Topics

آزادی

 

۱۔       اصل انسان روح ہے اور روح کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب دراصل انسان کو اللہ سے روح کے ذریعے متعارف کرنے کا طریقہ بتاتا ہے۔ ایک روحانی آدمی اس بات کو جانتے ہوئے کسی مذہب کو تعصب سے نہیں دیکھتا۔

۲۔       ایک روحانی طالب علم چونکہ ہر ایک سے محبت اور ہر انسان سے حسن سلوک بغیر کسی نسل و امتیاز کے کرنے کا عہد کرتا ہے اس لیے وہ بغیر روک ٹوک کے ہر نوع انسانی سے دوستی رکھتا ہے۔

۳۔       روحانی نقطہ نظر سے روح کا کوئی  مذہب نہیں ہے۔ روح اپنی ذات میں آزاد ہے۔ روح کی صفت علم ہے۔ علم سیکھنے کا عمل لامحدود ہے۔

۴۔       ہر مذہب کی الگ الگ قدریں ہیں۔ کچھ مذاہب ایسے ہیں جن کے قوانین  سخت ہیں۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو فطرت سے قریب ہے اور فطرت سے آزاد ہے۔

۵۔       ہر مذہب کے پیچھے اس مذہب کے لانے والے پیغمبر کی فکر کام کر رہی ہے اور اس فکر کا تعلق براہ راست اللہ سے ہے۔ اس طرح تمام پیغمبروں کی فکر دراصل ایک ہستی سے وابستہ ہے جس کو مختلف لوگوں نے مختلف وقتوں میں اپنایا اور اپنی فکر کو دوسرے مذہب کی فکر سے الگ قرار دے دیا۔ ایک روحانی انسان کسی ایک فکر کو پکڑ کر اس مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ جہاں وہ  یہ راز پا لیتا ہے کہ تمام مذاہب دراصل ایک ہی ہستی تک پہنچنے کے مختلف راستے ہیں۔

۶۔       آزاد فکر ہی اللہ تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں۔ اگر آپ کا رب چاہے تو ساری دنیا کو مسلمان بنا دے۔ آپ کا کام پیغام کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ہم جس کو چاہتے ہیں اپنی راہ دکھاتے ہیں۔ اس لیے ایک روحانی آدمی کو مذہب میں زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔

۷۔       کسی فرد کی طرزِ فکر کے بلا روک ٹوک اظہار کو آزادی فکر کہتے ہیں۔ مذہب آزادی تسلیم کا دوسرا نام ہے۔ یعنی مذہب میں جبر نہیں ہے۔ جو جبر سے اختیار کیا گیا وہ مذہب نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال ہے۔ حضرت   عمر ؓؓؒ کا ایک غلام کافر تھا۔ آپؒ نے اسے مسلمان ہونے کو کہا۔ اس نے انکار کر دیا۔ آپ نے جواب دیا ۔ بے شک دین میں جبر نہیں ہے۔

۸۔       غیب میں رہنے کا نام آزادی ہے اور غیب میں داخل ہونے کا قانون مذہب ہے۔ ایک روحانی طالب علم کو دونوں قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے۔

۹۔       اللہ نے روح کو آزاد پیدا کیا ہے اور انسان کی فطرت بھی آزاد ہے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے اور جبر ہی علم سیکھنے میں رکاوٹ  بن جاتا ہے۔ روحانی علوم حاصل کرنے سے انسان آزاد طرزِ فکر پر چلنے لگتا ہے۔

۱۰۔    قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ دین میں جبر نہیں ہے اور حدیث میں ہے کہ کسی کے معبود کو برا نہ کہو ورنہ تمہارے معبود کو برا کہے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکر و مذہب کی پوری پوری آزادی دی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ کے اس فرمان کو اپنا کر ہر ایک کے لیے فکر و  مذہب کی آزادی تسلیم کرے۔

