے اتنا
زیادہ رنجیدہ ہوتا ہے کہ پھر ہنس ہی نہ سکے نہ خوشی سے آپے سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اس کے اندر
سکون کی لہریں موجزن ہو جاتی ہیں جو اعتدال کی علامت ہے۔
روحانی
راستے پر روحانی استاد کی زیر نگرانی شاگرد فطرت کے ایسے اصولوں سے واقف ہو جاتا
ہے جو اصول خود اس کی اپنی ذات کے اندر بھی اور کائنات کے اندر ہر طرف جاری و ساری
ہیں مگر اس سے پہلے اس کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ پہلے ان اصولوں
سے ناواقف رہتا ہے۔ ایسی لاعلمی میں استاد
کے توسط سے اس کے اوپر جب علوم کے انکشافات ہوتے ہیں تو یہ انکشاف اس کے لیے بے
جان جسم میں روح پھونکنے کا کام کرتا ہے اور اس سے اس کے اندر کی خوابیدہ صلاحیت
متحرک ہو جاتی ہے۔ خوشی اور غم دو ایسے احساسات ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ غیب
سے ملنے والی ہر اطلاع روح کی جانب سے ہماری طرف آتی ہے۔ ہر اطلاع میں دونوں رخ
موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خوشی کی لہر اور ہے اور غم کی لہر اور بلکہ ہر لہر کے
دو رخ ہیں۔ ان دونوں رخوں کی حرکات ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ایک حرکت کلاک وائز ہے
تو دوسری حرکت اینٹی کلاک وائز۔ جب دماغ کے خلیوں میں جذب شدہ روشنیاں کلاک وائز
گردش کرتی ہیں تو مثبت معنی اور خوشی کا احساس ہوتا ہے اور جب اینٹی کلاک وائز
گردش کرتی ہیں تو منفی خیالات اور غم کے احساس کا دباؤ ہوتا ہے۔ ہمارا ارادہ اپنے
دماغ کے اندر جذب ہونے والی روشنیوں کی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے۔ روحانی استاد
اپنے شاگرد کو ذہن پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت منتقل کرتا ہے اور اسے اپنے خیالات کو
مثبت انداز میں معنی پہنانے کی سکت عطا کرتا ہے یہی سکت اس کے اندر خوش مزاجی پیدا
کر دیتی ہے اور ارادے میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ منفی خیالات یا لہروں کا
دباؤ اس کے احساس کو مجروح نہیں کرتا بلکہ وہ قدرت کے اس قانون کو پہچان لیتا ہے
کہ عالم ناسوت میں منفی و مثبت لہروں کا آنا جانا لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ
ہماری مجبوری ہے کہ دماغ سے دونوں قسم کی لہروں کا ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے جیسے کبھی
ہوا پورب کی چلتی ہے تو کشتی کو پورب کی جانب دھکیل دیتی ہے اور جب پچھم کی چلتی ہے تو کشتی کو پچھم میں لے
جاتی ہے۔ مگر اگر کشتی کے اندر ایسی موٹر لگی ہو جس کی اپنی قوت ہوا کے دباؤ سے
زیادہ ہو تو کشتی اپنی قوت پر اپنے ارادے
کے مطابق سمت اختیار کرے گی۔ ہوا کا جھونکا اسے ہلا نہ سکے گا۔
انسان کا ارادہ بھی ایسی ہی موٹر ہے
جس کی قوت خیالات کی لہروں کی حرکات کو
مثبت اور منفی انداز میں کنٹرول کرتی ہے۔ ایک روحانی آدمی اس گر سے واقف ہوتا ہے
یعنی اس کے اندر اتنی قوت ارادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر آنے والے خیالات کے بہاؤ
میں اپنے آپ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ حالات اور معاشرے کا مقابلہ کرتے ہوئے مثبت
انداز میں جینا سیکھ لیتا ہے۔ یہی مثبت انداز اسے خوش مزاج بنا دیتا ہے جس میں وہ
ہر مصیبت و پریشانی کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا ہے اور ہر دکھ درد کو ہوا کے
ایک جھونکے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ پس جس طرح ہوا کا جھونکا آ کر گزر جاتا ہے۔
اس کی زندگی میں دکھ اور مصیبت کا لمحہ بھی جھونکے کی طرح آکر گزر جاتا ہے اور جلد