۱۱۔    روحانیت میں نیوٹرل  ہونا ضروری ہے جو روحانیت کی بنیاد ہے۔ نیوٹرل آدمی کسی پر کسی طرح کا جبر نہیں کرتا نہ ہی کسی کو تنگ نظر سے دیکھتا ہے۔

۱۲۔    اللہ پاک لامحدود ہیں۔ لامحدودیت میں داخل ہونے کے لیے کوئی ایک دروازہ یا راستہ مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اللہ پاک فرماتے ہیں۔” لااکراہ فی الدین“۔ دین میں جبر نہیں ہے اور فرماتے ہیں  تو کہہ دے کہ ہر آدمی اپنی طرزِ فکر کے مطابق عمل کرتا ہے اور فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے تمہاری راہ اور میرے لیے میری راہ۔ دین زندگی گزارنے کے لیے اصولوں کا نام ہے۔ اصول فکر کی روشنی میں متعین ہوتا ہے۔ فکر میں جتنی گہرائی ہوگی اتنی ہی فکر آزاد ہوگی اور حقیقت کے قریب ہوگی۔ فکر کی انتہائی انسان کو منبع سلامتی یعنی صفت اسلام سے وابستہ کر دیتی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ دین اللہ کے نزدیک تو اسلام ہی ہے یعنی سب سے احسن یا آزاد فکر تو وہی ہے جو انسان کو منبع سلامتی تک پہنچا دے اور وہ فکر اسلام ہے۔

۱۳۔    اسلام دین فطرت ہے اور فطرت آزاد ہے۔ دین کے معاملے میں انسان کا ذہن کھلا ہوا ہے ۔ محدودیت انسان کو ٹائم اینڈاسپیس میں مقید رکھتی ہے۔ لامدودیت روح کے حواس ہیں۔ اللہ لامحدود ہے۔ انسان لامحدودیت میں رہ کر یعنی آزاد طرزِ فکر کے ساتھ ہی روح کا عرفان حاصل کر سکتا ہے۔ مَن عَرَفَ رَبَّهُ فَقَدْ عَرَفَ نَفْسَهُ۔

۱۴۔    ازلی شعور ہی آزادی فکر  مذہب ہے۔

۱۵۔    ایک روحانی آدمی کے اندر طرزِ فکر کی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے حسن سلوک سے انسانیت کی خدمت کرے ۔ خواہ  وہ کسی بھی مذہب و فرقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ اللہ کی محبت کا پیغام عمل اور علم کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اپنے دین و مذہب کا اتباع سختی سے نہیں کرواتا کیونکہ وہ اللہ کے قانون کو سمجھتے ہوئے کسی دوسرے مذہب کو تعصب سے نہیں دیکھتا۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   فطرت اور جبلت میں کیا فرق ہے؟

سوال نمبر ۲۔  قلندر شعور کیا ہے اور آزاد طرز ِ فکر سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر۳۔   دین میں جبر نہیں، اس کا مفہوم بیان کریں۔

سوال نمبر۔۴   اللہ کے قوانین کو بندہ کس طرح سمجھ سکتا ہے؟

سوال نمبر۵۔   اللہ تعالی فرماتے ہیں ” دین تو صرف اللہ کے نزدیک اسلام ہے“ اس کی تشریح کریں۔

٭٭٭٭٭

          دین سے مراد وہ طرزِ فکر اور وہ قوانین و اصول ہیں جن کو اپنا کر اور جن پر عمل کر کے انسان دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزار سکتا ہے۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ”دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے۔“

(سورہ آل عمران ۱۹۔)

          سورہ انعام میں فرماتے  ہیں۔” تو جس شخص کو خدا  چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔ گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح خدا ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے۔“ (۱۲۶)

          ان اور ان جیسی کئی آیتوں میں اللہ پاک نے صاف صاف  بیان کر دیا ہے کہ دین کا مطلب اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غورو فکر کیا جائے کہ اسلام کی تعریف کیا ہے۔ اسلام کن قوانین و اصولوں کا مجموعہ ہے اور اسلام کس مشن کی تبلیغ کرتا ہے۔ ان سوالوں کے جواب میں سب سے پہلے تو اسلام کا سورس معلوم کرنا ہے۔ اس کا جواب ہر کوئی یہی دے گا کہ اسلام اللہ تعالی کی جانب سے بھیجا ہوا دین ہے۔ گویا اسلام وہ دین ہے جس کا ہر اصول اللہ پاک کی جانب سے مقرر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے دین فطرت بھی کہا گیا ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر علیہ السلام آئے اور انہوں نے اللہ پاک  کا پیغام لوگوں تک پہنچایا وہ تمام کے تمام اللہ تعالی ٰ کی جانب سے دین اسلام لے کر آئے۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک تو دین کا مطلب ہی اسلام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین اسلام ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا لایا ہوا دین ہے۔  یہ بات قابلِ غور طلب ہے کہ جب  تمام پیغمبر ایک ہی دین لے کر آئے اور ایک ہی ہستی کی جانب سے آئے تو پھر دین کا نام کیوں بدل دیا اور نام کے ساتھ ساتھ دین کو الگ الگ کیوں شمار کر لیا گیا۔ یہ تو بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ کوئی آدمی کو دل کہے ، جگر کہے، پھیپھڑے کہے، گردہ کہے، مگر آدمی نہ کہے تو آدمی کی تعریف پوری تو نہ ہوئی البتہ آدمی کے ایک جز کی تعریف ہوگئی مگر اس جز کو آدمی سے الگ مانا نہیں جا سکتا۔ اس جز کو بھی آدمی کے اندر ہی شمار کرنا ہوگا اور جز کے نام پر پکارنے پر بھی مراد آدمی ہی لیا جائے گا۔ یہی مثال اسلام کی ہے کہ خواہ کسی بھی پیغمبر کے نام سے دین کو منسوب کیا جائے جیسے یہودا  ،جو کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، سے یہودی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عیسائی ، حضرت محمد ﷺ سے محمدی۔ یہ تمام مذاہب اسلام ہی کی یونٹ میں شمار ہوں گے۔ اگر ہم اسلام کو ایک کتاب مان  لیں تو اس کتاب کے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار ورق ہیں۔ خالق کائنات نے اس کتاب کو تمام انسانوں کے لیے پڑھنا پسند فرمایا ہے بلکہ اس کتاب کا پڑھنا انسانوں کے لیے فائدے مند قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر انسان کا سینہ اس قدر تنگ ہو جاتا ہے کہ  جیسے آدمی اونچائی پر چڑھتا ہے تو سانس پھول جاتا ہے اور سینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح بغیر اسلام کو اپنائے ہوئے انسان کی حالت ہو جاتی ہے کہ اس پر زندگی تنگ ہو جاتی ہے۔ یہ تمام ہدایات اللہ نے دنیا والوں پر ظاہر تو کر دیں مگر اس کے بعد فرمایا کہ ” دین میں زبردستی نہیں ہے ۔ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا سمیع اور علیم ہے۔“ ( سورہ یونس ۹۹)