ہی پھر سکون کی لہریں اسے اعتدال پر لے آتی ہیں۔ انسان فطرتاً راحت پسند ہے اور
راحت اسے گم میں نہیں بلکہ خوشی میں ملتی ہے۔ خوشی کے لمحات کو وہ طول دینا پسند کرتا ہے۔ خوش مزاجی آدمی و
حوا کی فطرت میں داخل ہے۔ اللہ پاک اپنے قرآن میں فرماتے ہیں کہ اے آدم و حوا تم
دونوں جنت میں خوش ہو کر رہو اور خوش ہو کر کھاؤ پیو اور یہاں کی سیر کرو۔ اس کلام
سے اللہ پاک کا مطلب و منشا ء یہی ہے کہ آدم و حوا کے لیے اللہ پاک نے خوش رہنے اور خوش ہو کر زندگی گزارنے کو
پسند فرمایا ہے اور یہی اللہ کا آدم و حوا کے لیے حکم بھی ہے کہ خوش ہو کر رہو اور
اللہ کی نعمتوں کا خوش ہو کر استعمال کرو۔ جب تک کوئی بندہ خوش رہتا ہے وہ اللہ کے
حکم کی تعمیل میں ہے اور جب کوئی بندہ ناخوش ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے روگردانی
کرتا ہے۔ گویا خوش مزاجی اللہ کے تفکر کا نور ہے۔ فکر کا یہ نور ہی جنت پر محیط
ہے۔ گویا جنت اللہ تعالیٰ کے جس انوار و تجلیات کے اندر موجود ہے ان انوار کے اندر
خوشی کی لہریں اور خوشی کا تفکر ہے۔ خوش مزاجی کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا رابطہ جنت
کی لہروں سے ہو جاتا ہے یعنی ہمارا دماغ جنت کی روشنیوں کو جذب کرنے کے قابل ہو
جاتا ہے۔ ہمارے اندر لہروں کا انا جانا لگا ہوا ہے جس طرح ہمارا دماغ روشنیوں کو
جذب کرتا ہے اسی طرح جذب شدہ روشنیوں کو خارج بھی کرتا رہتا ہے۔ خوشی کی لہریں جذب
ہوں گی تو خوشی کی لہریں ہی دماغ سے خارج بھی ہوں گی۔ اس اصول کی بناء پر خوش مزاج
آدمی کے اردگرد کا ماحول جنت کے ماحول کی طرح خوشگوار بن جاتا ہے اور راحت و سکون
کے متلاشی اسی ماحول میں پناہ لینے کے لیے کھینچے چلےآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوش
مزاج آدمی بہت سے دکھی دلوں کا مداوا بن جاتا ہے۔ تمام پیغمبران علیہ السلام نے
اپنے اندر کی خوشی اور سکون کی لہروں کو دنیا میں اس قدر پھیلا دیا کہ لوگ اس کی
ٹھنڈک اور طمانیت کو محسوس کرنے لگے اور ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی ان کے
تفکر کی لہریں دنیا میں اسی طرح موجود ہیں کہ جب بھی دنیا والے پیغمبروں کا نام
لیتے ہیں تو ان کے تصور میں خوشی ، اطمینان اور سکون و تحفظ کی لہریں ذخیرہ ہونے
لگتی ہیں۔ ایک روحانی آدمی بھی پیغمبروں کے فکر کے انوار کو زیادہ سے زیادہ جذب کر
کے اپنے حواس میں ان کا ذخیرہ کر لیتا ہے اور پھر اس ذخیرے سے وہ مطلوب لوگوں
کو روشنی پہنچاتا ہے۔ روحانی مشن ایک مشعل
کی مانند ہے۔ یہ مشعل پیغمبروں کے ہاتھ میں ہے۔ پیغمبران علیہ السلام اللہ کے اذن
پر جسے چاہتے ہیں اس مشعل کی روشنی میں
اللہ کی طرف راستہ دکھاتے
ہیں۔پیغمبران کا ہر عمل ان کی فکر کی روشنی میں ہے اور یہ روشنی اللہ کے اسماء کی
روشنی ہے۔ مشعل کی ہر شعاع گویا پیغمبر کی ایک فکر ہے جو دنیاوی زندگی میں ان کی
ایک صلاحیت بن کر ابھرتی ہے۔ خوش مزاجی بھی اسی مشعل کی روشنی کی ایک شعاع ہے جس
کا مظاہرہ پیغمبروں کے ذریعے ہوا ہے۔ روحانی مشعل کی روشنی میں ایک روحانی طالب
علم بھی اس روشنی سے مستفیض ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی سکت کے مطابق ان انوار کو جذب
کر کے ان کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ خیال رہے کہ کسی بھی فکر کے مظاہرے کا انتہائی درجہ پیغمبر وں کے اعمال و افعال ہیں اور ایک روحانی
طالب علم کے لیے انہی کی زندگی مشعل راہ ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین۔