          دنیا میں دین لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ دنیاوی شعور جہالت ہے۔ وہ دنیا میں آکر علم سیکھتا ہے۔ پہلے سے سیکھا سکھایا نہیں آتا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کو بھی نہیں  پہچانتا۔ اس کا شعور قطعی طور پر ہر قسم کے علوم سے مضر ہوتا ہے۔ اللہ پاک اس شعور کو جہالت سے نکال کر علم میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ جہالت ظلمت ہے۔ علم روشنی ہے مگر اللہ پاک نے انسان کو شعوری طور پر اختیار عطا کیا ہے کہ وہ روشنی کو قبول کرے یا جہالت کے اندھیرے کو۔ جو جس کو پسند کرے گا وہی روشنی اس کے حواس بنے گی ۔ اندھیرے کے حواس میں بندہ اللہ پاک کے ناپسندیدہ اور رد کیے ہوئے تصورات کو دیکھتا ہے جو بندے کے اندر شک ، شبہ ، خوف و دہشت، عدم تحفظ ، رنج و غم ، تکلیف و آزاری کے حواس پیدا کرتے ہیں اور علم کی روشنی کو قبول کرنے سے بندہ اللہ پاک کے پسندیدہ اور قبول کیے ہوئے تصورات دیکھتا ہے اور اللہ کی رضا اسے حاصل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ خوش رہتا ہے اور مستقل طور پر رب کا پسندیدہ بن جاتا ہے۔ یہ دونوں تصورات کن کے بعد کے ظہورات ہیں۔ ان دونوں تصورات کا رابطہ انسان کے ذہن سے ہے یا شعور سے ہے۔ جو آیت ابھی بیان کی گئی ہے اس میں اسم سمیع اور اسم علیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ سمیع سے مراد شئے کی صفت ہے مگر سننے کی صلاحیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب آواز آتی ہے یعنی آواز کی لہروں میں ہی سماعت بنتی ہیں۔ آواز کی لہریں اللہ پاک کی آواز کن ہے۔ اور علیم جاننے والا یعنی علم کی صلاحیت ہے۔ علم کی روشنی صفت علیم کی تجلی یا نور ہے۔ علم کا تعلق دماغ ، ذہن یا شعور سے ہے اور سماعت یا آواز کا تعلق حواس سے ہے۔ کن کے بعد کے ظہورات میں علم اور حواس دونوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ تمام افراد کائنات ان دو رخوں کا مجموعہ ہیں۔ آدم یا انسان میں یہ خصوصت ہے کہ اسے ان دونوں رخوں کے علوم بھی عطا کیے گئے ہیں۔ خالق کائنات بے نیاز ہستی ہے جو اس کی صفت صمدیت ہے۔ وہ مخلوق سے محبت بھی کرتی ہے اس کی بھلائی بھی چاہتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ مخلوق کو جبراً ان علوم سے آشنا نہیں کرنا چاہتی کیونکہ خالق کا مخلوق کے اوپر جبر اس کی صمدیت اور بے نیازی کے خلاف ہے۔ خالق کا مخلوق  پر جبر کرنے سے یہ مراد لی جائے گی کہ خالق خدا نخواستہ حاجت مند ہے جبھی تو جبراً اپنی بات منوا رہا ہے جب کہ  خالق قادر مطلق ہستی ہے اور ہر قسم کی حاجت سے پاک ہے۔ یہی وجہ کہ اللہ پاک نے یہ جانتے ہوئے بھی کم لوگوں کو دین اسلام کو جاننے ، پہچاننے اور ان کے اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی آدم کے لیے دین میں جبر اختیار کرنا پسند نہیں کیا۔ جب ہم دین کی بات کرتے  ہیں تو ہمارے زہن میں عام طور پر صرف وہی ارکان آتے ہیں جن کی بنیاد عقائد پر ہے۔ کسی قوم یا فرقے کا عقیدہ مختلف ہونا ہی نہیں چاہیے کیونکہ عقائد کا سورس اور مرکز ایک ہے مگر عقائد میں اختلاف اس وقت ہوتا ہے جب ان کا رخ اللہ کی جانب سے پھیر کر بندوں کی جانب کر دیا جاتا ہے کہ فلاں پیغمبر کا کہنا ہے کہ فلاں ولی کا کہنا ہے۔ آدمی کی نظر وسیلہ پر تو ہوتی ہے مگر وسیلے کی مرکزیت پر نہیں ہوتی یا پھر وہ اسے اہمیت نہیں دیتا جس کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے اور جھوٹے عقائد جنم لیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ تو یہ فرماتے ہیں کہ ۔

          ” تو تم ایک طرف ہو کر دین پر سیدھا منہ کیے چلے جاؤ۔ خدا کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی فطرت میں تغیر  و تبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“        (سورہ روم ۳۰)

          اس آیت میں اللہ پاک یہ کہہ رہے ہیں کہ فطرت انسان سے ہٹ کر نہیں ہے بلکہ فطرت وہ ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہ بات اس مثال سے بخوبی سمجھ میں آجائے گی مثلاً انسان خون سے بنا ہے وہ نطفہ جب انسان کے ارادے سے قرار پاتا ہے تو اس کے اندر تخلیقی نشونما شروع ہو جاتی ہے اور یہ نشو نما خون کے قطرے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد نشونما ہوتے ہوتے آدمی کی سورت بن جاتی ہے اور مرتے دم تک آدمی تو برقرار رہتا ہے مگر نشونما جاری رہتی ہے۔ یہ عمل جاری رکھنے کے لیے مستقل طور پر خون کی ضرورت رہتی ہے  تاکہ آدمی کا نظام برقرار رہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی خون ہے۔ اگر خون نکال دیا جائے تو جسمانی نظام ختم ہو جائے گا۔ خون بنیادی ضرورت بھی ہے اور تخلیقی ضرورت بھی۔ انسانی جسم کا سارا نظام خون کی فطرت ہے جس میں تبدیلی لائی نہیں جا سکتی ۔ اگر خون کے بجائے انسان کے اندر پیٹرول ڈال دیا جائے اور سارا خون نکال دیا جائے تو انسان کا جسمانی نظام فیل ہو جائے گا۔ خون وہ بنیادی ضرورت ہے جس کا بدل نہیں ہو سکتا۔ یہی مثال فطرت کی ہے کہ انسان کو اللہ نے اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ فطرت وہ ہے جس میں تغیر نہیں ہے۔ سوائے اللہ کے کائنات کی اور کون سی شئے ہے جس میں تغیر نہیں ہے۔ موت وحیات کا سلسلہ بذات خود ایک تغیر ہے جو کائنات کے ذرے ذرے میں واقع ہوتا ہے اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ فطرت اللہ ہے اور اللہ نور ہے۔ اب بات یوں بنی کہ اللہ پاک اس آیت میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو نور سے پیدا کیا ہے اور نور ہی لوگوں کی بنیادی توانائی اور ضروت ہے۔ اگر لوگوں نے نور سے روگردانی کی تو ان کی نشونما رک جائے گی اور اس شعور پر موت واقع  ہو جائے گی یا وہ شعور بالکل فنا ہو جائے گا جو شعور و عقل اللہ کو پہچانتی ہے۔ اس طرح بندہ ہمیشہ کے لیےاللہ سے دور ہو جائے گا۔ اللہ سے دور رہنا ہی موت ہے اور فنائیت ہے۔ مگر کائنات قدرت کے ایک منظم نظام کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اسی نظام کا ایک قانون ” دین میں جبر نہیں ہے“ کا ہے۔ اس کی وجہ سے شیطان کو دی گئی مہلت ہے۔ دین اسلام کو جاننے کے لیے دنیا میں رائج تمام مذاہب کی کڑی در کڑی ملانے کی ضرورت ہے اور ان کی سچائی کی پرکھ قرآن کے ذریعے کی جا سکتی ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اپنے سر لیا ہے۔

          دین اسلام دراصل فطرت وہ نور ہے جو کائنات کی نشونما کر رہا ہے۔ یہ نور لامحدودیت کا عالم ہے۔ اس نور کی صفات اسمائے الہٰیہ ہیں۔ دین اسلام اس نور کی ذات اور صفات کے علوم ہیں ان علوم کو سیکھ کر بندہ کائنات کے اندر جاری وساری تخلیوی و تکوینی نظام کو سمجھ سکتا ہے اور اللہ نے جو نعمتیں اس کے اندر پیدا کی ہیں انہیں استعمال میں لا سکتا ہے۔ ذہن مین یہ سوال بھی ابھر سکتا ہے کہ آخر جو بندے اللہ کے علوم نہیں سیکھتے اور اللہ پر ایمان نہیں لاتے وہ بھی اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ہوا، پانی، غذا، نباتات، جمادات، زمین سب ہی کچھ تو وہ استعمال کرتے ہیں پھر سیکھنے اور نہ سیکھنے والوں میں کیا فرق ہوگا۔ سوال اپنی جگہ درست ہے مگر فرق محدودیت اور لامحدودیت کا ہے۔ محدودیت عالم ناسوت یعنی مادی  دنیا اور مادی زون۔ اور لامحدودیت نور ہے ، اللہ ہے ، جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اگر ہم دین اسلام سے ہٹ کر اپنی زندگی گزارتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اللہ کو خالق نہیں مانتے کیونکہ اسلام کی مرکزیت اللہ ہے۔ یہی اس کا بنیادی عقیدہ ہے۔ جب مرکزیت سے ہٹ گئے تو دائرہ ہی بدل گیا۔ آپ پر کار کی نوک کو ایک جگہ رکھ کر دائرہ لگائیں تو ایک دائرہ بنتا ہے ۔ اب پرکار اٹھا لیں اور اس کی نوک کسی دوسرے صفحے پر رکھ دیں تو یہ دوسرا دائرہ بنے گا یعنی مرکز بدلنے سے دائرہ بھی بدل گیا۔ اب اپ یوں سمجھیں کہ ایک مرکز اللہ یا رحمٰن ہے۔ دوسرا مرکز ابیل یا شیطان ہے۔ انسان کا وجود دائرے میں ہے، مرکز میں نہیں ہے۔ مرکز تو ذات ہے جس میں تبدیلی نہیں ہے۔ اللہ کی ذات پاک وہ ہستی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے یعنی یہ مستقل مرکز ہے۔ ابلیس یا شیطان وہ ہے جس کو اللہ نے سرف قیامت تک کی مہلت دی ہے۔ قیامت کے بعد انسان اس طرح ابلیس کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے کہ جب وہ اپنا مرکز اللہ کی ذات کو بنا لے۔ مرکز اللہ کو بناتا ہے تو راستہ وہ دائرہ بنتا ہے جو اس مرکز کی جانب سے ہوتا ہے ۔ دائرہ ہی الگ ہے جس کی وجہ سے شیطان سے نجات مل جاتی ہے مگر مرکز ابلیس کی ذات کو بنا لیا جائے تو دائرہ یعنی راستہ بدل جاتا ہے اور اس راستے کا ہر قانون ہر شئے ابلیس کے ذہن کی پیدا وار ہے۔ یعنی اللہ پاک کے رد کیے ہوئے  تصورات ، ان تصورات کے ڈسپلے کا زون صرف عالم ناسوت ہے، جو محدود ہے۔ اس راستے پر چل کر آدمی آزادی محسوس نہیں کرتا بلکہ تنگی اور قید محسوس کرتا ہے جس سے ناخوش ہوتا ہے یعنی شعور کی نشونما عالم ناسوت پر جا کر رک جاتی ہے اور شعور بڑھنے نہیں پاتا اور ذہن پر دباؤ پڑتا ہے۔ ذہن چونکہ روشنیاں جذب کرتا ہے۔ مادی روشنیاں ٹھوس احساس رکھنے کی وجہ سے ذہن پر بوجھ بن جاتی ہیں اور یہی بوجھ شعور کو غیب میں داخل ہونے سے نشونما پانے سے روک دیتا ہے۔ جب کہ اللہ چاہتا ہے کہ وہ غیب  میں داخل ہو کر اللہ پاک کی کاریگری کے نمونے دیکھے  چونکہ نور توانائی ہے جب توانائی اور قوت نہیں ہوگی تو آدمی کیسے سفر کرے گا۔ توانائی اور قوت حاصل کرنے کے لیے جسم میں جذب کرنے کی صلاحیت ضروری ہے ۔ جیسے اپ دو دن کے بچے کو پلاؤ زردہ نہیں کھلا سکتے۔ وہ ہضم نہیں کر سکتا ، نہ ہی کھا سکتا ہے اور نہ ہی اسے جبراً کھلا سکتے ہیں، وہ مر جائے گا۔ دین اسلام فطرت کا وہ نور ہے جو انسان کے شعور کی غذا ہے۔ غذا اصولوں کے مطابق کھانے سے توانائی حاصل ہوتی ہے۔ نہ کھانے سے بالآخر ایک دن آدمی مر جاتا ہے۔ کوئی بھی ماں ساری   عمر ؓؓبچے کے منہ میں نوالہ نہیں ڈالتی۔ بچے کو خود ہی کھانا دیکھنا پرتا ہے ورنہ بچہ معذور ہو جاتا ہے۔ فطرت بھی ماں ہے۔ اللہ پاک نے بندوں کو پیدا کر کے ان کے اندر شعوری نشونما لامحدودیت تک رکھی ہے تاکہ بندہ اپنے خالق کو دیکھ اور پہچان لے۔ اگر اللہ پاک دین میں جبر کا قانون لاگو کر دیتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ آدمی اپنے ناقص عقل کی بنا ء پر اللہ پاک پر یہ تہمت لگا دیتا کہ اس نے اپنے فائدے کے لیے مجھے یہ صلاحیتیں اور علم عطا کیا ہے ۔ پھر انسان اللہ کی پاکی اور بے نیازی کو پہچان نہ سکتا۔ آزادی فکر و مذہب انسان کو اللہ کی خلافت و نیابت کی زمہ داریوں کوقبول کرنے اور نبھانے کی صلاحیت بھی بخشی ہے۔ دراصل میں آزادی کا مطلب ہی فطرت ہے۔ اللہ کا نور جو ہمارے اندر روحانی اور جسمانی توانائی بنتا ہے اس نور کی ایک فطرت ہے۔ یہ فطرت اس نور کے اندر کی صفات ہیں جنہیں اسمائے الہٰیہ کہا ہے۔ ہر صفت ایک مخصوس صلاحیت یا رنگ ہے جس میں کوئی تبدیلی یا تغیر ناممکن ہے اور ہر صفت ایک مخصوص نظام کی انرجی ہے۔ اللہ نے کائنات کے اندر اسمائے  الہٰیہ کے یہ نظام جاری کیے ہوئے ہیں۔ آزادی فکر و مذہب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر کام کرنے والی اس صلاحیت کو اپنے ارادے کے ساتھ پہچان کر اسے استعمال کرے اور کائنات کی وسعتوں میں جہاں جہاں یہ نظام جاری و ساری ہے، سفر کرے اور ان سے فائدہ حاصل کرے اور ان کے ذریعے اپنے خالق کو پہچانے۔

          دین سارے کا سارا اللہ پاک کو جاننا اور اپنی ذات کو پہچاننے کا مطلب ہے۔ انسان کا ذہن دباؤ کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا اور زیادہ دباؤ سے اس کا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ یہ دماغ یعنی شعور یا عقل کی فطرت ہے۔ جبر کا مطلب ہی دباؤ ہے۔ جب اللہ پاک جانتا ہے کہ شعور انسانی دباؤ برداشت نہیں کر سکتا پھر وہ ایسا قانون خود کیسے بنا سکتا ہے جس میں شعور انسانی کی موت اور تباہی ہو۔ اگر انسان اپنے ذہن کو دنیاوی افکار کے بوجھ سے آزاد رکھ کر  فراخ دلی کے ساتھ اور فراخ ذہنی کے ساتھ پیغمبروں کے لائے ہوئے احکامات اور آسمانی کتابوں میں غور و فکر کرے تو اسے اپنے اندر کام کرنے والی فطرت کے ذریعے اللہ کا سراغ لگ سکتا ہے اور اس رابطہ کا سراغ مل جاتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان محبت کا رشتہ ہے۔ اللہ نے انسان کو کل مخلوق میں سب سے زیادہ صلاحیتیں عطا کر کے اس بات کی نشاندہی کر دی ہے کہ اللہ تمام مخلوق میں سب زیادہ بندوں سے محبت کرتا ہے ۔ محبت کی فطرت آزادی ہے۔ محب اور محبوب کے درمیانی رمز کو آزاد ذہن اور آزاد شعور ہی سمجھ سکتا ہے۔ جبر کے ساتھ دوستی، محبت اور اخوت کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔ البتہ جبر کے ساتھ ناگواری کا رشتہ ضرور قائم ہو جاتا ہے جس کی حقیقت بندہ مرنے کے بعد حشر کے دن ضرور پالے گا۔ جب وہ شیطان کو اپنے دوست یا معبود کی حیثیت سے دیکھ لے گا تب جبر و قدر کی حقیقت سے واقف ہو جائے گا کہ قانون جبر اصل میں قدر کی حقیقت ہے۔ یہاں حکم نواہی اللہ کے امر اثبات کی اہمیت اور حکمت کی ترغیب دلا رہی ہے تاکہ اللہ کے دین سے بندے کو چھٹکارا دلانا مقصود ہے۔ فطرت تو ہمارے اندر خون کی طرح رچی بسی ہے۔ فطرت کے بغیر تو ہمارا وجود ہی نہیں ہے۔ فطرت ہم سے جدا ہو ہی نہیں سکتی۔ اللہ سے ہٹ کر ہم کہاں جائیں گے۔ اس سے ہٹ کر اور اس سے خالی کون سی جگہ ہے۔ مگر اللہ نے جو آزادی فکر و مذہب عطا کی ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے کہہ کر۔ یہ اللہ کا ایک ایسا رمز ہے جسے روحانی شعور ہی سمجھ سکتا ہے۔ اللہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ” اے میرے بندے ! میں تو ازل  میں ہی تجھے اپنا محبوب جان لیا اور تمام مخلوق سے ہٹ کر تجھ پر ایک خاص نگاہ محبوبیت ڈالی ۔ میرا عشق تو تجھ سے ہی ہے۔ اس میں میرا ارادہ کام کر رہا ہے۔ مگر عشق کا دستور ہے کہ عشق اسی وقت کامل ہوتا ہے جب محب اور محبوب واصل ہو جاتے ہیں۔ وصل کا یہ دستور ہے کہ جبر ناپسند ہے۔ مھب اور محبوب دونوں کا ارادہ ایک دوسرے کے لیے ہونا چاہیئے۔ پس اب میری نگاہ محبت کا جواب بھی تو مجھے عنایت کر۔ مجھے قبول کر یا مجھے رد کر۔ مگر ایک بات یاد رکھ روز محشر میں جب تو قہر و لطف کو جان لے گا اور پا نہ سکے گا تو محرومی کی کسک تجھے رلائے گی۔ دین اسلام دراصل اللہ سے واصل ہو جانے کا نام ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار جو سب کے سب انسان تھے، اپنی اپنی سکت کے مطابق اللہ سے واصل ہوئے اور عالم شہادت میں اس بات کی گواہی دی کہ بلا شبہ دین اسلام ہی سچا  مذہب ہے اور ہم مسلمین میں سے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن نے صفت ابراہیم اور دوسرے پیگمروں کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے اول المسلمین ہونے کا اقرار کیا۔ آج کے دور میں اگر ہم دین اسلام کی سچائی کو سمجھنا چاہتے  ہیں تو ہمیں فطرت کے اصولوں میں غورو فکر کرنا ہوگا اور قرآن کی ایات میں جستجو کرنی ہوگی کہ جس کے اندر فطرت کے تمام اسرار و رموز پوشیدہ ہیں۔ پیغمبروں نے ہمارے لیے سب سے آسان اور کم مدت میں اسلام کی حقیقت کو پہچاننے اور اس کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا جو راستہ بتایا ہے وہ روحانیت ہے۔ اپنی روح سے قریب ہو کر کوئی بھی بندہ اسلام کو پاسکتا ہے۔

          اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین،



Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی